نسواریات

آج کافی عرصہ بعد کچھ فراغت نصیب ہوئی، تو اپنی پسندیدہ ویب سائیڈ پیغام ڈاٹ کام کی میل دیکھنے بیٹھ گیا، کیونکہ گزشتہ چھ ماہ سے فرصت ہی نہیں ملی ، غمِ روزگار سے کہ اپنے شوق کی آبیاری کریں، جسے عام فہم زبان میں " ہڑُک " کا نام دیا جاتا ہے۔۔ اور ہماری اس ہُڑک سے کسی بھی قسم کا بنی نوع انساں کو نقصان نہیں پہنچاء، ہاں یہ ضرور ہوا، کہ اہل خانہ نے ہمیں کبھی اپنے اس شوق پر داد نہیں دی، بلکہ ڈرایا ہی، کہ اپنے دل کی بات کو اپنے حد تک ہیں محدود رکھا کریں، کہیں سچ بولنے اور لکھنے کے چکر میں کسی مشکل میں نہ پڑ جائیں۔۔ اس سلسلئے میں اگر کسی نے ہمت افزائی اور داد رسی کی تو پیغام نے کی، اسپر اسکا شکریہ ادا کرنا اپنا فرض عین سمجھتا ہوں۔۔۔
بات ہورہی تھی غم روزگار کی، تو اسی سلسلے میں کچھ عرصہ وطن سے دور بھی رہا، اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے، کہ اچانک غائب ہونا پڑتا ہے۔ اسمرتبہ ہم صرف دبئی سے ہی ہوکر واپس آگئے۔۔ خیر اب اپنی اصل موضوع کی طرف آتے ہیں، اپنی میل کو چیک کیا ، اسی دوران ہمیں یہ اچھوتا موضوع نظر آگیا "نسواریات" ہم چونک سے گئے، اور اس تھریڈ کی کھوج کی، ایک انوکھا موضوع دماغ میں چپک کر رہ گیا، ہم تو اکثر معاشعیات، اخلاقیات، سیاسیات، اسلامیات ، جیسے موضوعات پر اکثر اپنے ملک میں بڑے بڑے مقالے ، مضامیں، تقاریر، سنتے اور پڑھتے آئے ہیں، جبکہ ان چاروں موضوعات کا ہمارے یہاں بہت فقدان ہے۔ ہمارے عالم فاضل حکمران اور بیوروکریٹس، اور سیاستدان ان موضوعات پر سیرحاصل لکھ سکتے ہیں، بول سکتے ہیں، لیکن عمل نہ ہونے کی وجہ سے کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔۔ ہاں یہ ضرور ہے، کہ ہماری یونیورسٹیاں، ان سبجیکٹس میں ڈگریاں ضرور دیتی نظر آتی ہیں، اور اعلیٰ تعلیم کے لئے باہر بھی بھجواتی ہیں۔۔
اب " نسواریات" کے بارے میں پریشاں ہوئے، کہ پاکستان میں کونسی ایسی یونیورسٹی ہے، جو "نسواریات " میں اعلیٰ ڈگری فراہم کرتی ہو، تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ شعبہ نسواریات کا تعلق ہمارے ملک کے شمالی علاقاجات سے ہے، جہاں یہ روائتی انداز میں استعمال کی جاتی ہے۔ اور اسپر کسی قوم کی کوئی قدغن بھی نہیں ۔ جسطرح کہ ہم نے سنا کہ جب کسی پٹھان کے گھر اگر بیٹا پیدا ہوتا ہے، تو وہ سب سے پہلے اسکے نام کی ایک بندوق یا کلاشنکوف خرید کر اسپر اس بچے کا نام کندہ کراتا ہے، اور اپنے ڈیرے میں اسے آویزان کردیتا ہے۔۔ تاکہ آنے والے دوستوں اور دشمنوں کو پتہ چل جائے کہ اس گھر میں مردوں کی تعداد کتنی ہے۔ یہ ایک پرانی روایت ہے۔ اس طرح پختون روایات میں یہ بات بھی شامل ہے، کہ ہر غیور پٹھان اپنی واسکٹ کی جیب میں ایک بہت ہی خوبصورت اور قیمتی، موتیوں اور نگینوں سے مزین ایک ڈبی رکھتا تھا۔ جسمیں ایک نادر مرکب جو یقینن سبزی مائل ہوتا ہے، رکھتا تھا، اور جب کسی محفل یا جرگہ میں بیٹھتا تھا، تو جیب سے بڑے فخر سے اس ڈبی کو نکال کر پہلے خود ایک بھرپور چٹکی اپنے دائیں یا بائیں کلّے میں مسوڑے میں دباتا تھا، پھر اپنی زبان اپنے سرخ ہونٹوں پر پھیر کر بات شروع کرتا تھا۔ اور اپنے موضوع پر سیر حاصل بحث کا آغاز کرتا تھا۔ چٹکی کے زیر اثر ہونے والی بحث آہستہ آہستہ اپنے جوبن پر آنا شروع ہوجاتی تھی۔اور شدت اختیار کرتی جاتی تھی۔اگر معاملات سنگین اور سنجیدہ ہوتے تومعاملات بگڑنے میں دیر نہیں لگتی تھی،اور چٹکی کا اثر کسی حد تک خطرناک نظر آتا تھاجو بعد میںقتل و غارت گری تک پہنچ کر دم لیتا تھا، اور اگر یہی بحث اور معاملات ایک دوسرے کی مدد اور ہمدردی کے ہوتے تو، خوش گپیوں اور قہقہوں کی نظر ہوجاتی۔ اور چٹکی اس محفل کو لازوال بنا دیتی۔ روایات اور قبائلی رسم ورواج سے نسواریات کی چٹکی نے قدم باہر نکالا، اور اب تو مڈل ایسٹ کی ریاستوں، کے علاوہ یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔یہ بھی اتفاق ہے ، کہ 2013 اگست میں میرا دبئی جانا ہوا، اور خبر سنی کہ دبئی کسٹمز نے ایک لانچ پکڑی ہے، جو پاکستان سے تین سو کلو گرام نسواریات لیکر آئی تھی۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی، کہ پاکستان سے نسوار بھی اسمگل ہوتی ہے۔ میرے چھوٹے بھائی جو وہاں دو عرشوں سے رہائش پذیر ہیں، نے بتایا، کہ شارجہ ، ابو ظہبی، ڈیرہ دبئی میں پٹھان بھرے پڑے ہیں۔ اور انکے بڑے بڑے کاروبار ہیں، اتفاقا میرا ایک کام کے سلسلے میں دبئی انڈسٹریل اسٹیٹ جانا ہوا، تو میں حیران رہ گیا یہ دیکھ کر ، گاڑیوں کے اسکریپ کے بڑے بڑے گودام جن میں ریکنڈیشن ایجن، ٹائیر، اور اسی طرح دیگر لوازمات ، کا سارا کاروبار پختونوں کے ہاتھ میں ہے۔۔ اسکے علاوہ ہوٹلز کے کاروبار پر بھی انکا ہولڈ ہے۔ اوردبئی حکومت نے انہیں بری مراعات دے رکھی ہیں۔اور اسمیں بھی کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ آج جو دبئی کی شکل نظر آتی ہے۔ اسکی تعمیر اور ترقی میں پٹھانوں نے اور انکی نسواریات نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔۔
