دھماکہ


یہ نظم 28 مئی 1998ء کو پاکستان کے ایٹمی دھماکے ے بعد لکھی گئی، محترم ساجد صاحب۔نے ان حالات میں اس نظم کو وقت کی ضرورت سمجھا ۔جب ہندوستان ایٹمی دھماکے کے بعد اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا تھا، اور پاکستان کو دھمکیوں کا سلسلہ جاری تھا، اور سرحدوں پر جنگ کے خطرات منڈلا رہے تھے۔
مَین جانتا ہوں کہ آلاتِ حرب سے اکثر
ہلاکتیں ہی جہاں میں فروغ پاتی ہیں
جہان بھی ہوتے ہیں، آلات حرب استعمال
قیامتیں ہی ہر ایک سمت دندناتی ہیں

کبھی کبھی تو اِن آلاتِ حرب ہی کے سبب
جہاں میں امن و سکوں نے فروغ پایا ہے
اگر لڑائی پہ ہو اک فریق آمادہ
تو دوسرے نے اُسے راستہ دیکھایا ہے

یہی تو کیا ہے تم نے، یہی تو تھا مقصود
کہ ہم تابہَ ابدِ امن ہی کے خواہاں ہیں
وہ لاکھ جور ُ جفا کی بات کریں
خدا کا شکر کہ ہم لوگ عبدِ رحماں ہیں

جنہیں تھا زعم کہ اب ایٹمی وہ طاقت ہیں
انھیں ہمارے دھماکے نے بات سمجھائی
غرور، زعم، و تکبر، بڑائی، زیب نہیں
کہ ایسی باتوں سے ملتی ہے صرف رسوائی

اگر دھماکا نہ کرتے تو اور کیا کرتے
عمل یہ امن وسکوں کے لئے ضروری تھا
تھے زلزلے میں دروبام امنِ عالَم کے
یہ کام ردِ جنوں کے لئے ضروری تھا

اگر دھماکہ نہ کرتے تو جنگ سر پر تھی
یہ اُن کی دھمکی کا ردِعمل دھماکہ تھا
سکون و امنِ جہاں تھا پیشِ نظر
شعور و فہم و فراست کا یہ تقاضا ہے

اب آؤ بیٹھ کے امن و سکوں کی بات کریں
محبتوں کے ہر اک سوُ دیئے جلائیں ہم
مشامِ جاں کو معطر، دلوں کو گرمائیں
خوشی سے جھومیں دَر و بام کو سجائیں ہم

محبتوں کے پیامی، سکوں کے داعی ہیں
حقیقتوں کے شناور ہیں امن کے مظہر ہیں
ہمارے نام کا شہرہ ہے اک زمانے میں
کہ ہم ہیں، لطف و محبت ، خلوص کے پیکر

