رفیق اور فریق ۔۔۔۔۔۔ محمد ناصر اقبال خان
ہمار ی انتخابی سیاست میں بڑے نوٹ اورووٹ"خفیہ" طورپردیے جاتے ہیں جبکہ سیاسی وفاداریاں نیلام کرنیوالے ارکان کو"نوٹوں" کی گڈیاں دیتے وقت ان سے قرآن مجید پر حلف لیاجاتا ہے ،ہمارے ہاںاس قسم کی "رواداری" اور"رازداری" دوسرے معاملات میں نہیں د یکھی جاسکتی۔اگراپناضمیر بیچنے اوراس کی قیمت اداکرنیوالے دونوں" فریق" جمہوریت کے "رفیق" ہیں توپھراس نظام اورعوام کا دشمن کون ہے ۔میں ضمیرفروشی اورقلم فروشی کوجسم فروشی سے بدترسمجھتاہوں۔میں لاہورسمیت مختلف شہروں میں اُن متعدد کرداروں کو اچھی طرح جانتا ہوں جوسیاست میں متحرک ہونے سے قبل "محلے "میں بنیادی ضروریات کیلئے ایڑیاں رگڑتے تھے لیکن آج" محلات" میں مقیم ہیں،یہ لوگ ایوان اقتدارمیں بار بار" رسائی" کیلئے کسی" رسوائی" سے نہیں ڈرتے۔ کچھ افراد کیلئے "پیسہ "ان کا"پیشہ "ہے، میں پھر کہتا ہوں ہماری سیاست میں" اصولی" نہیں "وصولی "کی بنیاد پر"فیصلے" اور"فاصلے "طے ہوتے ہیں۔"مالیاتی" سیاست کے بوجھ سے" نظریاتی "سیاست دفن ہوگئی۔اب سیاسی اتحاد "نظریات" نہیں بلکہ "نظریہ ضرورت" کے تحت بنائے جاتے ہیں۔حکمران اتحاد اوراپوزیشن اتحاد کاکوئی نظریہ نہیں ۔مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کے درمیان عارضی اتحاداس صدی کاسب سے بڑا عجوبہ ہے لہٰذاءیہ گٹھ جوڑ دوام اورمراد نہیں پاسکتا۔ مسلم لیگ (ن)کی قیادت نے انتھک محنت سے جس یوسف رضاگیلانی کوگرایا تھا اب اسے اپنے کندھوں پراٹھالیا ہے۔مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی اورآصف زرداری کو"کلین چٹ" دیتے ہوئے اپناماضی کابیانیہ راوی برد کردیا ۔ شہبازشریف نے جس آ صف زرداری کوشاہراہوں پرگھسیٹنا تھا آج اس کی راہوں میں اپنی آنکھیں بچھارہے ہیں۔شعبدہ بازسیاستدانوں کاگروہ ''منافقت''کو"مفاہمت "کانام دیتے ہوئے پاکستانیوں کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا۔
یوسف رضاگیلانی کے صاحبزادے کی ویڈیو لیک ہونے اورموصوف کی طرف سے "اقبال" کے باوجود" الیکشن" کمشن نے کوئی" ایکشن "نہیں لیا ، اس مجرمانہ خاموشی نے ادارے کی ساکھ کوراکھ کاڈھیرجبکہ سینیٹ الیکشن کومتنازعہ بنادیا۔ ڈسکہ میں ہونیوالے حالیہ ضمنی الیکشن کے سلسلہ میںچیف سیکرٹری پنجاب جوادرفیق ملک اورآئی جی پنجاب انعام غنی سے تحریری وضاحت طلب کرنیوالے الیکشن کمشن کے حکام آج خودعوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں ،جہاںان کاموقف مستردکردیاگیا ۔الیکشن کمشن کے پاس یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کانوٹیفکیشن جاری کرنے کاکوئی اخلاقی جواز نہیں۔