تحفظِ نسواں ایکٹ 2006ء
کا
شرعی و قانونی تجزیہ
تحفظ خواتین ایکٹ 2006ء کے تفصیلی تجزیے سے قبل اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ قرآن و سنت میں حدود اﷲ کو واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔ ان میں ردّ و بدل کی اِجازت کسی پارلیمنٹ، عدالت، ریاست یا حکمران کے پاس نہیں۔ نیز یہ کہنا بھی مبنی بر جہالت و بدنیتی ہے کہ زنا اور قذف کی سزائیں قرآن و سنت میں مقرر نہیں ہیں۔ اِختصار کے سبب ذیل میں ہم قرآن حکیم کی چند آیات اور ان کے تراجم پر اِکتفا کریں گے : حدود اﷲ میں ردّ و بدل کی اجازت نہیں
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُO وَمَن يَعْصِ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌO
(القرآن، النساء، 4 : 13، 14)
وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ
(الطلاق، 65 : 1)
زنا کی سزا قرآن میں مقرر ہے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ O
(النور، 24 : 2)
قذف کی سزا بھی قرآن میں مقرر ہے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ O
(النور، 24 : 4)
اسلام اور آئین کی خلاف ورزی پر مبنی ایکٹ
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ کا منظور کردہ تحفظ خواتین ایکٹ 2006ء اپنے مندرجات کے اعتبار سے مندرجہ بالا عنوان کے برعکس اور قرآن و سنت اور آئین پاکستان سے براہ راست متصادم ہے۔ اس قانون میں نہ صرف آئین میں دیئے گئے صریح اور واضح رہنما اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ قرآن و سنت کی واضح تعلیمات (جن کا اوپر ذکر ہوا) کی بغاوت پر مبنی مؤقف بھی اختیار کیاگیا ہے۔ کمال ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب کچھ
کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ اس ایکٹ کے ابتدائیہ میں ہی یہ قرار دیا گیا ہے کہ :
پیش کرتے ہیں :سیکشن نمبر 1 : تحفظ و فروغِ بدکاری ایکٹ
٭ اس ایکٹ کے تحت زنا بالجبر موجبِ حد کی سزا کے قانون خصوصًا کوڑوں کی سزا کو ختم کردیا گیا ہے یہ اقدام قرآن و سنت سے متصادم ہے جب کہ زنا بالجبر موجب تعزیر کی دفعات کو حدود آرڈی ننس سے نکال کر تعزیرات پاکستان میں شامل کردیا گیا جو کہ غیر ضروری اقدام ہے۔
٭ اس ایکٹ کے تحت زنا بالرضا موجبِ تعزیر کے قانون کو ختم کردیا گیا ہے جب کہ زنا بالرضا موجب حد کے قانون کو غیر مؤثر کرنے کے لیے ناقابل دست اندازی پولیس اور قابل ضمانت بنا دیا گیا ہے۔ یہ اقدام بھی قرآن و سنت کی روح کے منافی ہے۔
سیکشن 2 تا 4
اس ایکٹ کی دفعات 2 تا 4 کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء میں زنا بالجبر موجب تعزیر کی سزاؤں والی دفعات کو حذف کرکے تعزیرات پاکستان میں شامل کرنے کی منطق یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک مظلوم عورت کے لیے زنا بالجبر میں 4 گواہ پیش کرنے کی شرط کڑی تھی۔ حالانکہ حدود قوانین میں تزکیہ شہود کے تحت 4 گواہان کی شرط صرف زنا بالجبر موجبِ حد کے لیے تھی جب کہ زنا بالجبر موجبِ تعزیر کے تحت صرف عورت کی گواہی، میڈیکل رپورٹ اور معمولی تائیدی شہادت پر بھی ملزم کو سزا ہوجاتی تھی۔ لہٰذا یہ پراپیگنڈہ اسلام کے خلاف غلط فہمی اور شر انگیزی پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ مزید برآں ان جرائم کی سزاؤں سے کوڑوں کی سزاؤں کا حذف کیا جانا بھی قرآن و سنت کے منافی اور موجود توبیخی اقدامات ختم کرنے کے مترادف ہے۔ سیکشن نمبر 5 : زنا بالجبر سے متعلق نئی دفعات
اس سیکشن کے تحت زنا بالجبر کو حدود آرڈی ننس سے نکال کر تعزیراتِ پاکستان میں داخل کر دیا گیا ہے۔ موجودہ قانون میں شامل کی جانے والی ترمیمات کے نتیجے میں
(1) زنا بالجبر کی سزا کو حد سے نکال کر مستوجب تعزیر قرار دے دیا گیا ہے۔ حکومت کے بقول قرآن و سنت میں زنا بالجبر کی سزا کا تعین نہیں ہے، یہ یا تو جہالت اور قرآن و سنت کی تعلیمات سے بے خبری ہے یا سراسر بدنیتی۔
کیوں کہ قرآنِ حکیم میں اس بات کی صراحت کردی گئی ہے کہ جرمِ زنا کی سزا کیا ہوگی۔ (اس کی وضاحت ابتداء میں آیات قرآنی سے ہوچکی ہے۔) لہٰذا زنا بالجبر کے سنگین جرم کو حدود آرڈی ننس سے نکال کر صرف تعزیرات پاکستان کا حصہ بنا دینا اﷲ کے قانون سے بے خبری یا اسے عمدًا پس پشت ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس سیکشن کے تحت اس قانون میں جو قباحتیں در آئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب زنا بالجبر کی سزا بطور حد نافذ نہیں ہو گی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ معاشرے میں سزا کے خوف سے جرائم کے قلع قمع کرنے اور مجرموں کو جر م کے ارتکاب سے روکنے کے لیے جس قدر پیش بندی موجود تھی وہ ختم ہو جائے گی۔
صاف ظاہر ہے کہ جب یہ شرط عائد کردی گئی ہے تو اس میں 16 سال سے کم عمر خواتین جو بدکاری کا شکار ہوں چاہے ارتکابِ جرمِ زنا بالجبر کے تحت ہو یا زنا بالرضا کے تحت، عورت زنا بالجبر کی اس provision کے تحت بالکل صاف بچ جائے گی کیوں کہ جب بھی سزا کے تعین کا معاملہ درپیش ہوگا 16 سال سے کم عمر کا فائدہ لیتے ہوئے اس جرم کو زنا بالجبر قرار دیا جائے گا جس کے نتیجے میں لڑکی پر چاہے وہ خود ہی جرم کا حصہ کیوں نہ ہو سزا کا اطلاق نہیں ہوگا۔
اس ترمیم سے پیدا ہونے والے خدشات میں سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مغرب کی طرح چھوٹی عمر سے ہی بے راہ روی کے جراثیم تیزی سے پروان چڑھیں گے اور اس ناپختہ عمر کی برائی کے اثرات آگے چل کر بھی گل کھلائیں گے۔
(3) دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر ہم قرآن مجید کی روشنی میں دیکھیں تو قرآن حکیم نے زنا کی کسی بھی صورت کو سزا سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ ارشادِ ربانی ہے۔
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ ۔
(النور، 24 : 2)
اس آیت مبارکہ کے کلمات کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا سے یہ مفہوم بالکل واضح ہے کہ ان میں سے اگر دونوں زنا کے جرم میں شریک ہوں تو زنا بالرضا کے تحت دونوں کو سزا کا مستوجب قرار دیا جائے گا۔ اگر ان میں سے ایک ارتکاب جرم کررہا ہو اور وہ زنا بالجبر ہو تو صرف اسے ہی سزا ملے گی جب کہ دوسرے مظلوم فریق کو سزا نہیں ملے گی یعنی اگر جرم قابل حد نہ ہو تو بطور حد سزا نافذ نہیں ہوگی بلکہ تعزیراً سزا دی جاسکے گی۔
