Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

VIEWS: Aik Sawal

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • VIEWS: Aik Sawal

    السلام علیکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    پہلے میں یہ بتاتا چلوں کہ یہ تھریڈ یا یہ سوال کسی مکتبہ فکر کو تنگ کرنے کیلئے ہرگز نہیں لگایا جا رہا ہے بلکہ مجھے وہ وجوہات معلوم کرنی ہیں جس کی بنا پر اس مکتبہ فکر کے دوست احباب ایسا کرتے ہیں۔۔۔۔اُمید ہے کوئی غلط رنگ نہیں دے گا یہ ایک تعمیری بحث ہوگی انشااللہ ۔۔۔۔۔

    سوال : بریلوی حضرات انگوٹھے چومتے ہیں جب بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آتا ہے یہ کیوں کیا جاتا ہے اس کے پس پردہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر ایسا کیا جاتا ہے ؟
    اُمید رکھتا ہوں کہ مجھے تعمیر جواب ملے گا میں یہاں ہرگز ہرگز فرقہ بندی نہیں کر رہا پس اس بارے میں معلومات چاہتا ہوں اور اُمید ہے کہ عابد بھائی تفصیلی جواب دیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    جواب کا منتظر
    خرم اعجاز

  • #2
    Re: Aik Sawal

    Wa salaam Khurram

    Bohat ajeeb baat hai keh main bhi aaj isi qisam ka aik thread laganey ka soch raha tha....

    Yeh baat mujhey bhi maloom karna hai keh angoothey aur woh bhi khaas ker nakhunon ko choomna aur aankhon per laganey ki kya haqeeqat hai?

    Bohat achha ho keh koi Brevli sahib iska kisi musnad sanad sey jawab nawazein...
    tumharey bas mein agar ho to bhool jao mujhey
    tumhein bhulaney mein shayid mujhey zamana lagey

    Comment


    • #3
      Re: Aik Sawal

      Walikum Assalam

      Shaid respect deny k lye kiya jata hai......pr real jawab ki main bhi muntazir hoon.

      Comment


      • #4
        Re: Aik Sawal

        aslam o alykum...........................

