قضائے عمری
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اپنی اولادوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہو جائیں او ردس برس کی عمر میںنماز نہ پڑھنے پر انہیں تنبیھہً مارو (درمنثور) لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ نہ والدین نے اولاد کو نماز پڑھنے کا حکم دیا نہ رغبت دلائی ، نہ خود مسجد گئے نہ اولاد کومسجد کا راستہ دکھایا ۔ عمر عزیز کاایک طویل عرصہ گمراہیوں میں گزار کر کبھی کسی فطرتِ سلیمہ رکھنے والے کو اس کا ضمیر کچوکے لگاتا ہے اور اسے بندگئ رب العالمین کی طرف راغب کرتا ہے پھر یہ شرمندۂ نظر و قلب اللہ کے گھر میں داخل ہوتا ہے او راپنی معصیت کا ذکر اپنے پیش امام صاحب سے کرتا ہے کہ میں نے اب اللہ کے فضل و کرم سے نماز پڑھنا شروع کر دیا ہے آپ استقامت کی دعا فرمائیے ۔ ادھر سے جواب ملتا ہے کہ قضائے عمری بھی پڑھتے ہو کہ نہیں ؟ یہ سوال کرتا ہے ، جی یہ قضائے عمری کیا چیز ہوتی ہے ؟ فرماتے ہیں گیارہ برس کی عمر سے لیکر اب تک کی عمر کا حساب لگاؤ کہ کتنے برس تم نے نماز نہیں پڑھی پھر اس کے بعد اتنے ہی برس تک ہر فرض نماز کے ساتھ ان سالوں کی فوت شدہ قضاء نماز ادا کیا کرو ۔ اگر قضائے عمری ادا نہیں کرو گے تو یہ نماز بھی جو کہ تم پڑھ رہے ہو کوئی فائدہ نہیں دے گی چنانچہ عوام کی اکثریت جو کہ بے خبر رموز شریعت ہے ان جاہل ملاؤں کی بات مان کر قضائے عمری نام کی نمازیں ادا کرتی ہے ۔
قضائے عمری کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث سے نہیں ملتا ہے نماز نہ پڑھنا بلا شک و شبہہ گناہ عظیم ہے لیکن یہ گناہ شرک کی مانند توبہ کر لینے سے معاف ہو جاتا ہے توبہ کا فلسفہ ہی یہ ہے کہ اس کے سبب پچھلے تمام گناہ حق تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے ۔ بنی اسرائیل کے اس مسلمان کے واقعے سے کون ناواقف ہو گا جس نے سو قتل کئے تھے پھر توبہ کرنے کے بعد کوئی نیکی کرنے سے قبل ہی اسے موت آگئی لیکن حق تعالیٰ نے چونکہ اس کی توبہ قبول فرما لی تھی لہٰذا صرف اسی بنیاد پر اسے اپنی جنت کا مستحق قرار فرمایا اور سنئے کہ معصیت رسول کتنا بڑا گناہ ہے غزوئہ تبوک میں پیچھے رہ جانے والے تین صحابیوں کا یہ گناہ بھی حق تعالیٰ نے ان کی توبہ اور استغفار کے سبب معاف فرما دیا جس کا ذکر سورئہ توبہ اور سورئہ نساء میں بیان کیا کیا ہے ۔ مشرکین مکہ کے شرک سے کون بے خبر ہے؟
انہوں نے اللہ کے گھر میں تین سو ساٹھ بت سجا رکھے تھے اور علی الاعلان ان بتوں کو پوجا کرتے تھے لیکن فتح مکہ کے موقع پر جب انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے حضور معافی مانگی تو آپ نے انہیں معاف فرما دیا پھر ان کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا لیکن ان میں سے کسی ایک کو اللہ کے رسول نے قضائے توحید بشکل قضائے عمری کا حکم نہیں دیا اس لئے کہ توبہ کر لینے سے ان کے گناہوں کو حق تعالیٰ نے معاف فرما دیا تھا میرا خیال ہے کہ قضائے عمری پڑھنے والوں کی توبہ اللہ کے ہاں یقینا مقبول نہیں ہوتی ہے جبھی توانہیں توبہ کے ساتھ ساتھ قضائے عمری بھی پڑھنی پڑتی ہے میں کہتا ہوں کہ قضائے عمری پڑھنے والوں نے اللہ ارحم الراحمین سے نا امیدی اختیار کر رکھی ہے اور شریعت اسلامی میں قضائے عمری کی صورت میں ایک ایسا قبیح عمل ایجاد کیا ہے جس نے توبہ اور استغفار کے مفہوم کو یکسر غلط انداز میں عوام الناس کے سامنے پیش کیا ہے ۔
قضائے عمری کو عبادت سمجھنا یکسر غلط ہے اس لئے کہ عبادت صرف وہی ہے جو اللہ کے رسول سے عملاً، قولاً اور تقریراً ثابت ہو جائے جبکہ قضائے عمر ی کا ان تینوں صورتوںمیں کسی ایک صورت سے بھی ثبوت نہیں ملتا ہے ۔