ajnasir1@gmail.com
مسلم لیگ(ق) کنگز سے کنگال پارٹی تک
مسلم لیگ(ق) کنگز سے کنگال پارٹی تک
چھ ستمبر 2008ءکے صدارتی انتخابات اپنی نوعیت کے تاریخی اور بعض جماعتوں اور شخصیات کی عبرتناک ثابت ہوئے۔ ان صدارتی انتخابات میں پی پی پی کے نامزد امیدوار اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری ملکی تاریخ کے پہلے سویلین صدر ثابت ہوئے جن کو دو تہائی سے زائد اکثریت ملی۔ انہوںنے صدارتی الیکٹرول کالج کے699میں سے 481ووٹ حاصل کئے۔ ان کو پارلیمینٹ سے281، پنجاب سے22، سندھ سے63، سرحدسے 56اور بلوچستان سے 59ووٹ ملے۔ انکے قریب ترین حریف مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدوار چیف جسٹس (ر) سعیدالزمان صدیقی رہے جن کو پارلیمنٹ سے 111،پنجاب سے 35، سرحد سے 5 اور بلوچستان سے 2 ووٹ ملے جبکہ سندھ سے کوئی ووٹ نہیں ملا، تاہم ان کو مجموعی طور پر توقع سے زیادہ ووٹ ملے ۔ تیسرے اور آخری مسلم لیگ (ق) کی نامزد امیدوار مشاہدحسےن سےدکو پارلیمنٹ سے 34، پنجاب سے 6 ، سرحد اور بلوچستان سے 2،2 ووٹ ملے جبکہ سندھ سے ان کو بھی کوئی ووٹ نہیں ملا۔14 ووٹ مسترد ہوگئے اور 7 ووٹ ارکان کی غیر حاضری کی باعث کاسٹ نہ ہوسکے۔
چھ ستمبر 2008ءکے صدارتی انتخابات جہاں پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے لئے خوشی اور فتح کا پیغام ثابت ہوئے وہیں مسلم لیگ (ق)، گورنر پنجاب سلمان تاثیر ور وزیراعظم کے مشیرمیاں منظوروٹو کیلئے عبرتناک شکست کا باعث بھی بنی ہیں۔ ان انتخابات نے یہ ثابت کردیا کہ مسلم لیگ (ق) کوئی سےاسی جماعت نہیں بلکہ ایک آمر کا تیار کیا ہوا مفادپرستوں کا ایک گروہ تھا۔ آمر کے خاتمے کے ساتھ ہی اس گروہ کا خاتمہ بھی ہوا جو ایک آمر کی آخری چند نشانیوں میں سے ایک خاص نشانی تھی۔ مسلم لیگ (ق) دراصل مسلم لیگ (ن) کی کوکھ سے جنم لینے والے مفادپرستوں اور خوفزدہ افراد کا ایک گروہ تھا۔ مسلم لیگ (ق) کی بنیاد 12 اکتوبر 1999ءکو ہی پڑی تھی جب ایک فوجی آمر نے جمہوریت اور عوامی اداروں پر شب خون مارا اور اقتدار پر قبضہ کیا، اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے کئی ساتھیوں کو پس زنداں کردیا۔ 12اکتوبر کی بعد ابتداءمیں چند لیگیوں نی ہم خیال گروپ کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا۔ اور اس وقت کے آمر نے بھی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اس گروہ کے سرپر ہاتھ رکھا، پھر کیا تھا میٹھے پر مکھیوں کی طرح دیگر موقع پرست، مفاد پرست اور خوفزدہ افراد اس گروہ میں شامل ہوتے گئے۔ اس گروہ کی قیادت سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کر رہے تھے بعدازاں اس گروہ کو مسلم لیگ (قائداعظم) کا نام دیاگیا اور اسی پلیٹ فارم سے 2002ءکے انتخابات میں اس گروہ نے حصہ لیا۔ ایک فوجی آمر اور مطلق العنان حکمران کی سپورٹ کے باعث اگر چہ اس گروہ کو پوری ملک میںواضح کامیابی نہیں ملی تاہم یہ گروہ ایجنسےوں اور دیگر اداروں کی مدد سے مرکز، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔تاہم اس گروہ کے صدر میاں اظہر کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعدان کو قیادت کے عہدے سے ہٹاکر چودھری شجاعت حسےن کو صدر بنایا گیااور12اکتوبر1999ءسے17اگست2008ءکو پرویز مشرف کے استعفے تک مسلم لیگ (ق) آمر کی کنگز پارٹی کی طور پر کا م کرتی رہی درمیانی عرصے میں وقت کے فوجی آمر پرویزمشرف نے اس گروہ کو مزید مضبوط کرنے کی لیے نئی حکمت عملی اختیار کی جس کے تحت اعجاز الحق کی ضیاءلیگ، میاں منظور وٹو کی جونیجو لیگ، سردار فاروق لغاری کی ملت پارٹی، پیرپگارا کی (ف) لیگ، ایس ڈی اے امتیاز گروپ اور ایس ڈی ایےارباب گروپ کو ملا کر ایک نئی شکل دی گئی اور اس گروہ کا نام ایک مرتبہ پھر تبدیل کرکے صرف پاکستان مسلم لیگ رکھا گیا مگر (ق) کا سابقہ ختم نہ ہوسکا۔