وزیراعظم عمران خان کا حالیہ "خطاب"درحقیقت الیکشن کمشن کا"احتساب "تھا۔ الیکشن کمشن کی وضاحت میں دم نہیں کیونکہ شکست اورسازش میں بہت فرق ہے ۔اگرالیکشن کمشن نیک نیتی اور سنجیدگی سے کوشش کرتا توحالیہ سینیٹ الیکشن میں "چمک "ماند پڑسکتی تھی ۔عدالت عظمیٰ کی دوٹوک رائے کے باوجود اس بار بھی سینیٹرز کاانتخاب خفیہ ووٹوں اورمبینہ طورپرنوٹوں سے ہوا لیکن اس خفیہ ووٹنگ نے اس نظام کے کئی خفیہ گوشوں کو آشکار کردیا ۔پاکستان میں کئی بار"نوٹوں" نے "ووٹوں" جبکہ سیاستدانوں نے سیاست کی بچی کچھی عزت کوتارتارکیاہے اوراگرانتخابی اصلاحات کاخواب شرمندہ تعبیر نہ ہواتوپھرماضی کی طرح آئندہ بھی "ووٹ نہیں نوٹ کوعزت ملے گی"۔ سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں جس طرح منتخب ارکان کے ضمیر" زر" کی دہلیز پرسجدہ ریزہوئے اس کے بعد بھی جوعناصر جمہوریت کے" گن" گارہے ہیں مجھے ان سے" گھن" آتی ہے ۔
ہمارے ہاں ہرسطح پرہونیوالے انتخابات عوام کوجوڑتے نہیں بلکہ توڑتے ہیں،جمہوریت نے جمہورکومنتشر اوربنیادی حقوق سے محروم کردیا۔ جمہوریت نامی مغربی نظام نے اہل اسلام کو نفاق ،نفرت ،تعصب ،تشدد، مخلص ومدبرقیادت کے قحط اورسیاسی انتقام کے سواکچھ نہیں دیا۔ووٹ سے بار بار چہرے بدلنا اوردوخاندانوں کوباریاں دینابے سود ہے ، فرسودہ نظام سے نجات تک عام آدمی کی زندگی میں راحت نہیں آسکتی ۔ پاکستان کی تعمیروترقی کیلئے بے رحم احتساب ،صدارتی طرز حکومت اور "ٹوپارٹی سسٹم" ناگزیر ہے۔ماضی کے حکمران انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اقرباءپروری کیاکرتے تھے جبکہ عمران خان نے اپنی "تروں"کونوازنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،موصوف ان "تروں"کے ساتھ پاکستان کابیڑا نہیں "تار "سکتے۔ وہ اپنے عہدشباب میں کپتان تھے اوراب ایٹمی پاکستان کے منتخب وزیراعظم ہیں لہٰذاءانہیں اس فرق اورحقیقت کوسمجھناہوگا ۔موصوف اپنے ان ٹیم ممبرزکے ساتھ عوام کوڈیلیور اورقومی اداروں کیخلاف زہرافشانی کرنیوالی اپوزیشن کوکارنر یاکاﺅنٹر نہیں کرسکتے۔عمران خان نے بزداروں ،اناڑیوں اورکمزوروں پرانحصار کیا ،موصوف سمیت ان کی ٹیم میں ایک بھی "بردبار" نہیں۔کچھ لوگ سیاست میں وفاداری پرزور دیتے ہیں ،میرے نزدیک دانائی اورسمجھداری زیادہ اہم ہے۔ عمران خان کواعتماد کاووٹ ملنانوشتہ دیوارتھا لیکن 22کروڑ پاکستانیوں میں سے محض 178ارکان کے اعتماد سے ان کی خوداعتمادی فوری بحال نہیں ہوگی ۔عمران خان ایوان سے اعتماد کاووٹ ملنے کے بعد عوام کااعتمادبحال ،معیارزندگی بلنداورانہیں ڈیلیورکریں۔عمران خان نے جس تبدیلی کاتصور دیا وہ اس بدنام اورناکام نظام کے ہوتے ہوئے نہیں آئے گی ، انہیں پاکستان میں سیاسی ومعاشی استحکام کی راہ میں حائل فرسودہ نظام بدلناہوگا۔
