جب بھی فرصت ملے!
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
جس رات ممبئی میں خونی ڈرامہ شروع ہوا اس رات پاکستانی وزیرِ خارجہ جامع مذاکرات کے پانچویں دور کے لئے بھارت میں اور بھارت کے سکریٹری داخلہ فروغِ اعتماد سازی کے لئے پاکستان میں تھے۔ جیسے ہی ممبئی پر دہشت گردوں نے قبضہ کیا الیکٹرونک میڈیا نے ناظرین کے ذہنوں پر قبضہ کرلیا۔
اس سے پہلے کہ مہاراشٹر یا دہلی کی حکومت سنبھلتی اور لب کشائی کرتی، اندازوں اور انکشافات کی فیکٹری چل پڑی۔ایک جانب سے دہشت گرد گولیاں برسا رہے تھے تو دوسری جانب سے ٹی وی اسکرینوں سے کارپٹ بمباری جاری تھی۔ایک جانب اگر متاثرین جس کا منہ جدھر اٹھا بھاگ رہے تھے تو دوسری جانب جس چینل کے ہاتھ اندازہ، خواہش، تبصرے یا خبر کا جو ٹکڑا آیا وہ لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔اور پھر دہلی اور اسلام آباد بھی اس آپا دھاپی کے اثرات سے نہ بچ سکے۔
اگراس سانحے کے بارے میں سارے ممکنہ انکشافات سانحے کے ساٹھ گھنٹے کے اندر میڈیا کے توسط سے ہو ہی چکے ہیں تو اب متعلقہ اداروں اور حکومتوں کو اس دہشت انگیز ڈرامے کے اسباب، کرداروں اور ڈانڈوں کا تعین کرنے کے تکلف کی کیا ضرورت ہے۔
پھر بھی جب میڈیا سرکس اپنا سارا بارود صرف کر لے اور حکومتیں اس کے سحر سے خود کو آزاد کرالیں تو بعض بنیادی سوالات کا جائزہ لینے میں کوئی حرج نہیں ۔مثلاً یہی کہ کل کتنے دہشت گرد تھے۔ کن کن راستوں سے ممبئی میں داخل ہوئے۔ان میں مقامی کتنے تھے اور غیرمقامی کتنے۔ ملکی کتنے تھے اور غیرملکی کتنے۔اگر سمندر کے راستے آئے تو کس طرح اور کتنے حفاظتی دائرے توڑ کر اور کتنے سکیورٹی اداروں کو جل دے کر داخل ہوئے۔ اگر خشکی کے راستے آئے تو کونسا روٹ اور طریقہ استعمال کیا۔
کیا کسی بھارتی انٹیلیجینس ایجنسی کو یہ اندازہ تھا کہ ممبئی میں کوئی بڑی واردات ہونے والی ہے۔اگر اندازہ تھا تو کس ایجنسی نے کس کو کتنے عرصے پہلے خبردار کیا اور اس وارننگ کو کس حد تک سنجیدگی سے لیا گیا۔اگر اندازہ نہیں تھا تو اسکی وجوہات کیا تھیں اور ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔
کیا دہشت گرد اپنا اسلحہ اور گولہ بارود ساتھ لے کر آئے تھے یا انہیں مقامی طور پر یہ سامان فراہم کیا گیا۔اگر تمام دہشت گرد اجنبی تھے تو انہیں شہری اہداف تک کس نے پہنچایا۔ کیا یہ واردات سے کچھ دن پہلے ممبئی میں داخل ہوچکے تھے تا کہ آپریشن کے مقامات سے اچھی طرح واقف ہوسکیں یا مقامی اداروں، گروہوں یا اہداف کے اندر کام کرنے والے کچھ لوگ انہیں ہر پیش رفت سے مطلع کرتے رہے۔ بالخصوص جن فائیو سٹار ہوٹلوں میں وہ اسلحے سمیت گھسنے میں کامیاب ہوئے، کیا وہاں سیکورٹی کے انتظامات کی کمزوریوں سے وہ واقف تھے یا کسی واقفِ حال نے ان کی مدد و رہنمائی کی۔
آپریشن کے پہلے ہی مرحلے میں جن تین اعلی پولیس افسروں کو مارا گیا کیا یہ اتفاقاً مارے گئے یا اجنبی دہشت گرد انکی شکلوں اور نقل و حرکت سے بخوبی واقف تھے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ان مارے جانے والے افسروں میں ریاست مہاراشٹر کے شعبۂ انسدادِ دہشت گردی کے سربراہ ہیمنت کرکرے بھی شامل تھے جو مالیگاؤں بم دھماکوں کی تحقیقات کر رہے تھے اور جن کے بارے میں بتایا گیا کہ انہیں مسلسل قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔
انیس سو ترانوے کے ممبئی بم دھماکوں سے لے کر سن دو ہزار دو کے پارلیمنٹ ہاؤس پر حملے اور کچھ عرصہ پہلے دہلی اور پھر گوہاٹی کے کثیر الہدف دھماکوں اور کابل میں بھارتی سفارتخانے کے دھماکے تک بیسیوں وارداتوں کے طریقِ کار کے مطالعے سے کیا کوئی ایسا مربوط خاکہ سامنے آیا جس سے ان وارداتوں میں اختیار کیے گئے طریقوں اور مشکوک اندرونی و بیرونی گروہوں کی تکنیک، پیٹرن اور ڈھانچے کی ایک واضح تصویر اور گراف بن سکے۔اگر ان وارداتوں میں اندرونی گروہ ملوث تھے تو کیا ان کے بارے میں بنیادی انٹیلیجینس معلومات مناسب حد تک موجود ہیں۔
اگر ان وارداتوں میں بیرونی ہاتھ رہا ہے تو کیا متعلقہ ممالک سے اس سلسلے میں ہر دفعہ سنجیدگی سے رابطہ کیا گیا۔ کیا ان کو تحقیقاتی رپورٹیں یا شواہد سے آگاہ کیا گیا تاکہ ان کے کان ہوجائیں۔
اگر بھارتی میڈیا کے مطابق تازہ واردات کے نشانات پاکستان تک پہنچ رہے ہیں تو کیا یہ نشانات آئی ایس آئی تک پہنچ رہے ہیں یا ان گروہوں میں سے کسی کا کارنامہ ہے جو پاکستان کے اندر بھی ایسی ہی وارداتیں کر رہے ہیں یا پھر کوئی ایسا گروہ ہے جس کا نشانہ پاکستان نہیں صرف بھارت ہے۔ان حالات میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے کسی مشترکہ میکینزم کی ضرورت ہے یا نہیں۔
اور اگر اس میں پاکستان کی کوئی سرکاری ایجنسی یا اس کے کچھ بے لگام افراد ملوث ہیں تو پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایک ایسے وقت جب پاکستان کو مغربی سرحد پر امریکی حملوں، قبائلی علاقوں میں طالبان اور القاعدہ کی کاروائیوں، شہروں میں خودکش حملوں اور بلوچستان میں سنگین سیاسی بے چینی کا سامنا ہے، ممبئی جیسی وارداتوں کے ذریعے ایک اور محاذ کھول کر وہ ادارہ یا افراد کوئی قومی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں یا صرف پاکستان اور بھارت کے امن عمل کو ہائی جیک کرنا چاہتے ہیں۔
اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ ایسی وارداتیں محض بیرونی عناصر کا کارنامہ ہیں تو اس بات کو کیسے یقینی بنایا جائے گا کہ کوئی بھی مقامی سیاسی و انتہا پسند گروہ ایسی وارداتوں کواندرونِ ملک اقلیتوں کے خلاف اپنا غصہ نکالنے یا بطور سیاسی و فرقہ وارانہ ہتھیار استعمال کرنے سے باز رہے۔
پاکستان کو یہ جائزہ لینا ہوگا کہ ایسا کیوں ہے کہ افغانستان، بھارت اور ایران کے ساتھ ساتھ روس، چین، امریکہ اور برطانیہ بھی اس کے بارے میں مشکوک ہیں۔ غیرسرکاری یا سرکاری کردار کتنے بےلگام ہیں۔ خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کے بارے میں متعلقہ اداروں میں کتنی یکجہتی یا غیر ہم آہنگی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ سیاسی حکومت اور اداروں کا اپنا اپنا ایجنڈہ ہو۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کے لئے پاکستان کو کیسی مدد و تعاون درکار ہے یا بطور ریاست پاکستان کو اب بھی یقین ہے کہ وہ تنِ تنہا سارے مسائل اور پیچدگیاں حل کرسکتا ہے۔
ان تمام نکات پر دونوں حکومتیں جتنی جلد فرصت ملےغور کرلیں ۔ورنہ میڈیا تو اپنا کام کرہی رہا ہے۔
