Originally posted by فاروق سعید قریشی
View Post
آج 23، مارچ 2015، ہے۔ آج ہی کے دن 1940 میں بمقام یادگارِ پاکستان لاہور مسلمانان ہندوستان نے ایک عہد ساز قرارداد پر لبیک کہا اور منظور کیا۔ کہ ایک ایسا آزاد ملک ہو جو مسلمان قوم کی نظریاتی اور دینی اساس کی بنیاد پر ہو۔ اور اسی دن یہ نعرہ بھی بلند ہو " پاکستان کا مطلب کیا - لا الہَ الاللہ " جس میں اسلامی قوانین ہوں، حکمیت اعلیٰ اللہ کی ہو اور پھر ایک جدوجہد کا آغاز ہوگیا۔ اور پھر دنیائے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت عمل میں آئی، لاکھون انسانوں کو اس ملک کی خاطر آگ اور خون کا دریا عبور کرنا پڑا اور لاشوں کے انبار دیکھنے پڑے۔
آج پھر اگر ہم 75 سال پہلے کے دور میں جائیں، تو ہمیں ایسے لوگ اور شخصیات نظر آتی ہیں، جنہوں نے اپنے جذبہ کی صداقت، اور بے لوث خدمت کی بنیاد پر تاریخ کے رخ کو موڑا، اور دنیانے دیکھا کہ 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر ایک ایسی ریاست کو نقشہ ابھرا، کہ جسکی بنیاد نظریاتی تھی۔
اس وقت مجھے حضرت علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آگیا۔ "مسجد تو بنالی شب پھر میں ایمان کی حرارت والوں نے۔۔۔ من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی ہو نہ سکا۔ " ہم نے ایک نظریاتی ملک بنا لیا اور پھر بھول گئے، ان قربانیون کو اس خون کے دریا کو، ان لاشوں کے انباروں جو ہم چھوڑ ائے تھے۔ ہم بھول گئے قرارداد کو جو پمارے بڑوں نے 23مارچ کو منظور کی تھی۔ ہم بھول گئے اس قرار داد کے مقاصد کو ، اور عہد کو جو ہمارے بزرگون نے کیا تھا، اور ہم بھول گئے کہ اس قرارداد مقاصد کو ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو بھی سونپنا ہے۔ انہیں بتانا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور آج میں یہ بات بڑے دکھ سے کہ سکتا ہون، ہمارے بچون کو یہ تو یاد ہے، کہ 23مارچ کی چھٹی ہے۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ ہم یہ چھٹی کیون مناتے ہیں۔
کیا ہم نے گزشتہ 75 سالوں میں کسی ایک دن بھی اسکی اہمیت کو جاننے کی کوشش کی۔ نہیں آج 18 کروڑ عوام کا یہ ملک میں سے کوئی ایک آدمی بھی نہیں جانتا اور نہیں چاہتا کہ ہم اس عہد کو پورا کریں جو ہمارے بزرگوں نے اس ملک کو حاصل کرنے کے لئے اللہ پاک سے کیا تھا۔ ہم نے اس بنیاد کو ہی ایک طرف اٹھا کر رکھ دیا۔ " پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ان 75 سالوں میں ہم اپنا قومی تقدس، اخلاقیات، ثقافت، تعلیمات ، سب کچھ فراموش کر بیٹھے۔ اور ایک بے ضمر، بے حس، بداخلاق، قوم بنکر ابھرے، اپنے آپ کو ایک پاکستانی قوم کے نام سے نہیں پہچانتے، بلکہ اب ہماری پہچان ، سندھی ، مہاجر، پنجابی، پٹھان، اور بلوچی ہے۔ آج لسانی بنیادوں پر اپنے ہی بھائیوں کو بلاجواز قتل کردینے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ آج ہمارے حکمران، بد نیعت، عیاش، بد کرادر، اور جاہل ہیں۔ جن کا کام ملک کی پاکستان کی خدمت نہیں، لوٹنا ہے۔ ۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ایسا کیون ۔ وہ اسلئے کہ ہم نے اس قرارداد مقاصد کو فراموش کردیا۔ جو آج بھی مینار پاکستان کے ستونوں پر لکھی ہمارا منہ چڑاتی نظر آتی ہے۔
آج پھر 75 سال بعد اللہ پاک نے ہمیں ایک موقعہ دیا ہے۔ کہ اپنے ان محسنون کو یاد کرین، انکی قرارداد مقاصد کو دہرائیں اور اسپر عمل کرنے کا عہد کرین۔ اور اپنی کوہتائیون پر شرمسار ہوں۔
عہد کرین۔ ہم ایک قوم بنکر رہیں گے۔ اور اسے ہی اپنی شناخت بنائینگے۔
عہد کریں ، اپنے پاکستان کو چوروں، لٹیروں، غاصبوں، جاگیرداروں، وڈدیروں، کی سیاست سے پاک کرینگے۔
عہد کریں کہ اپنے اللہ اور اپنے رسولﷺ کے وفادار رہینگے، اور ان کے احکامات پر عمل کریں گے۔ عہد کریں ہم ایک دوسرے کا حق نہیں مارینگے۔ عہد کریں کہ پاکستان میں رہنے والے تمام افراد اور انکی عزت آبرو، جان مال کی ملکر حفاظت کرنگے۔ عہد کرین، دہشت گردی کو اپنے ملک سے نکال باہر کرینگے۔ عہد کریں کہ اپنے بچوں کے ہاتھون میں ہتھیار کی بجائے قلم اور کتاب دینگے۔ اور عہد کریں کہ اپنے ملک ، قوم ، دین ، اور پاکستان کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