پاکستان میں صوبائیت ،منافرت، اقرباءپروری ،بدانتظامی،ہوشرباگرانی ، بدامنی ، بدعنوانی اوربدزبانی سمیت متعدد سماجی برائیوں نے جمہوریت کی کوکھ سے جنم لیااورکئی دہائیوں تک عوام کاخون پیا ۔سرمایہ دارانہ جمہوریت نے جمہورکورنجور اوران کا ہر خواب چکنا چور کردیا۔وہ سیاست جوریاست کوکمزوراورعوام کے حقوق غصب کرے ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے،ہمیں ریاست کی بقاءاورعوام کی بہبود کیلئے ریاستی نظام بدلناہوگا۔اگرسائیکل چور کی عدالت میںپیشی کے وقت اسے ہتھکڑی لگائی جاتی ہے توپھراربوں روپوں کی کرپشن میں ملوث نیب زدگان کو ہتھکڑیاں لگاکرمنصف اورمحتسب کے روبروپیش کیوں نہیں کیاجاتا ۔کرپشن کے الزام میں گرفتار ارکان کے پروڈیکشن آرڈر جاری کرنابھونڈا مذاق ہے۔قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کیلئے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث کمزوراورطاقتور کوایک ڈنڈے کے ساتھ ہانکا جائے۔جس طرح مجرمانہ سرگرمیاں روکنے میں ناکامی کی پاداش میںایس ایچ اواورایس پی کوٹرانسفر کردیاجاتا ہے اس طرح نیب حکام کی ناقص کارکردگی پرانہیں تبدیل کیوں نہیں کیاجاتا، وہ کس بنیادپرکئی کئی برسوں سے ایک دفتر میں تعینات ہیں۔اگرہمارے ملک میں کرپشن کاگراف مزید بلندہوگیاہے اورقومی چورآزاد گھوم رہے ہیں تواس کاحساب ارباب اقتدار کے ساتھ ساتھ نیب حکام سے بھی لیاجائے کیونکہ نیب حکام کو ریاست سے بے پناہ وسائل اوراختیارات ملنے کے باوجود قومی چوروں کوسزا نہیں ملتی ۔
تبدیلی سرکار نے جو طاقت یوسف رضاگیلانی کوہرانے کیلئے لگائی اگروہ اپنے امیدوارکوجتوانے کیلئے زورلگاتے اور کسی عوامی سیاسی شخصیت کونامزدکرتے تویقینا نتیجہ مختلف ہوتا ۔عمران خان کے ناقص" فیصلے" ان کے اورپی ٹی آئی پارلیمنٹرین کے درمیان" فاصلے" پیداکرتے رہے ۔ اگرکپتان اپنی تروں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے منتخب نمائندوں کے ساتھ بھی عزت اوراپنائیت سے پیش آتے تو"اپوزیشن" آج اس "پوزیشن "میں نہ ہوتی ۔حالیہ سینیٹ الیکشن میں زرداری نے نہیں بلکہ قومی وسائل سے چوری کئے گئے'' زر" اورکپتان کے"تکبر "نے تبدیلی سرکار کوہرایا۔میرے نزدیک کردار کی بجائے زراورزور کے بل پر ملی کامیابی درحقیقت بدترین ناکامی ہے۔ یوسف رضاگیلانی کی جیت کوئی جیت نہیں ،" ہار" والے" ہار" گئے لیکن یہ باریک نکتہ کوئی اخلاقیات سے عاری انسان نہیں سمجھ سکتا ۔میں زرداری کے زراورزور کامقابلہ کرتے ہوئے نیک نام صادق سنجرانی کو دوسری بارچیئرمین سینیٹ منتخب ہوتاہوادیکھ رہا ہوں۔