        اسلام علیکم خرم بھائی اینڈ مسعود بھائی !
        آپ دونوں حضرات سے معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ یہ میری سمجھ سے باہر ہے کہ خرم بھائی اور آپ اس مسئلہ کے بارے میں جاننے کے لیے کیوں اتنے فکر مند ہیں؟ اور یہ بات بھی میری سمجھ سے باہر ہے کہ اس قسم کے (فروعی اختلافی مسائل کہ جن کا فقہی اعتبار سے مستحب ہونا ثابت ہے) مسائل کو لیکر آخر کب تک امت آپس میں جھگڑتی رہے گی؟ حالانکہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ خرم بھائی کے دیوبندی مکتبہ فکر کے علماء کرام کے ساتھ بڑے نیازمندانہ تعلقات ہیں اور جو مسئلہ انھوں نے دریافت فرمایا ہے وہ مابین اہلسنت والجماعت اور دیوبند مکتبہ نیز وہابی مکتبہ فکر کے نزاعی یعنی اختلافی مسئلہ ہے اور یہ بات بھی میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ خود خرم بھائی جو کہ ایک نہایت ہی منجھے ہوئے قلمکار ہیں اور نیٹ کی صحافت میں اپنے مخصوص طرز تحریر سے پہچانے جاتے ہیں ان کو اس مسئلہ کی حقیقت معلوم نہ ہو حالانکہ ان کا علماء دیوبند کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ثابت ہے ۔ اوراس بات کا اندازہ انکی ماضی کی چند تحاریر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ ایک آدمی جو مختلف دینی ،سماجی ، معاشی اور معاشرتی مسائل پر نہ صرف کڑی نظر رکھتا ہو بلکہ خاص اپنا ایک نقطعہ نظر بھی رکھتا ہو اور پھر اس کا اٹھنا بیٹھنا بھی علماء کرام کے ساتھ ہو تعجب ہے کہ اس شخص کو ایک عام سے فروعی مسئلہ کے بارے میں معلومات نہ ہو ؟ حالانکہ میں جب خود ساتویں جماعت کا طالب علم تھا تو ان تمام مسائل پر مختلف کتابیں پڑھ چکا تھا جو کہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کی تحاریر پر مبنی تھیں اور چھٹی جماعت کا طالب علم ہوتے ہوئے میں نے امام غزالی کی مکاشفۃالقلوب جو کہ تصوف کے موضوع پر ہے کا اردو ترجمہ پڑھ لیا تھا لیکن آپ لوگ ابھی تک انھی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
        خیر اگر آپ لوگ چاہتے ہیں کہ پیغام پر بھی وہی سب کچھ ہو جو کہ دیگر فورمز پر ہوتا ہے تو میں آپ سب کے لیے اس مسئلہ کے دلائل کو ضرور ذکر کروں گا لیکن پھر ہوگا کیا ؟ پھر ہوگا یہ کہ بہت سے دیوبندی مکاتب فکر کے لوگ آجائیں گے اس مسئلہ میں ہمارے پیش کردہ دلائل کا رد لیکر اور پھر انکی مدد کو سلفی وہابی مکاتب فکر کے لوگ بھی میدان میں کود پڑیں گے اور پھر جسکا جو منہ میں آئے وہ کہتا پھرے گا اور خلط مبحث کرتا پھرے گا اور اصل نفس مسئلہ سے توجہ ہٹ کر باہمی اختلاف و خلفشار کی صورت اختیار کرلے گی پھر ایک دوسرے پر کفر و شرک بدعت کے فتوے لگیں گےاور نتیجتا ایک بار پھر سے وہی نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہوجائے گی ۔کہ جس جنگ سے میں نے اپنی حد تک ہمیشہ کوشش کی ہے کہ پیغام کے صفحات کو بچایا جائے ۔ ۔ ۔ حالانکہ میں خود بھی بعض اختلافی مسائل پر دیگر فورمز پر لکھتا ہوں بحث و مباحثہ بھی کرتا ہوں لیکن پیغام پر اجتناب کرتا ہوں کہ پیغام کا یہ مزاج نہیں ہے جب کے دیگر ایسے فورمز جو کہ مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کرتے ہوں (یا پھر خود کو نیوٹرل ظاہر کرتے ہوں اور جہاں اس قسم کے مسائل پر گفتگو کی اجازت ہو )وہاں جاکر اس قسم کے مسائل بلکہ اس سے بڑھ کر جو اصل نزاعی موضوعات ہیں ان پر میں بھی اپنا نقطعہ نظر واضح کرنے کے حق میں ہوں کیونکہ اُن فورمز پر اس چیز کی اجازت ہوتی ہے بلکہ ان فورمز کا عمومی مزاج ہی یہی ہوتا ہے
        ۔۔خیر اب آتا ہوں اصل مسئلہ کی جانب ۔ ۔ ۔
        تو قارئین کرام اس مسئلہ (یعنی اذان میں اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سن کر انگوٹھے چومنا )کی حقیقت کو سمجھنے پہلے یہ بات زہن میں رکھیں کہ فقہی اعتبار سے یہ مسئلہ نہ تو فرض ہے اور نہ واجب کے درجہ میں ہے بلکہ یہ مسئلہ استحباب کے درجہ میں ہے تو لہذا ان اس مسئلہ کو سمجھنے سے پہلے فرض ، واجب اور مستحب کی تعریفات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے ہم درج زیل میں ترتیب کے ساتھ ان تمام کی تعریفات نقل کرتے ہین تاکہ قارئین کے کو مسئلہ سمجھنے میں آسانی رہے ۔
        فرض : کا لغوی معنی مقرر کرنا اور لازم کرنا ہے یہ لفظ انھی معنوں میں قرآن پاک میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قد علمنا ما فرضنا علیھم فی ازواجھم ۔ ۔ سورہ الاحزاب
        ترجمہ بیشک ہم جانتے ہیں کہ جوکچھ ہم نے مقرر (لازم ) کیا اُن پر ازواج کے لیے ۔
        فرض کی اصطلاحی تعریف : فرض وہ ہوتا ہے جو کہ دلیل قطعی ثابت ہو یعنی قرآن و حدیث کی ایسی واضح نص یعنی دلیل کہ جس میں کسی قسم کے کوئی شبہ کی گنجائش نہ ہو اور فرائض شریعت میں مقرر ہیں ان م یں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی جیسے نماز پنجگانہ، روزہ زکواۃ ،حج وغیرہ کیونکہ شریعت ان افعال کو کرنے کا لازمی مطابہ کرتی ہے اس لیے بھی انکو فرض کہا جاتا ہے ۔
        فرض کا حکم : فرض میں چونکہ فعل کے بجا لانے کا لازمی مطالبہ ہوتا ہے اس لیے انکے کرنے پر ثواب اور نہ کرنے پر گناہ ہوتا ہے اور اسکی فرضیت کے انکار سے کفر لازم ہوتا ہے یعنی کوئی اگر نماز کی فرضیت ہی کا انکار کربیٹھے تو وہ بالاجماع کافر ہے ۔ ۔ ۔
        واجب کی لغوی تعریف :لغوی اعتبار سے واجب کے تین معنٰی ہیں لزوم ، ثبوت ، سقوط
        اصطلاحی تعریف : یہ فرض کا قائم مقام ہوتا ہے اور یہ ایسا حکم کہ جس کے کرنے کا شریعت نے لازمی مطالبہ کیا ہو مگر وہ اپنے ثبوت کے اعتبار سے قطعی نہ ہو بلکہ بلکہ ظنی الدلیل ہو یعنی قرآن و سنت کی کسی ایسی نص سے ثابت ہو کہ جس میں شبہ پائے جائے یعنی اس کا مفھوم تواپنے تعین میں فرض کی طرح واضح ہو لیکن اسکا ثبوت اپنے اثبات میں قطعی نہ ہو بلکہ کسی شبہ کا شکار ہو جیسے درج زیل حدیث ۔ ۔ ۔
        ان رسول اللہ صلی علیہ وسلم فرض زکواۃ الفطر من رمضان علی الناس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
        ترجمہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں پر رمضان میں صدقہ فطر کو فرض یعنی واجب کیا
        اس حدیث میں اگرچہ فرض کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کہ فرضیت پر دلالت کرتا ہے مگر چونکہ یہ حدیث خبر واحد ہے اور اخبار احاد اپنے ثبوت کے اعتبار سے ظنی ہوتی ہیں لہذا ان میں فرض کی شرط یعنی قطعیت یعنی قطعی دلیل کے نہ پائے جانے کی وجہ سے ان سے ثابت ہونے والا کوئی بھی حکم فرض کا درجہ نہیں(کیونکہ فرض اپنے ثبوت اور مدلول پر اپنی دلالت دونوں میں قطعی ہوتا ہے جبکہ واجب اپنے مدلول پر دلالت میں تو قطعی ہوتا ہے مگر ثبوت میں ظنی ہوتا ہے) پاسکتا بلکہ وہ وجوب کے درجہ میں آجائے گا ۔
        واجب کا حکم :واجب کا حکم فرض ہی کی طرح ہے یعنی اس کا بجا لانا ضروری ہے مگر اس کے وجوب کا انکار کرنے والا فرض کے انکار کرنے والے کی طرح کافر نہیں ہوگا بلکہ گمراہ کہلائے گا ۔
        مستحب کی تعریف : مستحب یہ استحباب مصدر سے باب استفعال ہے اور اس کا مادہ حب ہے یعنی پسندیدہ ۔ ۔ ۔
        اصطلاحی تعریف :یہ ایسا فعل ہوتا ہے کہ شریعت میں جس کے کرنے والے کی تعریف کی جائے اور نہ کرنے والے کو ملامت نہ کیا جائے ۔ یعنی شریعت کا کسی ایسے کام کو طلب کرنا کہ جس کے ترک پر کچھ بھی لازم نہ آئے یعنی مذمت بھی نہ ہو ۔
