Originally posted by فاروق سعید قریشی
View Post
سانحہ پشاور، 144 بچے اور اساتذہ ہلاک، ایک انتہائی دردناک اور تکلیف دہ سانحہ، جس کے بارے میں جتنا بھی لکھا اور کہا جائے کم ہے۔
مذمت میں اسلئے نہیں کرونعگا، کہ یہ الفاظ ہمارے لیڈران کی ڈکشنری کے ہیں، اور مذمت صرف وہ لوگ کرتے ہیں، جو بے حس، خود غرض، اور بے ضمیر ہوتے ہیں۔ اور اگر دیکھا جائے تو گزشتہ دو دھائیوں سے صرف اور صرف ہم مذمت ہی کرتے چلے آرہے ہیں، اور ملک دشمن بار بار ہماری غیرت اور قومی حمیت کے منہ پر جوتے مارتے چلے جارہے ہیں۔ کیونکہ اسی مذمت کے صلہ میں ہم اب تک 50000 ہزار لاشیں اٹھا چکے ہیں۔ اسی مذمت کے صلہ میں ہزاروں بچے یتیم، عورتیں بیوہ، مائیں بے اولاد اور بوڑھے اپنے سہارے کھو چکے ہیں۔
چند دن قبل ایک اخبار میری نظر سے گزرا، اسمیں کسی امریکن صھافی نے یہ لکھا تھا کہ دنیا کی صابر ترین قوم پاکستانی ہے، جو صرف صبر کے سہارے ظلم پرداشت کرتی چلی آرہی ہے۔ اسکے یہ الفاظ پڑھکر اپنی بے حسی اور مجبوریون کا احساس بھی ہوا اور تکلیف بھی، کہ ہم اسقدر بے ضمیر اور بے غیرت ہوچکے ہین، کہ آج ہم اس قابل بھی نہیں رہے ،کہ دنیا کو آنکھون میں آنکھیں ڈال کر کہہ سکیں۔ کہ بس بہت ہوچکا ۔ اب نہیں، لیکن کیا کریں اپنے ان بے ضمیر حکمرانوں کا جن کے منہ میں ڈالر بھرے ہوئے ہین اور بند ہوچکے ہیں۔ اور جنکے ہاتھوں میں پوری قوم یرغمال بنی ہوئی ہے۔
گزشتہ دنوں عمران خان کے دھرنے اور لگاتار 126 دن کے دھرنے نے ملک کے عوام کو بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کردیا تھا، اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہمارے سامنے ہمارے سیاستدانوں کے مکروہ چہرے آگئے تھے، کہ یہ لوگ ملک اور قوم کے کس قدر وفادار اور قابل اعتماد ہیں۔ اس مسلسل جدوجہد نے ایسی صورت حال پیدا کرتی تھی کہ قوم کچھ پر امید ہوگئی تھی کہ کچھ تبدیلی آئے گی، لیکن شاید وہ عناصر جو اس تبدیلی کو برداشت نہیں کرنا چاہتے تھے، انکے تانے بانے جہان سے بھی حرکت میں آئے لیکن ایک ایسا سانحہ رونما کر گئے، کہ دھرنے سے جو اثرات اور مقاصد حاصل ہونے تھے ، وہ بھی پورے نہین ہوئے، اور پوری قوم ایک نئی اژیت کا شکار ہوگئی، جسکی کوئی توقعہ بھی نہین کرسکتا تھا۔
ابھی ہم اس خوفناک حادثہ سے سنبھلنے بھی نہ پائے تھے،اور ہماری فوجی قیادت کے اور سپہ سالار کے بروقت اقدامات نے اس مکروہ سازش کے اصل محرکات کو پتہ بھی چلا لیا تھا۔ اور اصل دشمن کے قریب تر پہنچ گئے تھے، اور افواج نے ایک ایکشن پلان دے لیا تھا، اور عمل بھی شروع کردیا ، جسکے ثمرات اور مھرکات بھی نظر آنے لگے، اور ہمارے دشمنون کو یہ نظر آنے لگا کہ پاکستانی قوم ایک مرتبہ تمام اختلافات بھلا کر متحد ہوگئی ہے۔ تو اسنے نے اپنا دوسرا حملہ کیا جسکے بارے میں سوچا بھی نہین جاسکتا تھا۔