اس ترمیم کی واحد حکمت جو ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر لمبے ہاتھ والے سرکاری کارندے، رسہ گیر، وڈیرے اور مؤثر لوگ بالجبر کسی غریب کی بہن، بیٹی کی عزت لوٹ لیں اور وہ مظلوم عورت یا اس کے ورثاء کسی طرح اس کی FIR درج کروا بھی لیں تو حکومت اور عدالت کے پاس تعزیری سزا کے تحت یہ آپشن ہو کہ انہیں برائے نام سزا دے کر بری کر دیا جائے۔ جہاں تک اس ایکٹ میں موجود سزائے عمر قید کی شق کا تعلق ہے تو نہ کوئی یہ سزا دے گا اور نہ پہلے کسی کو دی گئی ہے۔
اس ترمیمی ایکٹ کا براہ راست اثر یہ ہوگا کہ مؤثر بدکار جرائم کے ارتکاب میں دلیر ہوجائیں گے اور غریب، مزدور اور مجبور کی بہن بیٹی کی بے بسی اور نارسائی میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ سیکشن نمبر 6 تا 7
سیکشن نمبر 6 تا 7 درست ہیں کیوں کہ یہ تعزیری سزاؤں کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔ سیکشن نمبر 8
سیکشن نمبر 8 بھی کسی حد تک درست ہے کیوں کہ اس میں عورت کی عصمت دری کی تشہیر کی ممانعت کی گئی ہے اور اسے قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت عورت اور اس کے خاندان کی عزت اچھالنے کے امکانات کم کیے جاسکتے ہیں بشرطیکہ قانون کی عمل داری کو ممکن بنایا جاسکے۔ سیکشن نمبر 9
اس سیکشن میں زنا بالرضا کے جرم کا ارتکاب ہونے پر شکایت بذریعہ استغاثہ درج کرنے کے طریقہ کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ اس حوالے سے جو قباحتیں اور قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں ان کا ذکر درج ذیل ہے : (1) عدالتِ مجاز تک رسائی میں مشکلات
اس سیکشن میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ زنا بالرضا کے جرم میں تھانہ میں FIR کے اندراج کے بجائے صرف سیشن جج کی عدالت میں ہی زنا بالرضا کے جرم کے ارتکاب کی شکایت درج کروائی جاسکے گی کیوں کہ زنا بالرضاکے جرم کو ناقابل دست اندازی پولیس بنا دیا گیا ہے۔ زنا جیسے جرم کے قلع قمع کے لیے قانون تک عام آدمی کی رسائی کو زیادہ سے زیادہ ممکن بنانے کے بجائے قانون تک رسائی کو محال اور مشکل بنا دینے کا یہ عمل کئی طرح کی مشکلات کا باعث بنے گا۔
مثلاً تمام ضلع میں صرف ایک سیشن عدالت تک ہر شخص کی رسائی قطعاً ممکن نہیں ہوتی کیوں کہ پاکستان کے بعض اضلاع اتنے وسیع و عریض اور دور دراز علاقوں تک پھیلے ہوئے ہیں کہ دیہاتوں میں رہنے والے سادہ لوح لوگ قطعاً سیشن جج کی عدالت تک بار بار آنا بوجوہ afford نہیں کر سکتے۔ بفرض محال وہ پہنچ بھی جائیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہزاروں مقدموں کی کارروائی میں گھری ہوئی سیشن عدالت ان کی درخواست کو اس دن قبول کرسکے گی۔ اسی طرح کی دیگر قانونی پیچیدگیوں کے باعث مظلوم کے لیے بہ آسانی انصاف تک رسائی مشکل ہوگی۔ اس طرح عملاً زنا کے خلاف شکایت درج کروانا ناممکن ہو جائے گا کیوں کہ ہمارے عدالتی نظام میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایک معمولی سے معاملے کے لیے بھی عدالتوں کے باربار چکر لگانے پڑتے ہیں۔ اب جب کہ ضلع کے کسی دور دراز علاقے میں زنا کے جرم کا ارتکاب ہو اور شکایت کنندگان ایک دو دفعہ سیشن جج کی عدالت تک شکایت کرانے کے لیے آبھی گئے اور جج کسی بھی وجہ سے عدالت میں نہ ملا تو دوبارہ کوئی بھی عدالت میں آ کر شکایت درج کروانے کی جرات نہیں کرے گا۔ (2) مظلوم پر قذف کی تلوار
اس ایکٹ کے تحت جہاں ایک طرف ارتکابِ زنا بالرضا کی شکایت درج کروانے کے لیے سیشن جج کی عدالت کی شرط ہے وہیں دوسری طرف قانون کے اندر یہ بھی درج کر دیا گیا ہے کہ اگر شکایت کنندگان چار گواہ پیش کرکے جرم کو ثابت نہ کر سکیں تو انہیں بغیر کسی ثبوت یا مقدمہ کی کارروائی کے قذف کے قانون کا سامنا کرنا ہو گا گویا قذف کی تلوار بھی مظلوم کے سر پر ہی لٹکا دی گئی ہے۔
جرم ثابت کرنے کے لیے تو تزکیہ شہود سمیت دیگر کئی شرائط اور پابندیاں لگا دی گئی ہیں لیکن قذف کے ثبوت کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ کوئی بدکاری کے جرم کی شکایت لے کر عدالت میں آجائے اور جج اُس کی شکایت سے مطمئن نہ ہو۔ اس سلسلے میں دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے کی بے حسی کسی سے پوشیدہ نہیں، سامنے گاڑی کے نیچے کوئی شخص کچلا جائے تو لوگ تھانے میں جاکر اس کی رپورٹ درج کروانے یا اس کی گواہی دینے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے چہ جائے کہ 100/50 میل دور سے کوئی اس معاشرتی برائی کی شکایت لے کر سیشن جج کی عدالت میں چکر لگاتا پھرے۔ خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب شکایت کنندہ کو یہ بھی معلوم ہو کہ جرمانے اور قید سمیت قذف کی حد اُس پر بھی لگ سکتی ہے اور اس میں جج چاہے تو اس کے گواہوں پر سو طرح کے نقائص نکال کر ان کی چھٹی کرا دے اور مدعی کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ کسی ایک بستی، گاؤں اور تحصیل و ضلع میں قذف کا قانون بدنیتی کے ساتھ کسی شخص پر لاگو کردیا جائے تو کون ہے جو اس کے بعد بدکاری کے معاملات پر انگلی بھی اٹھانے کا روادار ہوگا، نتیجہ اجتماعی بے غیرتی اور بے حسی کی صورت میں نکلے گا۔ (3) ضلعی عدالتی نظام پر عدم اِعتماد
یہاں یہ امر بھی حیران کن ہے کہ ضلع کا پورا عدالتی نظام تمام دوسرے اہم ترین معاملات نمٹا رہا ہے۔ ضلعی عدالتی نظام میں عام طور پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے ماتحت بڑے اَضلاع میں 150 تا 200 جج / مجسٹریٹ ہوتے ہیں جب کہ چھوٹے اَضلاع میں بھی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے ماتحت تقریبًا 100 تک جج / مجسٹریٹ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ سنگین جرائم اور لاکھوں کروڑوں کی مالیت کے معاملات نبٹاتے ہیں لیکن ان معاملات میں تو ضلع کے عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا جاتا جب کہ زنا کے لیے ضلع کے پورے عدالتی نظام کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا گیا ہے اور یہ شرط عائد کردی گئی ہے کہ صرف سیشن جج کی عدالت میں ہی آ کر جرم کے خلاف شکایت درج کروائی جائے۔ مزید برآں سیشن جج پر ضلع کی عدالت ہونے کے ناطے کئی دیگر امور کا بوجھ بھی ہوگا۔ اندریں حالات یہ معاملات قطعاً اس کی ترجیح میں شامل ہی نہ ہو سکیں گے۔ لہٰذا اس بات کا زیادہ امکان ہوگا کہ بدکاری کے یہ مقدمات غیر ضروری طوالت کا شکار ہوتے رہیں۔ (4) اِستغاثہ کا کڑا معیار
