Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

قومی راہنما کون بنےگا ؟ میاں نواز شریف یا آ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • قومی راہنما کون بنےگا ؟ میاں نواز شریف یا آ

    قومی راہنما کون بنےگا ؟ میاں نواز شریف یا آصف علی زرداری؟ کالم ۔ زبیر احمد ظہیر

    کیا عدلیہ بجٹ سے پہلے بحال ہو پائے گی?فی الحال


    اب تک حکومت کو کمزور اپوزیشن کا سامنا رہا ہے مرکز سے لے کر صوبوں تک اپوزیشن موجود نہیں محض نام ہے، پارلیمنٹ کے باہر اس خلاء کو پرکرنے کے لیے جماعت اسلامی نے اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے تیاری کرلی ہے۔ اے پی ڈی ایم کی سرگوشیوں اور آصف علی زرداری کی وعدہ خلافیوں نے ن لیگ کو کابینہ سے باہر آنے پر مجبور کردیا، عدلیہ کی بحالی کا معاملہ اتنا مشکل نہ تھا اسے دو جماعتی مفادات نے جوئے شیر لانے کے مترادف بنا دیا ۔
    ن لیگ کی ابتداء سے مرکز میں اپوزیشن میں بیٹھنے کی پالیسی تھی اور نواز شریف کو اپوزیشن قیادت بلا شرکت غیرے مل سکتی ہے اے پی ڈی ایم کا ایوان کے باہر اور ن لیگ کا ایوان کے اندر متوقع احتجاج یہ دونوں مل کر مستقبل میں حکومت کے لیے بڑے مسائل پیدا کرسکتے ہیں ن لیگ کو اگلے الیکشن میں واضح اکثریت نظر آرہی ہے، اس لیے پی پی موجودہ مشکلات سے نکل نہیں پائے گی اور عوام کو براہ راست ریلیف 5 برس میں نہیں دلا پائے گی لہٰذا عوام اس سے بدظن ہو نگے۔ یہ وہ بات ہے جس پر ن لیگ کو ایک نہ ایک دن اس اتحاد سے الگ ہونا ہے۔ن لیگ کو اس اتحاد میں شامل رکھنا بے حد ضروری ہے تاکہ اس حکو مت کا قومی حکومت کا تاثر بحال رہے ،یہ تاثر پاکستان کو خارجی سطح پر کئی مسائل سے محفوظ رکھے گا، ن لیگ کی اتحاد سے علیحدگی کی صورت میں پی پی مشرف کی حمایت کرنے کے تاثر کو ختم نہیں کرسکے گی۔ یہ الزام زبان زد عام ہوگیا ہے کہ پی پی نے صدر مشرف کو سہارا دے رکھا ہے صدر پرویز مشرف کی باقیات کی موجود گی اس تاثر کو تقویت دے رہی ہے۔ ان الزامات سے بچنے کے لیے ن لیگ کا حکومت میں شامل رہنا ضروی ہے تاکہ پاکستان میں ایسی حکومت کاتاثر قائم رہے جہاں ماضی کی دو دشمن جماعتیں ایک ہو گئی ہیں یہ بیرونی دباؤ میں کمی کا سبب بنے گا ۔
    ن لیگ اور پی پی کے اتحاد کے نتیجے میں ایک وقت ایسا آیا تھا کہ ق لیگ نے صدر پرویز مشرف کا ساتھ چھوڑنے پر غور شروع کردیا تھا۔انہیں اپنی شکست کا سبب قراردیا مگر حالیہ حکمران اتحادمیں اختلافات نے ق لیگ کو ایک بار پھرمشرف کی ضرورت بنادیا ہے۔ ق لیگ اور صدر مشرف دونوں کے کمزور کند ھے مل کر ایک مضبوط جسم بن گیا ہے۔ ادھر میاں نواز شریف نے آمریت کو بے تحاشا گالیاں دے کر ایوان صدر کو سازشوں کا موقع فراہم کردیا ،میاں نواز شریف نے جمہوریت کے قدم مضبوط ہونے سے قبل ہی آمریت کا جنازہ نکالنے کے دعوے شروع کردیے ان کے دعووں سے کہیں زیادہ صدر مشرف نے کمر کس لی اور نتیجہ یہ نکلا آج ن لیگ اور پی پی ایک دوسرے کا سامنا کرنے کو تیا ر نہیں۔ پی پی حکومت نے جو 62 نکاتی آئینی پیکج تیار کیا ہے اسکی جو تفصیلات تاحال سامنے آئی ہیں ان میں میثاق جمہورت کی 35 شقوں میں سے گنتی کی چندہی منظر عام پر آئی ہیں جس پر ن لیگ نے اتنی خوشی کا اظہار نہیں کیا جتنا منہ ایوان صدر کا بن گیا ہے۔ ایوان صدر نے حکومت سے خفیہ مراسم ختم کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے اس صورت حال کا آصف علی زرداری نے پہلے ہی ادراک کر لیا تھا اس لیے ایک دن قبل ہی انہوں نے بھانڈا پھوڑ دیا اور کہہ دیا ہے کہ قوم مہنگائی سے زیادہ صدرمشرف سے تنگ ہے اور قوم کا ہم پر زیادہ دباوٴ ہے۔ آصف علی زرداری نے یہ کڑوا سچ بولنے میں بڑی دیر کر دی ۔ قوم مہنگائی سمیت ہر مصیبت کا سبب صدر مشرف کو گردان رہی ہے آخر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہواکہ انہوں نے نبھانے کی لاکھ کوشش کرلی مگر 58ٹو بی کے خاتمے کی محض بات ایسی تھی کہ ایوان صدر اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کر سکا ۔اس کا ردعمل دونوں جانب سے شدید آیا ۔گویا 58 ٹو بی نہ ہوئی بحرانوں کی اماں بی ہو گئی،پارلیمنٹ پر لٹکی یہ تلوار ہٹنی ہے نہ عوام کی جان چھٹنی ہے ۔پی پی نے آئینی پیکج کی تیاری کی ابتداء سے پیدا ہونے والی اس صورت حال اور مستقبل کی پالیسیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس کر لی ۔اور سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس بلالیا جس نے آ ئینی پیکج کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد آصف علی زرداری نے صدر کو مواخذے کی دھمکی دے دی ۔ اس اجلاس کے فیصلوں پر عمل در آمدسے معلوم ہوگا کہ آصف علی زرداری زمینی حقائق کے قریب ہوئے ہیں یا اندیشے اور وسوسے انہیں سمجھوتوں کی اس راہ پر ڈال گئے ہیں جسکے مسافر کے لیے پلٹنا ممکن نہیں رہتا۔ موجودہ بحران پارٹی کا داخلی معاملہ نہیں کہ اسے بلاول بھٹو کو بلواکر حل کروالیا جائے۔
    وزیر اعظم کسے بنایا جائے اس پارٹی بحران پرمخدوم امین فہیم نے بلاو ل کی لاج رکھ لی تھی عدلیہ کی عدم بحالی سے ن لیگ کی علیحدگی تک پھیلا یہ بحران بلاول کی آمد سے ٹلنے والا نہیں۔ اس بحران پر اس سے مشورہ لیا جائے جس کی چالیس سالہ قربانی صدر مشرف سے ہونے والی ایک مبینہ ملاقات نے ہڑپ کر لی تھی تاہم پی پی کو اس بحران سے وہ ہی شخص نکالے گا جس کے گھر میں برسوں پہلے پی پی نے بطور جماعت آنکھ کھولی تھی۔ ایوان صدر سے جڑے اس بحران کی الجھی ہوئی گتھیاں وہی سلجھائے گا جس نے ایوان صدر سے رابطے کر کے بے نظیر بھٹو اورآصف علی زرداری کی راہ میں پڑ ے کانٹوں کو ایک ایک کر کے چنا اور راستہ صاف کر دیاتھا،پی پی کا یہ نبض شناس آصف علی زرداری کے فیصلو ں کی وجہ سے ناراض ہے اسے منانے آصف علی زرداری ان کے گھر چل کر جائیں تو مخدوم امین فہیم کی خودداری، خاندانی راوایات کے آگے ہار جائے گی ورنہ زرداری خوشامدیوں کے دام میں آکر کہیں اتنے آگے نہ نکل جائیں کہ ان کا یہ اقتدار آخری ثابت ہو۔