        مستحب کا حکم : جس پر عمل کرنا اس پر نہ عمل کرنے سے بہتر ہو اور عمل کے ترک پر کوئی باز پرس نہ ہو۔
        مستحب کی مثالیں : جیسے وضو کے بعد دورکت نماز نفل پڑھنا اگرچہ یہ فعل سنت سے ماخوذ ہے لیکن اپنے اطلاق کے اعتبار سے مستحب کے ضمرے میں آتا ہے ۔
        اب آتے ہیں اصل مسئلہ کی طرف تو جیسا کہ ہم نے سب سے پہلے بھی عرض کیا کہ مذکورہ مسئلہ (اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر انگوٹھے چومنا)کی فقہی نوعیت مستحب کی سی ہے لہذا سب سے پہلے ہم اس مسئلہ کےثبوت پر گفتگو کریں گے ۔ ۔ ۔
        امام سخاوی علیہ رحمہ اپنی شہرہ آقاق کتاب المقاصد الحسنہ فی بیان کثیر من الاحادیث المشتھرہ علی السنہ میں حدیث درج کرتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ مؤذن سے اشھد ان محمد رسول اللہ کے الفاظ مبارک سن کر شہادت کی انگلیوں کے پورے اندرون کی جانب سے چوم کر آنکھوں پر ملنا اور یہ دعا پڑھنا (کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور میں اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوں)اس حدیث کو ویلمی نے الفردوس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب آپ نے مؤذن کو اشھد ان محمد رسول اللہ کہتے سنا تو یہ دعا پڑھی اور اپنی شہادت کی انگلیوں کے پورے چوم کر اپنی آنکھوں پر لگائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی ایسا کرے کہ جیسا میرے خلیل نے کیا توا س پر میری شفاعت حلال ہوگی ۔ ۔ اور یہ حدیث محدثین کی اصطلاح میں درجہ صحت کو نہ پہنچ سکی اور امام سخاوی نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد لایصح فرمایا ۔ ۔ یعنی یہ حدیث صحیح نہیں ہے
        یہاں ایک بات یہ بھی مد نظر رہے کہ فن حدیث میں کسی محدث کا کسی حدیث کو لایصح کہہ دینا زیادہ سے زیادہ یہی ثابت کرئے گا کہ وہ حدیث صحیح نہیں ہے نہ کہ لا یصح کہہ دینے سے کوئی بھی حدیث ضعیف ہوجاتی ہے بلکہ خود صحیح حدیث کے بھی مدارج ہیں پھر اس کے بعد حسن کےمدارج ہیں پھ کہیں جاکر ضعیف کی باری آتی ہے اور اس کے بھی کئی درجے ہیں جن میں سب سے آخر والا درجہ موضوع یعنی من گھڑت حدیث ہوتا ہے اب اس مقام پر میں ایک اور چیز کی وضاحت کرتا چلوں کہ اس باب (یعنی اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر انگوٹھے چومنا )میں جتنی بھی روایات آئیں ہیں وہ ضعیف ہیں یعنی کمزور ہیں اور علم حدیث کے ایک مبتدی طالب علم کے لیے یہ امر پوشیدہ نہ ہوگا کہ اس قسم کی احادیث سے اصل مقصود فضائل ہی ہوتے ہیں یعنی کسی شخصیت یا کسی کام کی فضیلت ثابت کرنا نہ کے احکام کہ جن کے لیے صحیح حدیث کا ہونا ضروری ہو ۔ یعنی یہ احادیث کمال تعظیم مصطفٰی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے باب میں فضیلت بیان کر رہی ہیں لہذا محدثین کےجمہور کے اس فیصلہ کے پیش نظر کہ فضائل کے باب میں ضعیف حدیث بھی معتبر ہوتی ہیں اس قسم کی احادیث پر عمل کرلینا جائز ہے اور باعث برکت ہے ۔کیونکہ ضعیف حدیث عقائد و احکام کے علاوہ جمہور کے نزدیک قابل عمل ہے ، عقائد و احکام کے باب میں تشدد (یعنی سختی یعنی صرف صحیح حدیث کا قابل حجت ہونا) جب کے ترہیب و ترغیب کے باب میں تساہل
        (یعنی سستی و نرمی یعنی ضعیف احادیث کا بھی قابل عمل ہونا) مشھور محدث حافظ سخاوی علیہ رحمہ نے امام احمد، ابن معین ،،ابن المبارک،سفیان ثوری اور ابن عینیہ سے نقل کی ہے ۔ اور امام نووی نے تو اس پر اجماع کا دعوٰی نقل کیا ہے ۔
        امام نووی کی الاربعین کی شرح میں ابن حجر مکی فرماتے ہیں کہ فضائل اعمال کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل پر علماء کا اتفاق ہے کیونکہ اگر وہ واقعی صحیح تھی تو اس کو اسکا حق مل گیا
        (یعنی اس پر عمل ہوجانے کی صورت میں) وگرنہ اس پر عمل کرنے سے نہ تو حلال کو حرام کرنا لازم آیا اور نہ ہیا س کے برعکس اور نہ ہی کسی کا حق مارا گیا ۔ ۔ ۔
        جب محدثین کے متفقہ فیصلہ سے یہ ثابت ہوگیا کہ ضعیف احادیث فضائل کے باب میں نافذ العمل ہیں تو اب میرے خیال میں عقل کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ آداب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی کامل تعظیم کو مد نظر رکھتے ہوئے جو کوئی بھی ایسا کرئے ہم اس کے اس فعل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال تعظیم پر محمول کریں کہ جس طرح امام بخاری کے بارے میں مشھور ہے کہ انھوں نے اپنی صحیح میں ہر ہر حدیث کو لکھنے سے پہلے غسل فرمایا اور دو رکعت نماز نفل ادا کی اور پھر حدیث لکھی اب یہ امام بخاری کا کمال ادب مصطفٰی تھا حالانکہ کسی حدیث میں ایسا نہیں آیا کہ کسی بھی حدیث کو لکھنے یا بیان کرنے سے پہلے غسل کرو اور دو رکعت نماز نفل ادا کرو اسی طرح امام مالک کے بارے مین مشھور ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جب کبھی بھی نام سنتے تو ان کا رنگ (بوجہ ہیبت و عظمت اس محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) متغیر ہوجاتا اور نام اقدس سننے کی وجہ سے سر نگوں ہوجاتے اب اوپر بیان کیا گیا امام بخاری کا عمل اور نیچے امام مالک علیہ رحمہ کا عمل دونوں ہی کمال محبت اور عظمت و توقیر مصطفٰی پر دلالت کرتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ دونون ائمہ کے پاس اپنے اس عمل کی کوئی برارست دلیل قرآن وسنت سے نہیں ہے سوائے عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جب کے نام نامی سن کر انگھوٹھے چومنے والوں کے پاس کم از کم حدیث سے دلیل تو ہے چاہے فن کے اعتبار سے کمزور حدیث ہی سہی خیر اس مسئلہ کی اصل کو احادیث کے حوالہ سے ثابت کرنے کے بعد ایک یہ بھی چیز عرض کردوں کہ عموما اس قسم کے جتنے بھی اختلافی مسائل انکو بریلوی علماء کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے کہ یہ انکی کی ایجاد و اختراع ہیں دین میں اور انکا کوئی تعلق دین کے ساتھ نہیں اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ ان کی ایجاد کرنے کے بعد ہی وجود میں آئے وگرنہ متقدمین علماء کو ان مسائل کی بھنک بھی نہ پڑی تھی یہ بہت بڑا ظلم ہے اس مکتبہ فکر کے ساتھ اور میں سمجھتا ہوں اس ضمن میں جتنے بھی اس قسم کے مسائل ہیں ان سب میں بریلوی مکتبہ فکر مظلوم کی حیثیت رکھتا ہے اور میں یہ ثابت بھی کرسکتا ہوں کہ اس قسم کے تمام مسائل میں اس وقت کے متقدمین اہل سنت والجماعت علماء کی بے شمار تصریحات ملتی ہیں کہ جس وقت بریلوی مکتبہ فکر تو کیا خود بریلی شہر کی بھی کوئی وجہ شہرت تاریخی اعتبار سے منظر عام پر نہ آئی تھی ۔
        اب آخر میں یہ بھی بتا دوں کہ اسم محمد سن کر انگھوٹھے چومنے کا مسئلہ متقدمین حنفی علماء نے اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے اور اس کا استحباب بھی ثابت کیا ہے جن میں علامہ شامی ملا علی قاری اور شیخ محدث عبدالحق دہلوی شامل ہیں یاد رہے کہ علماء دیوبند اور بریلی دونوں کے نزدیک مندرجہ بالا شخصیات کی حیثیت متفقہ و مسلمہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
        Last edited by aabi2cool; 7 July 2008, 18:50.
        ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