یہاں تک کہ کچھ عرصے میں مسلم لیگ (ف) کی سربراہ پیرپگارا نے اس اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کیا اور اپنی جماعت مسلم لیگ (ف) کو بحال کردیا۔
چھ ستمبر کا دن تو مسلم لیگ (ق) کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا، پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (ق) نے بھی صدارتی انتخابات میں قسمت آزمانی کا فیصلہ کیا جس کی لیے پارٹی کے مرکزی سےکریٹری جنرل مشاہد حسےن سےد کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ صدارتی انتخابات میں نہ صرف سابق اتحادیوں نے مسلم لیگ (ق) کا ساتھ دینے سے انکار کیا بلکہ خود مسلم لیگ (ق) کے ارکان نے بھی پارٹی سے برات کا اعلان کیا۔ 6 ستمبر کے صدارتی الیکشن کے نتائج کا اعلان ہوا تو پتا چلا کہ مسلم لیگ (ق) کی پٹاری میں جمع اکثر پرندی ہارس ٹریڈنگ( بقول چودھری شجاعت کی کھوتاٹریڈنگ )کاشکار ہوچکے ہیں اورجس کے باعث مسلم لیگ (ق)کے اپنے ارکان210ارکان میں سے اس کے امیدوار کو صرف 75ارکان کی حمایت ملی۔ باقی 135ارکان نے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے سائی میں پناہ تلاش کرلی۔ مسلم لیگ(ق) کے سےنیٹ میں38 اور قومی اسمبلی میں 54 ارکان ہیں، یہ مجموعی تعداد 92بنتی ہے مگر مشاہدحسےن کو صرف 34 ووٹ ملے۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے 84میں سے 36، سرحد میں 6 میں سے 3اور بلوچستان میں 19میں سے 2 نے پارٹی کی امیدوار کو اہل تصور کیا جبکہ سندھ کی تمام 9 لیگی ارکان نے (ق) لیگ کو عملاً مسترد کرکے آصف علی زرداری کو سپورٹ کیا۔ دراصل 6ستمبر 2008ءکو سابق فوجی آمر کی آخری نشانیوں میں سے اہم نشانی (ق) لیگ کے خاتمے کا اعلان ہوا۔ جس طرح ایک فوجی آمر ایوب خان کے استعفیٰ کے بعد جو انجام کنونشن لیگ کا ہوا تھا وہی انجام مسلم لیگ (ق) کا بھی ہوا۔ اب باقی بچنے والے 75ارکان بھی پناہ کی تلاش میں ہیں۔ امکان ہے کہ آیندہ چند ماہ میں مسلم لیگ (ق) کی پٹاری میں چودھری برادران ہی ہوںگے اور یوں مسلم لیگ (ق) کنگزپارٹی سے کنگال پارٹی میں تبدیل ہوگئی ۔
چھ ستمبر کے صدارتی انتخاب جہاں مسلم لیگ (ق) کی لیے عبرتناک شکست کا باعث بنی ویسے ہی ان انتخابات نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور وزیراعظم کے مشیر میاں منظور وٹو کی شخصیات کو بھی سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ صدارتی انتخابات سے قبل ان دونوں نے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو سبق سکھانے کے دعوے کیے مگر الیکشن کے نتائج نے ان دونوں شخصیات کوخود سبق سکھایا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پنجاب میں 370میں سے مسلم لیگ (ن) 185ارکان کی حمایت نہیں حاصل کرسکی گی جس کے بعد وزیراعلیٰ اور مسلم لیگ (ن) کی صدر شہباز شریف کو نئے سرے سے اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا۔ مگر نتائج آئے تو مسلم لیگ (ن) 201کے ساتھ بھرپور کامیاب رہے اور 160ارکان کی حمایت حاصل کرنے کے دعویداروں کو صرف 123 ارکان کی حمایت مل سکی۔ دراصل یہ دونوں شخصیات بھی ایک فوجی آمر کی باقیات میں سے ہیں جو نہیں چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوری قوتیں مضبوط ہوں اور جمہوری حکومتیں اپنی مدت پوری کریں۔ 6 ستمبر 2008ءکی صدارتی انتخابات کے بعد ان دونوں شخصیات کو اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے اپنے عہدوں سے الگ ہونا چاہیے تھا مگر ایسا کرنی کی بجائی اب وہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو لڑانے کی نئی منصوبہ بندی پر کام کر رہے ہیں اور اگر پی پی پی کی قیادت بالخصوص نومنتخب صدر پاکستان آصف علی زرداری نے توجہ نہیں دی تو پی پی پی کی لیے یہ دونوں ناسور ثابت ہوں گے۔
چھ ستمبر 2008ءکے صدارتی انتخابات جہاں پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے لئے خوشی اور فتح کا پیغام ثابت ہوئے وہیں مسلم لیگ (ق)، گورنر پنجاب سلمان تاثیر ور وزیراعظم کے مشیرمیاں منظوروٹو کیلئے عبرتناک شکست کا باعث بھی بنی ہیں۔ ان انتخابات نے یہ ثابت کردیا کہ مسلم لیگ (ق) کوئی سےاسی جماعت نہیں بلکہ ایک آمر کا تیار کیا ہوا مفادپرستوں کا ایک گروہ تھا۔ آمر کے خاتمے کے ساتھ ہی اس گروہ کا خاتمہ بھی ہوا جو ایک آمر کی آخری چند نشانیوں میں سے ایک خاص نشانی تھی۔ مسلم لیگ (ق) دراصل مسلم لیگ (ن) کی کوکھ سے جنم لینے والے مفادپرستوں اور خوفزدہ افراد کا ایک گروہ تھا۔ مسلم لیگ (ق) کی بنیاد 12 اکتوبر 1999ءکو ہی پڑی تھی جب ایک فوجی آمر نے جمہوریت اور عوامی اداروں پر شب خون مارا اور اقتدار پر قبضہ کیا، اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے کئی ساتھیوں کو پس زنداں کردیا۔ 12اکتوبر کی بعد ابتداءمیں چند لیگیوں نی ہم خیال گروپ کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا۔ اور اس وقت کے آمر نے بھی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اس گروہ کے سرپر ہاتھ رکھا، پھر کیا تھا میٹھے پر مکھیوں کی طرح دیگر موقع پرست، مفاد پرست اور خوفزدہ افراد اس گروہ میں شامل ہوتے گئے۔ اس گروہ کی قیادت سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کر رہے تھے بعدازاں اس گروہ کو مسلم لیگ (قائداعظم) کا نام دیاگیا اور اسی پلیٹ فارم سے 2002ءکے انتخابات میں اس گروہ نے حصہ لیا۔ ایک فوجی آمر اور مطلق العنان حکمران کی سپورٹ کے باعث اگر چہ اس گروہ کو پوری ملک میںواضح کامیابی نہیں ملی تاہم یہ گروہ ایجنسےوں اور دیگر اداروں کی مدد سے مرکز، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔تاہم اس گروہ کے صدر میاں اظہر کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعدان کو قیادت کے عہدے سے ہٹاکر چودھری شجاعت حسےن کو صدر بنایا گیااور12اکتوبر1999ءسے17اگست2008ءکو پرویز مشرف کے استعفے تک مسلم لیگ (ق) آمر کی کنگز پارٹی کی طور پر کا م کرتی رہی درمیانی عرصے میں وقت کے فوجی آمر پرویزمشرف نے اس گروہ کو مزید مضبوط کرنے کی لیے نئی حکمت عملی اختیار کی جس کے تحت اعجاز الحق کی ضیاءلیگ، میاں منظور وٹو کی جونیجو لیگ، سردار فاروق لغاری کی ملت پارٹی، پیرپگارا کی (ف) لیگ، ایس ڈی اے امتیاز گروپ اور ایس ڈی ایےارباب گروپ کو ملا کر ایک نئی شکل دی گئی اور اس گروہ کا نام ایک مرتبہ پھر تبدیل کرکے صرف پاکستان مسلم لیگ رکھا گیا مگر (ق) کا سابقہ ختم نہ ہوسکا۔یہاں تک کہ کچھ عرصے میں مسلم لیگ (ف) کی سربراہ پیرپگارا نے اس اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کیا اور اپنی جماعت مسلم لیگ (ف) کو بحال کردیا۔
