Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ


    حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ


    جس طرح جد الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے یہ خصوصیت عطاکی ہے کہ تمام اہل کتاب یہودی ، عیسائی اور مسلمان سب ان کا احترام کرتے ہیں ۔

    اسی طرح جنوبی ایشیائی خطے خصوصا بر صغیر میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو یہ مقام حاصل ہے کہ یہاں کے تقریبا تمام مکاتب فکرمیں ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے ۔ ان کے افکار اور فلسفے پر بحث کی جاتی ہے اوران کے افکار پر تفصلی کتابیں تصنیف کی گئی ہیں ۔

    پیدائش ،وفات، سلسلہ نسب اورمختصر تعلیمی زندگی:

    حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا اصل نام ان کے والد نے قطب الدین رکھا جو مشہور نہ ہوسکا ۔ والد کا نام شاہ عبدالرحیم تھا ۔ آپ کی پیدائش 1703ءاور انتقال1762ء میں ہوا۔دادھیالی رشتے میں تینتیس واسطوں سے آپ کا سلسلہ نسب خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے ملتا ہے ۔ جبکہ ننھیالی رشتے میں حضرت امام موسی کاظم رحمہ اللہ آپ کے جد امجد ہیں ۔ اس لحاظ سے آپ دونوں رشتوں میں نجیب الطرفین ہیں ۔ آپ عربی الاصل ہیں مگر یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کب آپ کا خاندان حجاز سے ہندوستان آیا اور دہلی میں مقیم ہوگیا ۔ چھبیس ویں پشت میں آپ کے جد امجد ہمایوں نام کے ہیں جس سے مؤرخین نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ آپ کا خاندان بہت پہلے ہندوستان آیا تھا ۔ حضرت شاہ ولی رحمہ اللہ نے ابتدائی تعلیم بلکہ 17 سال کی عمر تک مروجہ نصاب کی تکمیل اپنے والد بزرگوار سے کی ۔ پندرہ سال کی عمر میں تصوف کے میدان میں قدم رکھا اور اپنے والد سے بیعت ہوئے ۔ تصوف کے اسباق اور اصلاح بھی اپنے والد سے لیتے رہے ۔ سترہ سال کی عمر تک آپ ظاہری وباطنی دونوں علوم میں کافی استعداد حاصل کرچکے تھے ۔ سترہ سال کی عمر میں والد کا انتقال ہوگیا ۔ اس کے بعد مزید علوم ظاہری وباطنی کی تکمیل کے لیے آپ حجاز چلے گئے ۔ آپ نے حدیث کی اجازت اس سے قبل ہندوستان ہی میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ سے حاصل کی تھی حجاز میں اپنے وقت کےعلم حدیث کے سب سے بڑے استاد شیخ ابوطاہر کردی رحمہ اللہ سے اجازت حدیث کی تجدید فرمائی ۔ 1145ھ میں وہ واپس ہندوستان آئے ۔ سلسلہ صوفیاء میں انہوں نے اپنے والد سے نقشبندیہ کے اشغال اختیار کیے ۔ حجاز میں شیخ ابوطاہر رحمہ اللہ کردی کے ہاں اجازت حدیث کے ساتھ انہوں نے تصوف کے اسباق میں بھی کمال مہارت حاصل کی ۔ چونکہ شیخ ابوطاہر کا سلسلہ تصوف کے تمام سلسلوں کو حاوی تھا اس لیے ان کے ہاں سے آپ تمام سلسلہائے تصوف سے خوب فیض یاب ہوئے ۔

    عملی زندگی کا آغاز:

    حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ جب ہندوستان لوٹے تو آپ کو علوم ظاہری و اصلاح باطنی میں بھر پور کمال حاصل ہوچکا تھا ۔ ہندوستان آکر آپ نے مسلمانوں کی اجتماعی صورتحال کا جائزہ لیا ۔ اورنگزیب عالم گیر کی وفات کے بعد مغل سلطنت کے پایہ تخت میں اضمحلال آگیا تھا ۔ مغل فرمانروا کی حکومت دہلی تک سمٹتی جارہی تھی ۔ ہندوؤں میں سے مرہٹہ وہ قوم تھی جو سیاسی لحاظ سے دن بدن مضبوط ہوتی جارہی تھی اور وہ آہستہ آہستہ دہلی کی جانب پیش قدمی کرنے لگے تھے ۔ ادھر مسلمانوں کی انفرادی صورتحال بھی ان کے سامنے تھی ۔ مسلمانوں میں اخلاقی انحطاط روز بروز بڑھتا جارہا تھا۔ ہندؤوں کے ساتھ میل جول اور رہن سہن زیادہ ہونے کی وجہ سے خالص توحید اور خالص اسلام مٹتا جارہا تھا اور اس کی جگہ مسلمانوں کی زندگیوں میں ہندوانہ رسومات داخل ہونے لگے تھے ۔ علماء میں مداہنت فی الدین اور عوام میں بدعات ومنکرات پھلتے پھولتے جارہے تھے ۔ رہی سہی کسر جاہل صوفیا نے پوری کردی تھی جن کی وجہ سے تصوف اور دین داری میں بدعات کے بڑے دروازے کھل گئے تھے ۔ اصلاح ظاہر وباطن کی بجائے تصوف نذرانوں اور ارادت مندوں کے ہجوم کا نام بن گیا تھا ۔ تصوف لوگوں کی اصلاح کی بجائے تخریب دین و افساد ظاہر وباطن کا کام کررہا تھا۔ ہندوستان کے مسلمان دن بدن حقیقی اسلام سے دور اور ضلالت کی وادیوں کی جانب پھسلتے جارہے تھے۔ ایسے حالات میں پھر کسی مجدد کا اٹھنا ایک ناگزیر ہوگیا تھا ۔ اللہ تعالی نے اس دین کی حفاظت کا جو وعدہ کیا ہے ایسے حالات میں ایک بارپھر ضرورت تھی کہ اللہ کا یہ مقرر کردہ قانون حرکت میں آئے ۔

    اصلاحی تحریک کا آغاز:

    ایسے حالات میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اس دین کی تجدید اور اسلام کورطب ویابس سے پاک کرنے کے لیے اٹھے ۔ ان کی برخاست کوئی حادثاتی واقعہ نہیں تھا بلکہ یہ الہی قانونِ تجدید کا فیصلہ تھا ۔ انہیں اللہ تعالی نے اس کام کے لیے باقاعدہ منتخب کیا تھا اورانہیں اس کی باقاعدہ ذمہ داری عطاکی گئی تھی ۔ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے بھی حجۃ اللہ البالغہ میں اس جانب اشارہ کیا ہے ۔ انہوں نے اس واقعے کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے :

    " ایک روز میں بعد عصر کے متوجہا الی اللہ بیٹھا ہوا تھا دفعۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح نے ظہور فرمایا اور اس نے مجھ کو اوپر کی جانب سے ایسا ڈھانپ لیا کہ گویا کسی نے مجھ پر کوئی کپڑا ڈالدیا ہو ۔ اس حالت میں مجھ پر القا کیا گیا کہ یہ کسی امر دینی کے بیان کی طرف اشارہ ہے ۔ اس وقت میں نے اپنے سینے میں ایک نور پایا جس میں وقتا فوتا ہمیشہ کشادگی بڑھتی رہی ۔ پھر چند روز کے بعد الہام ہوا کہ اس صاف اور روشن امر کے لیے میرا آمادہ ہونا تقدیر الہی میں قرار پاچکا ہے ۔ اور مجھ کو یہی معلوم ہوا کہ اپنے پروردگار کے انوار سے تمام زمین منور ہوگئی ۔ غروب کے وقت روشنی نے اپنا عکس زمین پر ڈالا ہے اور شریعت مصطفوی اس زمانہ میں بدیں وجہ کہ دلائل وسیع ومکمل لباس میں ظہور فرما ہونے کو ہے سراپا نور ہوگئی ۔ اور اس کے بعد میں ایک زمانہ میں مکہ معظمہ میں وارد تھا ۔ وہیں میں نے جناب امام حسن وحسین رضی اللہ عنہما کو خواب میں دیکھا کہ ان دونوں نے مجھ کو ایک قلم عطا فرماکر کہا کہ یہ قلم ہمارے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے "۔
    حضرت شاہ رحمہ اللہ کو اس کام کے لیے منتخب کیا جانا کوئی عجیب بات بھی نہیں ۔ بچپن ہی سے ان کی تعلیم وتربیت کا جو قدرتی اہتمام کیا گیا تھا اس کو دیکھتے ہوئے یہ بالکل کوئی خلاف توقع نہیں ۔ پانچ سال کی عمر میں جب بچہ اپنا نام ٹھیک طرح سے نہیں جانتا انہیں بسم اللہ کرائی گئی ۔ عمر کے ساتویں سال قرآن مجید کی تعلیم اور پھر فارسی کتب اپنے والد سے پڑھنا شروع کیں ۔ اس کےبعد علوم عربیت کی جانب متوجہ ہوئے اور اس سرعت سے یہ سفر طے کیا کہ عمر کی دسویں سال تک شرح ملا تک پہنچ گئے ۔ پندرہویں برس تفسیر بیضاوی کا درس ان کو ملنے لگا ۔ الغرض فقہ ، حدیث ، تفسیر معانی ، بیان ، اصول ، عقائد ، تصوف ، منطق ، کلام اور فلسفہ کی درسی کتابیں اور علم طب ، علم ہیئت اور علم الحساب کے چند مختصر رسالے اپنے والد بزرگوار سے بخوبی پڑھے ۔ عمر کے سترہویں برس میں آپ نے مسند درس سنبھال لیا ۔