        Comment


        • #5
          Re: VIEWS: Aik Sawal

          Jazzakk Allah
          Aabii Bhaiiiii
          "Can you imagine what I would do if I could do all I can? "

          Comment


          • #6
            Re: VIEWS: Aik Sawal

            Hmm yani ye ik mustahib hai.....jo k na wajib hai na hi farz
            itni dtailed info k lye thx....
            beech mai kuch cheezin mujeh (words) mujeh samajh nahi aye pr phr bhi overall ik cheez hai jo k clear hai

            thx n KHUSH RAHYEE!

            Comment


            • #7
              Re: VIEWS: Aik Sawal

              Originally posted by Shaim View Post
              Hmm yani ye ik mustahib hai.....jo k na wajib hai na hi farz
              itni dtailed info k lye thx....
              beech mai kuch cheezin mujeh (words) mujeh samajh nahi aye pr phr bhi overall ik cheez hai jo k clear hai

              thx n KHUSH RAHYEE!
              aap ko jis lafaz ki samjh anheen aai mujh se pouch lain main mazeed asan kar k wazhat kardeta hon dear sister
              ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

              Comment


              • #8
                Re: Aik Sawal

                Originally posted by aabi2cool View Post
                aslam O Alykum...........................


                امام سحاوی علیہ رحمہ اپنی شہرہ آقاق کتاب المقاصد الحسنہ فی بیان کثیر من الاحادیث المشتھرہ علی السنہ میں حدیث درج کرتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ مؤذن سے اشھد ان محمد رسول اللہ کے الفاظ مبارک سن کر شہادت کی انگلیوں کے پورے اندرون کی جانب سے چوم کر آنکھوں پر ملنا اور یہ دعا پڑھنا (کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور میں اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوں)اس حدیث کو ویلمی نے الفردوس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب آپ نے مؤذن کو اشھد ان محمد رسول اللہ کہتے سنا تو یہ دعا پڑھی اور اپنی شہادت کی انگلیوں کے پورے چوم کر اپنی آنکھوں پر لگائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی ایسا کرے کہ جیسا میرے خلیل نے کیا توا س پر میری شفاعت حلال ہوگی ۔ ۔ اور یہ حدیث محدثین کی اصطلاح میں درجہ صحت کو نہ پہنچ سکی اور امام سخاوی نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد لایصح فرمایا ۔ ۔ یعنی یہ حدیث صحیح نہیں ہے
                یہاں ایک بات یہ بھی مد نظر رہے کہ فن حدیث میں کسی
                وعلیکم السلام عابد بھائی :
                ماشااللہ آپ نے کافی تفصیلی جواب دیا ہے جس میں آپ نے فرض،واجب اور مستحب کی تعریف بھی بتلائی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتلایا ہے کہ لایصح کی کیو نوعیت ہے فرض،واجب،مستحب پر تو ہماری بحث نہیں البتہ لایصح پر بحث ہو سکتی ہے لیکن لایصح پر بحث انشااللہ بعد میں کی جائے گی نیز اس حدیث مبارکہ پر بھی بعد میں بحث کی جائے گی کہ اس کی نوعیت محدثین کے سامنے کیا ہے۔۔۔۔۔اول آپ مجھے صرف اتنا بتلا دیں کہ شہادت کی انگلیوں کو انگوٹھے کہا جاتا ہے کیا ؟ جو حدیث مبارکہ آپ نے پیش کی ہے اس کے بارے میں لایصح بھی آپ نے بتلا دیا ہے کہ یہ حدیث صحت کو نہ پہنچ سکی چلیں تھوڑی دیر کیلئے آپ کی بات کو سر خم تسلیم کر لیتے ہیں پس اس بات کا جواب دیں کہ شہادت کی انگلیوں کو انگوٹھے کہتے ہیں کیا ؟

                Comment


                • #9
                  Re: Aik Sawal

                  Originally posted by *Roomi* View Post
                  وعلیکم السلام عابد بھائی :


                  ماشااللہ آپ نے کافی تفصیلی جواب دیا ہے جس میں آپ نے فرض،واجب اور مستحب کی تعریف بھی بتلائی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتلایا ہے کہ لایصح کی کیو نوعیت ہے فرض،واجب،مستحب پر تو ہماری بحث نہیں البتہ لایصح پر بحث ہو سکتی ہے لیکن لایصح پر بحث انشااللہ بعد میں کی جائے گی نیز اس حدیث مبارکہ پر بھی بعد میں بحث کی جائے گی کہ اس کی نوعیت محدثین کے سامنے کیا ہے۔۔۔۔۔اول آپ مجھے صرف اتنا بتلا دیں کہ شہادت کی انگلیوں کو انگوٹھے کہا جاتا ہے کیا ؟ جو حدیث مبارکہ آپ نے پیش کی ہے اس کے بارے میں لایصح بھی آپ نے بتلا دیا ہے کہ یہ حدیث صحت کو نہ پہنچ سکی چلیں تھوڑی دیر کیلئے آپ کی بات کو سر خم تسلیم کر لیتے ہیں پس اس بات کا جواب دیں کہ شہادت کی انگلیوں کو انگوٹھے کہتے ہیں کیا ؟
                  w/salaaam . . . . . . .

                  اسلام علیکم محترم خرم بھائی
                  جی تو اب آپ بحث برائے بحث پر اتر آئے ہیں اور وہی سب کچھ ہونے جارہا ہے جس کی میں نے پہلے بھی نشاندہی کردی تھی خیر مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن اتنا عرض کردوں کہ اگر ہم نے اس سارے معاملے کا قرآن و سنت اور اکابرین امت کے اقوال کی روشنی میں مستحب ہونا ثابت کردیا تو پھر آپ کو بھی ماننا پڑے گا اور یہ اعلان واشگاف کرنا پڑے گا کہ جو علماء ا س معاملے میں ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ حق پر نہیں ہیں۔اور یہ بھی یاد رہے کہ اب میں اس معاملے میں آپکو راہ فرار نہیں اختیار کرنے دوں گا یہ بات آپ اچھی طرح ذہن میں رکھ لیجئے بطور حفظ ماتقدم کے ۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ پیغام پر یہ سب کچھ ہو مگر آپ لوگ بار بار مجھے مجبور کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ خیر اب*آتا ہوں اصل معاملے کی طرف تو آپ نے سردست فقط یہ اعتراض فرمایا ہے کہ جو حدیث ہم نے پیش کی ہے اس میں تو شہادت کی انگلیاں چومنے کا بیان ہے انگوٹھوں کا نہیں ۔ ۔ اولا تو عرض یہ ہے کہ ہم نے پہلے ہی عرض کردیا تھا کہ ہم اس باب میں انتہائی اختصار کے ساتھ دلائل نقل کریں گے اور اسی لیے ہم نے صرف ایک ہی حدیث نقل کرنے پر اکتفاء کیا اور ساتھ ہی ہم نے یہ عرض کردی تھی کہ اس باب میں اور بھی احادیث ہیں چلیے اب ہم وہ احادیث بھی نقل کردیتے ہیں جن میں تقبیل الانام (یعنی انگلیاں چومنا ) کی بجائے تقبیل الابہامین (انگوٹھے چومنے )کا ذکر ہے ۔ ۔ ۔

