حکومت پاکستان کے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ نظر بند جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
منگل کی شام وزارت اطلاعات اور فوج کے تعلقات عامہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت ڈاکٹر قدیر خان کے اہل خانہ کی مشاورت سے انہیں بہترین طبی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔
بیان کے مطابق طبی رپورٹس کا دو بڑے ماہرین نے جائزہ لیا اور انہوں بتایا کہ ڈاکٹر قدیر خان کو پراسٹریٹ کینسر لاحق ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹروں کا ایک بورڈ مزید طبی تحقیقات کر رہا ہے۔
منگل کی شام وزارت اطلاعات اور فوج کے تعلقات عامہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت ڈاکٹر قدیر خان کے اہل خانہ کی مشاورت سے انہیں بہترین طبی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔
بیان کے مطابق طبی رپورٹس کا دو بڑے ماہرین نے جائزہ لیا اور انہوں بتایا کہ ڈاکٹر قدیر خان کو پراسٹریٹ کینسر لاحق ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹروں کا ایک بورڈ مزید طبی تحقیقات کر رہا ہے۔
ڈاکٹر اے کیو خان کو قومی ہیرو کا مقام حاصل تھا
واضح رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جوہری پھیلاؤ کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہونے کے اقرار کے بعد سن دو ہزار چار میں وزیراعظم کے مشیر کے عہدے سے سنہ دو ہزار چار کی ابتدا میں برطرف کر کے کئی ساتھیوں سمیت حراست میں لیا گیا تھا۔
ڈاکٹر خان نے ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو جوہری ٹیکنولوجی منتقل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ انہوں نے قومی ٹیلی وژن پر اس کا اعتراف کیا تھا۔ بعد میں ڈاکٹر خان نے صدر جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی اور معافی کی درخواست کی جو صدر نے قبول کرلی تھی۔ اس معافی کے بعد ان کے ساتھیوں کو رہا کردیا گیا تھا لیکن ڈاکٹر خان اس وقت سے فوج کے سخت پہرے میں اپنے گھر میں نظر بند ہیں۔
چار فروری سنہ 2004: ڈاکٹر قدیر نے قومی ٹیلی وژن پر جوہری پھیلاؤ کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہونے کے اعتارف کیا
اس دوران بین الاقوامی جوہری ادارے کے اہلکاروں یا امریکی تفتیش کاروں کو ڈاکٹر قدیر سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
نومبر سن دو ہزار چار میں ان کے قریبی ساتھیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈاکٹر خان کی صحت انتہائی خراب ہے اور قوم کو کسی وقت بھی بری خبر مل سکتی ہے۔ اس وقت ڈاکٹر خان کے سٹاف افسر کے بھائی حسام الحق نے ان کی خرابی صحت کا معاملہ سپریم کورٹ میں بھی اٹھایا تھا۔
لیکن بعد میں درخواست گزار کی جانب سے خود ہی درخواست واپس لیے جانے پر عدالت نے معاملہ نمٹادیا تھا۔ ان کے وکیل اکرام چودھری نے اس وقت بتایا تھا کہ ان کے مؤکل کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا پیغام ملا ہے کہ ان کے مفاد میں یہ ہی ہے کہ درخواست واپس لی جائے۔
وکیل نے کہا تھا کہ ڈاکٹر خان نے درخواست واپس لینے کا پیغام اس وقت بھیجا جب نائب امریکی وزیر رچرڈ آرمیٹیج پاکستان میں موجود تھے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا تھا کہ درخواست گزار کے وہ دعوے جن میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر خان نفسیاتی مریض بن گئے ہیں، ان پر دورہ پڑا اور وہ بے ہوش ہوگئے تھے یا کہ امریکی خفیہ ادارے والے ان سے تفتیش کر رہے ہیں وہ تمام دعوے غلط ہیں۔
اٹارنی جنرل کے مطابق سوائے اتوار کے ایک نرس روزانہ ڈاکٹر خان کا بلڈ پریشر چیک کرتی ہے جبکہ دوسری نرس ہر وقت سٹینڈ بائی رہتی ہے اور وہ ہی ڈاکٹر ان کا علاج کر رہے ہیں جو ان کی حراست سے قبل کرتے تھے۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ ڈاکٹر خان ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں۔
اٹارنی جنرل کی پیشکش پر عدالت نے رجسٹرار کو ڈاکٹر خان کی صحت کے بارے میں تصدیق کے لیے بھی بھیجا تھا جس نے بعد میں عدالت کو بتایا تھا کہ ڈاکٹر خان نے انہیں بتایا ہے کہ ان کا علاج ٹھیک ہورہا ہے اور یہ درخواست ان کی مرضی کے بغیر دائر ہوئی ہے۔
Comment