Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

خوارج تاریخ کے دریچوں سے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • خوارج تاریخ کے دریچوں سے

    خوارج

    تاریخ کے دریچوں سے


    صفین شہر رقہ کے قریب دریائے فرات کے ساحل پہ واقع ہے۔۔میں سوچتا ہوں کہ دریائے فرات بھی عجب واقعہ انگیز دریا ہے اس کے ساحل نے جتنے مرثیے اور رجز کہلوائے اور پڑھوائے اتنے مرثئے اور رجز دنیا کے کسی بھی دریا اور ساحل نے نہیں کہلوائے اور نہیں پڑھوائے۔۔

    جنگ صفین ھضرت علی ابن ابی طالب کے لشکر کی تعداد نوے ہزار تھی اور حضرت معاویہ ابی سفیان کے لشکر کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار۔۔۔ لیکن اہل تحقیق نے دونوں لشکروں کے بارے میں جو بات کہی وہ اس کے بر عکس ہے۔یہ جنگ یہ بدبخت ترین جنگ ایک سو دس دن تک جاری رہی۔اس جنگ میں دونوں طرف کے ستر ہزار مسلمانوں، یعنی انسانوں کی جانوں کی بھینٹ لی۔۔


    اپ جانتے ہیں اس جنگ کے اخری مرحلے پہ کیا صورت واقعہ پیش آئی اس پیچیدہ صورت واقعہ کے نتیجے میں ھضرت علی ابن ابی طالب کو ‘“ تحکیم’’ پہ رضا مند ہونا پڑا یعنی ایک شخص ھضرت علی ابن ابی طالب کے طرف سے ‘“ حکم ‘‘ مقرر کیا جائے اور ایک شخص ھضرت معاویہ ابن ابی سفیان کی طرف سے۔۔۔ اور دونوں باہمی اتفاق سے یہ فیصلہ دیں کہ ھضرت علی ابن ابی طالب مسلمانوں کی سربراہی کے اہل ہیں یا حضرت معاویہ ابن ابی سفیان۔ یہ ساعتیں تاریخ اسلام کی فیصلہ کن ترین ساعتیں تھیں۔۔اگر تاریخ اسلام پہ یہ وقت نہ پڑا ہوتا تو شاید امت مسلمہ کو مسلسل سیل خون سے نہ گزرنا پڑتا۔۔وہ مسلمانوں کی زندگی کا روز خوں طلب تھا جو انے والی خونیں صدیوں کا سر چشمہ بنا۔۔

    اس امر یعنی ’تحکیم ‘ پر حضرت علی ابن ابی طالب کے لشکریوں کا ایک سخت گیر اور سر شور گروہ بھڑک اٹھا اور اس نے چخ چیخ کر نعرہ لگایا ‘‘ لا حکم الہ اللہ‘ یعنی فیصلہ دینے کا اختار خدا کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔اور ھضرت علی ابن ابی طالب کے خلاف بغاوت کر دی اور خارجی ( لفظ خوارج کا واحد ) کہلایا۔۔


    خوراج نے حضرت علی ابن ابی طالب سے پہلے کسی بھی خلیفہ راشد کے فیصلے سے اختلاف نہیں کیا۔انہوں نے تحکیم کے فیصلے کے سوا اس دن تک حضرت علی ابن ابی طالب کے کسی فیصلے سے کوئی اختلاف نہیں کیا تھا۔۔سو ان کا ہ نعرہ کہ فیصلے کا حق خدا کے سوا کسی کو بھی ھاصل نہیں مھض جہل اور ہٹ دھرمی پر مبنی تھا۔

    خوارج کا انسانوں کی تاریخ کا عجیب وغریب گروہ قرار دینھا چاہیے ایسا مجموعہ اضداد اج تک پیدا نہیں ہوا بیک وقت بے حد ظالم اور بے حد عادل، بے حد ھق پسند اور بے حد باطل کوش۔ دین کے لیے جان دینے والے لیکن ساتھ ہی دوسرے مسلمانوں کی عورتوں بچوں اور بوڑھوں پر ذرا رحم نہیں کھاتے تھے اور ان کے ساتھ ہیبت ناکی سے پیش اے تھے اور اسے بالکل جائز سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے اپنے خیال میں اپنی جان اور اپنے مال کو جنت کےے عوض خدا کے ہاتھ بیچ دیا تھا۔

    خوارج وقت کے ساتھ کئ فرقوں میں بٹ گئے ان یں قابل ذکر چار ہیں ازراقہ نجدات اباضیہ اور صفریہ لیکن ایمان کے بارے میں ان کے تقریبا تمام فرقے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ دن کے احکام پر عمل کرنا ایمان کا جزو ہے یعنی ایمان کا تعلق صرف عقیدے سے نہیں بلکہ عیقدے اور عمل دونوں سے ہے۔ان کے مسلک کی رو سے سنیوں اور شعیوں کی اکثریت کافر قرار پائی اس لیے انہوں نے بنو امیہ اور بنو عباس کے عہد میں ہزاروں مسلمانوں کا موت کے گھاٹ اتار دیا وہ کئی صدیوں تک ھاجیوں کے قافلے لوٹتے رہے۔


    میں نے جو گفت گو کی وہ یوںً ہی نہیں کی اس کا اک خاص مقصد ہے۔۔میں جو کانٹے کی بات کہنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ پاکستان کا ہر فرقہ دوسرے فرقوں کو بڑی فراغت سے اور سوہلت سے بات بات پہ کافر قرار دیتا ہے۔۔لیکن خوارج جو مسلمانوں کی اکثریت کو صدیوں تک کافر قرار دیتے رہے ہیں اب ایک زمانے سے وہ بھی اپنی اس حرکت سے باز اچکے ہیں یہ تو خوارج کا معاملہ ہوا اب ذرا خود سنیوں اور شیعوں کے مسلم مسلک کو دکھئے۔ان کے عقیدے اور مسلک کی رو سے خوراج کبھی غیر مسلم نہیں قرار پائے حالاں کے خوارج ان کی اکثریت کو کافر ٹھہراتی رہی اور ان کی جان کو اتے رہے یہاں تک کے انہوں نے ان کے چوتھے خلیفہ اور شیعوں کے پہلے امام حضرت علی ابن ابی طالب کو شہید کر دیا۔

    کہیے کیا حکم ہے دیوانہ بنوں یا نہ بنوں ؟؟؟
    :(
Working...
X