یہ کیا کہا کہ داغ کو پہچانتے نہیں
وہ ایک ہی تو شخص ہے ، تم جانتے نہیں



بد عہدیوں کو آپ کی کیا جانتے نہیں
کل مان جائیں گے اسے ہم جانتے نہیں



وعدہ ابھی کیا تھا، ابھی کھائی تھی قسم
کہتے ہو پھر کہ ہم تجھے پہچانتے نہیں



چھوٹے گی حشر تک نہ یہ مہندی لگی ہوئی
تم ہاتھ میرے خوں میں کیوں سانتے نہیں



مہرو وفا کا کب اُنہیں آتا ہے اعتبار
جب تک اسے وہ خوب طرح چھانتے نہیں



سر باز و جاں نثار محبت وہ ہیں دلیر
رستم بھی ہو تو کچھ اُسے گردانتے نہیں



اُنکا بھی مدعا تھا مرا مدعا نہ تھا
پر کیا کروں کہ وہ تو مری مانتے نہیں



تن جائیں گے جو سامنے آئے گا آئینہ
دیکھیں تو کس طرح وہ بھنویں تانتے نہیں



نکلا ہے جو زباں سے اُس کو نباہیے
ایسی وہ اپنے دل میں کبھی ٹھانتے نہیں



جب دیکھتے ہو مجھ کو چڑھاتے ہو آستیں
دامن عدو کی قتل پہ گردانتے نہیں



کیا داغ نے کہا تھا جو ایسے بگڑ گئے
عاشق کی بات کا تو بُرا مانتے نہیں

(داغ دہلوی)