Originally posted by Dr Maqsood Hasni View Post
تاریخ کے سینے پر

ملکہ ساحرہ جان شاہ کی ناگہانی موت نے‘ شاہی محل کے در و دیوار‘ ہلا کر رکھ دیے۔ کہرام مچ گیا‘ دکھ کا بھونچال آ گیا۔ خود شاہ کی‘ دھاڑیں مار مار کر رونے سے‘ حالت غیر ہو گئی تھی۔ یہ اس کی اکلوتی ملکہ نہ تھی۔ اصل وجہ یہ تھی‘ کہ شاہ کی اس سے کچھ زیادہ ہی رغبت تھی۔ کوئی دوسری ملکہ‘ اگر ملکہ ساحرہ جان شاہ کی بدمزاجی کی شکایت کرتی‘ تو وہ سنی ان سنی کر دیتا۔ بعض اوقات ڈانٹ تک پلا دیتا۔ مرحومہ کے‘ ہر کہے کو آسمانی صحیفے کا سا درجہ حاصل تھا۔ نیچ ذات سے تھی‘ اسی وجہ سے‘ کامے اور کامیوں کی تقریبا ہر وقت‘ شامت آئی رہتی تھی۔ ان میں سے‘ کوئی چوں تک نہیں کر سکتا تھا۔ وہ یہ کہنے کی جرات نہیں رکھتے تھے‘ کہ کل تک تمہاری ماں‘ ہمارے ساتھ کام کیا کرتی تھی۔ یہ تو وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ وقت شاہوں کو فقیر اور فقیروں کو شاہی مسند پر بیٹھا دیتا ہے۔ وقت کسی کا غلام ہوتا اور ناہی کسی سے پوچھ کر گزرتا ہے۔
شاہ کے پرسےاور شاہی قربت کے لیے‘ ہر کسی کو اصلی اور حقیقی انداز میں‘ بےچینی وبے قراری کا ناٹک کرنا تھا۔ یہ ہی نہیں بین‘ نوحہ خوانی‘ اشک سوئی اور سینہ کوبی سے کام لینا تھا۔ وفاداری کے مظاہرے کے لیے‘ اس سے مواقع‘ کبھی کبھی ہاتھ لگتے ہیں۔ انہیں ضائع کرنا‘ اپنی قسمت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ شدت غم میں بھی‘ شاہی لطف و عطا اپنے معمول کے مرتبے سے نہیں گرتے۔ کسی کنیز کی نوحہ کناں آواز یا انداز‘ شاہ کو بھا سکتا ہے۔ وہ ہی لمحہ‘ اسےعموم سے خصوص میں‘ داخل کر سکتا ہے۔ قسمت لاٹری کی طرح ہوتی ہے۔ سب اپنی اپنی کلاکاری میں مصروف تھے۔ شاہ کی دیگر بیگمات بھی‘ کسی سے پیچھے نہ رہنا چاہتی تھیں۔ باطنی سطع پر پھوٹنے والے لڈو‘ غم ناکی کے روپ میں ڈھل کر‘ چارسو زردی بکھیر رہے تھے۔
سارے مشیر‘ وزیراور انتظامی عملہ‘ بڑا مصروف اور انتہا درجہ کی پھرتیاں دکھا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے ان سے بڑھ کر‘ محنتی‘ کارگزار اور وفادار لوگ دنیا میں نہ ہوں گے۔ حالاں کہ ہر کوئی
look busy but do nothing.