حالیہ سینیٹ الیکشن کادورانیہ مسلم لیگ (ن) کے بیانیہ کونگل گیا۔مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے یوٹرن کے معاملے میں سب کوپیچھے چھوڑ دیا،نوازشریف اوران کے خاندان نے کپتان اورپی ٹی آئی پرکاری ضرب لگاتے لگاتے آصف زرداری اوریوسف رضاگیلانی کی سیاست جبکہ نیم مردہ پیپلزپارٹی کو پھر سے زندہ کردیا ۔مسلم لیگ (ن)کی قیادت نے کئی دہائیوں کے دوران جہدمسلسل سے پیپلزپارٹی کیخلاف جوچارج شیٹ تیار کی تھی وہ کوڑادان کی نذرکردی ۔میرے نزدیک الیکشن" ہارنا" نہیں بلکہ "ہمت ہارنا" ناکامی ہے لہٰذاءکپتان ہمت نہیں ہارتا جواس کی اچھی بات جبکہ غلطیاں دہرانا عمران خان کی بری عادت ہے ۔کپتان نے سینیٹ الیکشن میں خفیہ ووٹ کی صورت میں اپنے شدیدتحفظات کااظہار توکیا لیکن اپنے" تکبر "کے بوجھ تلے دبے کپتان نے بچاﺅ کیلئے" تدبر" سے کام نہیں لیا۔اپوزیشن جیت کیلئے جوکرسکتی تھی اس نے انتہائی ڈھٹائی ،ہٹ دھرمی اوربے شرمی کے ساتھ وہ سب کیا ،کپتان اپنے ارکان کوضمیربیچنے سے روکنے میں ناکام رہا لہٰذاءاب شکست کا ماتم نہ کرے اورانصاف کیلئے عدالت کادروازہ کھٹکھٹائے ۔سیاست اوربالخصوص امور حکومت میں عمران خان کے زمانہ کرکٹ کے واقعات کوٹ کرنیوالے اس کے حامی بلکہ خوشامدی جھک مار تے ہیں کیونکہ ایوان اقتدار اوربلے بازی کے میدان میں زمین آسمان کافرق ہے۔عمران خان مردم شناس اورفرض شناس ہوتے توآج ان کے ارکان اپنے ضمیر نیلام نہ کرتے ،ان کی ٹیم میں بزدار نہیں بردبار ہوتے۔کپتان کی زبان بہت چلتی ہے کیونکہ موصوف کاکام نہیں بولتا ۔ عمران خان کواپنی عادات اورترجیحات بدلناہوں گی ،اگرموصوف سیاسی اورانتخابی امور کے بارے میں اپنے اتحادیوں بالخصوص چوہدری برادران کی بجائے اپنی اہلیہ سے مشاورت کرتے رہیں گے تو"ہار" ہرباران کے گلے کا"ہار" بن جائے گی۔عمران خان واقعی قومی چوروں کااحتساب کرنے میں سنجیدہ ہیں تواس کی شروعات اپنی" تروں" سے اورچوروں کاسہولت کارنظام فوری تبدیل کریں ۔ایک نامعلوم شاعر کاکلام قومی ضمیراورسیاسی قیادت کیلئے دستک ہے۔
سب گناہ و حرام چلنے دو
کہہ رہے ہیں نظام چلنے دو
ضد ہے کیا وقت کو بدلنے کی
یونہی سب بے لگام چلنے دو
بے کسی، بھوک اور مصیبت کا
خوب ہے اہتمام چلنے دو
اہلیت کیا ہے میری چھوڑ اسے
نام کافی ہے، نام چلنے دو
مفت مرتا نہیں تو راہوں میں
تجھ کو دیتے ہیں دام، چلنے دو
تم ہو زاہد تو جاو ¿ گھر پہ ٹکو
مہ کدے میں تو جام چلنے دو
تیرے اجداد کے تھے آقا ہم
خود کو بھی زیر دام چلنے دو
حق کو چھوڑو، کتاب کو چھوڑو
حکمِ حاکم سے کام چلنے دو
ہم جو اترے تو پھر اندھیرا ہے
سو یہی غم کی شام چلنے دو
شاہ جائے گا، شاہ آئے گا
