ہرسال کی طرح رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہوتے ہیں وطنِ عزیز میں مہنگائی کی شرح ساتویں آسمان کو چھورہی ہے اور جو ہر آتے دن کے ساتھ ساتھ مزید بڑھ رہی ہے۔ اور مہنگائی کے اس عالم میں تو غریب آدمی کا کوئی پُرسانِ حال نہیں بے چارہ آخر کرے تو کیا کرے ؟ اور جی غریب تو غریب ٹھہرا آج کے دور میں تو اچھی خاصی آمدنی رکھنے والے لوگ بھی بازاروں میں شاپنگ پہ جانے سے پہلے سو سو بار سوچتے ہیں۔ ایک طرف ہماری حکومت ہے جس نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ، گیس کی قلت اور آئے دن پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ عام آدمی کا جینا دو بھر کررکھا ہے اور دوسری طرف پاکستان کی تاجر برادری بھی حکومت کے مقابلے میں اتر آئی ہے اور ہماری تاجر برادری نے تو اسرائیلی منافع خوروں اور ہندوںبنیے کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
بلکہ اب تو یہ سننے میں آتا ہے کہ بھارت میں ہندو بنیا بھی اس مقدس مہینے میں مسلمانوں کو کچھ رعائت دے دیتا ہے لیکن ہمارا بنیا یعنی کہ پاکستانی تاجر کسی بھی قسم کی رعائت دینے کے لئے قطعا تیار نہیں ہے جو کہ ان کےلئے شرم کا مقام ہے ۔ ویسے تو ہم ہر وقت امریکہ و یورپ پہ تنقید و طنز کے تیر برساتے رہتے ہیں لیکن ان ممالک میں بھی جب کوئی مذہبی تہوار آتا ہے خواہ وہ مسلمانوں کا ہو یا غیر مسلموں کا تو حکومت و تاجر برادری کی جانب سے ان کو خصوصی رعائت دی جاتی ہے تاکہ کوئی بھی غریب آدمی یا کم آمدنی والا شخص ان مواقع پہ خوشی سے محروم نہ رہ جائے۔
ہمارے اربابِ اختیار و تاجر برادری کو سوچنا چاہئیے کہ اس وقت ملک اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزررہا ہے اور جو ملکی حالات ہیں وہ کسی طور پر بھی کسی بھی عذاب سے کم نہیں ہیں۔ یہ سب اللہ رب العزت کی نافرمانی کی سزا ہے کہ من حیث القوم ہم بھگت رہے ہیں ۔ اگر اب بھی ہم نے اپنے طور طریقے نہ بدلے اور اسلام کے معاشی و مساواتی نظام کو لاگو نہ کیا تو حالات مزید بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے اور غریب تو ایک طرف پھر یہاں امیروں کو بھی کچھ کھانے کو میسر نہیں ہوگا۔