    یہ تو علمی سفر کی تیز رفتاری کا عالم تھا ۔اصلاح نفس اور تقوی وتصوف کے میدان میں بھی آپ کو کمال ترقی سے نوازا گیا تھا ۔ پندرہ برس کی عمر جس میں ایک عام بچہ سن بلوغ کو پہنچتا ہے اور ابھی دین ودنیا کے معاملات میں فرق سمجھنے کی کوشش کرتا ہے آپ اپنے والد سے باقاعدہ بیعت ہوگئے اور والد سے اصلاحی اسباق لینے شروع کردیے ۔ محض دو سال کے عرصے میں سترہ سال کی عمر تک جب آپ نے مسند درس سنبھالا آپ نے عرفان کے اعلی مدارج طے کرلیے تھے اور آپ کو اپنے والد کی جانب سے بیعت وارشاد کی باقاعدہ اجازت مل گئی تھی ۔ حضرت شاہ صاحب کی شخصیت میں اس قدر علمی ترقی وکمال للہیت جمع کرنے کا الہی اہتمام مستقبل میں ایک بڑےکام کی جانب اشارہ تھا ۔ ان کی اپنی تحریرات سے ملنے والے اشارات کے مطابق اللہ تعالی نے انہیں علم لدنی اور غیبی علم بھی عطافرمایا تھا ۔ انہیں اسراردین کا علم اللہ تعالی نےدیا تھا اور اسی کو انہوں نے تمام علوم کی جڑ بتایا ۔ حجتہ اللہ البالغہ میں انہوں نے اپنے انہیں علوم کی درافشانی کی ہے ۔ اس کے علاوہ تقریبا چالیس کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ان کی ساری تصانیف میں ایسے ہی اسرار ورموز کی رہنمائی کی گئی ہے ۔ حضرت شاہ صاحب نے تفسیر ، حدیث ، فقہ ، تصوف ، فلسفہ سبھی علوم میں کام کیا ۔

    حضرت شاہ صاحب کی ہمہ پہلو اصلاحی تحریک:

    حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے جب اصلاحی تحریک کی نیو اٹھائی تو آپ نے جیسا کہ ایک مجدد کے شایان شان ہوتاہے مسلمانوں کے تمام طبقات پر نظر ڈالی ۔ برائی کے خلاف ہر محاذ پر بیک وقت کام شروع کیا ۔ علمی لحاظ سے بھی آپ نے تجدیدی کارنامے انجام دیے اور عملی لحاظ سےبھی ۔ اصلاحی حوالے سے علمی میدان میں آپ کا کمال یہ تھا کہ آپ نے لوگوں کی توجہ دین شریعت کے اولین مآخذ قرآن وحدیث کی جانب مبذول کرائی ۔ ان کے زمانے میں علماء اور عوام میں فقہ اور تصوف کی جانب توجہ اس قدر بڑھ گئی تھی کہ قرآن وحدیث پر انہیں ترجیح دی جارہی تھی ۔ شریعت کے ثانوی مآخذ پر لوگوں کی توجہ زیادہ تھی آپ نے اس جمود کو توڑا اور قرآن وحدیث کے علوم کو اجاگر کیا ۔ اسی لیے سب سے پہلے آپ نے قرآن کریم کا ترجمہ بھی کیا ۔ اصول تفسیر پربھی نہایت قیمتی کام کیا ۔ اس کے علاوہ حدیث اور علم حدیث پر کام کیا اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔

    جیسا کہ ہم نے اوپر کہا علمی اصلاح کے ساتھ ساتھ عملی اصلاح کی جانب بھی آپ نے بھر پور توجہ دی ۔ آپ صرف ایک فلسفی اور دانشور نہیں تھے جو خیالات کے طویل تانتے باندھے ،انتہائی باریک نکات نکالے مگر عمل میں خود صفر نظر آئے ۔ آپ نے اپنی ذات کی اصلاح کے ساتھ عام لوگوں کی معاشرتی صورتحال سے لے کر ملک کے سیاسی منظر نامے تک سب پر نظر رکھی ۔ اور اس کے لیے ایک چومکھی جنگ کا آغاز کیا ۔ سیاسی صورتحال کو درست کرنے کے لیے آپ نے بادشاہ کو بیدار کرنا چاہا اور بادشاہ کو خطوط لکھے ۔ مگر افسوس بادشاہ نے اس جانب کوئی توجہ نہ دی ۔ مسلمانوں کو سیاسی زوال کی جانب بڑھتا دیکھ کر آپ نے خود ہی کوئی قدم اٹھانا اچھا سمجھا ۔اس وقت وطن عزیز افغانستان پر معروف مجاہد بادشاہ احمد شاہ ابدالی کی حکومت تھی ۔ آپ نے شاہ احمد شاہ ابدالی کو خط لکھ کر انہیں ہندوستان کے مسلمانوں کی مدد کے لیے پکارا ۔ احمد شاہ ابدالی نے انہیں کی دعوت پر ہندوستان پر حملہ کیا اور مرہٹوں کو شکست دے کر ان کی قوت ختم کردی جس کی وجہ سے آئندہ ہندؤوں کو سیاسی لحاظ سے سراٹھانے کی ہمت نہ ہوئی ۔ برصغیر کی تاریخ میں اسے پانی پت کی تیسری جنگ کہا جاتا ہے ۔ جس نے ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ۔

    علماء اور واعظین کی اصلاح کے لیے آپ نے اصلاحی کتب تصنیف کیں ۔ علماء کو قرآن وحدیث سے رشتہ منسلک کرکے فقہ کی روشنی میں اصلاح احوال کی کوشش کرنے کی تلقین کی ۔ من گھڑت قصے سناکر محض خوش الحانی و خوش بیانی سے لوگوں کی واہ واہ سمیٹنے سے منع فرمایا ۔ اس زمانے میں عوام میں جہالت بہت عام تھی ۔ بے عملی اور سستی نے انہیں دین سے دور کررکھا تھا ۔ ایک بڑی خرابی یہ تھی کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں ہندؤوں کے ساتھ اختلاط بہت زیادہ تھا ۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کی زندگیوں میں بھی ہندوانہ رسومات داخل ہوگئے تھے ۔ رفتہ رفتہ دین کی اصل شکل مٹتی جارہی تھی اورمسلمانوں کے دین میں ہندوانہ رسومات دین کا حصہ بن کر داخل ہونے لگے تھے ۔ اسلام اور ہندومت خلط ملط ہورہا تھا ۔ اوروقت کے عام علماء دینِ اسلام کو پہنچنے والے اس عظیم نقصان سے غافل تھے ۔ قریب تھا کہ ہندوستان میں اسلام کی اصل تعلیمات مٹ جائیں اور ہندوستان کے حدود میں "اسلام "ہندومت اور اسلام کے ملغوبے سے تیار شدہ فرسودہ روایات کا نام بن جائے ۔ اس زمانے میں تصلب فی الدین پیدا کرنے کے لیے قرآن ، حدیث اور فقہ سے صحیح اور خالص اسلامی تعلیمات کا استخراج کرکے لوگوں کے سامنے رکھنے کی ضرورت تھی ۔

    حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کے طبقہ اشرافیہ سے لے کر عام افراد تک تمام طبقات میں پھیلی ہوئی معاشرتی و اخلاقی خرابیوں کا جائزہ لیا اور اس کا علاج تجویز کیا ۔ امیروغریب ہر شخص کی قلبی وروحانی بیماریوں کے علاج کا بیڑہ اٹھایا ۔ امیروں اور دولت مندوں کے تکبر وغرور ، جاہ پسندی ، حب دنیا ، آخرت سے غفلت اور غریبوں کی حب دنیا ، لالچ ، چاپلوسی اور عدم توکل جیسی بیماریوں کی اصلاح پر کام کیا ۔ غرض ہر طبقہ کی خرابیوں کی نشاندہی کی اور ان کا تیر بہدف علاج تجویز کیا ۔

    ہندوستان میں اس دور میں ایک بڑا مسئلہ جاہل صوفیاء کی وجہ سے پھیلی ہوئی خرابیاں تھیں ۔ ان صوفیاء نے طریقت کو شریعت سے الگ کرکے اسے حلال وحرام اور نہی عن المنکرات کے قید سے آزاد کردیا تھا ۔ تصوف تمام خرابیوں کی آماجگاہ بن گیا تھا ۔ حضرت شاہ صاحب نے پیری مریدی کے تمام سلسلوں پر غور کیا اور تصوف کو جاہل صوفیاء کے دستبرد سے نکال کر اسے شریعت کے ہم مشرب کردیا ۔ عرفان ، تصوف اور عشق کے ساتھ عمل ، تقوی اور شریعت کا تلاز م بیان کیا ۔ اور تصوف کا اصل مقصد جو کہ فرد کی اندرونی اصلاح ہے اس پر زوردیا۔

    حضرت شاہ صاحب کی سیاسی خدمات:

