علماء کےمشترکہ فتوے کی ضرورت
ہارون رشید، اسلام آباد
بی بی سی اردوڈاٹ کام،اسلام آباد
صرف علماء ہی شدت پسندوں کو قائل کر سکتے ہیں کہ خودکش حملے کرنا غیرشرعی ہیں:پاکستان میں اس وقت سکیورٹی فورسز اور شدت پسندو کے درمیان ایک غیراعلانیہ جنگ جاری ہے۔
قبائلی علاقے باجوڑ اور صوبہ سرحد کے شورش زدہ ضلع سوات میں سکیورٹی فورسز کی بمباری سے روزانہ ایک دو نہیں درجنوں شدت پسندوں اور عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب شدت پسندوں نے بھی ایک کی جگہ دو دو بلکہ تین خودکش حملہ آور استعمال کرنا شروع کر دیئے ہیں۔
وزیر داخلہ رحمان ملک کہتے ہیں کہ شدت پسندوں کو مزید رعایت دینا اب ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔ دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان کہتی ہے کہ حکومتی کارروائیوں کے نتیجے میں وہ مزید خطرناک حملے کرسکتے ہیں۔
ایسے میں اس صورتحال کا حل کیا ہے؟ فوجی کارروائیاں اور امن معاہدے غیرموثر ثابت ہوئے ہیں۔ تو اب کیا کیا جانا چاہیے؟ ایک تجویز دہشتگردی کے خاتمے کے لیئے متفقہ قومی پالیسی کی تیاری کے لیے پارلیمان میں بحث کی بھی ہے۔
لیکن جو عناصر یا گروہ شدت پسندی میں ملوث ہیں ان کی اس پارلیمان میں نہ تو نمائندگی ہے اور نہ ہی انہیں اس پر اعتماد۔ ایسے میں ایوان کے اندر ہونے والے فیصلے حکومت کے سیاسی موقف کو مضبوط کرنے میں تو مدد دے سکتا ہے لیکن اس کو شدت پسند تسلیم کرلیں گے اس کا امکان کم ہی ہے۔ قبائلی علاقوں سے منتخب ہونے کے بعد وہاں کے اراکین پارلیمان کے لیے بھی آج کل وہاں جانا محفوظ تصور نہیں کیا جاتا۔
ایسے میں ایک عام آدمی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ شدت پسندوں کی تاویلوں اور آیات کی تشریح کا مناسب جواب دے سکے۔ ان کی سوچ تبدیل کرنا انہیں نظریاتی طور پر قائل کرنا آسان کام نہیں۔
علما کی ذمہ داری
عسکریت پسندوں کو اپنی سرگرمیاں روکنے اور خودکش حملے بند کرنے پر ایک ہی بات رضامند کرسکتی ہے اور وہ ہے ان علماء دین کا مشترکہ فتوی جن کی بات مقامی طالبان سنتے اور مانتے ہیں۔
ایسے میں عسکریت پسندوں کو اپنی سرگرمیاں روکنے اور خودکش حملے بند کرنے پر ایک ہی بات رضامند کرسکتی ہے اور وہ ہے ان علماء دین کا مشترکہ فتوی جن کی بات مقامی طالبان سنتے اور مانتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو انہیں یہ ماننے پر مجبور کرسکتے ہیں کہ پاکستان کے اندر جنگ لڑنا اور خودکش حملے کرنا شرعی طور پر حرام ہیں۔
ماضی میں حکومت اور بعض دیگر حلقوں کی جانب سے ایسے علماء سے فتوئے دلائے گئے جن کی اہمیت شدت پسندوں کے نزدیک کوئی خاص نہیں تھی۔ لہذا یہ تازہ فتوی ایسے افراد سے تیار کروایا جائے جن کی ان کی نظروں میں ایک حثیت ہے مقام ہے۔ اس سے شدت پسندوں کو معاشرے سے الگ تھلگ کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
ان علماء کی خاموشی سے ملک کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے اور صورتحال میں کسی تبدیلی کے بغیر مزید عام معصوم شہری مرتے یا تمام عمر کے لیئے اپاہج ہوتے رہیں گے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس جانب ابھی کسی نے توجہ نہیں دی ہے اور اس کےلیئے کوئی کوشش کی بھی نہیں جا رہی ہے۔
یہ کوشش ایک عالم دین کی کوشش سے نہیں ہوگا۔ ماضی میں چارسدہ سے تعلق رکھنے والے مولانا حسن جان نے اگر خودکش حملوں کو غیراسلامی فعل قرار دیا تو شاید اسی وجہ سے وہ آج ہم میں نہیں ہیں۔ یہ فرض ملک بھر کے کونے کونے سے تھوڑے یا بہت اثرو رسوخ والے تمام علماء کرام نے مل کر کرنا ہے۔