کلیے پر‘ عمل درآمد کر رہا تھا۔ ان کی ان ہی چلنتریوں نے‘ انہیں اعلی مقام اور اعلی درجے عطا کیے تھے۔ کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے
اسپ تازی شدہ مجروع بر زیر پلان
طوق زرین ہمہ در گردن خر میبینم
خیر کام بھی تھے‘ جنازے کے لیے‘ دیگر ولائیتوں سے آنے والوں کے لیے‘ بیٹھنے کا انتظام‘ کفن دفن کے خصوصی انتظامات‘ کھانے وغیرہ کا مناسب اور شاہی وقار کے شایان شان بندوبست‘ ایسے چھوٹے موٹے بہت سے امور تھے‘ جنہیں خوش اسلوبی سے نبھانا اور نپٹانا‘ کوئی معمولی بات نہ تھی۔
ملکہ ساحرہ جان شاہ نے‘ شاہ کو آخری لمحوں میں‘ باطور وصیت چار باتیں کہی تھیں اور ان پر صدق دل سے عمل درآمد کرنے کی تاکید بھی کی تھی۔
اول- شہر کے بارونق علاقہ میں‘ اس کا عالی شان مقبرہ تعمیر کیا جائےاور دو بیگھہ زمین میں باغ لگوایا جائے تا کہ ہر آنے جانے والا‘ اس کی‘ بادشاہ کی نظروں میں‘ قدر وقیمت اور عزت ومقام کا اندازہ کر سکے۔

دوم- اس سا‘ کسی کا عالی شان مقبرہ‘ تعمیر نہ ہونے دیا جائے۔
سوئم- دل میں اس کی یاد کے سوا‘ کسی اور کو نہ بسایا جائے۔
چہارم۔ اس کی جگہ‘ کسی اور کو نہ لایا جائے۔ اگر کوئی دوسری ملکہ حق ہوتی ہے‘ تو خالی جگہ پر کرنے میں‘ کسی قسم کے تساہل سے کام نہ لیا جائے۔
وزیر بندوبست کے لیے‘ کسی بھی بارونق اور گنجان آباد علاقہ میں‘ دو کیا‘ دس بیگھہ زمین خالی کرا لینا‘ کوئی مشکل کام نہ تھا۔ سروے کے بعد‘ اس کار خیر کے لیے‘ شیر شاہ چوک سے زیادہ‘ کوئی علاقہ مناسب معلوم نہ ہوا۔ پھر دیکھتے یی دیکھتے‘ تین بیگھہ زمین کے رہائشوں سے‘ علاقہ خالی کرا کر‘ بلڈوز کر دیا گیا۔ وزیر بندوبست اپنی سیانف اور دانائی کی وجہ سے‘ شہرہ رکھتا تھا۔ دو ییگھہ مقبرہ اور باغ کے لیے‘ جب کہ ایک بیگھہ خدمت گاروں اور اس کی رہاہش کے لیے‘ مختص کر دیا گیا۔ نگرانی کا حساس اور اہم ترین کام‘ اس کے سوا‘ بھلا اور کون انجام دے سکتا تھا۔
اس عظیم قومی مشن کے لیے‘ بےتحاشا مالی وسائل کی ضرورت تھی۔ شاہی خزانے سے‘ مالی وسائل استمال میں لانا‘ نادانی کے متردف تھا اور شاہی خزانہ بھی‘ اس کا متحمل نہ تھا۔ وزیر مالیات نے کہا: جس طرح بادشاہ سب کا ہوتا ہے‘ اسی طرح ملکہ بھی سب کی ماں ہوتی ہے‘ اس لیے اس عظیم قومی مشن کے لیے‘ جملہ وسائل فراہم کرنا‘ عوام کا قومی فریضہ ہے۔ مالی تعاون بادشاہ سے اظہار وفاداری بھی تو ہے۔
وزیر مالیات کی تجویز پر‘ ہر درباری‘ عش عش کر اٹھا اور اس کی فراست کی تعریف کرنے لگا۔