اسی طرح ہمارے ایک دوست اور کلاس فیلو تھے، مہر الوہاب خٹک، ہم دونوں نے ایل ایل بی ، ایک ساتھ کیا، یہ 1982 کی بات ہے، خان صاحب، انتہائی شریف النفس، بردبار، اور پڑھاکو قسم کے دوست تھے، روزانہ کلاسسز ختم ہونے کے بعد ہم کالج سے باہر ایک پٹھان کے ہوٹل پر آجاتے تھے، چونکہ خان مہر الوہاب ہمارے ساتھ ہوتے تھے، اسلئے ہمیں چائے نہایت ہی عمدہ مل جایا کرتی تھی، چائے کے بعد وہ ٹی بوائے کو اپنے قریب بلاتے اور ہاتھ کا مخصوس اشارہ کرتے ، ٹی بوئے چونکہ پٹھان تھا، اسکی باتچھیں کھل جاتیں، فورا جیب سے ڈبی نکال کر انہیں پیش کرتا، وہ چٹکی لگاتے ، اور پھر انکی طبیعت باغ وبہار بن جاتی، انکی اردو میں ایک چاشنی بھر جاتی اور پھر وہ چھ فٹ کا بانکا پٹھان اپنی پر لطف باتوں سے محفل میں رنگ بھر دیتا۔ ایک دن باتوں ہی باتوں میں ، میں نے پوچھا ۔ یار اسمیں کیا ہے، جو تم لوگ کھاتے ہو، اور ہر جگہ پچر پچر کرتے پھرتے ہو۔۔۔ وہ ایک دم سنجیدہ ہوگیا، اور بولاجسطرح پٹھان کا زیور ہتھیارہے، اسی طرح نسوار بھی پٹھان کی شناخت ہے۔ اور میں اسکو پٹھان ہی نہیں کہتا جو نسوار نہیں کھاتا ہو۔۔۔۔ یہ بات اسنے بڑے دعوے سے کہی، اسکے بہت سارے فائیدے ہیں، تم لوگ میرے دوست ہو، سگریٹ پیتے ہو، میں نے کبھی اعتراض کیا۔ میں نے جواب دیا ، ہم تو شوقیہ پیتے ہیں، اسکے عادی تو نہیں، جس ایسے ہی ایک آدھ سگریٹ تفریح کے لئے پی لیتے ہیں۔۔۔۔ اس نےبڑے طنزیعہ انداز میں ایک لمبی ہون کی۔۔۔۔۔۔اور بولا ، ابھی شوقعیہ پیتے ہو، پھر خرید کر پیئو گے، اور منہ سے انجن کی طرح دھواں نکالتے پھروگے۔ ابھی چھپ کے پیتے ہو، تمہارا باپ سگریٹ نہیں پیتا تھا۔ تم پیتے ہو۔۔۔ چوری چھپے پیتے ہو، جرم کرتے ہو۔ بہر حال بات ہنسی مذاق میں ختم ہوگئی۔۔میں نے کہا کیا تم نسوار کھاتے ہو ، تمہارے گھر والوں کو پتہ ہے۔۔۔۔ تو وہ ہنس کر بولا ۔ اؤے یارا، میرے والد صاحب، میرے دادا صاحب، بلکہ سارے گھر والوں کو معلوم ہے۔ اور اسی لئے تو میں کہتا ہوں ، وہ پٹھان ہی نہیں ، جو نسوار نہیں کھاتا ۔۔۔ میں نے پوچھا۔۔ یار اسکے کھانے کا فائیدہ بھی ہے۔ وہ بڑے معنے خیز انداز میں مسکرایا۔۔۔ یہ ہمارا فیملی سیکریٹ ہے، بعد مین بتائے گا۔ ابھی دیر ہوتا ہے چلو۔۔۔۔۔بات آئی گئی ہوگئی۔۔۔کچھ دن بعد ہمارے امتحانات شروع ہوگئے۔ مہرالواہاب خٹک کی سیٹ امتحان ھال میں میرے بالکل برابر میں تھی۔ اور مین پریشان تھا، کہ یہ بار بار مجھے تنگ کرے گا، میں پریشان بھی ہوا۔ لیکن خیر پہلے پرچے میں ہی وہ بہت پراعتماد نظر آرہا تھا۔ پرچہ شروع ہوا، اسنے جیب سے نسوار کی ڈبی نکالی ، چٹکی لگائی، اور پرچے کے سوالات کا جائیزہ لیا ، قلم اٹھایا اور لکھنا شروع ہوگیا۔ اسکے بعد اسنے سر اٹھا کر ایک دفعہ بھی ادھر اُدھر نہیں دیکھا۔ اور وقت ختم ہونے سے پانچ منٹ پہلے اسنے اپنی امتحانی کاپی ، انویجیلیڑر کے حوالے کی اور باہر نکل گیا۔