تم رہو گے غلام ، چلنے دو
ہمار ی انتخابی سیاست میں بڑے نوٹ اورووٹ"خفیہ" طورپردیے جاتے ہیں جبکہ سیاسی وفاداریاں نیلام کرنیوالے ارکان کو"نوٹوں" کی گڈیاں دیتے وقت ان سے قرآن مجید پر حلف لیاجاتا ہے ،ہمارے ہاںاس قسم کی "رواداری" اور"رازداری" دوسرے معاملات میں نہیں د یکھی جاسکتی۔اگراپناضمیر بیچنے اوراس کی قیمت اداکرنیوالے دونوں" فریق" جمہوریت کے "رفیق" ہیں توپھراس نظام اورعوام کا دشمن کون ہے ۔میں ضمیرفروشی اورقلم فروشی کوجسم فروشی سے بدترسمجھتاہوں۔میں لاہورسمیت مختلف شہروں میں اُن متعدد کرداروں کو اچھی طرح جانتا ہوں جوسیاست میں متحرک ہونے سے قبل "محلے "میں بنیادی ضروریات کیلئے ایڑیاں رگڑتے تھے لیکن آج" محلات" میں مقیم ہیں،یہ لوگ ایوان اقتدارمیں بار بار" رسائی" کیلئے کسی" رسوائی" سے نہیں ڈرتے۔ کچھ افراد کیلئے "پیسہ "ان کا"پیشہ "ہے، میں پھر کہتا ہوں ہماری سیاست میں" اصولی" نہیں "وصولی "کی بنیاد پر"فیصلے" اور"فاصلے "طے ہوتے ہیں۔"مالیاتی" سیاست کے بوجھ سے" نظریاتی "سیاست دفن ہوگئی۔اب سیاسی اتحاد "نظریات" نہیں بلکہ "نظریہ ضرورت" کے تحت بنائے جاتے ہیں۔حکمران اتحاد اوراپوزیشن اتحاد کاکوئی نظریہ نہیں ۔مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کے درمیان عارضی اتحاداس صدی کاسب سے بڑا عجوبہ ہے لہٰذاءیہ گٹھ جوڑ دوام اورمراد نہیں پاسکتا۔ مسلم لیگ (ن)کی قیادت نے انتھک محنت سے جس یوسف رضاگیلانی کوگرایا تھا اب اسے اپنے کندھوں پراٹھالیا ہے۔مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی اورآصف زرداری کو"کلین چٹ" دیتے ہوئے اپناماضی کابیانیہ راوی برد کردیا ۔ شہبازشریف نے جس آ صف زرداری کوشاہراہوں پرگھسیٹنا تھا آج اس کی راہوں میں اپنی آنکھیں بچھارہے ہیں۔شعبدہ بازسیاستدانوں کاگروہ ''منافقت''کو"مفاہمت "کانام دیتے ہوئے پاکستانیوں کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا۔
یوسف رضاگیلانی کے صاحبزادے کی ویڈیو لیک ہونے اورموصوف کی طرف سے "اقبال" کے باوجود" الیکشن" کمشن نے کوئی" ایکشن "نہیں لیا ، اس مجرمانہ خاموشی نے ادارے کی ساکھ کوراکھ کاڈھیرجبکہ سینیٹ الیکشن کومتنازعہ بنادیا۔ ڈسکہ میں ہونیوالے حالیہ ضمنی الیکشن کے سلسلہ میںچیف سیکرٹری پنجاب جوادرفیق ملک اورآئی جی پنجاب انعام غنی سے تحریری وضاحت طلب کرنیوالے الیکشن کمشن کے حکام آج خودعوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں ،جہاںان کاموقف مستردکردیاگیا ۔الیکشن کمشن کے پاس یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کانوٹیفکیشن جاری کرنے کاکوئی اخلاقی جواز نہیں۔وزیراعظم عمران خان کا حالیہ "خطاب"درحقیقت الیکشن کمشن کا"احتساب "تھا۔ الیکشن کمشن کی وضاحت میں دم نہیں کیونکہ شکست اورسازش میں بہت فرق ہے ۔اگرالیکشن کمشن نیک نیتی اور سنجیدگی سے کوشش کرتا توحالیہ سینیٹ الیکشن میں "چمک "ماند پڑسکتی تھی ۔عدالت عظمیٰ کی دوٹوک رائے کے باوجود اس بار بھی سینیٹرز کاانتخاب خفیہ ووٹوں اورمبینہ طورپرنوٹوں سے ہوا لیکن اس خفیہ ووٹنگ نے اس نظام کے کئی خفیہ گوشوں کو آشکار کردیا ۔پاکستان میں کئی بار"نوٹوں" نے "ووٹوں" جبکہ سیاستدانوں نے سیاست کی بچی کچھی عزت کوتارتارکیاہے اوراگرانتخابی اصلاحات کاخواب شرمندہ تعبیر نہ ہواتوپھرماضی کی طرح آئندہ بھی "ووٹ نہیں نوٹ کوعزت ملے گی"۔ سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں جس طرح منتخب ارکان کے ضمیر" زر" کی دہلیز پرسجدہ ریزہوئے اس کے بعد بھی جوعناصر جمہوریت کے" گن" گارہے ہیں مجھے ان سے" گھن" آتی ہے ۔
ہمارے ہاں ہرسطح پرہونیوالے انتخابات عوام کوجوڑتے نہیں بلکہ توڑتے ہیں،جمہوریت نے جمہورکومنتشر اوربنیادی حقوق سے محروم کردیا۔ جمہوریت نامی مغربی نظام نے اہل اسلام کو نفاق ،نفرت ،تعصب ،تشدد، مخلص ومدبرقیادت کے قحط اورسیاسی انتقام کے سواکچھ نہیں دیا۔ووٹ سے بار بار چہرے بدلنا اوردوخاندانوں کوباریاں دینابے سود ہے ، فرسودہ نظام سے نجات تک عام آدمی کی زندگی میں راحت نہیں آسکتی ۔ پاکستان کی تعمیروترقی کیلئے بے رحم احتساب ،صدارتی طرز حکومت اور "ٹوپارٹی سسٹم" ناگزیر ہے۔ماضی کے حکمران انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اقرباءپروری کیاکرتے تھے جبکہ عمران خان نے اپنی "تروں"کونوازنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،موصوف ان "تروں"کے ساتھ پاکستان کابیڑا نہیں "تار "سکتے۔ وہ اپنے عہدشباب میں کپتان تھے اوراب ایٹمی پاکستان کے منتخب وزیراعظم ہیں لہٰذاءانہیں اس فرق اورحقیقت کوسمجھناہوگا ۔موصوف اپنے ان ٹیم ممبرزکے ساتھ عوام کوڈیلیور اورقومی اداروں کیخلاف زہرافشانی کرنیوالی اپوزیشن کوکارنر یاکاﺅنٹر نہیں کرسکتے۔عمران خان نے بزداروں ،اناڑیوں اورکمزوروں پرانحصار کیا ،موصوف سمیت ان کی ٹیم میں ایک بھی "بردبار" نہیں۔کچھ لوگ سیاست میں وفاداری پرزور دیتے ہیں ،میرے نزدیک دانائی اورسمجھداری زیادہ اہم ہے۔ عمران خان کواعتماد کاووٹ ملنانوشتہ دیوارتھا لیکن 22کروڑ پاکستانیوں میں سے محض 178ارکان کے اعتماد سے ان کی خوداعتمادی فوری بحال نہیں ہوگی ۔عمران خان ایوان سے اعتماد کاووٹ ملنے کے بعد عوام کااعتمادبحال ،معیارزندگی بلنداورانہیں ڈیلیورکریں۔عمران خان نے جس تبدیلی کاتصور دیا وہ اس بدنام اورناکام نظام کے ہوتے ہوئے نہیں آئے گی ، انہیں پاکستان میں سیاسی ومعاشی استحکام کی راہ میں حائل فرسودہ نظام بدلناہوگا۔
