پرویز مشرف کو ان کی روشن خیالی برے دن دکھا رہی ہے طا قت امر یکا اور فو ج کی حمایت کا نا م نہیں طاقت نیک نامی اورساکھ کا نام ہے ساکھ جب خراب ہونے لگتی ہے تمام اسباب کے باوجود طاقت اپنا توازن کھو دیتی ہے
صدر مشر ف مستعفی ہو نگے یا انکا مو اخذ ہ ہو گا..۔.؟ یہ سو ال اب عو امی آواز بن گیا ہے ۔اس عوامی آواز نے صدر کے گرد افواہوں کی ایسی دیوار چن دی ہے جس سے باہر نکلنااب ناممکن سا ہوگیا ہے ۔طاقت اوراقتدار پونے نو سال تک صدرمشرف کادوسرانام بنی رہی۔ آج طاقت کا وہ سرچشمہ افواہوں کے سامنے بے بس ہے اس تبدیلی کو نظرانداز نہیں جاسکتاہے؟ فطرت طا قت دیتی ہے اور جب اس کے قوانین سے انخراف کیا جائے تو پھر چھین بھی لیتی ہے۔ انسان کی سب سے بڑ ی طا قت نیک نامی ہو تی ہے نیک نامی قدرت اورقسمت کاانمول تحفہ ہے اس کی جب ناقدری کی جائے تو یہ روٹھ جاتی ہے اور پھر پلٹ کر نہیں آتی ،ساکھ جب خراب ہوجائے تو طاقت میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔12 اکتوبر 1999ء کو جب صدرمشرف اقتدار میں آئے یہ وہ دن تھا جب صدر مشرف 16 کروڑ پاکستانیوں میں واحد خوش نصیب شخص تھے جنہیں گارگل ایشو سے وہ نیک نامی تحفے میں ملی تھی ۔صد ر پہلے کار گل کے ہیر و بنے پھر انہیں جبری برخاست کیا گیا یہ غلطی صدر مشرف کو مظلو م بنا گئی ،کارگل اور مظلومیت نے مل کر صدر کی ساکھ کو چار چاند لگا دیے ۔قدرت ہر انسان کو عزت بنانے کا موقع دیتی ہے اسے برقرار رکھنا خودانسان پر منحصر ہوتا ہے ۔ صدر مشر ف نے ساکھ جیسے قدرت کے انمول تحفے کو مذاق بنا لیا اور اس کا غلط مفہوم اخذ کر لیا۔صدر مشرف نے اپنے آپ کو قوم کا خادم سمجھنے کی بجائے قوم کو ہانکنا شروع کر دیا ۔ایک فر د پوری قوم کو اپنی نفسیا ت پر نہیں ڈال سکتا البتہ ایک فردقومی نفسیا ت پرآسانی سے ڈھل جاتا ہے یہ عام سادہ سی بات بھی صدر کی سمجھ میں نہ آئی اور انہوں نے پوری قوم کو اپنی راہ پر ڈالنے کی ٹھان لی ،صدرمشر ف نے اقتد ار میں آتے ہی کتے کے پلے کو گلے لگا کر جس ر و شن خیا لی کی ابتدا ء کی بعد میں وہ خودصدر کیلئے و با ل بن گئی ،گارگل کے ہیرو کو قومی ہیرو ہونے کی غلط فہمی ہوئی انہوں نے قو م کو رو شن خیا لی کا نعر ہ د یا ،اقتد ار کے بھکا ر یوں نے ان کی خو ب حو صلہ افز ائی کی جس سے انہیں مزید آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا گیااور صد ر کو قو م کا مزاج سمجھنے کی فر صت ہی نہ ملی جس کی وجہ سے صد ر کی نیک نامی کو رو شن خیالی نے د یمک کی طر ح چا ٹنا شر و ع کر د یا دن بدن صد ر کی سا کھ متا ثر ہو نے لگی سب سے پہلے سو ل سو سائٹی نے صد ر کی حما یت کی صدر نے این جی او زکی خوا تین کے مظا ہر و ں کو پو ر ی قو م کی آوا ز سمجھنے کی غلطی کر ڈالی پھر کیا تھا صد ر مشر ف اور روشن خیا لی لازم ملزو م ہو گئے جس نے صدر مشر ف کی ساکھ کو بر ی طرح مجرو ح کر نا شر و ع کر د یا۔ رو شن خیا لی کالفظ ذہن میں آتے ہی صد ر مشر ف کا نا م خود بخو د ذ ہن میںآجا تا ہے اس رو شن خیا لی نے صدر کی نیک نامی میں کمی کر نا شر و ع کر دی۔