جرم ثابت کرنے کے لیے مقدمہ کی کارروائی کے دوران گواہوں اور تزکیۂ شہود کی شرط لازمی ہوتی ہے نہ کہ شکایت کے اندراج اور استغاثہ کو قابل سماعت بنانے کے لیے۔ جب کہ یہاں تو استغاثہ کو قابل سماعت بنانے کے لیے بھی اس بات کو لازمی قرار دیا گیا ہے کہ جب تک چار گواہوں کی شرط پوری نہیں ہوتی اس وقت تک شکایت کا اندراج بھی نہ کیا جائے اور شکایت کرنے والے کی شکایت کو ردّ کر دیا جائے۔ استغاثہ کا یہ کڑا معیار بجا تھا بشرطیکہ جرم ثابت کرنے کے بقیہ تقاضے بھی عین مطابقِ شریعت ہوں لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہائی جا رہی ہے۔ اس نرالے طریق کار کی کوئی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ (5) ملزم کے لیے غیر ضروری رعایت
مزید برآں اس سیکشن کے تحت زنا کے جرم کو قابلِ ضمانت بھی قرار دے دیا گیا ہے۔ جس سے جرم کی شدت کم تر ہوگئی ہے یعنی مجرم تو جرم کا ارتکاب بار بار کرنے کے باوجود صرف ذاتی مچلکے پُر کرکے ضمانت پر رہا ہو جائے گا اور معاشرے میں دندناتا پھرے گا۔ جب کہ شکا یت کنندہ جو مظلوم ہوگا معاشرے میں اس سنگین جرم کے خاتمے کے لیے عدالت سے رجوع کر رہا ہو گا اور عدالت میں پیشیاں بھگت رہا ہوگا اسے قذف کے قانون کا سامنا بھی ہو گا یہ صورتحال یقینًا ملزم کو غیر ضروری رعایت دینے اور مظلوم کے لیے مشکلات میں اضافے کا سبب ہو گا۔ جس کے نتیجے میں جرائم کی بے پناہ حوصلہ افزائی ہوگی۔ سیکشن نمبر 10
اس دفعہ کے تحت شیڈول میں زنا بالجبر قابل تعزیر کی شق نمبر i تا viii ماسوائے زنا بالجبر موجبِ حد کی شق v درست ہیں تاہم مجسٹریٹ اور ضلع کے مقامی عدالتی نظام پر اعتماد کی ضرورت ہے اور عام آدمی کے لیے قانون تک رسائی کے امکانات کو کھلا رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آسانی سے عدلیہ تک رسائی حاصل کرسکے۔ مزید براں زنا جیسے سنگین جرم کے ارتکاب پر کوڑوں کی سزا کو بھی بحال رکھنا چاہیے تاکہ مجرموں کی حوصلہ شکنی کے زیادہ سے زیادہ امکانات موجود رہیں۔
اس ایکٹ کی شق v زنا بالجبر موجبِ حد سے متعلق ہے مگر تعزیر کے تحت سزا کا تقرر بھی حدود ایکٹ کے تحت اسی کے ساتھ الگ کیا جانا چاہیے تھا۔ اسی طرح اس ایکٹ کی دفعہ 10 کی شق ix میں زنا بالرضا موجبِ حد کو ناقابلِ دست اندازئ پولیس اور قابلِ ضمانت قرار دینا قانون کو غیر مؤثر کرنے کے مترادف ہے۔ یہ اقدام قرآن و سنت کی روح کے منافی ہے۔ سیکشن نمبر 11 اور 13 : زبانی نکاح کا تحفظ
سیکشن نمبر 12 : حدود قوانین کی برتری کا خاتمہ
اس ایکٹ کے سیکشن 12 کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی دفعہ 3 کو حذف کرکے حدود قوانین کی دیگر تمام متعلقہ قوانین پر برتری کا قانونی اصول ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدام بھی آئین اور قرآن و سنت سے متصادم ہے۔ سیکشن نمبر 14 : زنا بالجبر موجبِ حد کے قانون کا ختم
اس ایکٹ کی دفعہ 14 کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی زنا بالجبر موجب حد کی دفعات 6 تا 7 ختم کردی گئی ہیں۔ جو قرآن و سنت سے کھلا تصادم ہے کیوں کہ قرآن و سنت کے مطابق زنا بالجبر کا جرمِ زنا بالرضا کے جرم سے بھی سنگین ہے۔ لہٰذا زنا بالجبر موجبِ حد کے قانون کو تعزیرات میں شامل کرنا اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغاوت اور جنگ کے مترادف ہے۔ سیکشن نمبر 15 تا 16
سیکشن نمبر 17
اس سیکشن کے تحت درج ذیل قانونی ترمیمات کی گئی ہیں۔ (1) زنا موجبِ تعزیر کے قانون کا خاتمہ
اس ایکٹ کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی زنا بالرضا موجبِ تعزیر اور زنا بالجبر موجبِ تعزیر کی سزاؤں کی دفعہ 10 حذف کردی گئی ہے حالانکہ قرآن و سنت کے طے کردہ حدود قوانین اٹل ہیں۔ تاہم ریاست کو تعزیری قوانین بنانے کا اختیار حاصل ہے۔ لہٰذا حدود آرڈی ننس کی یہ دفعہ 10 قرآن و سنت کی روح کے مطابق تھی مگر اسے حذف کرکے قرآن و سنت کے منافی اقدام کیا گیا ہے۔
(2) زنا بالجبر موجبِ تعزیر سے کوڑوں کی سزا ختم
اس سیکشن کے تحت جرمِ زنا (نفاذ حد) آرڈی ننس 1979ء کی دفعات 11 تا 16 حذف کر کے تعزیراتِ پاکستان میں شامل کردی گئی ہیں۔ کیوں کہ ان دفعات میں بیان کردہ جرائم کا تعلق زنا بالجبر موجب تعزیر سے تھا لہٰذا ان ترامیم کی شرعی حیثیت زنا بالجبر موجب حد کی طرح کا مسئلہ نہیں ہے مگر ان جرائم کی سزاؤں سے کوڑوں کی سزاؤں کا ختم کیا جانا قرآن و سنت کی روح کے منافی اقدام ہے۔ کوڑوں کی سزا کا خاتمہ بدنیتی پر مبنی ہے جس کا واحد مقصد معاشرے میں زنا کے ارتکاب کو مزید فروغ دینا اور مجرموں پر قانون کی گرفت ڈھیلی کرنا ہے۔ بصورتِ تعزیر کوڑوں کی تعداد کم ہوتی ہے، تاہم سزائے قید سمیت دیگر سزائیں بھی دی جاسکتی ہیں۔ (3) جرمِ زنا کی attempt کی سزا کا خاتمہ
اِس ایکٹ کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی جرمِ زنا کی تیاری (attempt) کی دفعہ 18 کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد اب کسی بھی مقام پر چاہے پارک ہو، شاہراہ ہو یا کوئی اور جگہ بوس و کنار جیسی مخربِ اَخلاق برائی کے خلاف کوئی بھی اسٹیٹ اتھارٹی کارروائی نہیں کرسکتی۔ یہ اقدام بھی آئین و قرآن و سنت کی روح کے منافی ہے اور مجرموں کو کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے۔ اس سے فحاشی، عریانی اور بے حیائی کو فروغ ملے گا، اور معاشرے میں بے غیرتی عام ہوجائے گی۔ (4) تعزیراتِ پاکستان کے اِطلاق کا خاتمہ
اِس ایکٹ کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی تعزیرات پاکستان کے بعض قانونی اصولوں کے حدود کیسز پر اطلاق کی دفعہ 19 کو حذف کر دیا گیا ہے مگر وہی اصول حدود آرڈی ننس میں شامل نہیں کیے گئے جو کہ آئین اور قرآن و سنت کے منافی ہے۔ سیکشن نمبر 18 : زنا بالجبر میں سزائے رجم سے متعلق دفعہ کا خاتمہ
اِس سیکشن کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء میں سزائے رجم کے طریقہ کی دفعہ 17 میں زنا بالجبر موجبِ حد کی دفعہ 6 کے الفاظ کو حذف کر دیا گیا ہے۔ سیکشن نمبر 19
دفعہ 19 کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی دفعہ 20 میں ترامیم کی گئی ہیں جس کی وجہ سے عدالت مجرم کو کسی دیگر جرم میں ملوث ہونے پر کارروائی کرکے سزا نہیں دے سکے گی جوکہ مجرموں کو کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے۔ جب کہ دیگر قوانین کے تحت جج صاحبان کو سماعتِ مقدمہ کے دوران جرم کی نوعیت کے مطابق فردِ جرم میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے۔ لہٰذا یہ ترامیم ملکی قوانین میں اِمتیازی اقدام ہے۔ قذف کے قوانین میں ترامیم
سیکشن نمبر 20
سیکشن نمبر 21