    عوامی ، معاشرتی ، سماجی ، اخلاقی اور نجی زندگیوں میں پھیلی ہوئی خرابیوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے عالمی سطح پر بھی اسلامی تعلیمات روشناس کرانے اور انہیں قابل عمل صورت میں پیش کرنے کے لیے کام کیا ۔ آپ کی شخصیت پر کام کرنے والے مبصرین نے حضرت مجدد الف ثانی اور آپ رحمہ اللہ کا تقابل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:" حضرت شیخ سرہندی رحمہ اللہ کی اصلاحی تحریک کی زیادہ توجہ مسلمانوں کے اندر غیرمسلموں کے اختلاط سے پھیلی ہوئی خرابیوں پر تھی جبکہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہ مسلمانوں کے زوال کا زمانہ تھا اس لیے آپ کی توجہ اندرونی اصلاح کے ساتھ مسلمانوں کے سیاسی ومذہبی زوال کے اسباب اور ان کے علاج پر بھی تھی "۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے صرف ہندوستان کے نہیں پوری دنیا کے مسلمانوں کی ترقی کے لیے کام کیا ۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اقتصادی اور سیاسی نظام کو باقاعدہ دستوری شکل دی ۔ ان کے قائم کردہ دستور اور سیاسی واقتصادی اصول ایسے تھے جن کو اگر لے کر اٹھایا جاتا تو دنیا بھر کے سیاسی واقتصادی نظاموں میں انقلاب آجاتا ۔ کیوں کہ شاہ صاحب نے یہ اصول اور دستور 1789 میں آنے والے انقلاب فرانس سے نصف صدی پہلے مرتب کیے تھے ۔ کمیونزم جس کے معاشی نظام کا بعد کی دنیا میں افغانستان کی پاک سرزمین پر روسی شکست وریخت کے دور تک غلغلہ رہا شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے ایک صدی بعد دنیا میں آیا ۔ اور یورپ میں مشینی انقلاب ان کے چالیس سال بعد ظہور پذیر ہوا ۔ افسوس ہے ان کی معاصر اسلامی دنیا یا بعد کے مسلم ممالک نے کمیونزم یا سرمایہ داریت کو اپنانے کی بجائے ان کے اسلامی اقتصادی نظام کو اپنا نے سے گریز کیا ۔ جوآج اسلامی ممالک کے زوال کا باعث بن گیا ہے۔ اسلامی نظام ریاست وحکومت پر انہوں نے نہایت بیش بہاکتاب ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء لکھی ۔ یہ حقیقت ہے کہ برصغیر میں ان کے بعد مسلمانوں کی جتنی اصلاحی تحریکیں پیداہوئیں ان سب کے بانی اول حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔ 1857 میں جب برصغیر پر انگریزوں کی حکومت مستحکم ہونے لگی تو مسلمانوں کی اس ابتری کا علاج اس سے بہت پہلے آپ رحمہ اللہ نے اپنی حیات ہی میں بیان کردیا تھا ۔ حضرت شاہ صاحب کی اولاد کو ان کا بہترین علمی و عملی جانشین تصور کیا جاتا ہے ۔ اور برصغیر میں حضرت شاہ صاحب کے فکر وفلسفے کو جو مقبولیت حاصل ہوئی اس کا سارا سہرا ان کے بیٹوں کے سر جاتا ہے ۔ خصوصا شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ ان کے فکری و علمی جانشین تھے ۔ ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت کے قیام کے بعد حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فتوی دیا تھا کہ "ہندوستان اب دارالحرب بن چکا ہے "۔حضرت سید احمد شہید اور حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہما اللہ کی جہادی تحریک بھی حضرت شاہ صاحب کے ہمہ پہلو اصلاحی تحریک کا ایک تسلسل تھا ۔ شاہ صاحب نے جہاد کے حوالےسے حجۃ اللہ البالغہ میں باقاعدہ ایک باب قائم کیا ہے ۔ جہاد کو جیسا کہ عام طور پر تشدد اور انتقام کا جذبہ کہا جاتا ہے شاہ صاحب نے انقلاب اور اصلاح کا ایک ذریعہ کہا ہے ۔ جہاد کا مقصد خالص اسلام کو عروج دلانا اور کلمۃ اللہ کو اعلاء دینا ہے ۔ اسلامی احکامات کی حکمتیں بیان کرتے ہوئے انہوں نے جہاد کی حکمت یہ بیان کی " تاکہ فتنہ فساد باقی نہ رہے اور دین خالص اللہ کا ہوجائے "۔

    فک کل نظام ، شاہ ولی اللہ اور ہمارے دور کے مصلحین:

    اسلام کا سیاسی واقتصادی نظام مرتب کرنے کے بعد حضرت شاہ صاحب نے "فک کل نظام" کا فتوی دیا ۔جس کا مطلب تھا تمام فرسودہ نظاموں کا خاتمہ کرکے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک نیا منصفانہ نظام قائم کیا جائے ۔ شاہ صاحب ہی برصغیر کے وہ پہلے مسلم مفکر تھے جنہوں نے پہلی بار یورپی تہذیب کی خامیاں بیان کیں ۔ یورپی تہذیب پر تنقید کی اور اسے مسلمانوں کے لیے خطر ناک قراردیا ۔ تمام فرسودہ نظاموں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا فتوی یوں تو انہوں نے سیاسی نظام کے بارے میں دیا تھا مگر ان کی ہر اصلاحی کوشش میں ان کا یہی طرز عمل نظر آتا ہے ۔ تجدید واصلاح میں ان کا طرز عمل امام غزالی اور مجدد الف ثانی سے ملتا جلتا ہے ۔ علماء ، صوفیاء ، امراء اور عوام کی اصلاح میں آپ نے کبھی لیت ولعل یا مصلحت سے کام نہیں لیا ۔ زندگی کے ہر شعبے میں منکرات ورذائل سے پاک خالص شرعی احکامات لوگوں کے سامنے رکھے ۔ کسی ایک دینی خرابی کو رفع کرنے کے لیے انہوں نے کسی اور معاشی ، معاشرتی اور ثقافتی خرابی پر مصالحانہ رویہ اختیار نہیں کیا ۔ بلکہ دین کے جو احکامات جس طرح تھے اس پر عمل کرنے کو لازمی کہا ۔ دین اسلام جو بدعات میں دب کر مٹتا جارہا تھا اور اس کے اصل نقوش وآثار محو ہوتے جارہے تھے آپ نے نئے سرے سے اس کی واضح تصویر لوگوں کے سامنے رکھی ۔ "فک کل نظام "کی تلوار سے یہاں بھی ہر خرابی کا مکمل خاتمہ کیا ۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ فک کل نظام ایک فتوی سے زیادہ ان کی اصلاحی تحریک کا نظریہ تھا تو بے جا نہ ہوگا ۔