طالبان کی ساکھ
پاکستانی طالبان کی تازہ جوابی کارروائیوں سے ان کی ساکھ بری طرح متاثر ہونا شروع ہوچکی ہے۔ واہ کینٹ میں حملوں کے بعد پہلی مرتبہ عام لوگوں کو طالبان پر کڑی تنقید کرتے دیکھا گیا ہے۔
پاکستانی طالبان کی تازہ جوابی کارروائیوں سے ان کی ساکھ بری طرح متاثر ہونا شروع ہوچکی ہے۔ واہ کینٹ میں حملوں کے بعد پہلی مرتبہ عام لوگوں کو طالبان پر کڑی تنقید کرتے دیکھا گیا ہے۔ وہ پوچھنے پر مجبور ہیں کیا اسلام یہی سیکھاتا ہے کہ ایک غلط کارروائی کا جواب دوسری غلط کارروائی سے دیا جائے۔
تحریک طالبان کی جانب سے یکطرفہ جنگ بندی وقت حاصل کرنے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے۔ سکیورٹی فورسز کی اس مرتبہ کارروائی میں سو فیصد فضائی طاقت پر انحصار نے بظاہر طالبان کو لاجواب کر دیا ہے۔ اسی لیئے تحریک کے ترجمان مولوی عمر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستانی فوج کو زمینی جنگ کے لیئے کہا تھا۔
ایسے میں صورتحال کے مزید بگڑنے کی ہی توقع کی جاسکتی ہے۔ زیادہ گروپس زیادہ افراتفری زیادہ انتشار۔ ایسے میں شاید ملک کو مزید طالبانائزیشن سے بچنے کی ایک ہی راہ ہوسکتی ہے اور وہ ہے ان اہم علماء کرام کو متحرک کرنا اور کسی مشترکہ فتوی پر رضامند کرنا ہے۔ ان علماء کا شاید نام لینے کی ضرورت نہیں سب جانتے ہیں۔
معلوم نہیں پاکستان میں کرسی کی جنگ کب ختم ہوگی؟ عوام کے حقیقی مسائل جو ناصرف ان سے ایک اچھی زندگی بلکہ زندہ رہنے کا بھی حق بھی اب چھین رہے ہیں پر کون توجہ دے گا اور کب دے گا؟
ہے۔
ہارون رشید، اسلام آباد
بی بی سی اردوڈاٹ کام،اسلام آباد
صرف علماء ہی شدت پسندوں کو قائل کر سکتے ہیں کہ خودکش حملے کرنا غیرشرعی ہیں:پاکستان میں اس وقت سکیورٹی فورسز اور شدت پسندو کے درمیان ایک غیراعلانیہ جنگ جاری ہے۔
قبائلی علاقے باجوڑ اور صوبہ سرحد کے شورش زدہ ضلع سوات میں سکیورٹی فورسز کی بمباری سے روزانہ ایک دو نہیں درجنوں شدت پسندوں اور عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب شدت پسندوں نے بھی ایک کی جگہ دو دو بلکہ تین خودکش حملہ آور استعمال کرنا شروع کر دیئے ہیں۔
وزیر داخلہ رحمان ملک کہتے ہیں کہ شدت پسندوں کو مزید رعایت دینا اب ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔ دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان کہتی ہے کہ حکومتی کارروائیوں کے نتیجے میں وہ مزید خطرناک حملے کرسکتے ہیں۔
ایسے میں اس صورتحال کا حل کیا ہے؟ فوجی کارروائیاں اور امن معاہدے غیرموثر ثابت ہوئے ہیں۔ تو اب کیا کیا جانا چاہیے؟ ایک تجویز دہشتگردی کے خاتمے کے لیئے متفقہ قومی پالیسی کی تیاری کے لیے پارلیمان میں بحث کی بھی ہے۔
لیکن جو عناصر یا گروہ شدت پسندی میں ملوث ہیں ان کی اس پارلیمان میں نہ تو نمائندگی ہے اور نہ ہی انہیں اس پر اعتماد۔ ایسے میں ایوان کے اندر ہونے والے فیصلے حکومت کے سیاسی موقف کو مضبوط کرنے میں تو مدد دے سکتا ہے لیکن اس کو شدت پسند تسلیم کرلیں گے اس کا امکان کم ہی ہے۔ قبائلی علاقوں سے منتخب ہونے کے بعد وہاں کے اراکین پارلیمان کے لیے بھی آج کل وہاں جانا محفوظ تصور نہیں کیا جاتا۔
