پلٹ آﺅ.... اپنی اصل کی جانب
عرفان صدیقی
ادبار کے بادل کیوں چھائے ہوئے ہیں؟
زوال کی سیاہ رات کیوں ڈھلنے میں نہیں آرہی؟
دنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے۔
ہر ہندو کے مقابلے میں دو مسلمان ہیں۔
ہر بدھ کے مقابلے میں دو مسلمان ہیں۔
ہر یہودی کے مقابلے میں ایک سو سے زائد مسلمان ہیں....
ہمارے وسائل بھی کم نہیں۔
ہمارے ہاں دولت کی فراوانی بھی ہے۔
ہمارے اسلحہ خانے بھی لبالب بھرے ہیں۔
ہم جوہری قوت بھی رکھتے ہیں۔
ہمارے بڑے بڑے لشکر بھی کسی سے کم نہیں۔
پھر کیا وجہ ہے کہ ہر کہیں اہل حرم، سامراجی مظالم کا شکار ہیں
ہر کہیں ان کی رگ جاں کا لہو بہہ رہا ہے
ہر کہیں ان کی بستیاں خاکستر ہو رہی ہیں
ہر کہیں انہیں اپنے حقوق سے محروم کیا جارہا ہے
وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کھائے ہوئے بھس کی مانند ہوگئے ہیں
وہ سب کچھ رکھتے ہوئے بھی بے دست وپا سے بن گئے ہیں
وہ تونگر ہوتے ہوئے بھی غربت وفلاکت کی چکی میں پس رہے ہیں
وہ بازوئے شمشیر زن رکھتے ہوئے بھی بے بس ولاچار سے بیٹھے ہیں
سوچنے والوں کو سوچنا چاہےے
عذر کرنے والوں کو غور وفکر کرنا چاہےے
امت کے دانشوروں کو اس عہد زوال کے اسباب وعلل کا جائزہ لینا چاہےے
اپنی تاریخ کے آئینے میں اپنے چہرے کے نقوش پر نظر ڈالنی چاہےے
اور پھر کوئی ایسا نسخہ بھی تجویز کرنا چاہےے
کہ ہم کیا کریں....؟
وہ متاع گم گشتہ کہاں سے لائیں جو ہمیں ایک بار پھر آبرومند کردے؟
جو ایک بار پھر ہمارے دلوں کو دولتِ ایمان ویقین سے آباد کردے؟
جو ممولے میں شہباز پر جھپٹنے کا حوصلہ پیدا کردے
جو قلت اور کثرت کے آشوب سے آزاد کردے
جو اسلحہ کی کمتری وبرتری کے خرخشوں کو نابود کردے
جو زندگی اور موت کے اس مادی اور بے توقیر تصور کو بدل ڈالے جسے ہم نے اپنے اوپر طاری کرلیا ہے
جو ایک بار پھر ہماری تیغ بے نیام کی دھار کو تیز کردے؟
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ
میں عالم دین ہوں نہ شیخ القرآن
نہ محدث، نہ مفسر، نہ فقیہ، نہ مفتی
میں جہاد کے شرعی تقاضوں، مسائل اور جزئیات وتفصیلات پر بھی عبور نہیں رکھتا
لیکن میں اس سادہ ومعصوم بات سے باخبر ہوں
کہ انسان، تمام مخلوقات سے بڑھ کر ہے
اُسے نطق عطا کیا گیا، جذبہ واحساس بخشا گیا، عقل ودانش سے بہرہ مند کیا گیا
اور اس کے سر پر خلافتِ الٰہی کا تاج سجایا گیا
میں اتنی بات جانتا ہوں کہ
اس کی زندگی کا مقصد محض نسل کشی نہیں
اس کی زندگی کا مقصد یہ بھی نہیں کہ وہ محض زندہ رہنے کے لئے چراگاہوں پہ منہ مارتا ہے
وہ کچھ مقاصد اولیٰ کے لئے اس دنیا میں آیا ہے
دور کی منزلوں کا مسافر متعین اہداف کے لئے اس سرائے میں اترا ہے
اگر وہ ذاتی اور شخصی مفادات کے کھونٹے سے بندھا، ایک جانور کی طرح چراہ گاہ پہ منہ مارتار ہے
تو یہ اس کے شرف انسانی کے منافی ہے
یہ دنیا اس کے لئے ایک امتحان گاہ ہے....