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
جس رات ممبئی میں خونی ڈرامہ شروع ہوا اس رات پاکستانی وزیرِ خارجہ جامع مذاکرات کے پانچویں دور کے لئے بھارت میں اور بھارت کے سکریٹری داخلہ فروغِ اعتماد سازی کے لئے پاکستان میں تھے۔ جیسے ہی ممبئی پر دہشت گردوں نے قبضہ کیا الیکٹرونک میڈیا نے ناظرین کے ذہنوں پر قبضہ کرلیا۔
اس سے پہلے کہ مہاراشٹر یا دہلی کی حکومت سنبھلتی اور لب کشائی کرتی، اندازوں اور انکشافات کی فیکٹری چل پڑی۔ایک جانب سے دہشت گرد گولیاں برسا رہے تھے تو دوسری جانب سے ٹی وی اسکرینوں سے کارپٹ بمباری جاری تھی۔ایک جانب اگر متاثرین جس کا منہ جدھر اٹھا بھاگ رہے تھے تو دوسری جانب جس چینل کے ہاتھ اندازہ، خواہش، تبصرے یا خبر کا جو ٹکڑا آیا وہ لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔اور پھر دہلی اور اسلام آباد بھی اس آپا دھاپی کے اثرات سے نہ بچ سکے۔
اگراس سانحے کے بارے میں سارے ممکنہ انکشافات سانحے کے ساٹھ گھنٹے کے اندر میڈیا کے توسط سے ہو ہی چکے ہیں تو اب متعلقہ اداروں اور حکومتوں کو اس دہشت انگیز ڈرامے کے اسباب، کرداروں اور ڈانڈوں کا تعین کرنے کے تکلف کی کیا ضرورت ہے۔
پھر بھی جب میڈیا سرکس اپنا سارا بارود صرف کر لے اور حکومتیں اس کے سحر سے خود کو آزاد کرالیں تو بعض بنیادی سوالات کا جائزہ لینے میں کوئی حرج نہیں ۔مثلاً یہی کہ کل کتنے دہشت گرد تھے۔ کن کن راستوں سے ممبئی میں داخل ہوئے۔ان میں مقامی کتنے تھے اور غیرمقامی کتنے۔ ملکی کتنے تھے اور غیرملکی کتنے۔اگر سمندر کے راستے آئے تو کس طرح اور کتنے حفاظتی دائرے توڑ کر اور کتنے سکیورٹی اداروں کو جل دے کر داخل ہوئے۔ اگر خشکی کے راستے آئے تو کونسا روٹ اور طریقہ استعمال کیا۔
کیا کسی بھارتی انٹیلیجینس ایجنسی کو یہ اندازہ تھا کہ ممبئی میں کوئی بڑی واردات ہونے والی ہے۔اگر اندازہ تھا تو کس ایجنسی نے کس کو کتنے عرصے پہلے خبردار کیا اور اس وارننگ کو کس حد تک سنجیدگی سے لیا گیا۔اگر اندازہ نہیں تھا تو اسکی وجوہات کیا تھیں اور ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔
کیا دہشت گرد اپنا اسلحہ اور گولہ بارود ساتھ لے کر آئے تھے یا انہیں مقامی طور پر یہ سامان فراہم کیا گیا۔اگر تمام دہشت گرد اجنبی تھے تو انہیں شہری اہداف تک کس نے پہنچایا۔ کیا یہ واردات سے کچھ دن پہلے ممبئی میں داخل ہوچکے تھے تا کہ آپریشن کے مقامات سے اچھی طرح واقف ہوسکیں یا مقامی اداروں، گروہوں یا اہداف کے اندر کام کرنے والے کچھ لوگ انہیں ہر پیش رفت سے مطلع کرتے رہے۔ بالخصوص جن فائیو سٹار ہوٹلوں میں وہ اسلحے سمیت گھسنے میں کامیاب ہوئے، کیا وہاں سیکورٹی کے انتظامات کی کمزوریوں سے وہ واقف تھے یا کسی واقفِ حال نے ان کی مدد و رہنمائی کی۔
آپریشن کے پہلے ہی مرحلے میں جن تین اعلی پولیس افسروں کو مارا گیا کیا یہ اتفاقاً مارے گئے یا اجنبی دہشت گرد انکی شکلوں اور نقل و حرکت سے بخوبی واقف تھے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ان مارے جانے والے افسروں میں ریاست مہاراشٹر کے شعبۂ انسدادِ دہشت گردی کے سربراہ ہیمنت کرکرے بھی شامل تھے جو مالیگاؤں بم دھماکوں کی تحقیقات کر رہے تھے اور جن کے بارے میں بتایا گیا کہ انہیں مسلسل قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔
انیس سو ترانوے کے ممبئی بم دھماکوں سے لے کر سن دو ہزار دو کے پارلیمنٹ ہاؤس پر حملے اور کچھ عرصہ پہلے دہلی اور پھر گوہاٹی کے کثیر الہدف دھماکوں اور کابل میں بھارتی سفارتخانے کے دھماکے تک بیسیوں وارداتوں کے طریقِ کار کے مطالعے سے کیا کوئی ایسا مربوط خاکہ سامنے آیا جس سے ان وارداتوں میں اختیار کیے گئے طریقوں اور مشکوک اندرونی و بیرونی گروہوں کی تکنیک، پیٹرن اور ڈھانچے کی ایک واضح تصویر اور گراف بن سکے۔اگر ان وارداتوں میں اندرونی گروہ ملوث تھے تو کیا ان کے بارے میں بنیادی انٹیلیجینس معلومات مناسب حد تک موجود ہیں۔
اگر ان وارداتوں میں بیرونی ہاتھ رہا ہے تو کیا متعلقہ ممالک سے اس سلسلے میں ہر دفعہ سنجیدگی سے رابطہ کیا گیا۔ کیا ان کو تحقیقاتی رپورٹیں یا شواہد سے آگاہ کیا گیا تاکہ ان کے کان ہوجائیں۔
اگر بھارتی میڈیا کے مطابق تازہ واردات کے نشانات پاکستان تک پہنچ رہے ہیں تو کیا یہ نشانات آئی ایس آئی تک پہنچ رہے ہیں یا ان گروہوں میں سے کسی کا کارنامہ ہے جو پاکستان کے اندر بھی ایسی ہی وارداتیں کر رہے ہیں یا پھر کوئی ایسا گروہ ہے جس کا نشانہ پاکستان نہیں صرف بھارت ہے۔ان حالات میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے کسی مشترکہ میکینزم کی ضرورت ہے یا نہیں۔
اور اگر اس میں پاکستان کی کوئی سرکاری ایجنسی یا اس کے کچھ بے لگام افراد ملوث ہیں تو پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایک ایسے وقت جب پاکستان کو مغربی سرحد پر امریکی حملوں، قبائلی علاقوں میں طالبان اور القاعدہ کی کاروائیوں، شہروں میں خودکش حملوں اور بلوچستان میں سنگین سیاسی بے چینی کا سامنا ہے، ممبئی جیسی وارداتوں کے ذریعے ایک اور محاذ کھول کر وہ ادارہ یا افراد کوئی قومی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں یا صرف پاکستان اور بھارت کے امن عمل کو ہائی جیک کرنا چاہتے ہیں۔
اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ ایسی وارداتیں محض بیرونی عناصر کا کارنامہ ہیں تو اس بات کو کیسے یقینی بنایا جائے گا کہ کوئی بھی مقامی سیاسی و انتہا پسند گروہ ایسی وارداتوں کواندرونِ ملک اقلیتوں کے خلاف اپنا غصہ نکالنے یا بطور سیاسی و فرقہ وارانہ ہتھیار استعمال کرنے سے باز رہے۔
پاکستان کو یہ جائزہ لینا ہوگا کہ ایسا کیوں ہے کہ افغانستان، بھارت اور ایران کے ساتھ ساتھ روس، چین، امریکہ اور برطانیہ بھی اس کے بارے میں مشکوک ہیں۔ غیرسرکاری یا سرکاری کردار کتنے بےلگام ہیں۔ خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کے بارے میں متعلقہ اداروں میں کتنی یکجہتی یا غیر ہم آہنگی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ سیاسی حکومت اور اداروں کا اپنا اپنا ایجنڈہ ہو۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کے لئے پاکستان کو کیسی مدد و تعاون درکار ہے یا بطور ریاست پاکستان کو اب بھی یقین ہے کہ وہ تنِ تنہا سارے مسائل اور پیچدگیاں حل کرسکتا ہے۔
ان تمام نکات پر دونوں حکومتیں جتنی جلد فرصت ملےغور کرلیں ۔ورنہ میڈیا تو اپنا کام کرہی رہا ہے۔