دفعہ 21 کے تحت قذف آرڈی ننس کی جرمِ قذف (نفاذِ حد) آرڈی ننس 1979ء موجبِ تعزیر کی دفعہ 4 حذف کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے صرف قذف موجبِ حد کا قانون باقی رہ گیا ہے۔ یعنی جرمِ زنا کی رپورٹ درج کروانے والا مطلوبہ ثبوت فراہم نہ کرسکا تو اسے چھوٹی موٹی سزا نہیں بلکہ پورے 80 کوڑے کھانے پڑیں گے لیکن زنا کا جرم قرائنی شہادتوں سے ثابت بھی ہوجائے گا تو مجرموں پر کوئی گرفت نہیں ہو سکے گی۔ یہ قانون چور کی برات آسان کرتا ہے اور جس کی چوری ہوگئی ہے اُسے لٹکا دیتا ہے۔ سیکشن نمبر 22 : شکایت کنندہ کو مجرم بنانے کا پھندا
زنا، حد اور شہادت کی نوعیت جدا جدا ہے
اِس ضمن میں کوڑوں کی سزا کو بالکل ختم کرنے کا ذکر بھی ہے حالانکہ تعزیری سزاؤں (یعنی قید اور جرمانہ وغیرہ) کے ساتھ اس کو بھی برقرار رکھنا ضروری ہے۔ تاکہ جرم کے خاتمہ کے لیے زیادہ سے زیادہ امکانات موجود رہیں۔ اسی طرح صفحہ 14 پر دوسرا پیراگراف ہے اس میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ اگر چار گواہ ثابت نہ ہوں تو زنا کے کیس کا اندراج نہیں ہوگا۔ یہاں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ زنا کے جرم کو قابل حد ثابت کرنے کے لیے چار گواہوں کی ضرورت شریعت نے مقرر کی ہے نہ کہ شکایت کے اندراج کرنے کے لیے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ زنا، حد اور شہادت تین الگ باتیں ہیں۔ زنا ایک مجرمانہ عمل ہے جوہر حالت میں جرم ہی رہتا ہے خواہ اُس کی شکایت تک بھی نہ کی گئی ہو۔ جب کہ سزا کا تعلق نفس جرم سے نہیں بلکہ ثبوتِ جرم سے ہے۔ جو حد بھی ہو سکتی ہے اور تعزیر بھی جب کہ شہادت وہ نظام ہے کہ اگر اس کا نصاب پورا ہو تو حد کا نفاد ہو گا اور اگر دیگر اطمینان بخش شواہد (sufficient grounds to believe) موجود ہوں مگر نصابِ حد پورا نہ ہو تو پھر تعزیراً سزا دی جائے گی۔ یعنی ہر عمل کا ایک مرحلہ ہے لیکن اس نوعیت کو سمجھے بغیر موجودہ ایکٹ میں حدود و تعزیرات کے اسلامی قوانین میں من مانی تبدیلیاں کر دی گئی ہیں۔
مثلاً اس سیکشن میں ترمیم کی خاطر یہ مؤقف احتیار کیا گیا ہے کہ اگر عورت جرم ثابت نہ کرسکے تو اس پر قذف کی حد لاگو ہو جاتی ہے۔ حالانکہ یہ سراسر غلط ہے اور حقائق اور قانون کی روح کے بھی خلاف ہے۔ قانون سازوں نے اس قانون کا یہ حشر کر دیا ہے کہ اب پوری قوم حتیٰ کہ ماں باپ، بہن بھائی اور معاشرے کے ہر فرد پر قذف کا بہ آسانی اِطلاق ہو رہا ہے۔ حل یہ تھا کہ سزا کو تعزیر کے طور پر موجود رکھا جاتا اور جس مرحلہ پر جو سزا درکار ہوتی وہی سزا عائد کی جاتی۔ گویا نہ صرف یہ کہ قانون کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا بلکہ قانون سازی کرتے ہوئے قانون کی روح تک کو مسخ کر دیا گیا ہے۔ اس کے لیے جو وضاحتیں پیش کی گئیں ہیں وہ بھی عذر گناہ بد تر از گناہ کے مترادف ہیں۔ سیکشن نمبر 23
اِس سیکشن کے تحت جرم زنا بالرضا کے علاوہ دیگر جرائم میں جھوٹا مقدمہ خارج کرنے پر براہِ راست قذف کی سزا نہ ہوسکے گی، اور اگر کوئی اَز خود کسی کے خلاف قذف کی کارروائی کرنا چاہتا ہے تو وہ تھانے میں FIR درج نہیں کروا سکے گا بلکہ اسے اِس ایکٹ کے سیکشن نمبر 9 کے تحت قذف کا استغاثہ دائر کرنا پڑے گا۔ اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک میں زنا بالرضا اور دیگر جرائم کے لیے قذف کے اطلاق کے لیے دو علیحدہ علیحدہ ضابطے طے کیے گئے ہیں جو کہ دوہرا معیار ہے۔
اِسی سیکشن کے تحت قذف آرڈی ننس کی دفعہ 9 کی ذیلی شق 2 کے تحت جج کو قذف موجبِ تعزیر کے تحت سزا دینے کا اختیار بھی ختم کردیا گیا۔ یہاں بھی دوہرا معیار اپنایا گیا ہے جب کہ دیگر حدود قوانین میں موجبِ حد کے معیار کی شہادت میسر نہ ہو تو موجبِ تعزیر کی سزا دی جاتی ہے مگر یہاں یہ اصول حذف کر دیا گیا ہے حالانکہ قذف موجبِ تعزیر کی سزا بھی برقرار رہنی چاہیے تھی۔ سیکشن نمبر 24 : قرآنی تعلیمات سے چشم پوشی کی واضح مثال
اس سیکشن کے تحت یہ قرار دیا گیا ہے کہ کسی ایسے مقدمے میں جس میں حد کی تعمیل سے قبل مستغیث قذف کا الزام واپس لے لے یا یہ بیان دے کہ ملزم نے جھوٹا اقبال کیا ہے یا یہ کہ گواہوں میں کسی نے جھوٹا بیان دیا ہے تو حد کا اطلاق نہیں ہو گا۔ یہاں تعزیر کا ذکر بالکل ختم کر دیا گیا ہے۔ جب کہ شکایت کرنے والے کے لیے شکایت کے واپس لینے کے دباؤ موجود ہیں اور اس کے لیے جو دلیل دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن حکیم نے زنا بالجبر، زنا بالرضا اور قذف کی تعریف بیان نہیں کی۔ یہ کہنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ موقف اختیار کرے کہ قرآن حکیم صوم، صلوٰۃ، اور زکوۃ کی تعریف بیان نہیں کرتا۔ اگر اسی اصول کو لے کر چلیں تو اسلام کے تمام قوانین اور ارکان اسلام کا نظام تہہ و بالا ہو جائے گا۔ قرآن تعریفات بیان کرنے والی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی اصول دیتی ہے۔ اس نے زنا کا ذکر کرتے ہوئے یہ اصول دے دیا ہے :
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَO
(النور، 24 : 2)
اِسی طرح قذف پر بھی حتمی اصول اور ضابطہ بیان کیا گیا ہے :
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَO
(النور، 24 : 4)
یہ آیات براہِ راست جرم کی نوعیت، ضابطوں کی بنیادی تفصیل اور اس کی سزائیں بیان کرتی ہیں۔ اس طرح اس قانون میں حد اور تعزیر کو بالکل ختم کر دینا قرآن کی ان بنیادی تعلیمات سے چشم پوشی کے مترادف ہے۔ سیکشن نمبر 25
اِس سیکشن کے تحت قذف آرڈی ننس کی قذف موجبِ تعزیر کی دفعات 10 تا 13 اور جرمِ قذف کی تیاری (attempt) کی دفعہ 15 حذف کر دی گئیں ہیں۔ سیکشن نمبر 26 : لعان سے متعلق قانون میں عورت کے لیے مشکلات کا اِضافہ
اِسی سیکشن کے تحت قذف آرڈی ننس کی لعان سے متعلق دفعہ 14 کی شق نمبر 4 کو بھی حذف کر دیا گیا ہے، جس کے تحت پہلے یہ قانون تھا کہ بیوی اگر اپنے خاوند کا اِلزام تسلیم کر لیتی ہے تو اُسے زنا مستوجبِ حد کا سزاوار ٹھہرایا جاتا تھا۔ لیکن اب اِس ترمیم کے نتیجے میں بدکار بیوی مستوجبِ حد نہیں ہوگی۔ قرآن و سنت کی نگاہ میں مجرم عورت ہو یا مرد دونوں برابر ہیں لیکن یہاں جنس کی بنیاد پر عورت کو اِستثناء دے دی گئی ہے حالاں کہ قرآن و سنت اِس کی اِجازت نہیں دیتے۔ سیکشن نمبر 27 تا 29
اِس سیکشن کے تحت قذف آرڈی ننس پر تعزیراتِ پاکستان کے بعض قوانین کے اِطلاق کی دفعہ 16 حذف کر دی گئی ہے، مگر وہی اُصول قذف آرڈی ننس میں شامل نہیں کیے گئے۔
اِس ایکٹ کے سیکشن 28 کے تحت حدود آرڈی ننس کی دفعہ 17 کی پہلی اِستثناء ختم کر دی گئی ہے۔ اِس کی وجہ سے عدالت ملزم کو کسی دیگر جرم میں ملوث ہونے پر کارروائی کرکے سزا نہیں دے سکے گی۔ یہ مجرموں کو کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے۔
کا
شرعی و قانونی تجزیہ