                  علامہ اسماعیل حقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، (اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال کو حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں میں مثل آئینہ ظاہر فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں پر پھیرا ، پس یہ سنت ان کی اولاد میں جاری ہوئی)۔ (تفسیر روح البیان جلد ۴ ص ۶۴۹)
                  امام ابو طالب محمد بن علی مکی رحمہ اللہ اپنی کتاب قوت القلوب میں ابن عینیہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے دس محرم کو مسجد میں تشریف لائے اور ستون کے قریب بیٹھ گئے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اذان میں آپ کا نام سن پر اپنے انگوٹھوں کے ناخنوں کو اپنی آنکھوں پر پھیرا ، اور کہا ، (قرہ عینی بک یا رسول اللہ) ۔ (یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آ پ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں) ۔
                  جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان سے فارغ ہوئے تو آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے ابو بکر ! جو تمہاری طرح میرا نام سن کر انگوٹھے آنکھوں پر پھیرے اور جو تم نے کہا وہ کہے، اللہ تعالی اس کے تمام نئے پرانے، ظاہر و باطن گناہوں سے درگزر فرمائے گا۔ (روح البیان جلد4 صفحہ ۶۴۸)
                  امام سخاوی ، امام دیلمی کے حوالے سے فرماتے ہیں، (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب موذن سے (اشھد ان محمدا رسول اللہ) سنا تو یہی جواب میں کہا اور اپنی شہادت کی انگلیاں زیریں جانب سے چوم کر آنکھوں سے لگائیں۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو میرے اس پیارے دوست کی طرح کرے اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوگئی۔ (المقاصد الحسنہ)
                  امام سخاوی، امام محمد بن صالح مدنی کی تاریخ سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے امام مجد دمصری کو یہ فرماتے سنا کہ جو شخص آذان میں آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک سن کر درود پڑھے اور اپنی شہادت کی انگلیاں اور انگوٹھے ملا کر انکو بوسہ دے اور آنکھوں پر پھیرے ، اس کی آنکھیں کبھی نہ دکھیں گی۔

                  فقہ کی مشہور کتاب رد المختار جلد اول صفحہ ۳۷۰ پر ہے ، ( مستحب ہے کہ اذان میں پہلی بار شہادت سن کر ( صلی اللہ علیک یارسول اللہ ) اور دوسری بار شہادت سن کر ( قرہ عینی بک یا رسول اللہ ) کہے ، پھر اپنے انگوٹھے چوم کر اپنی آنکھوں پر پھیرے اور یہ کہے ، ( اللھم متعنی بالسمع والبصر ) تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے ۔ ایسا ہی کنز العباد امام قہستانی میں اور اسی کی مثل فتاوی صوفیہ میں ہے)۔
                  اسی طرح کتاب الفردوس ، شرح نقایہ ، طحطاوی اور بحر الرئق کے ہواشی رملی میں ہے اور حاشیہ تفسیر جلالین میں یوں ہے کہ (ہم نے اس مسئلے پر اس لیے طویل گفتگو کی کیونکہ بعض لوگ جہالت کی وجہ سے اس مسئلے میں اختلاف کرتے ہیں) ۔ حنفی علماء کے علاوہ شافعی علماء اور مالکی علماء نے بھی انگوٹھے چومنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
                  یہ تو تھیں وہ چند احادیث کے جن میں شہادت کی انگلیوں کے ساتھ ساتھ انگوٹھے چومنے کا بھی ذکر آیا ہے جبکہ ان کی طرف ہم نے اجمالی طور پر اپنی پہلی رپلائی میں یہ کہہ کر اشارہ کردیا تھا کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس باب (یعنی اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر انگوٹھے چومنا )میں جتنی بھی روایات آئیں ہیں وہ ضعیف ہیں یعنی کمزور ہیں ۔ ۔ یعنی ہماری اس عبارت کا صاف صاف مطلب یہ تھا کہ اس باب میں اور بھی احادیث ہیں مگر ہم نے قارئین کی بوریت کو مد نظر رکھتے ہوئے فقط ایک حدیث پیش کرکے اختصار سے کام لیا تھا ۔ ۔ ۔ خیر اب آپ پر واضح ہوچکا کہ اس باب میں وہ احادیث بھی کہ جن میں صراحت کے ساتھ انگوٹھوں کا ذکر ہے ۔ ۔ ۔ ۔
                  حدیث اور حدیث کے الفاظ کے علاوہ اگر آپ ہمارے دلائل کی حجیت پر غورفرماتے تو آپ پر یہ واضح ہوتا کہ ہم نے ان تمام دلائل کا اصل تعظیم مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دیا ہے اور اسی پر بطور دلیل ہم نے امام بخاری اور امام مالک رحم اللہ علیھما کا عمل نقل کیا ہے حالانکہ ان دونوں ائمہ کے پاس اپنے اپنے (اس مخصوص )عمل کی توجیہ میں سوائے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی دلیل نہیں نہ تو قرآن کی کسی آیت کی صورت میں اور نہ ہی حدیث کی صورت میں ہے ۔ ۔۔ دلائل میں اور بھی بہت کچھ کہا جاسکتا ہے مگر فی الحال اسی پر اکتفا کرتا ہوں کہ اب آپ کا اگلا اعتراض کیا ہوگا؟ ۔ ۔
                  ۔
                  ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                  Comment


                  • #10
                    Re: VIEWS: Aik Sawal

                    assallam u allaikum.
                    ROOMI BHAI AOR MASOOD SAHIB.
                    YAAR YEH AAP LOG KIN BATOON MAIN PAR GAY HO??
                    YAHAN TAMEERI BAHAS NAHI HO SACTI KION KEH JAB HAR MAKTBAH E FIKAR KAY ALIM HE IS BAAT PAR MUTAFIQ NA HO SAKAY TOO HUM KIYA KHAAK HON GAY..
                    ABID SAHIB NAY SAHI KAHA HAI KEH YAHAN BAHAS BARAY BAHAS AOR MUKHTALIF FATWAY BHEE LAGAY GAY.
                    AGAY AAP KI MARZI HAI.
                    ALLAH HAFIZ\
                    Last edited by suffard; 7 July 2008, 09:29.
                    sigpic

