پاکستان ایکبار پھر ایک اہم دور میں کھڑا ہے۔ ایک ایسے دور میں جہاں پاکستان کم از کم ایشیا کی سب سے اہم اور کلیدی ریاست بن سکتا ہے! آئیے ذرا اس کا جائزہ لیتے ہیں:
وسطی ایشیا کی ریاستیں جیسا کہ کاغستان، ترکمنائستان، کرغزیستان، تاجکستان اور ازبکستان قدرتی وسائل میں وسیع ہیں، ان میں تیل بھی ہے اور گیس
بھی۔ مگر ان وسائل کی ترسیل میں بہت بڑی اور اہم رکاوٹ یہ ہے کہ یہ تمام ممالک تقریباً لینڈلاک ہیں۔
درجہ بالا تصویر میں پیلے علاقے ان ممالک کو ظاہر کر رہے ہیں،ان سے تیل اور گیس کی ترسیل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ماسوائے ایران کے۔ مگر ایران کا اپنا تیل اور گیس کا بہت بڑا ذخیرہ ہے اور وہاں پر جو بندرگاہ ہےوہ اتنی بڑی مقدار کو سپورٹ نہیں کر سکتی۔ باقی کوئی صورت ایسی نہیں جہاں سے یہ ترسیل ممکن ہو سکے، شمال میں روس ہے جو خود بحیرہ عرب میں آنا چاہتا ہے، مشرق میں چین ہے جو خود پاکستان کے ساتھ سی پیک کا منصوبہ شروع کر چکا ہے۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان سب سے اہم ریاست ہے۔ گوادر پاکستان کی معیشت کے لیے بہت ہی اہم اور کلیدی رول ادا کریگا، ذرا اس کو دیکھیں
سی پیک کا منصوبہ تو اپنی جگہ پر زیرِ تعمیر ہے مگر اس میں پاکستان اگر افغانستان سے راستہ نکالے اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کو گوادر میں لاکر ایکسپورٹ کی اجازت دے تو یہ پاکستان کی معیشت کے لیے سونے پر سہاگہ ہو گی۔ ساتھ ہی گرین تیروں سے جو دکھایا گیا ہے وہ گیس پائپ لائنز ہیں جو بھارت ترکمانستان اور ایران سے کھینچنا چاھتا ہے، پھر یہاں بھی پاکستان بہت بڑا زرِ مبادلہ کما سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ پاکستانی قوم کو اپنے اندر سے خناس اور تعصب پرستی کو ختم کرنا ہوگا۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی جو سوچ ہے کہ افغانستان کے بارڈر کو کھولا جائے جیسا یورپ کے بارڈرز کھلے ہوئے ہیں، یہ تجارت کے لیے ایک بہت زبردست چال ہو گی اور پاکستان کی معیشت کے لیے سونا ثابت ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے پاکستان میں پیدا ہونے والے افغانیوں کو قانونی طور پر شہریت دینے کا سوچا، یہ عمل امن پیدا کرے گاکیونکہ جب وسطی ایشیا سے تجارتی راستے افغانستان سے گزریں گے انہیں بھی اس سے فائدہ ہوگا، لہذا وہ بھی امن چاہیں گے، یہ عمل ایک قوم پیدا کریگا۔ عمران خان کی سوچ بہتر مستقبل کی کنجی ہے مگر اس قوم میں ایسے تحریب کار سوچ کے لوگ پائے جاتے ہیں جو یہ امن نہیں چاھتے۔ عمران خان کے پہلے ہی غیرملکی دورے سے ثابت ہو گیا ہے کہ سعودی عرب گوادر میں بہت بڑے پیمانے پر انوسٹمنٹ کریگا، لہذا سی پیک کا پروجیکٹ ابھی سے عالمی دلچسپی لینے لگا ہے، یہ ایک بہت اہم پیش رفت ہے کہ عالمی برادری کو عمران پر یقین ہے، وہ نوازشریف اور زرداری پر ایک پیسہ خرچ نہیں کرنا چاھتے مگر یکدم وہ دلچسپی لینے لگے ہیں، عمران ہی کی ایک آواز پر پاکستانی چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں آباد ہوں، لبیک کہہ رہے ہیں۔ ایک اور بہت اہم بات ہے کہ اس وقت آرمی چیف قمر باجوہ کی جو مختلف ممالک کے سربراہان کے ساتھ ملٹری سیاسی گفت و شنید ہوئی ہے وہ انتہائی اہم ہے، یہاں تک خبر ہے کہ روس جو بھارت کا سب سے بڑا حلیف ہے وہ بھی اب مذاکرات اور کاروبار کرنے کا سوچ رہا ہے، پہلی بار کم از کم ہماری ہوش میں پاکستان کی ملٹری اور سول انتظامیہ ایک پیج پر جمع ہوتی نظر آ رہی ہے،برطانیہ سے معاہدے ہو رہے ہیں، امریکہ تک نرم ہوتا نظر آرہا ہے۔۔۔ اور یہ وہ عناصر ہیں جو اس وقت سیاسی مخالفین کی شکست کا باعث ہیں۔عمران خان پاکستان کے مستقبل کی سوچ کی ضمانت ہے! بیشک اسکے لیے حالات سازگار نہیں، اسکے سامنے ایک بہت سخت اپوزیشن ہےجس کی نظریں اس پر جمی ہیں کہ کب کہاں اور کیسے عمران کو ناکام کیا جائے، اسکے لیے وہ کوئی حربہ خالی نہیں جانیں دیں گے، ایسے میں اگر عمران کو سپورٹ کرنے والے یہ کہہ کر کے "ہم پٹواری نہیں – ہمیں یہ قبول نہیں وہ قبول نہیں" وہ عمران کو مزیداور زیادہ گہرا زخم اور نقصان پہنچا رہے ہیں۔ عمران خان کو اس وقت زبردست سپورٹ کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس ملک کی ایسی راہیں متعین کردے جن سے کوئی نکلنا بھی چاھے تو اسکے لیے ممکن نہ ہو۔ میرا یقین ہے کہ سورج کوزے میں بند ہو سکتا ہے مگر عمران پاکستان کو نقصان نہیں پہنچائے گا، وہ جو عمل کریگا اس ملک کی بہتری کے لیے کرے گا۔ عمران امن پیدا کرنا چاھتا ہے اور کوئی دور نہیں کہ امن کا ایوارڈ عمران کا ایک دن مقدر بنے، مگر اسے اس وقت سپورٹ کی ضرورت ہے، اسکے فیصلوں کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
وسطی ایشیا کی ریاستیں جیسا کہ کاغستان، ترکمنائستان، کرغزیستان، تاجکستان اور ازبکستان قدرتی وسائل میں وسیع ہیں، ان میں تیل بھی ہے اور گیس
بھی۔ مگر ان وسائل کی ترسیل میں بہت بڑی اور اہم رکاوٹ یہ ہے کہ یہ تمام ممالک تقریباً لینڈلاک ہیں۔
درجہ بالا تصویر میں پیلے علاقے ان ممالک کو ظاہر کر رہے ہیں،ان سے تیل اور گیس کی ترسیل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ماسوائے ایران کے۔ مگر ایران کا اپنا تیل اور گیس کا بہت بڑا ذخیرہ ہے اور وہاں پر جو بندرگاہ ہےوہ اتنی بڑی مقدار کو سپورٹ نہیں کر سکتی۔ باقی کوئی صورت ایسی نہیں جہاں سے یہ ترسیل ممکن ہو سکے، شمال میں روس ہے جو خود بحیرہ عرب میں آنا چاہتا ہے، مشرق میں چین ہے جو خود پاکستان کے ساتھ سی پیک کا منصوبہ شروع کر چکا ہے۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان سب سے اہم ریاست ہے۔ گوادر پاکستان کی معیشت کے لیے بہت ہی اہم اور کلیدی رول ادا کریگا، ذرا اس کو دیکھیں