آج پھر حالات کا جائزہ لیا جائے، تو یہود و نصارا نے، اپنے بگڑے ہوئے ذہنی توازن ، اور زعم تفنگ و توپ، میں اسلامی دنیا میں اپنی غیر انسانی سازشون کا جال پھیلا یا ہوا ہے، ایک طرف، شام ، عراق، مصر، لیبیا، فلسطین، کو اپنے مکروہ سازشوں کے جال سے ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ دوسری طرف، اسرائیل کا پروردہ ایران ، مسلکی فرقہ پرستی کو ہوا دیکر اسلام دشمن عناصر کا ساتھ دے رہا ہے۔ حالات کے موجودہ تناظر میں گزشتہ سال اسرائیل نے غزہ میں بلا جواز بربریت اور سفاکی کا مظاہر کیا، اور آبادیوںپر بمباری کی، اور معصوم بچون کا قتل عام کیا۔۔ دکھ اسبات کا ہے، کہ وہان کے مظلوم بچے سسکتے اور نہتی خواتین ، اسلامی دنیا کو مدد کے لئے پکارتی رہیں۔۔ لیکن عرب سمت تمام اسلامی ممالک، بشمول پاکستان کی بے ضمیر قیادت، خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی۔ جس سے اسرائیل، اور امریکہ بہادر کو اسبات کا اندازہ ہوگیا، کہ اب وہ وقت ہے جب گریٹر اسرائیل کے خواب کو شرمندہ ء تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
اس بار اسی لابی، جن میں ایران، اسرائیل، امریکہ،بھارت اور انکے اتحادی شامل ہیں، مسلمانوں کی شاہ رگ پر ہاتھ ڈالاہے۔ اور سعودی عرب اور حجاز مقدس کی سرزمین کی طرف اپنی گندی نگاہیں ڈالی ہیں۔ اور اپنے پر وردہ یمنی حوثیوں کو یمن میں متحرک کردیا ہے، تاکہ بحیرہ احمرکی خلیج اور یمن پر شیعہ شرپسندوں کی ایک کٹھ پتلی حکومت قایم کی جائے، اور پھر سرزمین ِ حجاز مقدس پر قبضہ کرلیا جائے۔ اسکے بعد خلیج کی تمام چھوٹی ریاستوں کو جن کے شیوخ، اور سربراہ انکے لئے تر نوالہ ہونگے۔۔ اور اسطرح گریٹر اسرائیل کا خواب پورا ہوجائے گا۔
اب بھی اگر ہمارے محب وطن سیاستداں، فوجی قیادت سمیت اسلامی دنیا کی تمام ریاستوں نے ہوش کے ناخن نہیں لئے، اور یونائیٹڈ اسلامک فرنٹ کے قیام کے بارے میں نہیں سوچا، تو اسمرتبہ دنیا کی تیسری بڑی جنگ اسلامی ممالک میں لڑی جائے گی۔ جس سے یہود و نصارا دو فوائد حاصل کرینگے۔۔۔ ایک تو انکا اسلحہ کا کاروبار چمکے گا، دوسرا اسلامی ممالک کی دولت انکے قبضہ میں چلی جائے گی، تیسرا سب سے بڑا فائدہ اسلامی ممالک کی افرادی قوت اور مزاحمت ختم ہوجائے گی۔
اسوقت دنیا کی بہترین قوج اسلامی ملک پاکستان کے پاس ہے، جو اپنی بہتریں صلاحیتوں، اور جذبہ شہادت سے سرشار ہے۔ اور اپنے ہی ملک میں غیر ملکی ڈہشت گردوں کے خلاف شمالی علاقاجات میں مصروفِ عمل ہے، اور کامیابیان حاصل کر رہی ہے۔ عسکری لحاظ سے بھی مظبوط ہے۔ اسکے بعد ترکی کا نمبر آتا ہے، جہان تک ایران کا تعلق ہے، ہم اسے اپنا دوست اب نہیں کہہ سکتے، کیونکہ وہ اسوقت اس صف میں کھڑا ہے، جیسے ہم اسلام دشمن کہہ سکتے ہیں۔
پاکستان میں موجود سیاسی قیادت ناکارہ ، بزدل اور امریکہ نواز ہے۔ اسکے علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی بیرونی آقاؤن کی پروردہ ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں بالکل جھجک نہیں کہ اگر پاکستان کی افواج اور اسکی قیادت ملک اور قوم کے لئے سنجیدہ نہ ہوتی ، تو کچھ بعید نہیں تھا۔ کہ پاکستان کے ٹکڑے ہوجاتے، اگر اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے پاس مھب، وطن فوجی قیادت نہ ہوتی تو ہم سوچ بھی نہین سکتے تھے، کہ کون کب پاکستان بیچ کر نکل گیا۔
پاکستان کی قوم ایک منفرد قوم ہے۔ بے شک ہم اپنے، مسلکی، لسانی، علاقائی انتشار کا شکار ہیں، لیکن جب بھی پاکستان پر کوئی برا وقت یا آفت آئی ہے، یہ اسطرح ایک ہوجاتی ہے۔ کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔۔ اور انشاء اللہ اگر اسلامی دنیا پر ، سر زمیں حجاز پر، یا پاکستان پر کوئی برا وقت آیا، تو دنیا دیکھے گی، یہ قوم مٹ تو سکتی ہے، لیکن اپنے دین پر، اپنے اللہ پر اور اپنے رسولﷺ پر آنچ بھی نہین آنے دے گی، اور انشاء اللہ اللہ پاک کی نصرت اور مدد ہمارے ساتھ ہوگی، اور اہل یہود و نصارا اسبات کو بھی سمجھ لیں، اسلام ہی اللہ پاک کا پسندیدہ دین ہے۔ اور اسکو غلبہ آنا ہے، اس دین نے مشرق تا مغرب پھیلنا ہے۔ اور یہود نصارا کو مٹانا ہے۔ بیت المقدس کو آزاد کرانا ہے۔ انشاء اللہ
میری اپنی حکومت کے اقابرین، سیاست دانوں، اور لیڈران سے درخواست ہے۔ اب بھی وقت ہے، اللہ پاک نے انہیں جو عزت دی ہے، جو رُتبہ دیا ہے، جو ذمہداریاں دی ہیں، انہیں ایک سچا مسلمان، محب وطن پاکستانی بنکر پورا کریں، اور ملک میں ہر صورت میں امن قائم کریں۔ اور اپنی اسلامی حمیت اور غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، دشمن کو للکار کر جواب دین۔
اور اگر اللہ پاک نے پاکستان کو (جو کہ ایک نظریہ کی بنیاد پر بناء ہے۔ اور وہ نظریہ ہے "لا الہَ اللہ" ہے) قیادت کا موقعہ دیا ۔ کہ اللہ کے دین کے علم کو بلند کرین اور اسلامی دنیا کی قیادت کریں۔ انشاء اللہ بقول علامہ اقبالََ ،، " فضاء بدر پیدا کر ، فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں اب بھی قطار اندر قطار۔
وسلام ۔ فاروق سعید قریشی۔