                    Comment


                    • #11
                      Re: VIEWS: Aik Sawal

                      ...............................
                      Attached Files

                      Comment


                      • #12
                        Re: VIEWS: Aik Sawal

                        Originally posted by suffard View Post
                        assallam u allaikum.
                        ROOMI BHAI AOR MASOOD SAHIB.
                        YAAR YEH AAP LOG KIN BATOON MAIN PAR GAY HO??
                        YAHAN TAMEERI BAHAS NAHI HO SACTI KION KEH JAB HAR MAKTBAH E FIKAR KAY ALIM HE IS BAAT PAR MUTAFIQ NA HO SAKAY TOO HUM KIYA KHAAK HON GAY..
                        ABID SAHIB NAY SAHI KAHA HAI KEH YAHAN BAHAS BARAY BAHAS AOR MUKHTALIF FATWAY BHEE LAGAY GAY.
                        AGAY AAP KI MARZI HAI.
                        ALLAH HAFIZ\
                        Kehtay Too App B Darust Hoo

                        Comment


                        • #13
                          Re: VIEWS: Aik Sawal

                          Originally posted by *Roomi* View Post
                          Kehtay Too App B Darust Hoo
                          DARUST BHEE KEHTAY HO AOR MANTAY BHEE NAHI??
                          CHORO YAAR IN CHOTAY CHOTAY MUAMLAT MAIN KION PARTAY HO..
                          YAHI WAQAT KUFFAR KAY KHILAAF UN KAY FALSAFOON KO SAMJHTAY HUAY GUZAROO.:jazak:
                          sigpic

                          Comment


                          • #14
                            Re: VIEWS: Aik Sawal

                            Originally posted by *roomi* View Post
                            ...............................
                            اسلام علیکم محترم جناب خرم بھائی !
                            مجھے معلوم تھا کہ*آپکی طرف سے اب یہی جواب آنے والا ہے اور یہ وہ آخری مہرہ ہے جسے علماء دیوبند اس باب میں بار بار گھسیٹتے ہیں اور گھسے پٹے مہروں کو میدان استدلال میں لے کر آتے ہیں خیر آپکی ساری تحقیق کا مدار علامہ سرفراز خاں صفدر (نصرۃ العلوم گوجرانوالہ) کی کتاب راہ سنت ہے ۔ ۔ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں اور آپکی اطلاع کے لیے پھر عرض کیے دیتا ہوں جس میدان اب آپ