ایک میدان کارزار ہے
ایسا میدان کارزار، جو ہر آن اسے دعوت پیکار دے رہا ہے
اس دعوت پیکار کا اولین تقاضا کیا ہے؟
یہ کہ انسان، ماسوا اﷲ کا خوف دل سے نکال دے
کسی فرعون وقت اور کسی سپر پاور کو خاطر میں نہ لائے
حاضر وموجود کے آشوب سے نکل آئے
صرف وہ سجدہ اپنی جبیں میں بسائے جو انسان کو ہزاروں سجدوں سے بے نیاز کردیتا ہے
زباں سے لا الہ الا اﷲ کہنے کے ساتھ ساتھ
دل ونگاہ میں بھی اس حقیقت کو بسالے کہ اس قادر مطلق کے علاوہ کوئی نہیں جس کی پرستش کی جائے
خوف کو دل سے نکال دے
دنیوی طاقت کے گوشواروں سے ہراساں نہ ہو
اور پھر اس امر کو جزو ایمان بنا لے کہ زندگی کا ہر لمحہ اﷲ کی دی ہوئی نعمت ہے
ہر سانس ایک امانت ہے
اور یہ کہ آخرت کی دائمی زندگی کے سامنے اس کی کوئی اہمیت نہیں
جب وہ اپنے دل پہ تنے خوف کے جالے اتار پھینکے گا
جب وہ زندگی کی حقیقت کو جان جائے گا
جب اس کا باطن، ایمان ویقین کے جو ہر تابناک سے دمکنے لگے گا
تو پھر اس پہ منکشف ہوگا کہ
میری ذمہ داری کیا ہے
پھر وہ جان جائے گا کہ باطل سے ٹکرانے میں کیا لذت ہے
پھر اسے معلوم ہو گا کہ
اعلائے کلمة الحق کسے کہتے ہیں
پھر وہ جان جائے گا کہ اﷲ کی راہ میں جان دینے کا ثمر کیا ہے
پھر وہ یہ راز پا جائے گا کہ
بعض لوگ زندگی کے زعم میں ساری عمر اپنی لاش اپنے کندھوں پہ اٹھائے پھرتے ہیں
اور بعض لوگ....
اپنی گردن کٹا کر بھی امر ہو جاتے ہیں
لیکن آج مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ سامراج کے سامنے ڈٹ جانے
اس کی رعونت پہ خاک ڈالنے
اس کے مکروہ عزائم کے سامنے آہن وفولاد کی دیوار بن جانے
اور مشکل ترین حالات میں بھی جان پر کھیل جانے کا نام
انسانی عظمت وسر بلندی ہے....!
اور اگر میں اس انسانی عظمت وسربلندی کو
جہاد فی سبیل اﷲ سے عبارت کروں تو شاید غلط نہ ہو
اور اگر میں یہ کہوں کہ ہمارے ادبار کا بڑا سبب یہی ہے کہ ہماری تیغ بے نیام کند ہو کر رہ گئی ہے
ہمارے حکمران وسوسوں، واہموں اور اندیشوں میں مبتلا ہوگئے ہیں
قرآن وسنت کی درخشاں تعلیمات، طاق نسیاں پہ رکھ دی گئی ہیں
اﷲ اور نبی کا کلمہ پڑھنے کے باوصف ان کے دلوں میں خوف نے گھروندے بنالےے ہیں
انہیں یقین ہے کہ اقتدار کے سرچشمے واشنگٹن سے پھوٹتے ہیں
وہ ناراض ہوجائے تو تورابورا بنادیتا ہے
پتھر کے زمانے میں دھکیل دیتا ہے
وہ بگڑجائے تو تختے الٹ دیتا ہے
اور ان حکمرانوں نے ٹھان لی ہے کہ وہ مزاحمت وپیکار سے باز رہیں گے
وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گے جو شہنشاہ عالم پناہ کو ناگوار گزرے
وہ کوئی ایسا کلمہ زبان سے نہیں نکالیں گے جس سے اس کے شیشہ دل پر بال آئے
سو انہوں نے عافیت کی ایک راہ کا انتخاب کرلیا ہے
شہنشاہ عالم پناہ کو خبر ہے کہ....!