ایسے میں ایک عام آدمی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ شدت پسندوں کی تاویلوں اور آیات کی تشریح کا مناسب جواب دے سکے۔ ان کی سوچ تبدیل کرنا انہیں نظریاتی طور پر قائل کرنا آسان کام نہیں۔
علما کی ذمہ داری
عسکریت پسندوں کو اپنی سرگرمیاں روکنے اور خودکش حملے بند کرنے پر ایک ہی بات رضامند کرسکتی ہے اور وہ ہے ان علماء دین کا مشترکہ فتوی جن کی بات مقامی طالبان سنتے اور مانتے ہیں۔
ایسے میں عسکریت پسندوں کو اپنی سرگرمیاں روکنے اور خودکش حملے بند کرنے پر ایک ہی بات رضامند کرسکتی ہے اور وہ ہے ان علماء دین کا مشترکہ فتوی جن کی بات مقامی طالبان سنتے اور مانتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو انہیں یہ ماننے پر مجبور کرسکتے ہیں کہ پاکستان کے اندر جنگ لڑنا اور خودکش حملے کرنا شرعی طور پر حرام ہیں۔
ماضی میں حکومت اور بعض دیگر حلقوں کی جانب سے ایسے علماء سے فتوئے دلائے گئے جن کی اہمیت شدت پسندوں کے نزدیک کوئی خاص نہیں تھی۔ لہذا یہ تازہ فتوی ایسے افراد سے تیار کروایا جائے جن کی ان کی نظروں میں ایک حثیت ہے مقام ہے۔ اس سے شدت پسندوں کو معاشرے سے الگ تھلگ کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
ان علماء کی خاموشی سے ملک کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے اور صورتحال میں کسی تبدیلی کے بغیر مزید عام معصوم شہری مرتے یا تمام عمر کے لیئے اپاہج ہوتے رہیں گے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس جانب ابھی کسی نے توجہ نہیں دی ہے اور اس کےلیئے کوئی کوشش کی بھی نہیں جا رہی ہے۔
یہ کوشش ایک عالم دین کی کوشش سے نہیں ہوگا۔ ماضی میں چارسدہ سے تعلق رکھنے والے مولانا حسن جان نے اگر خودکش حملوں کو غیراسلامی فعل قرار دیا تو شاید اسی وجہ سے وہ آج ہم میں نہیں ہیں۔ یہ فرض ملک بھر کے کونے کونے سے تھوڑے یا بہت اثرو رسوخ والے تمام علماء کرام نے مل کر کرنا ہے۔
طالبان کی ساکھ
پاکستانی طالبان کی تازہ جوابی کارروائیوں سے ان کی ساکھ بری طرح متاثر ہونا شروع ہوچکی ہے۔ واہ کینٹ میں حملوں کے بعد پہلی مرتبہ عام لوگوں کو طالبان پر کڑی تنقید کرتے دیکھا گیا ہے۔
پاکستانی طالبان کی تازہ جوابی کارروائیوں سے ان کی ساکھ بری طرح متاثر ہونا شروع ہوچکی ہے۔ واہ کینٹ میں حملوں کے بعد پہلی مرتبہ عام لوگوں کو طالبان پر کڑی تنقید کرتے دیکھا گیا ہے۔ وہ پوچھنے پر مجبور ہیں کیا اسلام یہی سیکھاتا ہے کہ ایک غلط کارروائی کا جواب دوسری غلط کارروائی سے دیا جائے۔
تحریک طالبان کی جانب سے یکطرفہ جنگ بندی وقت حاصل کرنے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے۔ سکیورٹی فورسز کی اس مرتبہ کارروائی میں سو فیصد فضائی طاقت پر انحصار نے بظاہر طالبان کو لاجواب کر دیا ہے۔ اسی لیئے تحریک کے ترجمان مولوی عمر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستانی فوج کو زمینی جنگ کے لیئے کہا تھا۔
ایسے میں صورتحال کے مزید بگڑنے کی ہی توقع کی جاسکتی ہے۔ زیادہ گروپس زیادہ افراتفری زیادہ انتشار۔ ایسے میں شاید ملک کو مزید طالبانائزیشن سے بچنے کی ایک ہی راہ ہوسکتی ہے اور وہ ہے ان اہم علماء کرام کو متحرک کرنا اور کسی مشترکہ فتوی پر رضامند کرنا ہے۔ ان علماء کا شاید نام لینے کی ضرورت نہیں سب جانتے ہیں۔
معلوم نہیں پاکستان میں کرسی کی جنگ کب ختم ہوگی؟ عوام کے حقیقی مسائل جو ناصرف ان سے ایک اچھی زندگی بلکہ زندہ رہنے کا بھی حق بھی اب چھین رہے ہیں پر کون توجہ دے گا اور کب دے گا؟
ہے۔
Comment