    محتر مہ کے قتل سے پاکستان میں قیادت کا خلاء پیدا ہوگیا جسے پُر کرنے کی ایک ایک شرط میاں نواز شریف نے پوری کرنی شروع کر دی ہے اور وہ وقت آ گیا ہے کہ خلاء پر ہوجائے گا۔ آصف علی زرداری کے لیے ایک قومی راہنما بننے یا اس سے محروم ہونے کے درمیان بہت کم فاصلہ رہ گیا ہے قومیں ضرورت کے وقت قیادت کے فیصلوں کاانتظار نہیں کرتیں۔ دیر ہوتی جا رہی ہے۔ میاں نواز شریف نے کابینہ سے نکل کر غلطی نہیں کی ،اسے پسپائی نہ سمجھا جائے، انہوں نے بڑی پیشرفت کی تیاری کر لی ہے۔ طویل چھلانگ لگانے کے لیے پہلے چند قدم پیچھے آنا پڑ تا ہے۔ یہ بات جناب زرداری کے پیش نظر رہنی چاہیے۔
    email4zubair@yahoo.com

  • #2
    Re: قومی راہنما کون بنےگا ؟ میاں نواز شریف یا &#1570

    nice sharing
    "Do Not Wish For Less Problems, Always Wish For More Skills"

    Comment


    • #3
      Re: قومی راہنما کون بنےگا ؟ میاں نواز شریف یا &#1570

      Originally posted by Aarzo View Post
      nice sharing
      shukria Aarzo mian n new article post kar dia hi lazmi read karna daily jang se lia hi

      Comment

      Working...
      X