                            قدم رنجا فرما رہے ہیں مجھے اس میدان کار زار کی خاک چھانتے ہوئے کم ازکم ڈیڑھ عشرہ بلکہ اس بھی زیادہ ہوگیا ہے ۔ اور آپکے ممدوح علامہ سرفراز خان صفدر کی یہ کتاب میں نے بہت عرصہ پہلے سے پڑھ رکھی ہے اور اب بھی یہ کتاب پاکستان میری ذاتی لائبریری کی زینت ہے علامہ موصوف نے اختلافی مسائل پر بہت کچھ لکھا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ زیادہ تر لکھا ہی اختلافی مسائل پر ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔۔ علامہ صاحب نے بہت سی کتابیں لکھین (مثلا تنقید متین ، گلدستہ توحید ، راہ سنت ، وغیرہ وغیرہ یہ سب کتابیں اور انکے جوابات پاکستان میں ہماری لائبریری کی زینت ہیں )جن کے مسکت جوابات علمائے اہلسنت نے برس ہا برس سے دے رکھے ہیں لیکن جواب میں علامہ صاحب کو جواب در جواب لکھنے کی ہمت نہ ہوئی ۔ ۔ انھوں حاشیہ نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمہ پر تنقید متین بر تفسیر نعیم الدین لکھی تو اس کے جواب میں علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے 1969 توضیح البیان لکھی اور اسکے جواب میں قریبا کوئی 30 سال علامہ سرفراز صاحب پر مکمل سکوت طاری رہا پھر انھوں نے جو جواب لکھا اس کانام اس وقت میرے ذہن سے اتر گیا ہے اسکے فورا بعد ہی جواب میں علامہ سعیدی صاحب مقام ولایت و نبوت لکھی جو کم از کم ہماری معلومات کے مطابق ابھی تک لاجواب ہے یعنی اس کا پھر سے جواب علامہ سرفراز خان صفدر کی طرف سے نہیں آیا ۔ ۔ خیر ہم نے مختصر طور پر علامہ سرفراز صاحب کی کتب کے بارے میں آپ کو آگاہی دینا اس لیے ضروری سمجھا کہ آپ صرف ان کی کتابیں ہی نہ پڑھیں بلکہ ان کے جوابات بھی پڑھیں تاکہ حقیقت آپ پر روشن ہو ۔ ۔ ۔ ۔
                            اب آتا ہوں اصل مسئلہ کی طرف آپ نے جو جواب پوسٹ کیا ہے اس میں آپ کم از کم ہماری اس بات سے متفق ہوگئے ہیں کہ فضائل اعمال اور ترغیب و ترہیب میں ضعیف حدیث واجب العمل ہے ۔ لیکن اب آپ کا سارا زور اس پر ہے کہ ہم نے جتنی بھی حدیثیں پیش کیں یا اس باب میں آج تک جتنی بھی روایات آئی ہیں وہ سب کی سب ضعیف کے سب سے آخری درجہ موضوع پر فائز ہیں یعنی من گھڑت ہیں یعنی خود سے بنائی گئی ہیں ۔ ۔ اور یہی آپ کے اعتراض کا مرکزی نقطعہ ہے اس کے علاوہ آپ نے لا یصح کے بارے میں سرفراز صاحب کا یہ قول پیش کیا کہ جب محدث مطلق لا یصح کہتے ہیں تو اس کا مطلب ضعیف ہی ہوتا ہے الا یہ کہ وہ حسن ہونے کی تصریح کرئے ۔۔ ہم اگر سرفراز صاحب کے اس ضابطے کو مان بھی لیں تو تب بھی یہ ہمارے ۔ خلاف نہیں ہے کیونکہ ہم یہ پہلے ہی عرض کرچکے ہیں کہ ہمارے نزدیک انگوٹھے چومنے والی تمام کی تمام روایات ضعیف ہیں اور یہ تو آپ کو بھی تسلیم ہے کہ ضعیف فضائل اعمال میں قابل عمل ہے ۔ اب ہم نے یہ ثابت کرنا ہے کہ آیا محدثین جو ان احادیث کو ضعیف کہا ہے تو کیا اس سے ضعف شدید یعنی موضوع حدیث ہونا مراد ہے یا اس کے برعکس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تو آیئے دیکھتے ہیں کہ محدیثین ان احادیث کے بارے میں کیا رائے نقل کرتے ہیں اس کے بعد ہم آخر میں سرفراز خان صفدر صاحب کے پیش کردہ حوالہ تیسیر المقال للسیوطی علیہ رحمہ کی بھی حقیقت بیان کریں گے ۔ ۔ ۔
                            جی تو جیسے ہم نے پہلے تصریح کردی تھی کہ محدثین نے ان احادیث کو نقل کرنے کے بعد لا یصح یا لم یصح کہہ کر ان تمام احادیث کی عدم صحت کا قول کردیا ہے اور اس لا یصح سے بعض جگہوں پر محدثین کی مراد عدم رفع ہوتی ہے (یعنی ان احادیث کا مرفوع ہوکر ان کے رفع کے ثبوت کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنا ) اور بعض جگہون پر مطلق عدم صحت بیان کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ ۔۔ جیسا کہ مشھور حنفی محدث ملا علی قاری اپنی کتاب موضوعات کبیر میں اسی موضوع پر احادیث کے بارے میں جو تبصرہ کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امام سخاوی نے سیدنا صدیق اکبر والی روایت کے بارے میں کہا کہ یہ روایت درجہ صحت کو نہ پہنچ سکی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس باب میں جتنی بھی روایات ہیں ان سب کا مرفوع ہونا صحیح نہیں ہے ۔ ۔ ۔ اور پھر لکھتے ہیں کہ میں (ملا علی قاری) کہتا ہوں کہ جب یہ عمل سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تک ثابت ہے تو عمل کے لیے کافی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پر میرے اور میرے خلفاء کی سنت لازم ہے ۔ ۔ ۔۔
                            اب درج زیل میں ہم ان محدثین کے نام ذکر کریں گے کہ جنھون نے ان تمام احادیث کی عدم صحت پر صرف لایصح کہہ کر اشارہ کیا ہے کسی نے موضوع نہیں کہا ۔ ۔ ۔۔
                            علامہ محمد ابن طاہر پٹنی اپنی کتاب تذکرۃ الموضوعات میں یہی صدیق اکبر والی روایت بیان کرکے لکھتے ہیں کہ ولا یصح کہ یہ صحیح نہیں ۔ ۔ ۔
                            علامہ ابن عابدین شامی حنفی اپنی کتاب ردالمختار حاشیہ الدر المختار میں ان تمام روایات کو مختلف کتابوں سے بیان کرنے کے بعد:: لم یصح فی المرفوع من کل ھذہ شئی ::یعنی اس باب میں کوئی بھی حدیث مرفوع ہوکر درجہ صحت کو نہ پہنچ سکی ۔ ۔
                            علامہ سید احمد طحطاوی حنفی مصری اپنی کتاب حاشیہ طحطاوی میں یوں رقم طراز ہیں کہ ۔ ۔ قہستانی نے کنز العباد سے نقل کیا آگے پھر وہی حدیث ہے سیدنا صدیق اکبر والی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور پھر آخر میں لکھتے ہیں کہ اسی طر ح کی روایت حضرت خضر سے بھی ہے اور اس قسم کی احادیث ضعاف یعنی ضعیف ہین جو کہ فضائل میں معتبر ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
                            اسی طرح مولانا عبد الحی لکھنوی ، غیر مقلدین کے امام قاضی شوکانی اور غیر مقلدین کے دور حاضر کے محدث اعظم علامہ ناصر الدین البانی نے بھی ان تمام احادیث کو ضعیف ہی لکھا ہے کسی نے موضوع یا باطل ہونے کا قول نہیں کیا ۔ ۔ ۔
                            اپ نے دیکھ لیا قارئین کے تمام کے علماء نے ان ۔احادیث کو بیان کرنے کے بعد زیادہ سے زیادہ لا یصح اور لم یصح کا قول کیا ہے اور اگر سرفراز صاحب کے ضابطہ کو ہی مان لیا جائے تو پھر یہ بات سامنے آتی ہے کہ جس طرح محدثین کے مطلق لا یصح کہنے سے حدیث کا حسن ہونا لازمی نہیں الا یہ کہ محدث خود اسکی وضاحت اپنے قول سے نہ کرے بالکل اسی طرح کسی بھی محدث کے مطلق لا یصح کہنے سے کسی بھی حدیث کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا کہ الا یہ کہ کوئی محدث اپنے قول سے اسکے موضوع ہونے کی تصریح نہ کردے ۔ ۔ ۔اب ہم آتے ہیں اس طرف کہ جو علامہ سرفراز خان صفدر صاحب نے علامہ سیوطی کی طرف منسوب اس کتاب تیسر المقال کے حوالے سے ان تمام احادیث کا موضوع ہونا ثابت کیا ہے ۔ ۔ اور بطور حوالہ انھوں نے تیسرالمقال کا کوئی صفحہ نمبر تو نہیں لکھا ہاں البتہ عماداالدین ص نمبر133 کی تصریح آپکے پیش کردہ حوالہ میں ۔ ۔ ۔ ۔خیر علامہ جلال الدین شافعی علیہ رحمہ کی طرف منسوب اس کتاب کی حقیقت پر علمائے اہلسنت کا یہ مؤقف ہے کہ یہ کتاب جعلی طور پر امام صاحب کی طرف منسوب ہے اور اس کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا اور اگر ہے تو علمائے اہلسنت نے بار بار عرض کی ہے کہ بتلایا جائے کہ یہ کتاب کس ملک کی کس لائبریری میں کس شکل میں موجود ہے آیا مطبوعہ ہے یا غیر مطبوعہ مخطوطہ کی شکل میں ہے ۔ ۔ ۔کیونکہ علامہ جلال الدین سیوطی کی تمام کتب کی فہرستیں شایع ہوچکی ہیں اور ان میں کہیں اس کا نام و نشان بھی نہیں ملتا ۔ ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے فہرست مؤلفات سیوطی لاہور مطبوعہ محمدی ص 12
                            اس کے علاوہ حال ہی میں مولانا عبد الحلیم چشتی فاضل دارالعلوم دیو بند (کراچی) اپنی مرتب کردہ کتاب تذکرہ علامہ جلال الدین سیوطی علیہ رحمہ مطبوعہ الرحیم اکیڈمی میں علامہ سیوطی کی تصانیف کی تین جامع فہرستیں دی ہیں اور ان میں بھی اس کتاب کا ذکر نہیں ہے ۔ ۔ امید کرتا ہوں یہ گھر کا حوالہ معتبر ٹھرے گا ۔ ۔ ۔ ۔
                            ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                            Comment