اس وقت ہمارے محب وطن میڈیا نے اپنا انتہائی گھناؤنا کردار ادا کیا ، جیسا کہ ہم سب جانتے ہین، کہ ہمارا دشمن جانتا ہے ، کہ عسکری طور پر ہمارا دشمن ہم سے جنگ نہین جیت سکتا ، اور وہ تھا Media war اور اسکا حدف تھا مذہبی انتہا پسندی، اور نشانہ تھی ، ایک ایسی شخصیت جیسے ہمارے سیاستدان صرف اسلئے پسند نہین کرتے تھے ۔ کہ وہ ملک مین اسلام کے داعی تھے، مولانا عبدلعزیز صاحب، کا ایک انٹرویو جو ایک ایسے ٹی وی چینل نے نشر کیا ، اور بار بار نشر کیا اور اس انداز مین نشر کیا ، کہ جو بات مولانا صاحب نے کہی وہ اپنے اصل موضوع سے بہت پیچھے چلی گئی، اور ایک ایسی متنازعہ بات بنادی گئی ، کہ اسکا رد عمل بہت سخت ہوا، جبکہ مولانا نے اپنے موعقف کو بہت اچھے انداز میں وضاحت بھی کی، اور یہ پلان اس سرعت سے عمل میں لایا گیا، کہ مجھ جیسے جاقص عقل لوگ بھی پریشان ہوگئے، وہتھا، ایسے شرپسند عناصر اور اسلام دشمن عناصر کو اجتماع اور لال مسجد کو گھیراؤ اور چلاو ، جبکہ دوسری طرف کراچی کی ایک سیاسی پارٹی، جو ایک مکتبہ فکر کی عکاسی کرتی ہے، اور تشدد کی سیاست پر یقیں رکھتی ہے، نے پاکستان افواج کی حمایت مین ایلہ نکالی، اور اسکے چئیرمیں نے جو خود قتل ، ، اغوا برائے تعوان کے متعد کیسوںمیں مطلوب ہیں اور لندن مین رہائش پذیر ہیں، نے لا ل مسجد کو آگ لگانے اور مسمار کرنے کو عندیہ دیا۔ جسکی حمایت ایک تکفیری فرقہ نے کی۔ اور اس مہم کو نشریاتی رابطون پر اسقدر پھیلایا گیا، کہ پوری قوم اب ایک نئی مذہبی اور مسلکی نفرت کا شکار ہوتی نظر آرہی ہے۔
آج میں اخبار دیکھ کر حیران ہوگیا، کہ حکومت بجائے اسکے ان معاملات کو احسن طریقے سے سلجھاتی، اپنی کرسی بچانے کے چکر میں اور اُچھالنا اور کشت خون کی طرف لے جاتی نظر آتی ہے۔ اور وہ خبر تھی بے بنیاد الزام ، کی بنیاد پر عدالت نے مولانا عبدلعزیز کی گرفتاری کو حکم دےدیا ہے، ۔ اب گرفتاری کے عمل میں آتے ہی لال مسجد سے اسلحہ کے زخائر بھہ برآمد ہونا شروع ہوجائھنگ ، اور معصوم طلباء کی گرفتاری بھی عمل میں لائی جانے کا امکان ہے۔ جبکہ دوسری طرف مولانا نے گرفتاری کو جرنل مشرف کی گرفتاری سے مشروط کردیا ہے۔
کیا یہ سب کچھ اسلئے تو نہیں کہ ، سانحہ پشاور کی طرف سے لوگوں کی توجہ کو لال مسجد اور مذہبی منافرت کی طرف موڑ دیا جائے تاکہ ناایہل حکومت کا راستہ ہموار ہوجائے، حکومت کا ایک بڑے مقصد کو چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ لال مسجد کی طرف موڑ دینا۔ فوج کو اپنے بامقصد اور جراعت مندانہ اقدام اور دہشت گردوں کے سزائے موت کے فیصلون پر عمل درآمد کرنے کے عزم کو ثبوتاج کرنا تو نہیں۔
