وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی مصالحت کوممکن بنا کر ایک تاریخی کردار ادا کرسکتے ہیں ، ورنہ تو جگ ہنسائی ہے ، ، جگ ہنسائی اور ڈھلوان کا سفر جو نجانے کہاں اختتام پذیر ہوکہ
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
کیا اب بھی دانشور یہ فرماتے ہیں کہ خرابیوں کی ذمہ دار صرف افواجِ پاکستان ہیں۔ سیاستدان بے چارے ہیں اور معصوم ہیں۔ جنرل اقتدار پہ قبضہ جمالیتے ہیں اور اداروں کو برباد کر ڈالتے ہیں۔ ساری کرپشن، تمام بد انتظامی اور لاقانونیت کا سبب وہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا اور پاکستانی سیاست کا قافلہ سوئے منزل رواں نہیں ہوتا۔
آئی بی کے چند افسروں کی بات دوسری ہے، جو سربراہِ مملکت کے ذاتی طور پر وفادار ہیں، ورنہ تینوں خفیہ ایجنسیاں ، انٹیلی جنس بیورو، آئی ایس آئی اور ایم آئی سیاست سے الگ ہو چکیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے قیادت سنبھالنے کے بعد فوجی افسروں کو سیاست سے لاتعلق ہونے کا حکم دیا اور پورے عزم کے ساتھ، اس پر قائم رہے۔ الیکشن ہوچکے تو اخبار نویسوں کو انہوں نے بلایا اور دو ٹوک لہجے میں کہا کہ وہ احکامات کی پیروی کریں گے۔ پالیسیوں کی تشکیل میں دخل اندازی نہ کریں گے۔ آج ملک میں جو بھی ابتری ہے، فوجی قیادت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ جتنے گڑھے ہیں، سیاستدان نے خود کھودے ہیں۔ بہت سے لوگ اب جی ایچ کیو کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ شاید وہ مداخلت کرے اور مفاہمت کی کوئی صورت نکل آئے۔ شاید وہ پنڈورہ باکس بند ہوسکے ، جس میں سے اژدہے نکلے ہیں ، ملک کی معیشیت اور امن کو جو ہڑپ کر سکتے ہیں۔ بے شک فوجی حکمرانی کسی مسئلے کاحل نہیں بلکہ بجائے خود سب سے بڑا مسئلہ بن جاتی ہے مگر یہ فرمائیے کہ کیا تنہا فوج ہی ذمہ دار ہوتی ہے یا سیاستدان بھی؟
صدرِمملکت ہیں۔ ان کے گرد فدائین کا ایک طائفہ ہے اور وہ اس طرح کے فیصلے صادر کر رہے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ معروضی حقائق سے نا آشنا ، طاقت سے تسخیر کرنے پر تلے ہوئے۔ آگ بجھانے کے بجائے، جو اس پر تیل چھڑکتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرے دیار کوجو نگلتی چلی جاتی ہے۔
شمال میں خانہ جنگی، بلوچستان میں بغاوت ، معیشیت کی تباہی ، مسلّح گروہوں کے لئے ہمسایہ ملکوں کی پشت پناہی۔ وقت تو ایسا آن پڑا تھا کہ آخری درجے کی احتیاط کی جاتی لیکن بے احتیاطی اور غیر ذ مہ د اری کی کوئی حد ہے ۔ منگل کو سارا دن خطرے کی گھنٹیاں بجتی رہیں۔ پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہفتہ بھرسے سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ اب معلوم ہوا کہ آسٹریلیا کا سفارت خانہ بھی سر گرم ہے۔ امریکی سفیر رائے ونڈ گئیں اور میاں شہباز شریف سے انہوں نے بات کی ۔ ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ چیخ رہے تھے کہ پاکستان ایک ہولناک بد امنی کی طرف گامزن ہے۔ ملک کو کمزور پا کر، غیر ملکی اپنی پناہ گاہوں سے نکلے اور مداخلت کرنے لگے۔ ٹھٹھک کر رک جانا چاہئے تھا اور راہ تلاش کرنے کی کوشش کرناتھی لیکن سورج ڈوبا تو معلوم ہوا کہ حکومت مہم جوئی پر تلی ہے۔ ملک بھر میں سیاسی لیڈروں ، کارکنوں اور وکلاء رہنماؤں کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ جب طاقت وحشیانہ اقتدار کے آرزومند ، ادنیٰ اور سطحی لوگوں کو منتقل ہوجاتی ہے تو ایسے ہی تماشے ہوا کرتے ہیں اور بربادی لاتے ہیں۔ وکلاء کا کردار سب سے زیادہ تھا مگر پوری قوم نے قربانیاں دے کر، ایک غاصب جنرل سے اقتدار چھینا اور سیاسی جماعتوں کے سپرد کیا۔ قانون کی حکمرانی کے لیے مگر وہ بدترین لاقانونیت پہ اتر آتی ہیں۔ آج آصف علی زرداری جو کچھ کر رہے ہیں، اس کا ارتکاب تو فوجی حکمران بھی نہ کر سکا۔ کیا جنرل پرویز مشرف کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران اس بڑے پیمانے پہ گرفتاریاں ہوئی تھیں؟ کیا اس طرح ٹریلر چھینے اور راستے روکے گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ زرداری صاحب جو کچھ کر رہے ہیں، اس کے لئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔ وہ اپنا مقدمہ اب جیت نہیں سکتے اور خود شکنی کے مرتکب ہیں ۔ بے شک کل کلاں وہ کسی کو بھی ذمہ دار قرار دیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ اپنے لئے خرابی کا سامان خود انہی نے کیا ہے ۔ وہ
اس بحران کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں اور ظاہر ہے کہ قوم موقع پائے گی تو ان کا احتساب کرے گی۔ اب کی بار وہ فوج کو ذمہ دار بھی نہ ٹہرا سکیں گے۔
جارج ڈبلیو بش کے با لکل برعکس صدر اوباما نے چین سے افغانستان میں ایک کردار ادا کرنے کا تقاضا کیا۔ ایک اندھا بھی دیکھ سکتا تھا کہ امن کے مواقع پیدا ہوگئے۔ امریکیوں اور ان کے حلیفوں نے ادراک کر لیا کہ وہ افغانستان کی جنگ جیت نہیں سکتے اور امن ہی سازگار ہے۔ بار بار اس کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کو آگے بڑھ کر امن کی عالمی مہم کا آغاز کرنا چاہیے۔ امریکیوں کو باور کرانا چاہئے کہ ویت نام ایسی ذلت آمیز شکست کی بجائے چین، روس اور ایران کی مدد سے کابل میں ایک معقول حکومت کا قیام ممکن ہے۔ پڑوسی ملکوں کے علاوہ امریکہ کے خدشات بھی ختم ہوجائیں ۔ پاکستان کو امن نصیب ہو ۔ آئین کی حکمرانی سے اس خطے میں استحکام لوٹ آئے اور ترقی کے عمل کا آغاز ہوسکے ۔ افغانستان میں امن ہو تو قبائلی علاقوں کی آگ بجھ جائے۔ حکومتی ادارے طاقتور ہوں ۔ وہ ملک میں آہنگ پیدا کریں اور بنیادی مسائل پر توجہ دی جاسکے۔ معیشت کی تعمیرِ نو ، بد امنی ، گرانی اور نا انصافی کا خاتمہ۔ ظاہر ہے کہ یہ اداروں کی تعمیر ہی سے ممکن ہے۔ ذرائع ابلاغ کے غیر معمولی اثرات ہیں۔ پاکستان اب ایک ایسا معاشرہ ہے جو فوجی حکمرانی قبول کرنے پر آمادہ ہے اور نہ سول آمریت۔ افسوس کہ طاقت کے نشے میں مدہوش حکمران ٹولہ یہ بات نہیں سمجھتا۔ وحشت کے اسیر، وہ قوت اور چالاکی سے اپنے حریفوں کو پامال کردینے کے آرزومند ہیں ۔ مقبول بھٹو نہ کر سکے تو نا مقبول زرداری کیسے کر سکتے ہیں اور وہ بھی رحمٰن ملک ایسے لوگوں کی مدد سے؟ یا للعجب، اقتدار کس طرح عقل و دانش کو چاٹ لیتا ہے۔ کس طرح ایک جنون سا رہ جاتا ہے اور دانا ئی رخصت ہوتی ہے۔
اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں ، کچھ دیر میں برطانوی دارالعوام کا اجلاس شروع ہونے والا ہے، جو خاص طور پر پاکستان کی صورتِ حال پر بحث کرے گا۔ کیا ایک قوم کی حیثیت سے یہ ہمارے لئے شرمناک نہیں کہ ہمارے داخلی معاملات، دوسروں کے ہاں زیرِ بحث آئیں اور وہ بھی یوں سرِ بازار۔
اس سے بھی زیادہ خطرناک بات دوسری ہے۔ مغرب میں چیخ و پکار یہ ہے کہ پاکستان میں خانہ جنگی ہوئی تو ایٹمی ہتھیار انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ یہ ایک سفید جھوٹ ہے بلکہ اس طرح جیسے صدام حسین کے تباہی پھیلانے والے خفیہ ہتھیار، لیکن صدام حسین نے اپنی حماقتوں سے عالمی اسٹیبلشمنٹ کو کارروائی کے مواقع دئیے۔ کیا ہم بھی اسی راہ پر گامزن نہیں ؟ کیا ہم اپنے دشمن بھارت کے لیے مواقع ارزاں نہیں کر رہے؟ جگ ہنسائی ہے، جگ ہنسا ئی ا ور اس سے بھی زیادہ المناک بات یہ ہے کہ حکمران ٹولے کو احساس تک نہیں ۔ رحمان ملک ، لطیف کھوسہ ، فاروق نائیک اور بابر اعوان کو کیا خبر ۔ سیاستدان کے طور پر ان کی تربیت ہی نہیں۔ وہ وکیل ہیں اور افسر ۔ وہ دلائل تراش سکتے ہیں، زورِ خطابت دکھا سکتے ہیں، فقرے بازی کر سکتے ہیں، مسوّدے لکھ سکتے ہیں، ملک نہیں چلا سکتے۔ نہیں، زرداری صاحب ملک نہیں چلا سکتے۔ یہ ورق تمام ہوا۔ تاریخ کو نئے باب کا آغاز کرنا ہوگا۔ بد قسمتی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ افواجِ پاکستان کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہ ہوگا۔ اقتدار کے لیے مداخلت نہیں مگر مصالحت کو ممکن بنانے کے لیے اب شاید انہیں ایک شائستہ کردار ادا کرنا ہوگا۔
گرفتاریوں سے مسئلہ حل نہ ہوگا۔ لڑائی ہوگی اور کوچہ کوچہ لڑائی۔ حکومت نے اپنے لیے گڑھا کھودا اور اپنے حلیفوں کے لئے حالات دشوار کر دیے۔ شریف برادران کا موقف درست مگر وہ بھی مثالی کردار کا مظاہرہ نہ کرسکے۔ امریکی سفیر سے یوں برسرِ عام ملاقات؟ امریکہ تو ان کو ملک سے باہر رکھنے پر بضد تھا۔ وہ تو پیپلز پارٹی، قاف لیگ اور جنرل مشرف کی حکومت چاہتے تھے۔ یہ پاکستانی عوام تھے ، ذرائع ابلاغ تھے جو انہیں واپس لے کر آئے۔ اب بھی انہیں اقتدار ملا تو عوام سے ملے گا، امریکہ سے نہیں۔ امریکی سفیر ایک وائسرائے کے تیوروں کے ساتھ رائے ونڈ میں کیوں براجمان ہوتی ہیں۔ نواز شریف ذرا صبر سے کام لیں تو امریکی منہ میں گھاس لے کر ان کے پاس آئیں گے۔ ملک کو امن درکار ہے اور آئین کی حکمرانی۔ حکومت میں اب بھی ایک ایسا شخص موجود ہے جو مثبت کردار ادا کر سکتا اور گرہ کھولنے میں مدد دے سکتا ہے۔ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی -افواج، افسر شاہی اور اپوزیشن جن کی بات سنیں گے اور خود ان کی جماعت کے معقول لوگ بھی۔ وزیرِ اعظم کو فوراً ہی بروئے کار آنا چاہیے، ورنہ اندیشہ ہے کہ صورت ِ حال مزید بگڑے گی، فوج کو شاید مداخلت کرنی پڑے اور چند ماہ کی تاخیر ہی سے سہی، وسط مدتی الیکشن تواب ملک کا مقدر نظر آتے ہیں۔ وزیرِ اعظم البتہ اب مصالحت کو ممکن بنا کر ایک تاریخی کردار ادا کر سکتے ہیں ورنہ توجگ ہنسائی ہے اور ڈھلوان کا سفر تو نہ جانے کہاں اختتام پذیر ہوکہ
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
Comment