اگر ہم یہ عہد کرتے ہیں، تو ہم 23 مارچ منانے کے حقدار ہیں، ورنہ ہم اپنے آپ کو اپنی قوم اپنے اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے غدار ہیں۔
آج پھر اگر ہم 75 سال پہلے کے دور میں جائیں، تو ہمیں ایسے لوگ اور شخصیات نظر آتی ہیں، جنہوں نے اپنے جذبہ کی صداقت، اور بے لوث خدمت کی بنیاد پر تاریخ کے رخ کو موڑا، اور دنیانے دیکھا کہ 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر ایک ایسی ریاست کو نقشہ ابھرا، کہ جسکی بنیاد نظریاتی تھی۔
اس وقت مجھے حضرت علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آگیا۔ "مسجد تو بنالی شب پھر میں ایمان کی حرارت والوں نے۔۔۔ من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی ہو نہ سکا۔ " ہم نے ایک نظریاتی ملک بنا لیا اور پھر بھول گئے، ان قربانیون کو اس خون کے دریا کو، ان لاشوں کے انباروں جو ہم چھوڑ ائے تھے۔ ہم بھول گئے قرارداد کو جو پمارے بڑوں نے 23مارچ کو منظور کی تھی۔ ہم بھول گئے اس قرار داد کے مقاصد کو ، اور عہد کو جو ہمارے بزرگون نے کیا تھا، اور ہم بھول گئے کہ اس قرارداد مقاصد کو ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو بھی سونپنا ہے۔ انہیں بتانا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور آج میں یہ بات بڑے دکھ سے کہ سکتا ہون، ہمارے بچون کو یہ تو یاد ہے، کہ 23مارچ کی چھٹی ہے۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ ہم یہ چھٹی کیون مناتے ہیں۔
کیا ہم نے گزشتہ 75 سالوں میں کسی ایک دن بھی اسکی اہمیت کو جاننے کی کوشش کی۔ نہیں آج 18 کروڑ عوام کا یہ ملک میں سے کوئی ایک آدمی بھی نہیں جانتا اور نہیں چاہتا کہ ہم اس عہد کو پورا کریں جو ہمارے بزرگوں نے اس ملک کو حاصل کرنے کے لئے اللہ پاک سے کیا تھا۔ ہم نے اس بنیاد کو ہی ایک طرف اٹھا کر رکھ دیا۔ " پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ان 75 سالوں میں ہم اپنا قومی تقدس، اخلاقیات، ثقافت، تعلیمات ، سب کچھ فراموش کر بیٹھے۔ اور ایک بے ضمر، بے حس، بداخلاق، قوم بنکر ابھرے، اپنے آپ کو ایک پاکستانی قوم کے نام سے نہیں پہچانتے، بلکہ اب ہماری پہچان ، سندھی ، مہاجر، پنجابی، پٹھان، اور بلوچی ہے۔ آج لسانی بنیادوں پر اپنے ہی بھائیوں کو بلاجواز قتل کردینے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ آج ہمارے حکمران، بد نیعت، عیاش، بد کرادر، اور جاہل ہیں۔ جن کا کام ملک کی پاکستان کی خدمت نہیں، لوٹنا ہے۔ ۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ایسا کیون ۔ وہ اسلئے کہ ہم نے اس قرارداد مقاصد کو فراموش کردیا۔ جو آج بھی مینار پاکستان کے ستونوں پر لکھی ہمارا منہ چڑاتی نظر آتی ہے۔
آج پھر 75 سال بعد اللہ پاک نے ہمیں ایک موقعہ دیا ہے۔ کہ اپنے ان محسنون کو یاد کرین، انکی قرارداد مقاصد کو دہرائیں اور اسپر عمل کرنے کا عہد کرین۔ اور اپنی کوہتائیون پر شرمسار ہوں۔
عہد کرین۔ ہم ایک قوم بنکر رہیں گے۔ اور اسے ہی اپنی شناخت بنائینگے۔
عہد کریں ، اپنے پاکستان کو چوروں، لٹیروں، غاصبوں، جاگیرداروں، وڈدیروں، کی سیاست سے پاک کرینگے۔
عہد کریں کہ اپنے اللہ اور اپنے رسولﷺ کے وفادار رہینگے، اور ان کے احکامات پر عمل کریں گے۔ عہد کریں ہم ایک دوسرے کا حق نہیں مارینگے۔ عہد کریں کہ پاکستان میں رہنے والے تمام افراد اور انکی عزت آبرو، جان مال کی ملکر حفاظت کرنگے۔ عہد کرین، دہشت گردی کو اپنے ملک سے نکال باہر کرینگے۔ عہد کریں کہ اپنے بچوں کے ہاتھون میں ہتھیار کی بجائے قلم اور کتاب دینگے۔ اور عہد کریں کہ اپنے ملک ، قوم ، دین ، اور پاکستان کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
اگر ہم یہ عہد کرتے ہیں، تو ہم 23 مارچ منانے کے حقدار ہیں، ورنہ ہم اپنے آپ کو اپنی قوم اپنے اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے غدار ہیں۔