    حضر ت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اصلاحی اور تجدیدی تحریکوں کے سرخیل ہیں ۔ مگر ان کی اصلاحی تحریک کی خاصیت یہ ہے کہ انہوں نے اہل سنت والجماعۃ کے عقائد اور احکامات کی تشریح میں اپنا کوئی الگ موقف نہیں اپنایا ۔ بلکہ جو تشریحات اور عقائد امت مسلمہ کے دور تابعین اور تبع تابعین سے چلی آرہی ہیں آپ نے ان سے سرمو انحراف نہیں کیا۔ سلف صالحین کے طریق کو ہی سنبھالے رکھا ۔ ہمارے زمانے کی اصلاحی اور تجدیدی تحریکوں یا تنظیموں کاسانحہ یہ ہے کہ اِس دور میں جتنے بھی مصلحین پیدا ہوئے سب نے امت مسلمہ میں ایک فرقہ ایجاد کرڈالا ۔سواد اعظم سے ہٹ کر کچھ جزئیات اور تفردات نکالنے کے بعد امت مسلمہ سے الگ اپنی ڈیڑ ھ انچ کی الگ مسجد بنانا ضروری سمجھا ۔ کوئی مصلح سے مجتہد بن بیٹھا اور امت کے بڑے اکابرین پر چاند ماری شروع کردی ۔ ہر فرقہ بازی کو اصلاح امت کی تحریک سمجھا جاتا ہے اور ساری دنیا کے مسلمانوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ اصل اسلام کی تلاش ہے تو اس کی ڈیڑھ انچ کی مسجد میں آکر سما جائیں۔ صدیوں سے چلتے امت مسلمہ کے متفقہ طریق عمل اور احکامات کو بیک جنبش لب رد کردیا جاتا ہے ۔ بہت سے لوگوں نے حضرت شاہ کے افکار کو لے کر فقہی تقلید کی جڑ یں کھودنی شروع کردیں کہ ان کے ہاں حضرت شاہ صاحب کا اصل مقصد زندگی یہی تھا ۔ شاہ صاحب نے جاہل صوفیاء پر جس قدر رد وقدح کی ہمارے دور میں جاہل صوفیاء کا ایک طبقہ شاہ صاحب کی صوفیانہ اصلاحی خدمات کو لے کر انہیں اپنا مقتدا کہتا ہے ۔ تصوف مخالف تحریکیں بھی شاہ صاحب کو اپنا رہنما مانتی ہیں ۔ تضادات کے اس چکر میں کوئی غور نہیں کرتا کہ شاہ صاحب کا اصل مشن اصلاح تھا ۔ آج کے دور میں شاہ صاحب کی انقلابی اصلاحی وتجدیدی فکر کو فرقہ بندی کے دائروں میں کسنے کی بجائے ان کی تقلید کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ ہمارے دور کے نام نہاد" مصلحین "کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان کے ہاں جہاد کا یا تو سرے سے انکار کیا جاتا ہے اور یا اس کو بے جا شرائط کے ساتھ مشروط کرکے آج کے دورمیں ناممکن قراردیا جاتا ہے ۔ حالانکہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ ایک مفکر اور مصلح ہیں مگر آپ کا انداز وہی تمام فرسودہ نظاموں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ہے ۔ اور اس کےلیے آپ نے جہاد اور اس کے ذریعے قیام خلافت کو بھی ضرور سمجھا ہے ۔ یعنی آپ کے تفکرات جذبہ عمل سے عاری نہیں تھے ۔
    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

Working...
X