                            • #15
                              Re: VIEWS: Aik Sawal

                              Originally posted by *roomi* View Post
                              ...............................
                              اسلام علیکم بھائی اوپر آپکی دو باتوں کی وضاحت کرنا بھول گیا تھا ایک تو یہ کہ جو آپ نے کہا کہ ۔ ۔ ۔ جب ایک روایت سرے سے صحیح ہی نہیں تو پھر اس پر عمل کرنے کی گنجائش کیے ہوسکتی ہے . . . . .
                              تو اسکا ایک جواب تو عرض کردیا گیا تھا کہ جس سے آپ بھی متفق ہیں کہ اگر روایت صحیح نہ ہو بلکہ ضعیف ہو تو فضائل اعمال اور ترغیب (یعنی کسی کام کی طرف رغبت دلانا ) اور ترہیب (یعنی کسی کام کے کرنے سے ڈرانا یعنی منع کرنا ) کے معاملات میں قابل عمل ہوتی ہے ۔ ۔ ۔باقی رہی آپکی یہ بات کہ جب ایک روایت صحیح ہی نہیں تو اس پر عمل کیوں تو یہاں آپکو اصول حدیث سمجھنے میں تھوڑا سی غلطی لگی ہے کہ صحیح کا لفظ اصول حدیث کے قواعد میں غلط کے مقابل نہیں بولا جاتا بلکہ یہ اصول حدیث کی ایک خاص اصطلاح ہے جو کہ اس حدیث پر بولی جاتی ہے کہ جس میں درج زیل پانچ خوبیاں پائی جائیں ۔۔ ۔
                              اول اسکی سند اول سے آخر تک متصل ہو دوم اس کے تمام روای عادل ہوں سوم تمام کے تمام ضابط ہوں چہارم حدیث شاذ نہ ہو پنجم روایت کسی بھی علت قادحہ سے پاک ہو۔
                              اصول یہ ہے کہ بعض اوقات کوئی لفظ اپنے لغوی یا عرفی معنی میں استعمال ہوتا ہے پھر کسی ایک فن کے ماہر اسے اپنی مخصوص اصطلاح استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں اور بعض اوقات دو مختلف فنون کے ماہرین ایک لفظ کو اپنی اپنی مخصوص اصطلاح میں استعمال کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔اس کی ایک*آسان مثال یوں عرض کروں گا کہ ۔ ۔ ۔اب صحیح عربی گرامر کی بھی ایک خاص اصطلاح کا نام ہے جس کے مطابق اگر کسی لفظ میں حرف علت آجائے یا ایک ہی حرف دو مرتبہ آجائے توا سے صحیح نہیں کہتے جیسے لفظ قُل کہ اصل میں قول سے ماخوذ ہے کہ جس کے درمیان حرف علت واؤ موجود ہے اس لیے یہ لفظ عربی زبان کی گرامر کی اصطلاح کے مطابق صحیح نہیں البتہ اسے لغوی اعتبار سے غلط بھی نہیں کہہ سکتے تو لہذا ثابت یہ ہوا کہ جس طرح صحیح ماہرین لغت یعنی گرامر والوں کی ایک مخصوص اصطلاح ہے اور وہاں یہ لفظ اپنے لغوی معنٰی کی بجائےاصطلاحی معنٰی میں استعمال ہوتا ہے بالکل اسی طرح صحیح علم اصول حدیث کی بھی ایک اصطلاح ہے جو کہ صرف اس حدیث کے لیے استعمال کی جاتی ہے کہ جس میں مندرجہ بالا پانچ خوبیاں پائی جائیں اور اگر محدثین کسی حدیث کے بارے میں یہ کہہ دیں کہ یہ صحیح نہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ وہ غلط ہے یا من گھڑت ہے بلکہ صرف یہی مطلب ہوگا کہ مطلقہ روایت میں مندرجہ بالا پانچ خوبیوں میں سے کسی ایک کی یا متعدد کی کمی ہے ۔ ۔ ۔
                              اب آخر میں آپکے پیش کردہ علامہ سرفراز صاحب کے اس اعتراض کا جواب پیش خدمت ہے جو کہ انھوں نے مفتی احمد یار خان صاحب قلت فھم عائد کر تے ہوئے یہ کہہ کر لگایا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر مفتی صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب کوئی محدث مطلق لا یصح کہتا ہے تو اس کا مطلب اس کےبغیراور کچھ نہیں ہوتا کہ یہ روایت ضعیف ہے اگر حدیث حسن ہوتی تو اسکی تصریح کرتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے یا لیس بصحیح بل حسن وغیرہ سے اسکی تعبیر کرتے ہیں مطق لا یصح سے حسن سمجھنا قلت فھم کا نتیجہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔
                              اب ہمیں نہیں معلوم کہ علامہ سرفراز صاحب نے کہاں سے یہ دلیل نقل کی ہے کیونکہ انھوں نے کسی بھی محدث کی کتاب سے ایسا کوئی قول نقل نہیں کیا ۔ ۔ ۔ بلکہ خود سے ہی درج زیل کلمات حصریہ ذکر کرکے پھر مفتی صاحب پر

                              قلت فھم کا فتوٰی بھی صادر کردیا ہے علامہ صاحب کے الفاظ درج زیل ہیں ۔ ۔
                              تو اس کا مطلب اس کےبغیراور کچھ نہیں ہوتا کہ یہ روایت ضعیف ہے ۔ ۔ ۔
                              ہم یہ پوچھتے ہیں کہ تو اس کا مطلب اور کچھ نہیں ہوتا کے کلمات حصریہ کی کس محدث نے تصریح کی ہے جو کہ آپ نے اتنا بڑا فتوٰی قلت فہم کی شکل میں مفتی احمد یار خان صاحب علیہ رحمہ پر لگا دیا اب آئیے ہم آپکو بتاتے ہیں کہ آپ کے اس قلت فھم والے فتوٰی کی زد میں کون کونسے حنفی اکابرین آتے ہیں ۔ ۔ ۔
                              لایصح کا صحیح مفھوم ۔ ۔ ۔
                              ملا علی قاری جو کہ عظیم حنفی محدث اور فقیہہ ہیں وہ اپنی کتاب الموضوعات الکبرٰی میں امام بہقی علیہ رحمہ کی ایک حدیث پر لایصح کے قول پر کہتے ہیں کہ لا یلزم من عدم صحۃ نفی وجود حسن وضعہ یعنی کسی حدیث کا صحیح نہ ہونا اس کے حسن یا ضعیف ہونے کی نفی نہیں کرتا اور یہی ملا علی قاری اپنی اسی کتاب کے اگلے صفحہ پر امام سخاوی کا قول نقل کرتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔لایصح لا ینافی الضعف والحسن ۔ ۔ یعنی یعنی کسی حدیث کا صحیح نہ ہونا اس کے حسن یا ضعیف ہونے کے منافی نہیں ۔ ۔ ۔
                              آپ نے دیکھا قارئین کے اس باب میں صرف علامہ احمد یار خان نعیمی ہی منفرد نہیں بلکہ علامہ ملا علی قاری اور علامہ سخاوی دونوں ہی لایصح سے حدیث کا حسن اور ضعیف ہونا مراد لے رہے ہیں رہے ہیں ۔ ۔ ۔
                              ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                              Comment

                              Working...
                              X