صدر فوج کے سپریم کمانڈرہیںانہیں فوج کی حمایت حاصل ہے ، چیف آف آرمی اسٹاف کی تبدیلی کا اختیار ان کے ہاتھ میں ہے ، ق لیگ ان کے شانہ بشانہ ہے جسے سینٹ میں برتری حاصل ہے۔ اورسب سے بڑھ کرپارلیمانی بساط لپیٹنے کی کنجی ،58 ٹو بی کے آئینی تالے سمیت ان کے پاس ہے۔ ا نہیں امریکی سفیر سے صدر بش تک پوری امریکی حکومت کی حمایت حاحل ہے فوجی حمایت سے امریکا تک اور ق لیگ سے 58 ٹو بی تک طا قت اپنے ان تمام تر اسباب سمیت صدر مشرف کے پاس موجود ہے ۔لیکن اسلام آباد سے واشنگٹن تک پھیلے یہ تعلقات اور وسیع تر صدارتی اختیارات صدر کے کسی کام کے نہیں رہے یہ سب کچھ صدر کومہلت دلاسکتے ہیں کمزوری ختم نہیں کر سکتے یہ اسباب صد ر کو مقبولیت واپس نہیں لوٹا سکتے ۔ معلوم ہوا طاقت امریکا اور فوج کی حمایت کا نہیں یہ ساکھ اور نیک نامی کا نام ہے صدر مشرف کی عوامی ساکھ خراب کیا ہوئی ق لیگ ترقیاتی کاموںپر پانی پھر گیا ،اس کا مستقبل زنگ آلودہو گیا ۔یوں صدر کی روشن خیالی نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑا دے مار ا۔ صدر کی روشن خیالی نے فوج کو بدنامی دی ، عسکری قوت اور نظریاتی طاقت کی لڑائی شروع ہوئی تو فوج کے خلاف خود کش حملے شروع ہوگئے اب صورت حال یہ ہے کہ فوج کو ان خود کش حملوں سے بچانا ہے یہ کسی بھی فوج کے لیے انتہائی تکلیف دہ امر ہو تا ہے کہ اس کی قوم اس سے نفرت شروع کردے فوج اور عوام چولی کا دامن کا ساتھ ہوتا ہے دنیا کا بڑے سے بڑا سپاہ سالار عوامی حمایت کے بغیر جنگ نہیں جیت سکتا۔
یہ معاملہ اکیلے موجودہ آرمی چیف کا نہیں ان کی جگہ کوئی بھی آرمی چیف ہوتا وہ ایک شخص کی خاطر پوری فوج کو سیکورٹی رسک نہیں بنا سکتا امریکا جیسا مطلبی ملک پوری دنیا میںکوئی نہیں۔ امریکا کو پاکستان کی عوام سے کوئی غرض نہیں امریکا 16 کروڑعوام سے بگاڑنے کارسک لے سکتا ہے نہ ان سے ڈیل کرسکتا ۔ امریکا چڑھتے سورج کی طرح طاقت سے ڈیل کر تا ہے ان گذر ے پونے نو برس میں جب طاقت فوج کے پاس رہی امریکا نے سیاست دانوں کو منہ نہیں لگایا انہیں اپنی وطن واپسی کے لیے التجائیں کرنی پڑتیں رہیںمگر جب طاقت تبدیل ہوئی تو آج ان سیاست دانوں کو امریکی سفیروں سے جان چھڑانی اور ساکھ بچانی مشکل ہوگئی ہے۔جس ملک کے سفیر کو سیاست دانوںسے رابطوںمیں فرصت نہ ہو۔اس کے صدر کا صدرمشرف کو ٹیلی فون کر ناجھوٹی تسلی کے سواء کچھ نہیں ۔امریکا نے ان پونے نو برس میںپاکستان کے ساتھ کتنی وعدہ خلافیاں کیں یہ صدرمشرف سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ،ان وعدہ خلافیوں کو بنیاد بنا کر نئی حکومت امریکی دباو کم کرسکتی تھی یہ جرات صدر مشرف اگر پہلے دن ہی کرتے توآج ان کی ساکھ قابل رحم نہ ہوتی ۔
حب الوطنی بھی اندھی عقیدت ہوتی ،آج بھی ہمیں اپنے صدر کی ساکھ پر لکھتے ہوئے دکھ ہورہا ہے مگر صدر مشرف نے 16کروڑ عوام کو آٹھ برسوں میں جو دکھ دیے ہیںوہ آج بھی ان پر ڈٹے ہوئے ہیںاس کاانہیں ذرا بھی دکھ نہیں۔صدر ایوب اور صدرمشرف کی روشنی خیالی میں فرق اتنا ہے کہ صدر ایوب نے روشن خیال کے باوجود غیرت مرنے نہیں دی تھی مگر صدر مشرف اس روشن خیالی میں اتنے آگے نکل گئے کہ یوں لگتاہے ان کی غیرت روشن خیالی نے چرا لی ہے۔صدر ایوب کتے کا ایک لفظ برداشت نہ کرسکے اور مستعفی ہوگئے اور صدر مشرف کو گزشتہ برسوں میں کیا کچھ نہیں کہا گیا اور کہا جارہا ہے مگر ان کی قوت برداشت کوداد دینا چاہئے کہ انہیںغصہ نہیں آیا۔ حقوق نسواں بل کی جب ق لیگ کے 40 ارکان نے مخالفت کی تب بھی صدر مشرف کو سمجھ نہ آئی صدر مشرف جنہوں قوم کی بیٹیوں کو ناچ گانوں پر لگا دیاانکی ننگے سر سڑکوں پر دوڑیں لگوائیں، انہیں یہ تک معلوم نہ ہوسکا ان کے قریبی رفقاء میں درجنوںایسے ہیںجن کی خواتین گھروں سے باہر نہیں نکلتیں۔ یہ غلطی صدر مشرف نے تنہا نہیں کی دراصل آمریت خود غلط فہیوںسے جنم لیتی ہے یہ ہی غلط فہمی ضیاء الحق مرحوم کو بھی تھی ان کی اسلام پسندی کو دیکھ کر ان کے کئی رفقاء نے بغیر وضو نمازیں پڑھنی شروع کردیں تھیں ضیاء کا اسلام بغیر وضو نمازوں سے نافذ نہ ہوسکا اور نہ ہی مشرف کی روشن خیالی سے پیدا ہونے والی فحاشی پاکستان کو یورپ بنا سکی۔ آمریت قومی مزاج مزاج سمجھ لے آمریت نہیں نہیں رہتی۔