تحفظ خواتین ایکٹ 2006ء کے تفصیلی تجزیے سے قبل اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ قرآن و سنت میں حدود اﷲ کو واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔ ان میں ردّ و بدل کی اِجازت کسی پارلیمنٹ، عدالت، ریاست یا حکمران کے پاس نہیں۔ نیز یہ کہنا بھی مبنی بر جہالت و بدنیتی ہے کہ زنا اور قذف کی سزائیں قرآن و سنت میں مقرر نہیں ہیں۔ اِختصار کے سبب ذیل میں ہم قرآن حکیم کی چند آیات اور ان کے تراجم پر اِکتفا کریں گے : حدود اﷲ میں ردّ و بدل کی اجازت نہیں
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُO وَمَن يَعْصِ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌO
(القرآن، النساء، 4 : 13، 14)
وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ
(الطلاق، 65 : 1)
زنا کی سزا قرآن میں مقرر ہے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ O
(النور، 24 : 2)
قذف کی سزا بھی قرآن میں مقرر ہے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ O
(النور، 24 : 4)
اسلام اور آئین کی خلاف ورزی پر مبنی ایکٹ
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ کا منظور کردہ تحفظ خواتین ایکٹ 2006ء اپنے مندرجات کے اعتبار سے مندرجہ بالا عنوان کے برعکس اور قرآن و سنت اور آئین پاکستان سے براہ راست متصادم ہے۔ اس قانون میں نہ صرف آئین میں دیئے گئے صریح اور واضح رہنما اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ قرآن و سنت کی واضح تعلیمات (جن کا اوپر ذکر ہوا) کی بغاوت پر مبنی مؤقف بھی اختیار کیاگیا ہے۔ کمال ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب کچھ
- قرآن و سنت کی اطاعت و تشریح
- آئین پاکستان کی تعمیل ۔ ۔ ۔ اور
- حقوق نسواں کے تحفظ
کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ اس ایکٹ کے ابتدائیہ میں ہی یہ قرار دیا گیا ہے کہ :
پیش کرتے ہیں :سیکشن نمبر 1 : تحفظ و فروغِ بدکاری ایکٹ
٭ اس ایکٹ کے تحت زنا بالجبر موجبِ حد کی سزا کے قانون خصوصًا کوڑوں کی سزا کو ختم کردیا گیا ہے یہ اقدام قرآن و سنت سے متصادم ہے جب کہ زنا بالجبر موجب تعزیر کی دفعات کو حدود آرڈی ننس سے نکال کر تعزیرات پاکستان میں شامل کردیا گیا جو کہ غیر ضروری اقدام ہے۔
٭ اس ایکٹ کے تحت زنا بالرضا موجبِ تعزیر کے قانون کو ختم کردیا گیا ہے جب کہ زنا بالرضا موجب حد کے قانون کو غیر مؤثر کرنے کے لیے ناقابل دست اندازی پولیس اور قابل ضمانت بنا دیا گیا ہے۔ یہ اقدام بھی قرآن و سنت کی روح کے منافی ہے۔
سیکشن 2 تا 4
اس ایکٹ کی دفعات 2 تا 4 کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء میں زنا بالجبر موجب تعزیر کی سزاؤں والی دفعات کو حذف کرکے تعزیرات پاکستان میں شامل کرنے کی منطق یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک مظلوم عورت کے لیے زنا بالجبر میں 4 گواہ پیش کرنے کی شرط کڑی تھی۔ حالانکہ حدود قوانین میں تزکیہ شہود کے تحت 4 گواہان کی شرط صرف زنا بالجبر موجبِ حد کے لیے تھی جب کہ زنا بالجبر موجبِ تعزیر کے تحت صرف عورت کی گواہی، میڈیکل رپورٹ اور معمولی تائیدی شہادت پر بھی ملزم کو سزا ہوجاتی تھی۔ لہٰذا یہ پراپیگنڈہ اسلام کے خلاف غلط فہمی اور شر انگیزی پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ مزید برآں ان جرائم کی سزاؤں سے کوڑوں کی سزاؤں کا حذف کیا جانا بھی قرآن و سنت کے منافی اور موجود توبیخی اقدامات ختم کرنے کے مترادف ہے۔ سیکشن نمبر 5 : زنا بالجبر سے متعلق نئی دفعات
اس سیکشن کے تحت زنا بالجبر کو حدود آرڈی ننس سے نکال کر تعزیراتِ پاکستان میں داخل کر دیا گیا ہے۔ موجودہ قانون میں شامل کی جانے والی ترمیمات کے نتیجے میں
(1) زنا بالجبر کی سزا کو حد سے نکال کر مستوجب تعزیر قرار دے دیا گیا ہے۔ حکومت کے بقول قرآن و سنت میں زنا بالجبر کی سزا کا تعین نہیں ہے، یہ یا تو جہالت اور قرآن و سنت کی تعلیمات سے بے خبری ہے یا سراسر بدنیتی۔
کیوں کہ قرآنِ حکیم میں اس بات کی صراحت کردی گئی ہے کہ جرمِ زنا کی سزا کیا ہوگی۔ (اس کی وضاحت ابتداء میں آیات قرآنی سے ہوچکی ہے۔) لہٰذا زنا بالجبر کے سنگین جرم کو حدود آرڈی ننس سے نکال کر صرف تعزیرات پاکستان کا حصہ بنا دینا اﷲ کے قانون سے بے خبری یا اسے عمدًا پس پشت ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس سیکشن کے تحت اس قانون میں جو قباحتیں در آئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب زنا بالجبر کی سزا بطور حد نافذ نہیں ہو گی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ معاشرے میں سزا کے خوف سے جرائم کے قلع قمع کرنے اور مجرموں کو جر م کے ارتکاب سے روکنے کے لیے جس قدر پیش بندی موجود تھی وہ ختم ہو جائے گی۔
صاف ظاہر ہے کہ جب یہ شرط عائد کردی گئی ہے تو اس میں 16 سال سے کم عمر خواتین جو بدکاری کا شکار ہوں چاہے ارتکابِ جرمِ زنا بالجبر کے تحت ہو یا زنا بالرضا کے تحت، عورت زنا بالجبر کی اس provision کے تحت بالکل صاف بچ جائے گی کیوں کہ جب بھی سزا کے تعین کا معاملہ درپیش ہوگا 16 سال سے کم عمر کا فائدہ لیتے ہوئے اس جرم کو زنا بالجبر قرار دیا جائے گا جس کے نتیجے میں لڑکی پر چاہے وہ خود ہی جرم کا حصہ کیوں نہ ہو سزا کا اطلاق نہیں ہوگا۔
اس ترمیم سے پیدا ہونے والے خدشات میں سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مغرب کی طرح چھوٹی عمر سے ہی بے راہ روی کے جراثیم تیزی سے پروان چڑھیں گے اور اس ناپختہ عمر کی برائی کے اثرات آگے چل کر بھی گل کھلائیں گے۔
(3) دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر ہم قرآن مجید کی روشنی میں دیکھیں تو قرآن حکیم نے زنا کی کسی بھی صورت کو سزا سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ ارشادِ ربانی ہے۔
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ ۔
(النور، 24 : 2)
اس آیت مبارکہ کے کلمات کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا سے یہ مفہوم بالکل واضح ہے کہ ان میں سے اگر دونوں زنا کے جرم میں شریک ہوں تو زنا بالرضا کے تحت دونوں کو سزا کا مستوجب قرار دیا جائے گا۔ اگر ان میں سے ایک ارتکاب جرم کررہا ہو اور وہ زنا بالجبر ہو تو صرف اسے ہی سزا ملے گی جب کہ دوسرے مظلوم فریق کو سزا نہیں ملے گی یعنی اگر جرم قابل حد نہ ہو تو بطور حد سزا نافذ نہیں ہوگی بلکہ تعزیراً سزا دی جاسکے گی۔
اس ترمیم کی واحد حکمت جو ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر لمبے ہاتھ والے سرکاری کارندے، رسہ گیر، وڈیرے اور مؤثر لوگ بالجبر کسی غریب کی بہن، بیٹی کی عزت لوٹ لیں اور وہ مظلوم عورت یا اس کے ورثاء کسی طرح اس کی FIR درج کروا بھی لیں تو حکومت اور عدالت کے پاس تعزیری سزا کے تحت یہ آپشن ہو کہ انہیں برائے نام سزا دے کر بری کر دیا جائے۔ جہاں تک اس ایکٹ میں موجود سزائے عمر قید کی شق کا تعلق ہے تو نہ کوئی یہ سزا دے گا اور نہ پہلے کسی کو دی گئی ہے۔