مجھے حیرت ہے ، ایک طرف تمام سیاسی جماعتیں تو متفق نظر آتی ہیں کہ دہشت گردوں کو پھانسی دی جائے، دوسری طرف چند سیاسی جماعتین اب مخالفت کرتی نظر آتی ہیں۔ جن میں جماعت اسلامی، ایم کیو ایم ، اور ایسی ہی دیگر جماعتیں ہیں۔ جنہیں پتہ ہے ۔ کہ اگر فوج نے بلا تفریق سزائیں دینا شروع کردیں تو انکے مکروح چہرے بھی شامنے آنے کے امکانات ہیں۔ ایک طرف امریکہ بہادر یہ کہتا ہے کہ دہشت گردوں کا پھانشی دینا پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدی کا کٹ پتلی سیکٹری جرنل پاکستان کی حکومت سے اپیل کر ہا ہے۔ کہ سزا نہ دی جائے۔ دوسری طرف ہندوستان جسکے خلاف شواہد موجود ہین، کہ پشاور سانحہ میں ہندوستان ملوث ہے، پاکستان کے علماء اور اکابرین کے خلاف بکواس کر رہا ہے۔ اور نفرت انگیز بیانات دے رہا ہے۔
ایک طرف امریکہ پاکستان سے دوستی کے رشتے قائم رکھنے پر زور دےرہا ہے، اور دوسری طرف ایک ایسی فلم بھی ریلیز کی جارہی ہے جسمیں پاکستانی قوم کو ایک دہشت گرد قوم جسکی پشت پناہ اسکی ضفیہ ایجنسی کرتی نظر آتی ہے، اور جسمیں ہندوستانی اداکاروں کے اداکاری کے جوہر دیکھائے ہیں۔ ریلیز کرنے جارہاہے۔ اور اس پراپیگنڈہ میں یہ بھی دیکھایا گیا ہے ۔ کہ امریکہ بہادر اپنا پانچوان بیڑہ پاکستانی سرحدوں پر لے آیا ہے۔ کیا یہ سب کچھ ایک بڑے پلان کا حصہ نہین جسکا سال 2015 دیکھایا گیا ہے۔
ایک بات میںواضع کرتا چلون،کہ یہ میرے اپنے خیالات ہیں، خدشات ہیں۔ میری اپنی سوچ ہے۔ کسی کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں، لیکن یہ میرا حق ہے، کہ میں بیان کروں ، کیونکہ میںایک پاکستانی ہو، اور ایک عام شہری ہوں، اور یہ میرا حق ہے، کہ مین اپنی آواز اور اپنے خدشات سب کے سامنے لاؤں۔ میری دعا ہے ، کہ میرے خدشات غلط ثابت ہوں۔ میری دعا ہے ۔ کہ میری قوم میرے بچے جن حالات کا شکار ہیں، ان سے باہر نکل کر با عزت زندگی گزاریں۔ ایک ایسا پاکستان جو کسی کا محتاج نہ ہو، جو آزاد ہو، ذہنی طور پر بھی مذہبی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی
میری اللہ پاک سے دعا ہے ، کہ اللہ میرے پاکستان کو ایسی بے باک، جرائتمند، دیانتدار، باغیرت، قیادت عطاء فرما۔ جو میرے پاکستان کی اور تیرے عظمت کا نشان نب جائے اور پوری دنیا پر چھا جائے، (آمین)۔
اٹھتا ہوں کرتا ہوں صبح کا نظارہ
ابھتے سورج کی کرنیں، ہوا کی سبکی، چڑیون کی چہچہاہٹ،
دیتی ہیں یہ پیغام ، گزرے ہر دن سلامتی کے ساتھ ہمارا
آتی ہے ہر مینارسے اللہ اکبر کی صداء
