Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

پاک ،بھارت مذاکرات سرد مہری کیوں؟

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • پاک ،بھارت مذاکرات سرد مہری کیوں؟

    پاک ،بھارت مذاکرات سرد مہری کیوں؟
    عبدالجبار ناصر
    ajnasir1@gmail.com
    پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات کا چوتھا دور مکمل ہوا ،اسلام آباد میں پاکستانی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور بھارتی وزیر خارجہ پر ناب سکھر جی کے مابین 21 مئی کو ہونے والے ان مذاکرات کو دونوں حکومتوں نے اطمینان بخش اور حوصلہ افزاءقرار دیا ہے اور دعویٰ کیا جارہا ہے کہ کئی ایشوز میں پیش رفت بھی ہوئی۔ جن میں سر کریک ، سیاچن تنازعہ ، مظفر آباد سرینگر اور راولا کوٹ پونچھ بس سروس کو 15 دنوں کی بجائے ہر ہفتے چلانے، کنٹرول لائن کے اطراف میں تجارت اور ٹرک سروس کا آغاز جلداوردونوں جانب کے بسوں میں سفر کرنے والوں کو پرمٹ کے حصول میں نرمی کرنے،کشمیر میں مزید کراسنگ پوئینٹ کھولنے، دونوں ممالک کے قیدیوں تک قونصل جنرلز کی رسائی ممکن بنانے، تجارتی اور اقتصادی روابط کو بڑھانے،ریل اور فضائی رابطوں میں مزید بہتری لانے اور ویزہ کے حصول کو آسان بنانے،دونوں ممالک کے لوگوں کے مابین روابط کو فروغ دینے، ایران پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبے پر جلد عمل در آمدکرنے اور تجارت کو 2 ارب ڈالر تک پہنچانے سمیت دیگر امور شامل تھے۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا کشمیریوں اور گلگت بلتستان کے عوام نے گزشتہ 60بالخصوص 1989ءسے جو قربانی دی ہے اسی کےلئے تھیں ؟،ا ن کی جدجہد کا مقصد یہی تھا ؟۔
    حالیہ پاک بھارت جامع مذاکرات کے 8 نکاتی ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر شامل ہونے کے باوجود جس پر کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہوسکی جس کی تصدیق 21 مئی کو مذاکرات کے بعد دونوں وزرائے خارجہ نے اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں کسی حد تک کی ،اور بھار ت کی جانب سے وزیر خارجہ کے دورے سے قبل مقبوضہ کشمیر میں 6ہزار مزید فوجی اورہزاروں سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی بھی اس بات کا ثبوت ہے ۔بھارتی وزیر خارجہ پرناب مکھرجی نے پاکستان میں سیاسی قیادت میاں محمد نواز شریف،آصف علی زرداری، صدرپرویز مشرف، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور دیگر حکام سے ملاقتیں کی ۔حکومتی ادارے جامع مذاکرات کے اس چو تھے دور کو اطمینان بخش جب کہ آزاد کشمیر کے سابق صدرسردار عبدالقیوم خان سمیت دیگر نے ان مذاکرات کو حوصلہ افزاءقرار دیا ہے تاہم حریت کانفرنس کے دونوں گروپوں کے قائدین سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مذاکرتی عمل میں بنیادی نکتہ تنازع کشمیر ہونا چاہیے۔ پاک بھارت مذاکرات میں مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، پاکستانی اوربھارتی عوام کو کوئی اعتراض نہیں مگر ان مذاکرات میں دونوں ملکوں کے مابین تنازع کی اصل جڑ مسئلہ کشمیر کو ایجنڈے میں نہ صرف شامل کرنا بلکہ اس کو ایجنڈے کی بنیاد بنانا نہایت ضروری ہے اس کے بغیر خطے میں امن قائم اور نہ ہی دونوں ملکوں کے مابین کوئی معاہدہ کامیاب ہوسکتا ہے، بدقسمتی یہ ہے کہ ماضی بالخصوص مذاکرات کے چوتھے دور میں اگرچہ تنازع کشمیر کو 8 نکاتی ایجنڈ ے کا حصہ بنایا گیا مگر اس پر گفتگو ضمنا ہوئی وہ بھی مظفر آباد سرینگر اور راولا کوٹ پونچھ بس سروس ،کنٹرول لائن کے دونوں اطراف باہمی تجارت اور ایل او سی پر نومبر 2003ءمیں ہونے والی فائر بندی پر عمل در آمد آیندہ کے لیے بھی یقینی بنانا شامل تھا دونوں وزراءخارجہ نے جن نکات پر اتفاق یا پیش رفت قرار دیا ہے ان میں سے اس تنازع کے اصل فریق کشمیر اور گلگت، بلتستان کے ایک کروڑ 50 لاکھ انسانوں کو برائے راستہ(سوائے ایل او سی پر فائر بندی کے) کوئی فائدہ نہیں ہے ۔اگر پاک بھارت مذاکرات دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں کے حوالے سے ہوتے تو ریاست جموں و کشمیر کے عوام کوکوئی اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ یہ ان دونوں ممالک کازاتی مسئلہ ہے مگر جب بات کنٹرول لائن یا کشمیر سے متعلق ہو تو پھر اس تنازع کے تمام فریقوں کی شمولیت لازمی ہے۔ جس میں بنیادی فریق 1947ءتک قائم ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کو شامل کرنا ضروری ہے جن میں پاکستان اور بھارت کے زیر کنٹرول خطے اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔ اصل میں اس ساری صورتحال کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ عوام کو یہ معلوم ہو کہ کشمیر کیا ہے؟، ریاست جموں کشمیر کیا ہے؟، تنازع کشمیر کیا ہے؟ اور اس کا حل کیا ہے؟۔



Working...
X