اس ترمیمی ایکٹ کا براہ راست اثر یہ ہوگا کہ مؤثر بدکار جرائم کے ارتکاب میں دلیر ہوجائیں گے اور غریب، مزدور اور مجبور کی بہن بیٹی کی بے بسی اور نارسائی میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ سیکشن نمبر 6 تا 7
سیکشن نمبر 6 تا 7 درست ہیں کیوں کہ یہ تعزیری سزاؤں کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔ سیکشن نمبر 8
سیکشن نمبر 8 بھی کسی حد تک درست ہے کیوں کہ اس میں عورت کی عصمت دری کی تشہیر کی ممانعت کی گئی ہے اور اسے قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت عورت اور اس کے خاندان کی عزت اچھالنے کے امکانات کم کیے جاسکتے ہیں بشرطیکہ قانون کی عمل داری کو ممکن بنایا جاسکے۔ سیکشن نمبر 9
اس سیکشن میں زنا بالرضا کے جرم کا ارتکاب ہونے پر شکایت بذریعہ استغاثہ درج کرنے کے طریقہ کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ اس حوالے سے جو قباحتیں اور قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں ان کا ذکر درج ذیل ہے : (1) عدالتِ مجاز تک رسائی میں مشکلات
اس سیکشن میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ زنا بالرضا کے جرم میں تھانہ میں FIR کے اندراج کے بجائے صرف سیشن جج کی عدالت میں ہی زنا بالرضا کے جرم کے ارتکاب کی شکایت درج کروائی جاسکے گی کیوں کہ زنا بالرضاکے جرم کو ناقابل دست اندازی پولیس بنا دیا گیا ہے۔ زنا جیسے جرم کے قلع قمع کے لیے قانون تک عام آدمی کی رسائی کو زیادہ سے زیادہ ممکن بنانے کے بجائے قانون تک رسائی کو محال اور مشکل بنا دینے کا یہ عمل کئی طرح کی مشکلات کا باعث بنے گا۔
مثلاً تمام ضلع میں صرف ایک سیشن عدالت تک ہر شخص کی رسائی قطعاً ممکن نہیں ہوتی کیوں کہ پاکستان کے بعض اضلاع اتنے وسیع و عریض اور دور دراز علاقوں تک پھیلے ہوئے ہیں کہ دیہاتوں میں رہنے والے سادہ لوح لوگ قطعاً سیشن جج کی عدالت تک بار بار آنا بوجوہ afford نہیں کر سکتے۔ بفرض محال وہ پہنچ بھی جائیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہزاروں مقدموں کی کارروائی میں گھری ہوئی سیشن عدالت ان کی درخواست کو اس دن قبول کرسکے گی۔ اسی طرح کی دیگر قانونی پیچیدگیوں کے باعث مظلوم کے لیے بہ آسانی انصاف تک رسائی مشکل ہوگی۔ اس طرح عملاً زنا کے خلاف شکایت درج کروانا ناممکن ہو جائے گا کیوں کہ ہمارے عدالتی نظام میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایک معمولی سے معاملے کے لیے بھی عدالتوں کے باربار چکر لگانے پڑتے ہیں۔ اب جب کہ ضلع کے کسی دور دراز علاقے میں زنا کے جرم کا ارتکاب ہو اور شکایت کنندگان ایک دو دفعہ سیشن جج کی عدالت تک شکایت کرانے کے لیے آبھی گئے اور جج کسی بھی وجہ سے عدالت میں نہ ملا تو دوبارہ کوئی بھی عدالت میں آ کر شکایت درج کروانے کی جرات نہیں کرے گا۔ (2) مظلوم پر قذف کی تلوار
اس ایکٹ کے تحت جہاں ایک طرف ارتکابِ زنا بالرضا کی شکایت درج کروانے کے لیے سیشن جج کی عدالت کی شرط ہے وہیں دوسری طرف قانون کے اندر یہ بھی درج کر دیا گیا ہے کہ اگر شکایت کنندگان چار گواہ پیش کرکے جرم کو ثابت نہ کر سکیں تو انہیں بغیر کسی ثبوت یا مقدمہ کی کارروائی کے قذف کے قانون کا سامنا کرنا ہو گا گویا قذف کی تلوار بھی مظلوم کے سر پر ہی لٹکا دی گئی ہے۔
جرم ثابت کرنے کے لیے تو تزکیہ شہود سمیت دیگر کئی شرائط اور پابندیاں لگا دی گئی ہیں لیکن قذف کے ثبوت کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ کوئی بدکاری کے جرم کی شکایت لے کر عدالت میں آجائے اور جج اُس کی شکایت سے مطمئن نہ ہو۔ اس سلسلے میں دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے کی بے حسی کسی سے پوشیدہ نہیں، سامنے گاڑی کے نیچے کوئی شخص کچلا جائے تو لوگ تھانے میں جاکر اس کی رپورٹ درج کروانے یا اس کی گواہی دینے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے چہ جائے کہ 100/50 میل دور سے کوئی اس معاشرتی برائی کی شکایت لے کر سیشن جج کی عدالت میں چکر لگاتا پھرے۔ خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب شکایت کنندہ کو یہ بھی معلوم ہو کہ جرمانے اور قید سمیت قذف کی حد اُس پر بھی لگ سکتی ہے اور اس میں جج چاہے تو اس کے گواہوں پر سو طرح کے نقائص نکال کر ان کی چھٹی کرا دے اور مدعی کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ کسی ایک بستی، گاؤں اور تحصیل و ضلع میں قذف کا قانون بدنیتی کے ساتھ کسی شخص پر لاگو کردیا جائے تو کون ہے جو اس کے بعد بدکاری کے معاملات پر انگلی بھی اٹھانے کا روادار ہوگا، نتیجہ اجتماعی بے غیرتی اور بے حسی کی صورت میں نکلے گا۔ (3) ضلعی عدالتی نظام پر عدم اِعتماد
یہاں یہ امر بھی حیران کن ہے کہ ضلع کا پورا عدالتی نظام تمام دوسرے اہم ترین معاملات نمٹا رہا ہے۔ ضلعی عدالتی نظام میں عام طور پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے ماتحت بڑے اَضلاع میں 150 تا 200 جج / مجسٹریٹ ہوتے ہیں جب کہ چھوٹے اَضلاع میں بھی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے ماتحت تقریبًا 100 تک جج / مجسٹریٹ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ سنگین جرائم اور لاکھوں کروڑوں کی مالیت کے معاملات نبٹاتے ہیں لیکن ان معاملات میں تو ضلع کے عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا جاتا جب کہ زنا کے لیے ضلع کے پورے عدالتی نظام کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا گیا ہے اور یہ شرط عائد کردی گئی ہے کہ صرف سیشن جج کی عدالت میں ہی آ کر جرم کے خلاف شکایت درج کروائی جائے۔ مزید برآں سیشن جج پر ضلع کی عدالت ہونے کے ناطے کئی دیگر امور کا بوجھ بھی ہوگا۔ اندریں حالات یہ معاملات قطعاً اس کی ترجیح میں شامل ہی نہ ہو سکیں گے۔ لہٰذا اس بات کا زیادہ امکان ہوگا کہ بدکاری کے یہ مقدمات غیر ضروری طوالت کا شکار ہوتے رہیں۔ (4) اِستغاثہ کا کڑا معیار
جرم ثابت کرنے کے لیے مقدمہ کی کارروائی کے دوران گواہوں اور تزکیۂ شہود کی شرط لازمی ہوتی ہے نہ کہ شکایت کے اندراج اور استغاثہ کو قابل سماعت بنانے کے لیے۔ جب کہ یہاں تو استغاثہ کو قابل سماعت بنانے کے لیے بھی اس بات کو لازمی قرار دیا گیا ہے کہ جب تک چار گواہوں کی شرط پوری نہیں ہوتی اس وقت تک شکایت کا اندراج بھی نہ کیا جائے اور شکایت کرنے والے کی شکایت کو ردّ کر دیا جائے۔ استغاثہ کا یہ کڑا معیار بجا تھا بشرطیکہ جرم ثابت کرنے کے بقیہ تقاضے بھی عین مطابقِ شریعت ہوں لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہائی جا رہی ہے۔ اس نرالے طریق کار کی کوئی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ (5) ملزم کے لیے غیر ضروری رعایت