اور دیتی ہے، زندگی نیہ زندگی کا اشارہ
حئیٰ اللفلاح حئیٰ اللفلاح
کرو شکر رب کا ہو سورج ہر صبح گواہ
مذمت میں اسلئے نہیں کرونعگا، کہ یہ الفاظ ہمارے لیڈران کی ڈکشنری کے ہیں، اور مذمت صرف وہ لوگ کرتے ہیں، جو بے حس، خود غرض، اور بے ضمیر ہوتے ہیں۔ اور اگر دیکھا جائے تو گزشتہ دو دھائیوں سے صرف اور صرف ہم مذمت ہی کرتے چلے آرہے ہیں، اور ملک دشمن بار بار ہماری غیرت اور قومی حمیت کے منہ پر جوتے مارتے چلے جارہے ہیں۔ کیونکہ اسی مذمت کے صلہ میں ہم اب تک 50000 ہزار لاشیں اٹھا چکے ہیں۔ اسی مذمت کے صلہ میں ہزاروں بچے یتیم، عورتیں بیوہ، مائیں بے اولاد اور بوڑھے اپنے سہارے کھو چکے ہیں۔
چند دن قبل ایک اخبار میری نظر سے گزرا، اسمیں کسی امریکن صھافی نے یہ لکھا تھا کہ دنیا کی صابر ترین قوم پاکستانی ہے، جو صرف صبر کے سہارے ظلم پرداشت کرتی چلی آرہی ہے۔ اسکے یہ الفاظ پڑھکر اپنی بے حسی اور مجبوریون کا احساس بھی ہوا اور تکلیف بھی، کہ ہم اسقدر بے ضمیر اور بے غیرت ہوچکے ہین، کہ آج ہم اس قابل بھی نہیں رہے ،کہ دنیا کو آنکھون میں آنکھیں ڈال کر کہہ سکیں۔ کہ بس بہت ہوچکا ۔ اب نہیں، لیکن کیا کریں اپنے ان بے ضمیر حکمرانوں کا جن کے منہ میں ڈالر بھرے ہوئے ہین اور بند ہوچکے ہیں۔ اور جنکے ہاتھوں میں پوری قوم یرغمال بنی ہوئی ہے۔
گزشتہ دنوں عمران خان کے دھرنے اور لگاتار 126 دن کے دھرنے نے ملک کے عوام کو بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کردیا تھا، اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہمارے سامنے ہمارے سیاستدانوں کے مکروہ چہرے آگئے تھے، کہ یہ لوگ ملک اور قوم کے کس قدر وفادار اور قابل اعتماد ہیں۔ اس مسلسل جدوجہد نے ایسی صورت حال پیدا کرتی تھی کہ قوم کچھ پر امید ہوگئی تھی کہ کچھ تبدیلی آئے گی، لیکن شاید وہ عناصر جو اس تبدیلی کو برداشت نہیں کرنا چاہتے تھے، انکے تانے بانے جہان سے بھی حرکت میں آئے لیکن ایک ایسا سانحہ رونما کر گئے، کہ دھرنے سے جو اثرات اور مقاصد حاصل ہونے تھے ، وہ بھی پورے نہین ہوئے، اور پوری قوم ایک نئی اژیت کا شکار ہوگئی، جسکی کوئی توقعہ بھی نہین کرسکتا تھا۔
ابھی ہم اس خوفناک حادثہ سے سنبھلنے بھی نہ پائے تھے،اور ہماری فوجی قیادت کے اور سپہ سالار کے بروقت اقدامات نے اس مکروہ سازش کے اصل محرکات کو پتہ بھی چلا لیا تھا۔ اور اصل دشمن کے قریب تر پہنچ گئے تھے، اور افواج نے ایک ایکشن پلان دے لیا تھا، اور عمل بھی شروع کردیا ، جسکے ثمرات اور مھرکات بھی نظر آنے لگے، اور ہمارے دشمنون کو یہ نظر آنے لگا کہ پاکستانی قوم ایک مرتبہ تمام اختلافات بھلا کر متحد ہوگئی ہے۔ تو اسنے نے اپنا دوسرا حملہ کیا جسکے بارے میں سوچا بھی نہین جاسکتا تھا۔