اس کے ایٹم بم، اس کے میزائل اور اس کے کیمیائی اور جراثیمی ہتھیار
وہ جانتا ہے کہ
سو وہ مدرسوں کی تطہیر کے درپے ہے
ان کا نصاب بدل دینا چاہتا ہے
اور ہم برضا ورغبت اس مہم کا حصہ بنے ہوئے ہیں
مطلب ومقصد کیا ہے؟
صرف یہ ہے کہ
وہ مردان کار نہ بننے پائیں جو تاریکیوں میں اپنے لہو کے چراغ جلاتے ہیں
لبنان میں اسرائیل کی ذلت آمیز شکست کے بعد یہ کوششیں تیز تر ہوگئی ہیں
جب تک ہم اپنے دلوں کو خوف کے زنگ سے پاک نہیں کرتے
جب تک ہم اپنے سینوں کو ایمان کے نور سے صیقل نہیں کرتے
رسوائیاں ہمارا مقدر بنی رہیں گی
ذلتیں ہمارے سروں پر مسلط رہیں گی
اور ظلم کی رات طویل تر ہوتی چلی جائے گی
۴۱ صدیاں پرانا سبق ایک بار پھر تازہ ہو رہا ہے
آواز دے رہا ہے کہ
آ ؤ
پلٹ آ ؤ اپنی اصل کی جانب
کہ بندہ مومن کا زیور یہی ہے
٭٭٭
زوال کی سیاہ رات کیوں ڈھلنے میں نہیں آرہی؟
دنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے۔
ہر ہندو کے مقابلے میں دو مسلمان ہیں۔
ہر بدھ کے مقابلے میں دو مسلمان ہیں۔
ہر یہودی کے مقابلے میں ایک سو سے زائد مسلمان ہیں....
ہمارے وسائل بھی کم نہیں۔
ہمارے ہاں دولت کی فراوانی بھی ہے۔
ہمارے اسلحہ خانے بھی لبالب بھرے ہیں۔
ہم جوہری قوت بھی رکھتے ہیں۔
ہمارے بڑے بڑے لشکر بھی کسی سے کم نہیں۔
پھر کیا وجہ ہے کہ ہر کہیں اہل حرم، سامراجی مظالم کا شکار ہیں
ہر کہیں ان کی رگ جاں کا لہو بہہ رہا ہے
ہر کہیں ان کی بستیاں خاکستر ہو رہی ہیں
ہر کہیں انہیں اپنے حقوق سے محروم کیا جارہا ہے
وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کھائے ہوئے بھس کی مانند ہوگئے ہیں
وہ سب کچھ رکھتے ہوئے بھی بے دست وپا سے بن گئے ہیں
وہ تونگر ہوتے ہوئے بھی غربت وفلاکت کی چکی میں پس رہے ہیں
وہ بازوئے شمشیر زن رکھتے ہوئے بھی بے بس ولاچار سے بیٹھے ہیں
سوچنے والوں کو سوچنا چاہےے
عذر کرنے والوں کو غور وفکر کرنا چاہےے
امت کے دانشوروں کو اس عہد زوال کے اسباب وعلل کا جائزہ لینا چاہےے
اپنی تاریخ کے آئینے میں اپنے چہرے کے نقوش پر نظر ڈالنی چاہےے
اور پھر کوئی ایسا نسخہ بھی تجویز کرنا چاہےے
کہ ہم کیا کریں....؟
وہ متاع گم گشتہ کہاں سے لائیں جو ہمیں ایک بار پھر آبرومند کردے؟
جو ایک بار پھر ہمارے دلوں کو دولتِ ایمان ویقین سے آباد کردے؟
جو ممولے میں شہباز پر جھپٹنے کا حوصلہ پیدا کردے
جو قلت اور کثرت کے آشوب سے آزاد کردے
جو اسلحہ کی کمتری وبرتری کے خرخشوں کو نابود کردے