سی پیک کا منصوبہ تو اپنی جگہ پر زیرِ تعمیر ہے مگر اس میں پاکستان اگر افغانستان سے راستہ نکالے اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کو گوادر میں لاکر ایکسپورٹ کی اجازت دے تو یہ پاکستان کی معیشت کے لیے سونے پر سہاگہ ہو گی۔ ساتھ ہی گرین تیروں سے جو دکھایا گیا ہے وہ گیس پائپ لائنز ہیں جو بھارت ترکمانستان اور ایران سے کھینچنا چاھتا ہے، پھر یہاں بھی پاکستان بہت بڑا زرِ مبادلہ کما سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ پاکستانی قوم کو اپنے اندر سے خناس اور تعصب پرستی کو ختم کرنا ہوگا۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی جو سوچ ہے کہ افغانستان کے بارڈر کو کھولا جائے جیسا یورپ کے بارڈرز کھلے ہوئے ہیں، یہ تجارت کے لیے ایک بہت زبردست چال ہو گی اور پاکستان کی معیشت کے لیے سونا ثابت ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے پاکستان میں پیدا ہونے والے افغانیوں کو قانونی طور پر شہریت دینے کا سوچا، یہ عمل امن پیدا کرے گاکیونکہ جب وسطی ایشیا سے تجارتی راستے افغانستان سے گزریں گے انہیں بھی اس سے فائدہ ہوگا، لہذا وہ بھی امن چاہیں گے، یہ عمل ایک قوم پیدا کریگا۔ عمران خان کی سوچ بہتر مستقبل کی کنجی ہے مگر اس قوم میں ایسے تحریب کار سوچ کے لوگ پائے جاتے ہیں جو یہ امن نہیں چاھتے۔ عمران خان کے پہلے ہی غیرملکی دورے سے ثابت ہو گیا ہے کہ سعودی عرب گوادر میں بہت بڑے پیمانے پر انوسٹمنٹ کریگا، لہذا سی پیک کا پروجیکٹ ابھی سے عالمی دلچسپی لینے لگا ہے، یہ ایک بہت اہم پیش رفت ہے کہ عالمی برادری کو عمران پر یقین ہے، وہ نوازشریف اور زرداری پر ایک پیسہ خرچ نہیں کرنا چاھتے مگر یکدم وہ دلچسپی لینے لگے ہیں، عمران ہی کی ایک آواز پر پاکستانی چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں آباد ہوں، لبیک کہہ رہے ہیں۔ ایک اور بہت اہم بات ہے کہ اس وقت آرمی چیف قمر باجوہ کی جو مختلف ممالک کے سربراہان کے ساتھ ملٹری سیاسی گفت و شنید ہوئی ہے وہ انتہائی اہم ہے، یہاں تک خبر ہے کہ روس جو بھارت کا سب سے بڑا حلیف ہے وہ بھی اب مذاکرات اور کاروبار کرنے کا سوچ رہا ہے، پہلی بار کم از کم ہماری ہوش میں پاکستان کی ملٹری اور سول انتظامیہ ایک پیج پر جمع ہوتی نظر آ رہی ہے،برطانیہ سے معاہدے ہو رہے ہیں، امریکہ تک نرم ہوتا نظر آرہا ہے۔۔۔ اور یہ وہ عناصر ہیں جو اس وقت سیاسی مخالفین کی شکست کا باعث ہیں۔عمران خان پاکستان کے مستقبل کی سوچ کی ضمانت ہے! بیشک اسکے لیے حالات سازگار نہیں، اسکے سامنے ایک بہت سخت اپوزیشن ہےجس کی نظریں اس پر جمی ہیں کہ کب کہاں اور کیسے عمران کو ناکام کیا جائے، اسکے لیے وہ کوئی حربہ خالی نہیں جانیں دیں گے، ایسے میں اگر عمران کو سپورٹ کرنے والے یہ کہہ کر کے "ہم پٹواری نہیں – ہمیں یہ قبول نہیں وہ قبول نہیں" وہ عمران کو مزیداور زیادہ گہرا زخم اور نقصان پہنچا رہے ہیں۔ عمران خان کو اس وقت زبردست سپورٹ کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس ملک کی ایسی راہیں متعین کردے جن سے کوئی نکلنا بھی چاھے تو اسکے لیے ممکن نہ ہو۔ میرا یقین ہے کہ سورج کوزے میں بند ہو سکتا ہے مگر عمران پاکستان کو نقصان نہیں پہنچائے گا، وہ جو عمل کریگا اس ملک کی بہتری کے لیے کرے گا۔ عمران امن پیدا کرنا چاھتا ہے اور کوئی دور نہیں کہ امن کا ایوارڈ عمران کا ایک دن مقدر بنے، مگر اسے اس وقت سپورٹ کی ضرورت ہے، اسکے فیصلوں کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
Comment