پرچہ ختم ہونے کے بعد ہم بھی باہر نکلے ، تو وہ ہوٹل پر ہمارا انتظار کر رہا تھا۔۔ ایک دوسرے سے ہم سوالات کے بارے میں بحث کرتے رہے ، وہ مگن اپنی چائے پیتا رہا۔ امتحان کے بعد چھٹیان ہوگئیں، اور ہم سب الگ ہوگئے، تین ماہ بعد رزلٹ آیا تو میں حیران رہ گیا، مہرالوہاب خٹک نے ٹاپ کیا تھا۔۔ اور پوزیشن ہولڈر تھا۔ ہمارے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔۔ کافی دن بعد میری اس سے ملاقات ہوئی، بلکہ میں ہی اس سے ملنے شیرشاہ گیا، اسکے والد کا وہاں ہوٹل کا کاروبار تھا۔ اور کافی بڑا کام تھا۔ وہ اسوقت وہ ہوٹل کے کاؤنٹر پر بیٹھا ہوا ملا۔۔۔ بہت اچھی طرح ملا، میں نے مذاق میں پوچھا، یار وہاب اگر ہوٹل پر ہی بیٹھنا تھا، تو ایل ایل بی ، اور وہ بھی اتنی اچھی پوزیشن میں ۔۔ کیا فائیدہ ہوا۔ وہ مسکرا یا اور بولا، فاروق بھائی یہ میرا کاروبار ہے۔ میں تعلیم کے دوران بھی یہان اپنی ڈیوٹی کرتا تھا۔ اب میں ایک بڑے لائیرز ایسوسی ایٹ کے ساتھ پریکٹس بھی کر ارہا ہوں ، اور اپنی ڈیوٹی بھی دے رہا ہوں۔ اور میں بڑی سنجیدگی سے اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ جہان مجھے ایک باوقار سنجیدگی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا ۔۔ میں نے اسکو وہ بات یاددلائی، مہروہاب ایک بات بتاؤ۔ تم نے کالج کا سارا وقت تو ہمارے ساتھ گزارا، اسکے بعد ہوٹل بھی دیکھتے تھے۔پڑھائی کا وقت کب نکالتے تھے۔ اسنے مسکرا کر شرارتی نظروں سے میری طرف دیکھا، جیب سے نسوار نکالی اور مجھے پیش کی۔۔ میں نےمنع کیا، اسنے ڈبی کھولی اور ایک چٹکی لگائی، اور بولافاروق بھائی، یہ سب نسوار کا کمال ہے۔
میں نے اسکی طرف دیکھا۔ وہ مسکرا رہا تھا، نسوار ہم ایسے ہی نہیں کھاتے، اسکے بہت سے فائیدے ہیں، لیکن اسکا سب سے بڑا فائیدہ یہ ہے، کہ جب ہم اسے منہ میں رکھ لیتے ہیں، تو ہمارا دماغ کام کرنے لگتا ہے۔ آج الحمدو للہ مہر الوہاب خٹک ، پشاور ہائی کورٹ ، کے کلاس ون کے وکیلوں میں ہیں۔ کراچی کا کاروبار انہون نے اپنے بڑے بھائی کے حوالے کردیا ہے۔ اور اپنے آبائی گاؤں میں شفٹ ہوگئے ہیں۔۔۔۔ گزشتہ دو دہائیوں سے کوئی ملاقات نہیں۔۔ لیکن وہ آج بھی بہت یاد آتا ہے۔


نسواریات کے موضوع نے مجھے بہت کچھ یاد دلادیا، لکھنے پر آجاؤں تو بہت ساری مثالیں دیکر اسکی افعادیت پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔۔۔ کافی عرصہ قبل جناب خوشحال خٹک ، کی ایک کتاب نظر سے گزری تھی۔ " پٹھان اور اسکی خصلت" اگر اسے پڑھنے کا موقعہ ملے تو ضرور پڑھئیے گا۔۔۔ اسمیں نسوار یات کے بارے میں بہت کچھ مل جائے گا۔۔۔ صرف اتنا عرض کرتا چلوں ، اگر نسوار نہ ہوتی ۔ تو آج نہ تو کراچی تا خیبر تعمیر و ترقی میں پٹھان قوم کا کوئی کردار بھی نہ ہوتا۔۔ یہ ایک چٹکی ۔
نسوار کی ۔۔۔ قیمت ۔۔۔۔ تم ۔۔۔۔ کیا جانو۔۔۔۔ بابو۔۔۔۔ :


مخلص؛ فاروق سعید قریشی۔