پاکستان میں صوبائیت ،منافرت، اقرباءپروری ،بدانتظامی،ہوشرباگرانی ، بدامنی ، بدعنوانی اوربدزبانی سمیت متعدد سماجی برائیوں نے جمہوریت کی کوکھ سے جنم لیااورکئی دہائیوں تک عوام کاخون پیا ۔سرمایہ دارانہ جمہوریت نے جمہورکورنجور اوران کا ہر خواب چکنا چور کردیا۔وہ سیاست جوریاست کوکمزوراورعوام کے حقوق غصب کرے ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے،ہمیں ریاست کی بقاءاورعوام کی بہبود کیلئے ریاستی نظام بدلناہوگا۔اگرسائیکل چور کی عدالت میںپیشی کے وقت اسے ہتھکڑی لگائی جاتی ہے توپھراربوں روپوں کی کرپشن میں ملوث نیب زدگان کو ہتھکڑیاں لگاکرمنصف اورمحتسب کے روبروپیش کیوں نہیں کیاجاتا ۔کرپشن کے الزام میں گرفتار ارکان کے پروڈیکشن آرڈر جاری کرنابھونڈا مذاق ہے۔قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کیلئے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث کمزوراورطاقتور کوایک ڈنڈے کے ساتھ ہانکا جائے۔جس طرح مجرمانہ سرگرمیاں روکنے میں ناکامی کی پاداش میںایس ایچ اواورایس پی کوٹرانسفر کردیاجاتا ہے اس طرح نیب حکام کی ناقص کارکردگی پرانہیں تبدیل کیوں نہیں کیاجاتا، وہ کس بنیادپرکئی کئی برسوں سے ایک دفتر میں تعینات ہیں۔اگرہمارے ملک میں کرپشن کاگراف مزید بلندہوگیاہے اورقومی چورآزاد گھوم رہے ہیں تواس کاحساب ارباب اقتدار کے ساتھ ساتھ نیب حکام سے بھی لیاجائے کیونکہ نیب حکام کو ریاست سے بے پناہ وسائل اوراختیارات ملنے کے باوجود قومی چوروں کوسزا نہیں ملتی ۔
تبدیلی سرکار نے جو طاقت یوسف رضاگیلانی کوہرانے کیلئے لگائی اگروہ اپنے امیدوارکوجتوانے کیلئے زورلگاتے اور کسی عوامی سیاسی شخصیت کونامزدکرتے تویقینا نتیجہ مختلف ہوتا ۔عمران خان کے ناقص" فیصلے" ان کے اورپی ٹی آئی پارلیمنٹرین کے درمیان" فاصلے" پیداکرتے رہے ۔ اگرکپتان اپنی تروں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے منتخب نمائندوں کے ساتھ بھی عزت اوراپنائیت سے پیش آتے تو"اپوزیشن" آج اس "پوزیشن "میں نہ ہوتی ۔حالیہ سینیٹ الیکشن میں زرداری نے نہیں بلکہ قومی وسائل سے چوری کئے گئے'' زر" اورکپتان کے"تکبر "نے تبدیلی سرکار کوہرایا۔میرے نزدیک کردار کی بجائے زراورزور کے بل پر ملی کامیابی درحقیقت بدترین ناکامی ہے۔ یوسف رضاگیلانی کی جیت کوئی جیت نہیں ،" ہار" والے" ہار" گئے لیکن یہ باریک نکتہ کوئی اخلاقیات سے عاری انسان نہیں سمجھ سکتا ۔میں زرداری کے زراورزور کامقابلہ کرتے ہوئے نیک نام صادق سنجرانی کو دوسری بارچیئرمین سینیٹ منتخب ہوتاہوادیکھ رہا ہوں۔