اس وقت ہمارے محب وطن میڈیا نے اپنا انتہائی گھناؤنا کردار ادا کیا ، جیسا کہ ہم سب جانتے ہین، کہ ہمارا دشمن جانتا ہے ، کہ عسکری طور پر ہمارا دشمن ہم سے جنگ نہین جیت سکتا ، اور وہ تھا Media war اور اسکا حدف تھا مذہبی انتہا پسندی، اور نشانہ تھی ، ایک ایسی شخصیت جیسے ہمارے سیاستدان صرف اسلئے پسند نہین کرتے تھے ۔ کہ وہ ملک مین اسلام کے داعی تھے، مولانا عبدلعزیز صاحب، کا ایک انٹرویو جو ایک ایسے ٹی وی چینل نے نشر کیا ، اور بار بار نشر کیا اور اس انداز مین نشر کیا ، کہ جو بات مولانا صاحب نے کہی وہ اپنے اصل موضوع سے بہت پیچھے چلی گئی، اور ایک ایسی متنازعہ بات بنادی گئی ، کہ اسکا رد عمل بہت سخت ہوا، جبکہ مولانا نے اپنے موعقف کو بہت اچھے انداز میں وضاحت بھی کی، اور یہ پلان اس سرعت سے عمل میں لایا گیا، کہ مجھ جیسے جاقص عقل لوگ بھی پریشان ہوگئے، وہتھا، ایسے شرپسند عناصر اور اسلام دشمن عناصر کو اجتماع اور لال مسجد کو گھیراؤ اور چلاو ، جبکہ دوسری طرف کراچی کی ایک سیاسی پارٹی، جو ایک مکتبہ فکر کی عکاسی کرتی ہے، اور تشدد کی سیاست پر یقیں رکھتی ہے، نے پاکستان افواج کی حمایت مین ایلہ نکالی، اور اسکے چئیرمیں نے جو خود قتل ، ، اغوا برائے تعوان کے متعد کیسوںمیں مطلوب ہیں اور لندن مین رہائش پذیر ہیں، نے لا ل مسجد کو آگ لگانے اور مسمار کرنے کو عندیہ دیا۔ جسکی حمایت ایک تکفیری فرقہ نے کی۔ اور اس مہم کو نشریاتی رابطون پر اسقدر پھیلایا گیا، کہ پوری قوم اب ایک نئی مذہبی اور مسلکی نفرت کا شکار ہوتی نظر آرہی ہے۔
آج میں اخبار دیکھ کر حیران ہوگیا، کہ حکومت بجائے اسکے ان معاملات کو احسن طریقے سے سلجھاتی، اپنی کرسی بچانے کے چکر میں اور اُچھالنا اور کشت خون کی طرف لے جاتی نظر آتی ہے۔ اور وہ خبر تھی بے بنیاد الزام ، کی بنیاد پر عدالت نے مولانا عبدلعزیز کی گرفتاری کو حکم دےدیا ہے، ۔ اب گرفتاری کے عمل میں آتے ہی لال مسجد سے اسلحہ کے زخائر بھہ برآمد ہونا شروع ہوجائھنگ ، اور معصوم طلباء کی گرفتاری بھی عمل میں لائی جانے کا امکان ہے۔ جبکہ دوسری طرف مولانا نے گرفتاری کو جرنل مشرف کی گرفتاری سے مشروط کردیا ہے۔
کیا یہ سب کچھ اسلئے تو نہیں کہ ، سانحہ پشاور کی طرف سے لوگوں کی توجہ کو لال مسجد اور مذہبی منافرت کی طرف موڑ دیا جائے تاکہ ناایہل حکومت کا راستہ ہموار ہوجائے، حکومت کا ایک بڑے مقصد کو چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ لال مسجد کی طرف موڑ دینا۔ فوج کو اپنے بامقصد اور جراعت مندانہ اقدام اور دہشت گردوں کے سزائے موت کے فیصلون پر عمل درآمد کرنے کے عزم کو ثبوتاج کرنا تو نہیں۔