چھ ستمبر کا دن تو مسلم لیگ (ق) کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا، پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (ق) نے بھی صدارتی انتخابات میں قسمت آزمانی کا فیصلہ کیا جس کی لیے پارٹی کے مرکزی سےکریٹری جنرل مشاہد حسےن سےد کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ صدارتی انتخابات میں نہ صرف سابق اتحادیوں نے مسلم لیگ (ق) کا ساتھ دینے سے انکار کیا بلکہ خود مسلم لیگ (ق) کے ارکان نے بھی پارٹی سے برات کا اعلان کیا۔ 6 ستمبر کے صدارتی الیکشن کے نتائج کا اعلان ہوا تو پتا چلا کہ مسلم لیگ (ق) کی پٹاری میں جمع اکثر پرندی ہارس ٹریڈنگ( بقول چودھری شجاعت کی کھوتاٹریڈنگ )کاشکار ہوچکے ہیں اورجس کے باعث مسلم لیگ (ق)کے اپنے ارکان210ارکان میں سے اس کے امیدوار کو صرف 75ارکان کی حمایت ملی۔ باقی 135ارکان نے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے سائی میں پناہ تلاش کرلی۔ مسلم لیگ(ق) کے سےنیٹ میں38 اور قومی اسمبلی میں 54 ارکان ہیں، یہ مجموعی تعداد 92بنتی ہے مگر مشاہدحسےن کو صرف 34 ووٹ ملے۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے 84میں سے 36، سرحد میں 6 میں سے 3اور بلوچستان میں 19میں سے 2 نے پارٹی کی امیدوار کو اہل تصور کیا جبکہ سندھ کی تمام 9 لیگی ارکان نے (ق) لیگ کو عملاً مسترد کرکے آصف علی زرداری کو سپورٹ کیا۔ دراصل 6ستمبر 2008ءکو سابق فوجی آمر کی آخری نشانیوں میں سے اہم نشانی (ق) لیگ کے خاتمے کا اعلان ہوا۔ جس طرح ایک فوجی آمر ایوب خان کے استعفیٰ کے بعد جو انجام کنونشن لیگ کا ہوا تھا وہی انجام مسلم لیگ (ق) کا بھی ہوا۔ اب باقی بچنے والے 75ارکان بھی پناہ کی تلاش میں ہیں۔ امکان ہے کہ آیندہ چند ماہ میں مسلم لیگ (ق) کی پٹاری میں چودھری برادران ہی ہوںگے اور یوں مسلم لیگ (ق) کنگزپارٹی سے کنگال پارٹی میں تبدیل ہوگئی ۔
چھ ستمبر کے صدارتی انتخاب جہاں مسلم لیگ (ق) کی لیے عبرتناک شکست کا باعث بنی ویسے ہی ان انتخابات نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور وزیراعظم کے مشیر میاں منظور وٹو کی شخصیات کو بھی سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ صدارتی انتخابات سے قبل ان دونوں نے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو سبق سکھانے کے دعوے کیے مگر الیکشن کے نتائج نے ان دونوں شخصیات کوخود سبق سکھایا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پنجاب میں 370میں سے مسلم لیگ (ن) 185ارکان کی حمایت نہیں حاصل کرسکی گی جس کے بعد وزیراعلیٰ اور مسلم لیگ (ن) کی صدر شہباز شریف کو نئے سرے سے اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا۔ مگر نتائج آئے تو مسلم لیگ (ن) 201کے ساتھ بھرپور کامیاب رہے اور 160ارکان کی حمایت حاصل کرنے کے دعویداروں کو صرف 123 ارکان کی حمایت مل سکی۔ دراصل یہ دونوں شخصیات بھی ایک فوجی آمر کی باقیات میں سے ہیں جو نہیں چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوری قوتیں مضبوط ہوں اور جمہوری حکومتیں اپنی مدت پوری کریں۔ 6 ستمبر 2008ءکی صدارتی انتخابات کے بعد ان دونوں شخصیات کو اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے اپنے عہدوں سے الگ ہونا چاہیے تھا مگر ایسا کرنی کی بجائی اب وہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو لڑانے کی نئی منصوبہ بندی پر کام کر رہے ہیں اور اگر پی پی پی کی قیادت بالخصوص نومنتخب صدر پاکستان آصف علی زرداری نے توجہ نہیں دی تو پی پی پی کی لیے یہ دونوں ناسور ثابت ہوں گے۔
Comment