تین دن سے زیاد بول چال چھوڑنا حلال نہیں
عَنْ أَبِى أَيُّوبَ الأَنْصَارِىِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « لاَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ يَلْتَقِيَانِ فَيُعْرِضُ هَذَا وَيُعْرِضُ هَذَا وَخَيْرُهُمَا الَّذِى يَبْدَأُ بِالسَّلاَمِ » [متفق علیه]
’’ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین راتوں سے زیادہ چھوڑے رکھے وہ دونوں ملیں تو یہ اس طرف منہ پھیر لے اور وہ (اس طرف) منہ پھیر لے اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔‘‘
تشریح:
1۔ تین راتوں سے زیادہ حلال نہ ہونے سے صاف ظاہر ہے کہ تین راتوں سے زیادہ آپس میں بول چال چھوڑ دینا حرام ہے، کیونکہ بات چیت چھوڑ دی تو سارے حقوق ہی ضائع کر دیے جو ایک
دوسرے پر واجب تھے، مثلا سلام، قبول دعوت، عیادت، چھینک کا جواب وغیرہ۔
2۔تین رات تک باہمی گتفگو چھوڑنا جائز ہے کیونکہ ناراضگی اور غصہ انسانی فطرت ہے ، اسے مد نظر رکھتے ہوئے اتنی رعایت کر دی گئی ہے تاکہ پہلے دن غصے میں ٹھہراؤ آ جائے، دوسرے دن انسان کچھ سوچے، تیسرے دن واپس لوٹ آئے عموما تین دنوں میں غصہ ختم یا کم ہو جاتا ہےم۔ اس سے زیادہ قطع تعلق کرے گا تو قطع حقوق لازم آئے گا۔
3۔ قطع تعلق جو حرام ہے، سلام کہنے سے ختم ہو جاتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
« لاَ يَكُونُ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ مُسْلِمًا فَوْقَ ثَلاَثَةٍ فَإِذَا لَقِيَهُ سَلَّمَ عَلَيْهِ ثَلاَثَ مِرَارٍ كُلُّ ذَلِكَ لاَ يَرُدُّ عَلَيْهِ فَقَدْ بَاءَ بِإِثْمِهِ » [سنن أبى داؤد:4105]
’’کسی مسلمان کےلئے جائز نہیں کہ کسی مسلمان کو تین دن سے زیادہ چھوڑ دے پس جب وہ اسے ملے تو اسے تین دفعہ سلام کہے، اگر (دوسرا آدمی) ہر دفعہ اسے جواب نہیں دیتا تو وہ اس کے گناہ کے ساتھ لوٹے گا۔‘‘
امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر دوسرے بھائی کو اس کے بات نہ کرنے سے تکلیف ہوتی ہو تو صرف سلام سے قطع تعلق ختم نہیں ہو گا بلکہ پہلے جیسے تعلقات بحال کرنے سے ختم ہو گا، مگر اوپر والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام وہ صورت ہے جس میں دونوں ملتے ہیں مگر منہ پھیر لیتے ہیں اور سلام تک نہیں کہتے، البتہ اس میں شک نہیں کہ اخوت دینی جس تعلق کا تقاضا کرتی ہے وہ پہلے تعلقات مکمل بحال کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
4۔ اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے کسی کے ساتھ بول چال بند کر دینا جائز ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک اور ان کے ساتھیوں کے جنگ تبوک میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے مسلمانوں کو ان کے ساتھ بات چیت کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قطع کلام مخلص ساتھیوں کے لئے ہے جن پر بات چیت چھوڑنے سے اثر پڑتا ہو اور و حق کی طرف پلٹ آنے والے ہوں ورنہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے کفار اور منافقین سے بات چیت ترک نہیں فرمائی۔ کفار اور منافقین کے ساتھ قطع تعلق دل سے ہوتا ہے زبان سے نہیں، البتہ مخلص مسلمانوں سے ظاہری عتاب ترک کلام سے ہوتا ہے، دل سے قطع تعلق نہیں ہوتا۔