حالیہ سینیٹ الیکشن کادورانیہ مسلم لیگ (ن) کے بیانیہ کونگل گیا۔مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے یوٹرن کے معاملے میں سب کوپیچھے چھوڑ دیا،نوازشریف اوران کے خاندان نے کپتان اورپی ٹی آئی پرکاری ضرب لگاتے لگاتے آصف زرداری اوریوسف رضاگیلانی کی سیاست جبکہ نیم مردہ پیپلزپارٹی کو پھر سے زندہ کردیا ۔مسلم لیگ (ن)کی قیادت نے کئی دہائیوں کے دوران جہدمسلسل سے پیپلزپارٹی کیخلاف جوچارج شیٹ تیار کی تھی وہ کوڑادان کی نذرکردی ۔میرے نزدیک الیکشن" ہارنا" نہیں بلکہ "ہمت ہارنا" ناکامی ہے لہٰذاءکپتان ہمت نہیں ہارتا جواس کی اچھی بات جبکہ غلطیاں دہرانا عمران خان کی بری عادت ہے ۔کپتان نے سینیٹ الیکشن میں خفیہ ووٹ کی صورت میں اپنے شدیدتحفظات کااظہار توکیا لیکن اپنے" تکبر "کے بوجھ تلے دبے کپتان نے بچاﺅ کیلئے" تدبر" سے کام نہیں لیا۔اپوزیشن جیت کیلئے جوکرسکتی تھی اس نے انتہائی ڈھٹائی ،ہٹ دھرمی اوربے شرمی کے ساتھ وہ سب کیا ،کپتان اپنے ارکان کوضمیربیچنے سے روکنے میں ناکام رہا لہٰذاءاب شکست کا ماتم نہ کرے اورانصاف کیلئے عدالت کادروازہ کھٹکھٹائے ۔سیاست اوربالخصوص امور حکومت میں عمران خان کے زمانہ کرکٹ کے واقعات کوٹ کرنیوالے اس کے حامی بلکہ خوشامدی جھک مار تے ہیں کیونکہ ایوان اقتدار اوربلے بازی کے میدان میں زمین آسمان کافرق ہے۔عمران خان مردم شناس اورفرض شناس ہوتے توآج ان کے ارکان اپنے ضمیر نیلام نہ کرتے ،ان کی ٹیم میں بزدار نہیں بردبار ہوتے۔کپتان کی زبان بہت چلتی ہے کیونکہ موصوف کاکام نہیں بولتا ۔ عمران خان کواپنی عادات اورترجیحات بدلناہوں گی ،اگرموصوف سیاسی اورانتخابی امور کے بارے میں اپنے اتحادیوں بالخصوص چوہدری برادران کی بجائے اپنی اہلیہ سے مشاورت کرتے رہیں گے تو"ہار" ہرباران کے گلے کا"ہار" بن جائے گی۔عمران خان واقعی قومی چوروں کااحتساب کرنے میں سنجیدہ ہیں تواس کی شروعات اپنی" تروں" سے اورچوروں کاسہولت کارنظام فوری تبدیل کریں ۔ایک نامعلوم شاعر کاکلام قومی ضمیراورسیاسی قیادت کیلئے دستک ہے۔
سب گناہ و حرام چلنے دو
کہہ رہے ہیں نظام چلنے دو
ضد ہے کیا وقت کو بدلنے کی
یونہی سب بے لگام چلنے دو
بے کسی، بھوک اور مصیبت کا
خوب ہے اہتمام چلنے دو
اہلیت کیا ہے میری چھوڑ اسے
نام کافی ہے، نام چلنے دو
مفت مرتا نہیں تو راہوں میں
تجھ کو دیتے ہیں دام، چلنے دو
تم ہو زاہد تو جاو ¿ گھر پہ ٹکو
مہ کدے میں تو جام چلنے دو
تیرے اجداد کے تھے آقا ہم
خود کو بھی زیر دام چلنے دو
حق کو چھوڑو، کتاب کو چھوڑو
حکمِ حاکم سے کام چلنے دو
ہم جو اترے تو پھر اندھیرا ہے
سو یہی غم کی شام چلنے دو
شاہ جائے گا، شاہ آئے گا
تم رہو گے غلام ، چلنے دو
Comment