مجھے حیرت ہے ، ایک طرف تمام سیاسی جماعتیں تو متفق نظر آتی ہیں کہ دہشت گردوں کو پھانسی دی جائے، دوسری طرف چند سیاسی جماعتین اب مخالفت کرتی نظر آتی ہیں۔ جن میں جماعت اسلامی، ایم کیو ایم ، اور ایسی ہی دیگر جماعتیں ہیں۔ جنہیں پتہ ہے ۔ کہ اگر فوج نے بلا تفریق سزائیں دینا شروع کردیں تو انکے مکروح چہرے بھی شامنے آنے کے امکانات ہیں۔ ایک طرف امریکہ بہادر یہ کہتا ہے کہ دہشت گردوں کا پھانشی دینا پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدی کا کٹ پتلی سیکٹری جرنل پاکستان کی حکومت سے اپیل کر ہا ہے۔ کہ سزا نہ دی جائے۔ دوسری طرف ہندوستان جسکے خلاف شواہد موجود ہین، کہ پشاور سانحہ میں ہندوستان ملوث ہے، پاکستان کے علماء اور اکابرین کے خلاف بکواس کر رہا ہے۔ اور نفرت انگیز بیانات دے رہا ہے۔
ایک طرف امریکہ پاکستان سے دوستی کے رشتے قائم رکھنے پر زور دےرہا ہے، اور دوسری طرف ایک ایسی فلم بھی ریلیز کی جارہی ہے جسمیں پاکستانی قوم کو ایک دہشت گرد قوم جسکی پشت پناہ اسکی ضفیہ ایجنسی کرتی نظر آتی ہے، اور جسمیں ہندوستانی اداکاروں کے اداکاری کے جوہر دیکھائے ہیں۔ ریلیز کرنے جارہاہے۔ اور اس پراپیگنڈہ میں یہ بھی دیکھایا گیا ہے ۔ کہ امریکہ بہادر اپنا پانچوان بیڑہ پاکستانی سرحدوں پر لے آیا ہے۔ کیا یہ سب کچھ ایک بڑے پلان کا حصہ نہین جسکا سال 2015 دیکھایا گیا ہے۔
ایک بات میںواضع کرتا چلون،کہ یہ میرے اپنے خیالات ہیں، خدشات ہیں۔ میری اپنی سوچ ہے۔ کسی کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں، لیکن یہ میرا حق ہے، کہ میں بیان کروں ، کیونکہ میںایک پاکستانی ہو، اور ایک عام شہری ہوں، اور یہ میرا حق ہے، کہ مین اپنی آواز اور اپنے خدشات سب کے سامنے لاؤں۔ میری دعا ہے ، کہ میرے خدشات غلط ثابت ہوں۔ میری دعا ہے ۔ کہ میری قوم میرے بچے جن حالات کا شکار ہیں، ان سے باہر نکل کر با عزت زندگی گزاریں۔ ایک ایسا پاکستان جو کسی کا محتاج نہ ہو، جو آزاد ہو، ذہنی طور پر بھی مذہبی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی
میری اللہ پاک سے دعا ہے ، کہ اللہ میرے پاکستان کو ایسی بے باک، جرائتمند، دیانتدار، باغیرت، قیادت عطاء فرما۔ جو میرے پاکستان کی اور تیرے عظمت کا نشان نب جائے اور پوری دنیا پر چھا جائے، (آمین)۔
اٹھتا ہوں کرتا ہوں صبح کا نظارہ
ابھتے سورج کی کرنیں، ہوا کی سبکی، چڑیون کی چہچہاہٹ،
دیتی ہیں یہ پیغام ، گزرے ہر دن سلامتی کے ساتھ ہمارا
آتی ہے ہر مینارسے اللہ اکبر کی صداء
اور دیتی ہے، زندگی نیہ زندگی کا اشارہ
حئیٰ اللفلاح حئیٰ اللفلاح
کرو شکر رب کا ہو سورج ہر صبح گواہ