جو زندگی اور موت کے اس مادی اور بے توقیر تصور کو بدل ڈالے جسے ہم نے اپنے اوپر طاری کرلیا ہے
جو ایک بار پھر ہماری تیغ بے نیام کی دھار کو تیز کردے؟
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ
میں عالم دین ہوں نہ شیخ القرآن
نہ محدث، نہ مفسر، نہ فقیہ، نہ مفتی
میں جہاد کے شرعی تقاضوں، مسائل اور جزئیات وتفصیلات پر بھی عبور نہیں رکھتا
لیکن میں اس سادہ ومعصوم بات سے باخبر ہوں
کہ انسان، تمام مخلوقات سے بڑھ کر ہے
اُسے نطق عطا کیا گیا، جذبہ واحساس بخشا گیا، عقل ودانش سے بہرہ مند کیا گیا
اور اس کے سر پر خلافتِ الٰہی کا تاج سجایا گیا
میں اتنی بات جانتا ہوں کہ
اس کی زندگی کا مقصد محض نسل کشی نہیں
اس کی زندگی کا مقصد یہ بھی نہیں کہ وہ محض زندہ رہنے کے لئے چراگاہوں پہ منہ مارتا ہے
وہ کچھ مقاصد اولیٰ کے لئے اس دنیا میں آیا ہے
دور کی منزلوں کا مسافر متعین اہداف کے لئے اس سرائے میں اترا ہے
اگر وہ ذاتی اور شخصی مفادات کے کھونٹے سے بندھا، ایک جانور کی طرح چراہ گاہ پہ منہ مارتار ہے
تو یہ اس کے شرف انسانی کے منافی ہے
یہ دنیا اس کے لئے ایک امتحان گاہ ہے....
ایک میدان کارزار ہے
ایسا میدان کارزار، جو ہر آن اسے دعوت پیکار دے رہا ہے
اس دعوت پیکار کا اولین تقاضا کیا ہے؟
یہ کہ انسان، ماسوا اﷲ کا خوف دل سے نکال دے
کسی فرعون وقت اور کسی سپر پاور کو خاطر میں نہ لائے
حاضر وموجود کے آشوب سے نکل آئے
صرف وہ سجدہ اپنی جبیں میں بسائے جو انسان کو ہزاروں سجدوں سے بے نیاز کردیتا ہے
زباں سے لا الہ الا اﷲ کہنے کے ساتھ ساتھ
دل ونگاہ میں بھی اس حقیقت کو بسالے کہ اس قادر مطلق کے علاوہ کوئی نہیں جس کی پرستش کی جائے
خوف کو دل سے نکال دے
دنیوی طاقت کے گوشواروں سے ہراساں نہ ہو
اور پھر اس امر کو جزو ایمان بنا لے کہ زندگی کا ہر لمحہ اﷲ کی دی ہوئی نعمت ہے
ہر سانس ایک امانت ہے
اور یہ کہ آخرت کی دائمی زندگی کے سامنے اس کی کوئی اہمیت نہیں
جب وہ اپنے دل پہ تنے خوف کے جالے اتار پھینکے گا
جب وہ زندگی کی حقیقت کو جان جائے گا
جب اس کا باطن، ایمان ویقین کے جو ہر تابناک سے دمکنے لگے گا
تو پھر اس پہ منکشف ہوگا کہ
میری ذمہ داری کیا ہے
پھر وہ جان جائے گا کہ باطل سے ٹکرانے میں کیا لذت ہے
پھر اسے معلوم ہو گا کہ
اعلائے کلمة الحق کسے کہتے ہیں
پھر وہ جان جائے گا کہ اﷲ کی راہ میں جان دینے کا ثمر کیا ہے
پھر وہ یہ راز پا جائے گا کہ
بعض لوگ زندگی کے زعم میں ساری عمر اپنی لاش اپنے کندھوں پہ اٹھائے پھرتے ہیں
اور بعض لوگ....