مالی وسائل کی حصولی کے لیے‘ استعمال کی اور خوردنی اشیا پر‘ ملکہ ماں ٹیکس عائد کر دیا گیا۔ لوگ مری ملکہ ماں کو‘ برسرعام گالیاں دینے لگے۔ اس ٹیکس سے‘ پورا پڑنا مشکل تھا۔ مجبورا‘ ممتا کونسل تشکیل دینا پڑی‘ جو گھروں‘ دکانوں‘ مارکیٹوں‘ کاروباری جگہوں‘ راہ گیروں‘ مسافروں وغیرہ سے‘ مالی وسائل جمع کرنے لگی۔ اس سے بےچینی بڑھی‘ دنگا فساد بھی ہوا۔ اس میں کچھ زخمی ہوئے‘ چند سو جان سے بھی گیے۔ زمین حاصل کرتے وقت بھی‘ کچھ اسی قسم کی صورت حال پیش آئی تھی۔ انتظامیہ‘ ایسے شر پسند عناصر سے‘ نپٹنا خوب خوب جانتی ہے۔ اتنی بڑی مملکت میں‘ گنتی کے چند لوگوں کا مر جانا‘ اتنا بڑا ایشو نہیں ہوتا۔ دوسرا‘ ایسے عناصر کا مر جانا ہی‘ دوسروں کے لیے بہتر اور عبرت ہوتا ہے۔ اس طرح انہیں‘ کان ہو جاتے ہیں اور اس سے بغاوت کے جراثیم‘ اپنی موت آپ مر جاتے ہیں اور امن وامان بحال رہتا ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے‘ عالی شان مقبرہ تعمیر ہو گیا۔ اس کی تعمیر میں‘ کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی تھی۔ اس کی تعمیر کے لیے‘ اعلی سطح کے کاری گروں کی خدمات‘ حاصل کی گئی تھیں۔ جو دیکھتا‘ عش عش کر اٹھتا۔ شاہ بھی‘ ہنرمندی پر کلمہء تحسین ادا کیے بغیر‘ رہ نہ سکا۔ اطراف میں‘ محافظ ملازمین اور وزیر بندوبست کی رہائش گاہ نے‘ بےرونقی کو ہی ختم نہیں کیا تھا‘ بلکہ حسن کو دوبالا کر دیا تھا۔ شاہ کی نشت گاہ‘ تو دیکھنے لائق تھی‘ لیکن اس کی زیارت‘ شاہ کی آمد پر ہی کی جا سکتی تھی۔
اس سارے عمل میں‘ جہاں مقبرہ وغیرہ تعمیر ہوا‘ وہاں بندوبستیوں کی بھی‘ چاندی ہوئی۔ انہوں نے لمبا چوڑا ہاتھ مارا تھا۔ وزیر مالیات اور وزیر بندوبست‘ پہلے ہی رج کھاتےاور چھنڈ پہتتے تھے‘ تاہم اس پروجیکٹ نے بھی‘ انہیں مایوس نہ کیا تھا۔ آنکھ کا نہ بھرنا‘ اس سے قطعی مختلف بات ہے۔
وقت‘ بڑی تیزی سے‘ مستقبل کی طرف بڑھتا رہا۔ لوگ ماضی کے دھرو‘ بھولتے گیے۔ شاہ کا زخم بھی‘ مندمل ہو گیا اور ہر کوئی‘ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گیا۔ مقبرے کا باغ‘ حسیناؤں کی تفریح گاہ بن گیا۔ حسیناؤں کی آمد پر‘ کسی قسم کی روک نہ تھی‘ ہاں مرد حضرات کے لیے‘ یہ ایریا قطعی ممنوعہ تھا۔ اگر مرد حضرات کو بھی‘ یہاں آنے کی اجازت دے دی جاتی‘ تو یہ فحاشی کا اڈہ بن جاتا۔ شاہ ملکہ ساحرہ جان شاہ کو تقریبا بھول چکا تھا۔ ہاں البتہ‘ یہاں اپنی نشت پر‘ باقاعدگی سے جلوہ افروز ہونے لگا۔ جب وہ جلوہ افروز ہوتا‘ حسیناؤں کے غول کے غول‘ اٹھکیلیاں کرتے نظر آتے۔ آج اگر شداد زندہ ہوتا‘ تو حسد اور احساس کہتری سے‘ اس کا کلیجہ پھٹ پھٹ جاتا۔
لوگ‘ آلہ ءنشاط پر دسترس اور اس سے لطف افروزی کے لیے‘ کمینگی کی‘ کسی بھی سطع پر‘ اتر آتے ہیں۔ شاہوں کے دبدبے اور وجاہت کے حضور‘ کنویں پیاسے کی سیرابی کے لیے‘ بےچین و بےقرار اور سبقت لے جانے کی فکر میں‘ ہلکان ہوتے ہیں اور یہ شرف‘ چڑھے مقدر والوں کو ہی‘ حاصل ہو پاتا ہے۔ پھر ایک روز‘ فرخ سیر کی محبوبہ‘ روپ کنور کی نسل کی‘ ایک شوخ و چنچل ڈومنی نے‘ شاہ کی صدیوں کی‘ پیاس کو بجھا کر‘ شاہی محل میں جگہ بنا ہی لی۔ ساری راجدھانی میں جشن منایا گیا۔ مبارک بادوں کے پیغام ملنے لگے۔