مزید برآں اس سیکشن کے تحت زنا کے جرم کو قابلِ ضمانت بھی قرار دے دیا گیا ہے۔ جس سے جرم کی شدت کم تر ہوگئی ہے یعنی مجرم تو جرم کا ارتکاب بار بار کرنے کے باوجود صرف ذاتی مچلکے پُر کرکے ضمانت پر رہا ہو جائے گا اور معاشرے میں دندناتا پھرے گا۔ جب کہ شکا یت کنندہ جو مظلوم ہوگا معاشرے میں اس سنگین جرم کے خاتمے کے لیے عدالت سے رجوع کر رہا ہو گا اور عدالت میں پیشیاں بھگت رہا ہوگا اسے قذف کے قانون کا سامنا بھی ہو گا یہ صورتحال یقینًا ملزم کو غیر ضروری رعایت دینے اور مظلوم کے لیے مشکلات میں اضافے کا سبب ہو گا۔ جس کے نتیجے میں جرائم کی بے پناہ حوصلہ افزائی ہوگی۔ سیکشن نمبر 10
اس دفعہ کے تحت شیڈول میں زنا بالجبر قابل تعزیر کی شق نمبر i تا viii ماسوائے زنا بالجبر موجبِ حد کی شق v درست ہیں تاہم مجسٹریٹ اور ضلع کے مقامی عدالتی نظام پر اعتماد کی ضرورت ہے اور عام آدمی کے لیے قانون تک رسائی کے امکانات کو کھلا رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آسانی سے عدلیہ تک رسائی حاصل کرسکے۔ مزید براں زنا جیسے سنگین جرم کے ارتکاب پر کوڑوں کی سزا کو بھی بحال رکھنا چاہیے تاکہ مجرموں کی حوصلہ شکنی کے زیادہ سے زیادہ امکانات موجود رہیں۔
اس ایکٹ کی شق v زنا بالجبر موجبِ حد سے متعلق ہے مگر تعزیر کے تحت سزا کا تقرر بھی حدود ایکٹ کے تحت اسی کے ساتھ الگ کیا جانا چاہیے تھا۔ اسی طرح اس ایکٹ کی دفعہ 10 کی شق ix میں زنا بالرضا موجبِ حد کو ناقابلِ دست اندازئ پولیس اور قابلِ ضمانت قرار دینا قانون کو غیر مؤثر کرنے کے مترادف ہے۔ یہ اقدام قرآن و سنت کی روح کے منافی ہے۔ سیکشن نمبر 11 اور 13 : زبانی نکاح کا تحفظ
سیکشن نمبر 12 : حدود قوانین کی برتری کا خاتمہ
اس ایکٹ کے سیکشن 12 کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی دفعہ 3 کو حذف کرکے حدود قوانین کی دیگر تمام متعلقہ قوانین پر برتری کا قانونی اصول ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدام بھی آئین اور قرآن و سنت سے متصادم ہے۔ سیکشن نمبر 14 : زنا بالجبر موجبِ حد کے قانون کا ختم
اس ایکٹ کی دفعہ 14 کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی زنا بالجبر موجب حد کی دفعات 6 تا 7 ختم کردی گئی ہیں۔ جو قرآن و سنت سے کھلا تصادم ہے کیوں کہ قرآن و سنت کے مطابق زنا بالجبر کا جرمِ زنا بالرضا کے جرم سے بھی سنگین ہے۔ لہٰذا زنا بالجبر موجبِ حد کے قانون کو تعزیرات میں شامل کرنا اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغاوت اور جنگ کے مترادف ہے۔ سیکشن نمبر 15 تا 16
سیکشن نمبر 17
اس سیکشن کے تحت درج ذیل قانونی ترمیمات کی گئی ہیں۔ (1) زنا موجبِ تعزیر کے قانون کا خاتمہ
اس ایکٹ کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی زنا بالرضا موجبِ تعزیر اور زنا بالجبر موجبِ تعزیر کی سزاؤں کی دفعہ 10 حذف کردی گئی ہے حالانکہ قرآن و سنت کے طے کردہ حدود قوانین اٹل ہیں۔ تاہم ریاست کو تعزیری قوانین بنانے کا اختیار حاصل ہے۔ لہٰذا حدود آرڈی ننس کی یہ دفعہ 10 قرآن و سنت کی روح کے مطابق تھی مگر اسے حذف کرکے قرآن و سنت کے منافی اقدام کیا گیا ہے۔
(2) زنا بالجبر موجبِ تعزیر سے کوڑوں کی سزا ختم
اس سیکشن کے تحت جرمِ زنا (نفاذ حد) آرڈی ننس 1979ء کی دفعات 11 تا 16 حذف کر کے تعزیراتِ پاکستان میں شامل کردی گئی ہیں۔ کیوں کہ ان دفعات میں بیان کردہ جرائم کا تعلق زنا بالجبر موجب تعزیر سے تھا لہٰذا ان ترامیم کی شرعی حیثیت زنا بالجبر موجب حد کی طرح کا مسئلہ نہیں ہے مگر ان جرائم کی سزاؤں سے کوڑوں کی سزاؤں کا ختم کیا جانا قرآن و سنت کی روح کے منافی اقدام ہے۔ کوڑوں کی سزا کا خاتمہ بدنیتی پر مبنی ہے جس کا واحد مقصد معاشرے میں زنا کے ارتکاب کو مزید فروغ دینا اور مجرموں پر قانون کی گرفت ڈھیلی کرنا ہے۔ بصورتِ تعزیر کوڑوں کی تعداد کم ہوتی ہے، تاہم سزائے قید سمیت دیگر سزائیں بھی دی جاسکتی ہیں۔ (3) جرمِ زنا کی attempt کی سزا کا خاتمہ
اِس ایکٹ کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی جرمِ زنا کی تیاری (attempt) کی دفعہ 18 کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد اب کسی بھی مقام پر چاہے پارک ہو، شاہراہ ہو یا کوئی اور جگہ بوس و کنار جیسی مخربِ اَخلاق برائی کے خلاف کوئی بھی اسٹیٹ اتھارٹی کارروائی نہیں کرسکتی۔ یہ اقدام بھی آئین و قرآن و سنت کی روح کے منافی ہے اور مجرموں کو کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے۔ اس سے فحاشی، عریانی اور بے حیائی کو فروغ ملے گا، اور معاشرے میں بے غیرتی عام ہوجائے گی۔ (4) تعزیراتِ پاکستان کے اِطلاق کا خاتمہ
اِس ایکٹ کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی تعزیرات پاکستان کے بعض قانونی اصولوں کے حدود کیسز پر اطلاق کی دفعہ 19 کو حذف کر دیا گیا ہے مگر وہی اصول حدود آرڈی ننس میں شامل نہیں کیے گئے جو کہ آئین اور قرآن و سنت کے منافی ہے۔ سیکشن نمبر 18 : زنا بالجبر میں سزائے رجم سے متعلق دفعہ کا خاتمہ
اِس سیکشن کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء میں سزائے رجم کے طریقہ کی دفعہ 17 میں زنا بالجبر موجبِ حد کی دفعہ 6 کے الفاظ کو حذف کر دیا گیا ہے۔ سیکشن نمبر 19
دفعہ 19 کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی دفعہ 20 میں ترامیم کی گئی ہیں جس کی وجہ سے عدالت مجرم کو کسی دیگر جرم میں ملوث ہونے پر کارروائی کرکے سزا نہیں دے سکے گی جوکہ مجرموں کو کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے۔ جب کہ دیگر قوانین کے تحت جج صاحبان کو سماعتِ مقدمہ کے دوران جرم کی نوعیت کے مطابق فردِ جرم میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے۔ لہٰذا یہ ترامیم ملکی قوانین میں اِمتیازی اقدام ہے۔ قذف کے قوانین میں ترامیم
سیکشن نمبر 20
سیکشن نمبر 21
دفعہ 21 کے تحت قذف آرڈی ننس کی جرمِ قذف (نفاذِ حد) آرڈی ننس 1979ء موجبِ تعزیر کی دفعہ 4 حذف کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے صرف قذف موجبِ حد کا قانون باقی رہ گیا ہے۔ یعنی جرمِ زنا کی رپورٹ درج کروانے والا مطلوبہ ثبوت فراہم نہ کرسکا تو اسے چھوٹی موٹی سزا نہیں بلکہ پورے 80 کوڑے کھانے پڑیں گے لیکن زنا کا جرم قرائنی شہادتوں سے ثابت بھی ہوجائے گا تو مجرموں پر کوئی گرفت نہیں ہو سکے گی۔ یہ قانون چور کی برات آسان کرتا ہے اور جس کی چوری ہوگئی ہے اُسے لٹکا دیتا ہے۔ سیکشن نمبر 22 : شکایت کنندہ کو مجرم بنانے کا پھندا