اپنی گردن کٹا کر بھی امر ہو جاتے ہیں
لیکن آج مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ سامراج کے سامنے ڈٹ جانے
اس کی رعونت پہ خاک ڈالنے
اس کے مکروہ عزائم کے سامنے آہن وفولاد کی دیوار بن جانے
اور مشکل ترین حالات میں بھی جان پر کھیل جانے کا نام
انسانی عظمت وسر بلندی ہے....!
اور اگر میں اس انسانی عظمت وسربلندی کو
جہاد فی سبیل اﷲ سے عبارت کروں تو شاید غلط نہ ہو
اور اگر میں یہ کہوں کہ ہمارے ادبار کا بڑا سبب یہی ہے کہ ہماری تیغ بے نیام کند ہو کر رہ گئی ہے
ہمارے حکمران وسوسوں، واہموں اور اندیشوں میں مبتلا ہوگئے ہیں
قرآن وسنت کی درخشاں تعلیمات، طاق نسیاں پہ رکھ دی گئی ہیں
اﷲ اور نبی کا کلمہ پڑھنے کے باوصف ان کے دلوں میں خوف نے گھروندے بنالےے ہیں
انہیں یقین ہے کہ اقتدار کے سرچشمے واشنگٹن سے پھوٹتے ہیں
وہ ناراض ہوجائے تو تورابورا بنادیتا ہے
پتھر کے زمانے میں دھکیل دیتا ہے
وہ بگڑجائے تو تختے الٹ دیتا ہے
اور ان حکمرانوں نے ٹھان لی ہے کہ وہ مزاحمت وپیکار سے باز رہیں گے
وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گے جو شہنشاہ عالم پناہ کو ناگوار گزرے
وہ کوئی ایسا کلمہ زبان سے نہیں نکالیں گے جس سے اس کے شیشہ دل پر بال آئے
سو انہوں نے عافیت کی ایک راہ کا انتخاب کرلیا ہے
شہنشاہ عالم پناہ کو خبر ہے کہ....!
اس کے ایٹم بم، اس کے میزائل اور اس کے کیمیائی اور جراثیمی ہتھیار
وہ جانتا ہے کہ
سو وہ مدرسوں کی تطہیر کے درپے ہے
ان کا نصاب بدل دینا چاہتا ہے
اور ہم برضا ورغبت اس مہم کا حصہ بنے ہوئے ہیں
مطلب ومقصد کیا ہے؟
صرف یہ ہے کہ
وہ مردان کار نہ بننے پائیں جو تاریکیوں میں اپنے لہو کے چراغ جلاتے ہیں
لبنان میں اسرائیل کی ذلت آمیز شکست کے بعد یہ کوششیں تیز تر ہوگئی ہیں
جب تک ہم اپنے دلوں کو خوف کے زنگ سے پاک نہیں کرتے
جب تک ہم اپنے سینوں کو ایمان کے نور سے صیقل نہیں کرتے
رسوائیاں ہمارا مقدر بنی رہیں گی
ذلتیں ہمارے سروں پر مسلط رہیں گی
اور ظلم کی رات طویل تر ہوتی چلی جائے گی
۴۱ صدیاں پرانا سبق ایک بار پھر تازہ ہو رہا ہے
آواز دے رہا ہے کہ
آ ؤ
پلٹ آ ؤ اپنی اصل کی جانب
کہ بندہ مومن کا زیور یہی ہے
٭٭٭
Comment