اب محل پر‘ ملکہ قرتہ الشاہ کا سکہ چلنے لگا۔ شاہ بھی‘ اس کی مٹھی میں بند ہو کر رہ گیا۔ جس طرح کہتی‘ شاہ اسی طرح کرتا‘ بلکہ اب شاہ کم‘ وہ زیادہ کہتی تھی۔ گویا ملک کا انتظام‘ اس کے ہاتھ میں آ گیا تھا۔ اس کے حضور کسی کو‘ چوں تک کرنے کی جرآت نہ تھی۔ اس کے خاندان کے بہت سے لوگ‘ اعلی عہدوں پر فائز ہو گیے۔ بہت سے پرانے نمک حرام‘ معزول کر دیے گیے۔
ملکہ قرتہ الشاہ‘ فضول کی قائل نہ تھی۔ ہر معمولی اور گری پڑی چیز بھی‘ تصرف میں آ گئی۔ کچرے سے بھی‘ تصرف کی اشیا ڈھونڈ نکالتی۔ کام چور اور نکموں کو بھی‘ کام کرنا پڑا۔ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کے کہے کو‘ درست اور سچ مانتی۔ چاپلوسی کے لیے بھی‘ ان ہی میں سے منتخب کیے گیے۔ ہر غیر خاندان کے عہدےدار کے پیچھے‘ اپنے خاندان کا کوئی فرد چھوڑ دیتی۔ گربوتی ہونے کے باوجود‘ وہ اسی چابکدستی سے کام انجام دے رہی تھی۔ جب سے امید سے ہوئی‘ شاہ اس پر اور بھی مہربان ہو گیا تھا۔ کیوں نہ ہوتا‘ وہ سلطنت کے لیے‘ وارث کو جنم دینے والی تھی۔
مقبرے کے دو ایکڑ اور اس سے ملحقہ ایک ایکڑ زمین پر‘ عالی شان عمارتیں لایعنی تصرف میں تھیں۔ اس نے تمام عمارتیں‘ اپنے خاندان کے معزز لوگوں کو‘ الاٹ کر دیں۔ باغ مینا بازار کے لیے مخصوص کر دیا۔ باغ میں داخلے کی انٹری فیس مقرر کر دی۔ یہ بازار‘ ہفتے میں صرف دو بار لگتا۔ خود شاہی نشت پر بیٹھ کر‘ اس کی نگرانی کرتی۔ ساتھ آئی کنیزوں کی اشیا وغیرہ کے رکھنے کے لیے‘ مقبرے کو باطور سٹور استعمال کیا جانے لگا۔ بعد ازاں‘ گھاس پر ننگے پاؤں چلنے والوں کے لیے‘ جوتا گاہ بنا دیا گیا۔
مواد دو نمبر استعمال کیا گیا تھا‘ اوپر سے کثرت استعمال نے‘ اسے ڈھارا بنا دیا۔ شاہ کی حیات میں ہی‘ مقبرہ زمین بوس ہو گیا۔ شاہ کو یاد تک نہ رہا‘ کہ اس ملبے تلے‘ اس کی سابقہ محبوب ملکہ ساحرہ جان شاہ‘ ابدی نیند سو رہی ہے۔ ملبہ صاف کرکے‘ آنے جانے والوں کی سہولت کے لیے‘ طہارت خانے تعمیر کرا دیے گیے۔ تاہم ملکہ ساحرہ جان کی قبر کو‘ نقصان نہ پنچایا گیا۔ ہاں تھوڑا مختصر کرکے‘ اس کو دوبارہ سے مرمت کروا دیا گیا اور یہ ثابت کر دیا کہ وہ فراخ دل ہی نہیں‘ اپنی مرحومہ سوت کے لیے بھی‘ دل میں عزت اور احترام کا جذبہ رکھتی ہے۔ اس کے اس جذبے کو‘ اطراف میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس کی یہ ہی فراخ دلی‘ تاریخ کے سینے پر‘ ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گئی۔