زنا، حد اور شہادت کی نوعیت جدا جدا ہے
اِس ضمن میں کوڑوں کی سزا کو بالکل ختم کرنے کا ذکر بھی ہے حالانکہ تعزیری سزاؤں (یعنی قید اور جرمانہ وغیرہ) کے ساتھ اس کو بھی برقرار رکھنا ضروری ہے۔ تاکہ جرم کے خاتمہ کے لیے زیادہ سے زیادہ امکانات موجود رہیں۔ اسی طرح صفحہ 14 پر دوسرا پیراگراف ہے اس میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ اگر چار گواہ ثابت نہ ہوں تو زنا کے کیس کا اندراج نہیں ہوگا۔ یہاں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ زنا کے جرم کو قابل حد ثابت کرنے کے لیے چار گواہوں کی ضرورت شریعت نے مقرر کی ہے نہ کہ شکایت کے اندراج کرنے کے لیے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ زنا، حد اور شہادت تین الگ باتیں ہیں۔ زنا ایک مجرمانہ عمل ہے جوہر حالت میں جرم ہی رہتا ہے خواہ اُس کی شکایت تک بھی نہ کی گئی ہو۔ جب کہ سزا کا تعلق نفس جرم سے نہیں بلکہ ثبوتِ جرم سے ہے۔ جو حد بھی ہو سکتی ہے اور تعزیر بھی جب کہ شہادت وہ نظام ہے کہ اگر اس کا نصاب پورا ہو تو حد کا نفاد ہو گا اور اگر دیگر اطمینان بخش شواہد (sufficient grounds to believe) موجود ہوں مگر نصابِ حد پورا نہ ہو تو پھر تعزیراً سزا دی جائے گی۔ یعنی ہر عمل کا ایک مرحلہ ہے لیکن اس نوعیت کو سمجھے بغیر موجودہ ایکٹ میں حدود و تعزیرات کے اسلامی قوانین میں من مانی تبدیلیاں کر دی گئی ہیں۔
مثلاً اس سیکشن میں ترمیم کی خاطر یہ مؤقف احتیار کیا گیا ہے کہ اگر عورت جرم ثابت نہ کرسکے تو اس پر قذف کی حد لاگو ہو جاتی ہے۔ حالانکہ یہ سراسر غلط ہے اور حقائق اور قانون کی روح کے بھی خلاف ہے۔ قانون سازوں نے اس قانون کا یہ حشر کر دیا ہے کہ اب پوری قوم حتیٰ کہ ماں باپ، بہن بھائی اور معاشرے کے ہر فرد پر قذف کا بہ آسانی اِطلاق ہو رہا ہے۔ حل یہ تھا کہ سزا کو تعزیر کے طور پر موجود رکھا جاتا اور جس مرحلہ پر جو سزا درکار ہوتی وہی سزا عائد کی جاتی۔ گویا نہ صرف یہ کہ قانون کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا بلکہ قانون سازی کرتے ہوئے قانون کی روح تک کو مسخ کر دیا گیا ہے۔ اس کے لیے جو وضاحتیں پیش کی گئیں ہیں وہ بھی عذر گناہ بد تر از گناہ کے مترادف ہیں۔ سیکشن نمبر 23
اِس سیکشن کے تحت جرم زنا بالرضا کے علاوہ دیگر جرائم میں جھوٹا مقدمہ خارج کرنے پر براہِ راست قذف کی سزا نہ ہوسکے گی، اور اگر کوئی اَز خود کسی کے خلاف قذف کی کارروائی کرنا چاہتا ہے تو وہ تھانے میں FIR درج نہیں کروا سکے گا بلکہ اسے اِس ایکٹ کے سیکشن نمبر 9 کے تحت قذف کا استغاثہ دائر کرنا پڑے گا۔ اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک میں زنا بالرضا اور دیگر جرائم کے لیے قذف کے اطلاق کے لیے دو علیحدہ علیحدہ ضابطے طے کیے گئے ہیں جو کہ دوہرا معیار ہے۔
اِسی سیکشن کے تحت قذف آرڈی ننس کی دفعہ 9 کی ذیلی شق 2 کے تحت جج کو قذف موجبِ تعزیر کے تحت سزا دینے کا اختیار بھی ختم کردیا گیا۔ یہاں بھی دوہرا معیار اپنایا گیا ہے جب کہ دیگر حدود قوانین میں موجبِ حد کے معیار کی شہادت میسر نہ ہو تو موجبِ تعزیر کی سزا دی جاتی ہے مگر یہاں یہ اصول حذف کر دیا گیا ہے حالانکہ قذف موجبِ تعزیر کی سزا بھی برقرار رہنی چاہیے تھی۔ سیکشن نمبر 24 : قرآنی تعلیمات سے چشم پوشی کی واضح مثال
اس سیکشن کے تحت یہ قرار دیا گیا ہے کہ کسی ایسے مقدمے میں جس میں حد کی تعمیل سے قبل مستغیث قذف کا الزام واپس لے لے یا یہ بیان دے کہ ملزم نے جھوٹا اقبال کیا ہے یا یہ کہ گواہوں میں کسی نے جھوٹا بیان دیا ہے تو حد کا اطلاق نہیں ہو گا۔ یہاں تعزیر کا ذکر بالکل ختم کر دیا گیا ہے۔ جب کہ شکایت کرنے والے کے لیے شکایت کے واپس لینے کے دباؤ موجود ہیں اور اس کے لیے جو دلیل دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن حکیم نے زنا بالجبر، زنا بالرضا اور قذف کی تعریف بیان نہیں کی۔ یہ کہنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ موقف اختیار کرے کہ قرآن حکیم صوم، صلوٰۃ، اور زکوۃ کی تعریف بیان نہیں کرتا۔ اگر اسی اصول کو لے کر چلیں تو اسلام کے تمام قوانین اور ارکان اسلام کا نظام تہہ و بالا ہو جائے گا۔ قرآن تعریفات بیان کرنے والی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی اصول دیتی ہے۔ اس نے زنا کا ذکر کرتے ہوئے یہ اصول دے دیا ہے :
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَO
(النور، 24 : 2)
اِسی طرح قذف پر بھی حتمی اصول اور ضابطہ بیان کیا گیا ہے :
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَO
(النور، 24 : 4)
یہ آیات براہِ راست جرم کی نوعیت، ضابطوں کی بنیادی تفصیل اور اس کی سزائیں بیان کرتی ہیں۔ اس طرح اس قانون میں حد اور تعزیر کو بالکل ختم کر دینا قرآن کی ان بنیادی تعلیمات سے چشم پوشی کے مترادف ہے۔ سیکشن نمبر 25
اِس سیکشن کے تحت قذف آرڈی ننس کی قذف موجبِ تعزیر کی دفعات 10 تا 13 اور جرمِ قذف کی تیاری (attempt) کی دفعہ 15 حذف کر دی گئیں ہیں۔ سیکشن نمبر 26 : لعان سے متعلق قانون میں عورت کے لیے مشکلات کا اِضافہ
اِسی سیکشن کے تحت قذف آرڈی ننس کی لعان سے متعلق دفعہ 14 کی شق نمبر 4 کو بھی حذف کر دیا گیا ہے، جس کے تحت پہلے یہ قانون تھا کہ بیوی اگر اپنے خاوند کا اِلزام تسلیم کر لیتی ہے تو اُسے زنا مستوجبِ حد کا سزاوار ٹھہرایا جاتا تھا۔ لیکن اب اِس ترمیم کے نتیجے میں بدکار بیوی مستوجبِ حد نہیں ہوگی۔ قرآن و سنت کی نگاہ میں مجرم عورت ہو یا مرد دونوں برابر ہیں لیکن یہاں جنس کی بنیاد پر عورت کو اِستثناء دے دی گئی ہے حالاں کہ قرآن و سنت اِس کی اِجازت نہیں دیتے۔ سیکشن نمبر 27 تا 29
اِس سیکشن کے تحت قذف آرڈی ننس پر تعزیراتِ پاکستان کے بعض قوانین کے اِطلاق کی دفعہ 16 حذف کر دی گئی ہے، مگر وہی اُصول قذف آرڈی ننس میں شامل نہیں کیے گئے۔
اِس ایکٹ کے سیکشن 28 کے تحت حدود آرڈی ننس کی دفعہ 17 کی پہلی اِستثناء ختم کر دی گئی ہے۔ اِس کی وجہ سے عدالت ملزم کو کسی دیگر جرم میں ملوث ہونے پر کارروائی کرکے سزا نہیں دے سکے گی۔ یہ مجرموں کو کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے۔
اِس ایکٹ کے سیکشن 29 کے تحت قذف آرڈی ننس کی دفعہ 19 حذف کرکے حدود قوانین کی دیگر تمام قوانین پر برتری کا قانونی اُصول ختم کر دیا گیا ہے، جو قرآن و سنت کی کھلی توہین ہے۔
Comment