Announcement
Collapse
No announcement yet.
Unconfigured Ad Widget
Collapse
COLUMN: Jamhuriat??
Collapse
X
-
Re: Jamhuriat??
aik baat aap sab ko batata chaloon keh ""AORAT KAY WOOT DAINAY KAY MAMLAY MIAN ...ABHI MAIN TAHQEEQ KAR RHA HON ...AS LIYAE AS MAMLAY MAIN BALKUL TAFSEEL SAY LIKHON GA. INSHA ALLAH..
AGAR KOI IS MAMLAY MIAN KUCH BATANA CHAHAY TOO LAZMI BATAY,PLZ.sigpic
Comment
-
Re: Jamhuriat??
اسلام علیکم سفرد بھائی !
ماشاء اللہ آپ نے بہت عمدہ طریقے سے جمہوری نظام کی خرابیوں کی طرف نشاندہی فرمائی جذاک اللہ.
سردست میں اس بحث میں نہیں پڑھنا چاہتا کہ اسلام اور جمہوریت کا تقابل کیا جائے کیونکہ میں اس مسئلہ میں اپنا نقطعہ نظر پہلے بھی ہمارے پیغام کی ایک قابل رکن محترمہ گل صاحبہ کے ساتھ اسی موضوع پر بتفصیل واضح کرچکا ہوں مگر میں انتہائی ادب کے ساتھ آپکی باتوں سے بعض جگہ اختلاف اور بعض جگہوں پر کچھ ترامیم و اضافہ جات کرنا چاہوں گا اور اسکے ساتھ ساتھ آخر میں مجھے آپ سے ایک وضاحت بھی درکار ہوگی امید کرتا ہوں آپ ضرور وضاحت فرما کر میری الجھن دور فرماکر مجھے شکریہ کا موقع دیں گے ۔
بے شک جمہوریت کی اساس جن اصولوں پر ہیں ان میں الحاد کو بڑا عمل دخل حاصل ہے کیونکہ ہمارے ہاں جو جمہوری سسٹم رائج ہے وہ بنیادی طور پر مغرب سے درآمد شدہ ہے لہذا یہ امر بدیہی ہے کہ اس مغربی نظام جمہوریت میں فطرتی طور پر الحادی نظریات بھی شامل ہوں جب ہم تاریخی اعتبار سے فلسفہ الحاد پر غور کرتے ہیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ فکری اور نظریاتی میدان میں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ الحاد اسلام کے مقابلے میں ناکام رہا البتہ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی میدانوں میں الحاد کو مغربی اور مسلم دنیا میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی ۔- سیاسی میدان میں الحاد کی سب سے بڑی کامیابی سیکولر ازم کا فروغ ہے۔ پوری مغربی دنیا اور مسلم دنیا کے بڑے حصے نے سیکولر ازم کو اختیار کرلیا۔ سیکولر ازم کا مطلب ہی یہ ہے کہ مذہب کو گرجے یا مسجد تک محدود کردیا جائے اور دین اور دنیا کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کردیا جائے اور یوں محض انسانی عقل کو برؤے کار لاتے ہوئے اور محض اسی(عقل) پر اکتفا کرتے ہوئے دین کے دائرہ کار کو نہایت ہی محدود کردیا جائے اور کاروبار زندگی کو خالصتاً انسانی عقل کے سپرد کردیا جائے کہ جس میں دینی تعلیمات کا کوئی بھی حصہ نہ ہو۔
مغربی دنیا نے تو سیکولر ازم کو پوری طرح قبول کر لیا اور اب اس کی حیثیت ان کے ہاں ایک مسلمہ نظریے کی ہے۔ انہوں نے اپنے مذہب کو گرجے کے اندر محدود کرکے کاروبار حیات کو مکمل طور پر سیکولر کر لیا ہے۔ اور اسی سیکولرازم سے مسلمانوں کا بھی ایک اچھا خاصہ طبقہ ہمیشہ سے ذہنی طور پر متاثر رہا ہے اس لئے ان میں سے بھی بہت سے ممالک نے سیکولر ازم کو بطور نظام حکومت کے قبول کرلیا۔ بعض ممالک جیسے ترکی اور تیونس نے تو اسے کھلم کھلا اپنانے کا اعلان کیا لیکن مسلم ممالک کی اکثریت نے سیکولر ازم اور اسلام کا ایک ملغوبہ تیار کرنے کی کوشش کی جس میں بالعموم غالب عنصر سیکولر ازم کا تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ سیکولر نظام کو مغربی فلسفہ جمہوریت سے فروغ حاصل ہوا ۔ اگرچہ جمہوریت عملی اعتبار سے اسلام کے مخالف نہیں کیونکہ اسلام میں بھی آزادی رائے اور شوریٰ کی بڑی اہمیت ہے، لیکن جمہوریت جن نظریاتی بنیادوں پر قائم ہے وہ خالصتاً ملحدانہ ہے۔ جمہوریت کی بنیاد حاکمیت جمہور کے نظریے پر قائم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر عوام کی اکثریت خدا کی مرضی کے خلاف فیصلہ دے دے تو ملک کا قانون بنا کر اس فیصلے کو نافذ کر دیا جائے۔ کیونکہ مغربی جمہوریت کا بنیادی فلسفہ ہی اس تعریف پر مبنی ہے کہ عوام کے لیے عوام کی رائے سے عوامی حکومت قائم کرنا۔اسلام نظریاتی طور پر جمہوریت کے اقتدار اعلیٰ کے نظریے کا شدید مخالف ہے۔ اسلام کے مطابق حاکمیت اعلیٰ جمہور کا حق نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اسلام کی نظر میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا اقتدار اعلیٰ تسلیم کرنا شرک ہے۔ سب سے بڑا اقتدار (Sovereignty) صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اس کے برعکس جہاں اللہ تعالیٰ نے کوئی ہدایت نہیں دی، وہاں عوام کی اکثریتی رائے اور مشورے سے فیصلہ کیا جانا چاہئے۔ اکثریت کی مرضی کے خلاف اس پر اقلیتی رائے کو مسلط کرنا اسلام میں درست نہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر معاملہ مشورے سے طے کریں۔ کیونکہ بنیادی طور پر ان معاملات میں کہ جن میں براہراست قرآن و سنت سے راہنمائی نہیں ملتی یا ایسے بہت سے معاملات جو کہ اللہ پاک نے بندوں کی صوابدید پر چھوڑ رکھے ہیں ان تمام معاملات میں اسلام کے ہاں* نظریہ جمہور کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارا شروع سے یہ مؤقف رہا ہے کہ جب تک پاکستان میں کلھم اسلامی نظام قائم نہیں ہوجاتا تب تک مغرب سے درآمد شدہ اس نظام جمہوریت میں ضروری ترامیم و اضافہ جات کرکے اس کو اسلامی لحاظ سے قابل عمل بنایا جاسکتا ہے اور اس سلسلے میں تمام مکاتب فکر کے علماء پر مبنی ایک مجلس شورٰی کا قیام عمل میں لایا جائے جو کہ اس نظام کو اسلامی اصولوں کے تحت قابل عمل بنانے کے لیے اپنی سفارشات مرتب کرئے ۔اورپھر ان سفارشات کی روشنی میں فی الفور اس نو مرتب شدہ نظام کو رائج کردیا جائے ۔
جہاں تک بات ہے عورتوں کے حق رائے دہی کے استعمال کی اسلام میں اس کی مطلقا کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ ویسے بھی ہم نے تاریخ کے ایک ادنٰی سے طالب علم کی حیثیت سے پڑھ رکھا ہے کہ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے بعد خلیفہ بننے کے لیے اس وقت امت کے چھ بہترین افراد کا انتخاب کیا اور ان پر مبنی ایک کمیٹی قائم کردی کہ جس زمہ داری خلیفہ کا انتخاب تھا اور اس کمیٹی میں حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت عبدالرحمان بن عوف ، حضرت سعد بن ابی وقاص حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضوان اللہ علیھم اجمعین شامل تھے ۔ جب ان میں سے حضرت طلحہ حضرت عثمان کے حق میں اور حضرت زبیر حضرت علی کہ حق میں اورحضرت سعد حضرت عبدالرحمان کے حق میں دستبردار ہوگئے تو بعض روایات کے مطابق حضرت عبدالرحمان اور حضرت سعد بن ابی وقاص نے مدینہ شریف میں گھر گھر جاکر عام عوام کے ساتھ ساتھ عوتوں سے بھی رائے طلب کی حتٰی کے ان لوگوں نے راہ جاتے قافلوں میں سے بھی جب کوئی قافلہ ملتا تو اس ے بھی رائے طلب کی اور جب کثرت رائے حضرت عثمان کے حق میں آئی تو پھر حضرت عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں بیعت کرلی اور یہ دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی آپکی بیعت کرلی اور پھر لوگ بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے ۔ باقی عام عوام کی رائے کے نظریہ کو باطل کرنے کے لیے جو فلسفہ آپ نے پیش فرمایا ہے وہ زیادہ تر ان آیات پر مبنی ہے کہ جن میں گواہی کے امور زیر بحث لائے گئے ہیں نہ کہ مطلق رائے شماری کے ۔ جب کہ ہمارے خیال میں کسی شخص کے بارے میں کسی بھی معاملے ( یعنی حدود و قصاص لین دین اور دیگر معاملات ) میں کسی بھی قسم کی گواہی دینا اور کسی شخصیت کے بارے میں محض اپنی رائے دینا یہ دونوں مختلف امر ہیں ۔ اور جہاں تک گواہی کے معاملات ہیں تو اگر آپ اسلامی قانوں فقہ کا بنظر غائر مطالعہ فرمائیں تو آپ پر یہ بات روشن ہوگئی کہ اسلام نے جہاں حدود کے معاملات میں عورتوں کی گواہی پر ایک طرح کی قید لگائی ہے وہیں پر بہت سے ایسے امور جو کہ خالصتا خانگی زندگی یا خالصتا عورتوں کے بعض مخصوص معاملات جیسے رضاعت جیسے مسائل پر مبنی ہیں وہاں پر اسلام نے مطلق عورتوں کی گواہی کو معتبر ٹھرایا ہے ۔ ۔ ۔
اب آخر میں آپ سے ایک وضاحت طلب ہے اور وہ آپکے بیان کردہ اس قانون کے بارے میں ہے کہ جو آپ نے درج زیل الفاظ میں بیان فرمایا ہے ۔ ۔ ۔۔
جبکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے امارت یا منصب طلب کرنا یا اسکی خواہش کرنا ایک مذموم فعل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا آپکے نزدیک مطلقا امارت طلب کرنا ایک مزموم فعل ہے یا صرف ان لوگون کے حق میں یہ مذموم ہے کہ جن کو اقتدار کی حرص و ہوس ہو اور دولت کا لالچ ہو اگر کوئی عوام کی فلاح و بہبود اور اللہ پاک کی بارگاہ میں اجرو ثواب کی خاطر اس عہدے کی خواہش رکھتا ہو اور وہ شخص کردار و سیرت ہر لحاظ سے نہات ہی بلند مقام پر فائز ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا
Comment
Comment