بارسلونا گرفتاریاں، پاکستانی پریشان
گزشتہ ہفتے سپین کے شہر بارسلونا میں بارہ پاکستانیوں اور دو ہندوستانیوں کی دہشت گردی کے الزام میں گرفتاری کی خبر نے وہاں رہنے والے تقریباً پچیس ہزار پاکستانیوں میں حیرت، غم اور غصے کے ملے جلے جذبات ابھارے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے چھاپوں میں بم بنانے کا سامان برآمد کیا اور آپریشن کا مقصد دہشتگردی کے ایک اسلامی نیٹ ورک کو توڑنا تھا۔ بارسلونا کی پاکستانی کمیونٹی کے دس ہزار افراد شہر کے پرانے علاقے ایل راول میں رہائش پذیر ہیں، جہاں تارکین وطن اور غربت دونوں کی شرح عروج پر ہے
یہ ایل راول کی تنگ اور ہر وقت مصروف رہنے والی گلیاں ہی تھیں جہاں پولیس نے چھاپے مارے۔ سال دو ہزار تین سے لیکر اب تک ستر پاکستانیوں کو اسلامی عسکریت پسندی کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ سپین کا یہ علاقہ دہشتگردی کی آماجگاہ نہیں ہے۔ لیکن پاکستانی کمیونٹی کی پریشانی یہ ہے کہ یہ بات عام نہیں ہو رہی۔
پاکستان ورکرز ایسوسی ایشن کے جاوید الیاس کے مطابق گرفتاریوں کی خبر پاکستانی کمیونٹی کے تاثر پر بم بن کر گری ہے۔ وہ خاص طور اس لیے پریشان تھے کہ پولیس نے رات کو ایک مسجد پر بھی چھاپہ مارا اور کچھ لوگوں کو حراست میں لیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ٹائمر اور بم بنانے کا سامان برآمد کیا گیا
اسلام آباد سے آئے ملک عمران کی ان گلیوں میں دکان ہے جہاں زیادہ تر چھاپے مارے گئے۔ وہ پانچ سال سے بارسلونا میں رہ رہے ہیں اور انہیں پولیس کے اس دعوے پر شک ہے کہ گرفتار افراد سے بم بنانے کا سامان برآمد کیا گیا ہے۔
مسجد طارق بن زیاد کے دروازے نماز کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ یہ وہی مسجد ہے جہاں سے پولیس نے امام مسجد المعروف سمیت دو افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا تھا۔ المعروف مراکش سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اردو بول لیتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایل راول کے باقی لوگوں میں پاکستانیوں کے بارے میں ملے جلے تاثرات پائے جاتے ہیں۔
لیکن ایک ہوٹل کے مینجر کا کہنا تھا کہ پاکستانی محنت کرتے ہیں اور کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔
علاقے میں پاکستانی دکانوں کی بہتات ہے
سپین میں پاکستانی تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ اگرچہ انیس سو ستر میں شروع ہوا لیکن انیس سو نوے کی دہائی میں اس میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ سال دو ہزار میں تارکین وطن کو رہائش کا قانونی حق دینے کے سلسلے میں ہونے والے احتجاج میں پاکستانیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
جاوید الیاس کا کہنا تھا کہ اب شہر میں صرف پانچ فیصد پاکستانی غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔
روزگار کے ذرائع
بارسلونا میں رہنے والے پاکستانیوں میں نوے فیصد مرد ہیں، جن کا کاروبار پرچون کی دکانیں، ہوٹل اور انٹرنیٹ کیفے ہیں جبکہ تعمیراتی کام اور زراعت بھی ایسے شعبے ہیں جن سے وہ وابستہ ہیں۔
سال دو ہزار تین میں میڈرڈ میں مبینہ طور پر القاعدہ کی طرف سے کیے جانے والے حملوں کے بعد سے پاکستانی دہشتگردی کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بھرپور حصہ لیتے رہے ہیں۔
تاہم اس کے باوجود سپین کی خفیہ ایجنسیوں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والا ایک شدت پسند گروہ نئی
بھرتی کے لیے پاکستانی نوجوانوں میں مصروف عمل ہے۔ :fuming: :fuming: :fuming: ......................
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ سپین کا یہ علاقہ دہشتگردی کی آماجگاہ نہیں ہے۔ لیکن پاکستانی کمیونٹی کی پریشانی یہ ہے کہ یہ بات عام نہیں ہو رہی۔
پاکستان ورکرز ایسوسی ایشن کے جاوید الیاس کے مطابق گرفتاریوں کی خبر پاکستانی کمیونٹی کے تاثر پر بم بن کر گری ہے۔ وہ خاص طور اس لیے پریشان تھے کہ پولیس نے رات کو ایک مسجد پر بھی چھاپہ مارا اور کچھ لوگوں کو حراست میں لیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ٹائمر اور بم بنانے کا سامان برآمد کیا گیا
اسلام آباد سے آئے ملک عمران کی ان گلیوں میں دکان ہے جہاں زیادہ تر چھاپے مارے گئے۔ وہ پانچ سال سے بارسلونا میں رہ رہے ہیں اور انہیں پولیس کے اس دعوے پر شک ہے کہ گرفتار افراد سے بم بنانے کا سامان برآمد کیا گیا ہے۔
مسجد طارق بن زیاد کے دروازے نماز کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ یہ وہی مسجد ہے جہاں سے پولیس نے امام مسجد المعروف سمیت دو افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا تھا۔ المعروف مراکش سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اردو بول لیتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایل راول کے باقی لوگوں میں پاکستانیوں کے بارے میں ملے جلے تاثرات پائے جاتے ہیں۔
لیکن ایک ہوٹل کے مینجر کا کہنا تھا کہ پاکستانی محنت کرتے ہیں اور کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔
علاقے میں پاکستانی دکانوں کی بہتات ہے
سپین میں پاکستانی تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ اگرچہ انیس سو ستر میں شروع ہوا لیکن انیس سو نوے کی دہائی میں اس میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ سال دو ہزار میں تارکین وطن کو رہائش کا قانونی حق دینے کے سلسلے میں ہونے والے احتجاج میں پاکستانیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
جاوید الیاس کا کہنا تھا کہ اب شہر میں صرف پانچ فیصد پاکستانی غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔
روزگار کے ذرائع
بارسلونا میں رہنے والے پاکستانیوں میں نوے فیصد مرد ہیں، جن کا کاروبار پرچون کی دکانیں، ہوٹل اور انٹرنیٹ کیفے ہیں جبکہ تعمیراتی کام اور زراعت بھی ایسے شعبے ہیں جن سے وہ وابستہ ہیں۔
سال دو ہزار تین میں میڈرڈ میں مبینہ طور پر القاعدہ کی طرف سے کیے جانے والے حملوں کے بعد سے پاکستانی دہشتگردی کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بھرپور حصہ لیتے رہے ہیں۔
تاہم اس کے باوجود سپین کی خفیہ ایجنسیوں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والا ایک شدت پسند گروہ نئی
بھرتی کے لیے پاکستانی نوجوانوں میں مصروف عمل ہے۔ :fuming: :fuming: :fuming: ......................
Comment