عجیب اتفاق ہے کہ روس کے خلاف جہاد کے لیے جب کوئی حکمران آئے تو امریکی ضرورت کے مطابق ضیاء جیسے اسلام پسند آئے اور امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے قبل پاکستان میں جب کوئی آئے تو مشرف جیسے روشن خیال آئے یہ اتفاق ان کی روشن خیالی کوامریکا کی درآمد ثابت کرتاہے اور اسے مشکوک بنا دیتا ہے۔ صدر مشرف کی روشن خیال اور نیک نامی میں کشمکش کی ابتداء کتے کے معمولی پلے کو گلے لگانے سے ہوئی۔ پھر جب این جی اوز کی روشن خیال خواتین صدر مشرف کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں تب بھی صدر مشرف کا ماتھا ٹھنکا نہیں۔ 2004ء میں وردی اتارنے کے وعدے سے مکر کر صدر مشرف نے رہی کسر پوری کردی اس کے بعد صدر مشرف ناقابل اعتبار ہونے لگے۔ بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں آپریشن سے صدر مشرف نے انپی عزت گنوادی اورساتھ فوج کی ساکھ بھی مجروح کردی، لال مسجد کے سانحہ نے ان کی عزت نیلام کردی اور عدلیہ کی معطلی نے ان کی ساکھ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔
اقتدار میں آنے کے بعد حکمران کی کوئی ذاتی زندگی نہیں رہتی ۔اورذاتی روشن خیالی کو اجتماعی روشن خیالی سمجھنا وہ غلطی تھی جس نے آہستہ آہستہ صدر مشرف کی طاقت کمزور کردی۔ طاقت جس ساکھ کا نام ہوتی ہے۔ اسے صدر مشرف سے سے روٹھے ہوئے ایک مدت ہوگئی ہے۔آخر آج کیا وجہ ہے کہ صدر کے حق میں مظاہرے کیوں نہیں ہوتے؟ایک وقت توصدر کونزلہ ہوتا ہے تھا فوری طور پر ان کے حق میں مظاہرہے شروع ہوجاتے تھے۔
صدر مشرف کے مستعفی ہونے کی ان افواہوں کے ساتھ ہی اگلے متوقع صدر کے حوالے سے بھی چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں اور اس سلسلے میں نواز شریف، مخدوم امین فہیم کے علاوہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا بھی نام لیا جارہا ہے۔ اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس اعلیٰ منصب کا سب سے زیادہ حق دار قرار دیا جارہا ہے۔ ملک کی دو بڑی پارٹیوں سے تعلق کی بناء پر نواز شریف اور مخدوم امین فہیم کے منصبِ صدارت پر فائز ہونے کے راستے بظاہر زیادہ ہموار ہیں۔ تاہم ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ایک قومی ہیرو ہیں۔ انہوں نے ملک کو ایٹمی قوت بنانے کا جو کارنامہ سرانجام دیا ہے، اس کا احسان چکانا ہی ممکن نہ ہوتا مگر ماضی قریب میں غیروں کے کہنے پر اپنوں نے ان کے ساتھ جو سلوک بلکہ بدسلوکی کی، اس کے کچھ ازالے کی صورت انہیں ملک کے سب سے بڑے منصب پر فائز کرنے کے علاوہ اورکوئی نہیں۔ نواز شریف اور مخدوم امین فہیم ڈاکٹر عبدالقدیر کے حق میںدستبردار ہوتے ہیں تو دراصل وہ اپنے مقام و مرتبے اور عزت میں اضافہ کریں گے اور امر ہوجائیں گے ،بھارت نے 25جولائی 2002ء کو اپنے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالکلام کو اپنا صدر چنا اور 25 جولائی 2007 کو وہ باعزت رخصت ہوئے۔25 جولائی 2002ء کو ان کے صدارت سنبھالنے کا وہ دن اور آج کا دن ہم بھارت کو منہ دکھلانے کے قابل نہیں رہے
Comment