صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 181 حدیث مرفوع مکررات 8 متفق علیہ 6
ابوبکر بن ابی شیبہ، ہاشم بن قاسم، اسحاق بن ابراہیم، ابوعامر عقدی، عکرمہ بن عمار، عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، ابوعلی حنفی، عبید اللہ بن عبدالمجید، عکرمہ، ابن عمار، ایاس بن سلمہ، حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر آئے اور ہم چودہ سو کی تعداد میں تھے اور ہمارے پاس پچاس بکریاں تھیں وہ سیراب نہیں ہو رہی تھیں راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنوئیں کے کنارے بیٹھ گئے یا تو آپ نے دعا فرمائی اور یا اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن ڈالا راوی کہتے ہیں کہ پھر اس کنوئیں میں جوش آ گیا پھر ہم نے اپنے جانوروں کو بھی سیراب کیا اور خود ہم بھی سیراب ہو گئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں درخت کی جڑ میں بیٹھ کر بیعت کے لئے بلایا راوی کہتے ہیں کہ لوگوں میں سے سب سے پہلے میں نے بیعت کی پھر اور لوگوں نے بیعت کی یہاں تک کہ جب آدھے لوگوں نے بیعت کرلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوسلمہ بیعت کرو میں نے عرض کیا اللہ کے رسول میں تو سب سے پہلے بیعت کر چکا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر دوبارہ کرلو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا کہ میرے پاس کوئی اسلحہ وغیرہ نہیں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ڈھال عطا فرمائی پھر بیعت کا سلسلہ شروع ہو گیا جب سب لوگوں نے بیعت کرلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے سلمہ کیا تو نے بیعت نہیں کی میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول لوگوں میں سب سے پہلے تو میں نے بیعت کی اور لوگوں کے درمیان میں بھی میں نے بیعت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کرلو حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے تیسری مرتبہ بیعت کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا اے سلمہ رضی اللہ عنہ وہ ڈھال کہاں ہے جو میں نے تجھے دی تھی میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے چچا عامر کے پاس کوئی اسلحہ وغیرہ نہیں تھا وہ ڈھال میں نے ان کو دے دی حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا پڑے اور فرمایا کہ تو بھی اس آدمی کی طرح ہے کہ جس نے سب سے پہلے دعا کی تھی اے اللہ مجھے وہ دوست عطا فرما جو مجھے میری جان سے زیادہ پیارا ہو پھر مشرکوں نے ہمیں صلح کا پیغام بھیجا یہاں تک کہ ہر ایک جانب کا آدمی دوسری جانب جانے لگا اور ہم نے صلح کرلی حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت طلحہ بن عبید اللہ کی خدمت میں تھا اور میں ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا تھا اور اسے چرایا کرتا اور ان کی خدمت کرتا اور کھانا بھی ان کے ساتھ ہی کھاتا کیونکہ میں اپنے گھر والوں اور اپنے مال و اسباب کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر آیا تھا پھر جب ہماری اور مکہ والوں کی صلح ہوگئی اور ایک دوسرے سے میل جول ہونے لگا تو میں ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے نیچے سے کانٹے وغیرہ صاف کر کے اس کی جڑ میں لیٹ گیا اور اسی دوران مکہ کے مشرکوں میں سے چار آدمی آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہنے لگے مجھے ان مشرکوں پر بڑا غصہ آیا پھر میں دوسرے درخت کی طرف آ گیا اور انہوں نے اپنا اسلحہ لٹکایا اور لیٹ گئے وہ لوگ اس حال میں تھے کہ اسی دوران وادی کے نشیب میں سے ایک پکارنے والے نے پکارا اے مہاجرین ابن زقیم شہید کر دئے گئے میں نے یہ سنتے ہی اپنی تلوار سیدھی کی اور پھر میں نے ان چاروں پر اس حال میں حملہ کیا کہ وہ سو رہے تھے اور ان کا اسلحہ میں نے پکڑ لیا اور ان کا ایک گٹھا بنا کر اپنے ہاتھ میں رکھا پھر میں نے کہا قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس کو عزت عطا فرمائی تم میں سے کوئی اپنا سر نہ اٹھائے ورنہ میں تمہارے اس حصہ میں ماروں گا کہ جس میں دونوں آنکھیں ہیں راوی کہتے ہیں کہ پھر میں ان کو کھینچتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور میرے چچا حضرت عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی قبیلہ عبلات کے آدمی کو جسے مکرز کہا جاتا ہے اس کے ساتھ مشرکوں کے ستر آدمیوں کو گھسیٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے حضرت عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جھول پوش گھوڑے پر سوار تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور پھر فرمایا ان کو چھوڑ دو کیونکہ جھگڑے کی ابتداء بھی انہی کی طرف سے ہوئی اور تکرار بھی انہی کی طرف سے، الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو معاف فرما دیا اور اللہ تعالی نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی اور وہ اللہ کہ جس نے ان کے ہاتھوں کو تم سے روکا اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روکا مکہ کی وادی میں بعد مدینہ منورہ کی طرف نکلے راستہ میں ہم ایک جگہ اترے جس جگہ ہمارے اور بنی لحیان کے مشرکون کے درمیان ایک پہاڑ حائل تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے لئے مغفرت کی دعا فرمائی جو آدمی اس پہاڑ پر چڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے لئے پہرہ دے حضرت سلمہ فرماتے ہیں کہ میں اس پہاڑ پر دو یا تین مرتبہ چڑھا پھر ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ رباح کے ساتھ بھیج دیئے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام تھا میں بھی ان اونٹوں کے ساتھ حضرت ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلا جب صبح ہوئی تو عبدالرحمن فرار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کو لوٹ لیا اور ان سب اونٹوں کو ہانک کر لے گیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے رباح یہ گھوڑا پکڑ اور اسے حضرت طلحہ بن عبید اللہ کو پہنچا دے اور رسول اللہ کو خبر دے کہ مشرکوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کو لوٹ لیا ہے حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ پھر میں ایک ٹیلے پھر کھڑا ہوا اور میں نے اپنا رخ مدینہ منورہ کی طرف کر کے بہت بلند آواز سے پکارا یا صباحاہ پھر میں ان لٹیروں کے پیچھے ان کو تیر مارتا ہوا اور رجز پڑھتے ہوئے نکلا میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کا دن ان ذلیلوں کی بربادی کا دن ہے۔ میں ان میں سے ایک ایک آدمی سے ملتا اور اسے تیر مارتا یہاں تک کہ تیر ان کے کندھے سے نکل جاتا اور میں کہتا کہ یہ وار پکڑ، میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کا دن ان ذلیلوں کی بربادی کا دن ہے۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں ان کو لگاتار تیر مارتا رہا اور ان کو زخمی کرتا رہا تو جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف لوٹتا تو میں درخت کے نیچے آ کر اس درخت کی جڑ میں بیٹھ جاتا پھر میں اس کو ایک تیر مارتا جس کی وجہ سے وہ زخمی ہو جاتا یہاں تک کہ وہ لوگ پہاڑ کے تنگ راستہ میں گھسے اور میں پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں سے میں نے ان کو پتھر مارنے شروع کر دئے۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں لگاتار ان کا پیچھا کرتا رہا یہاں تک کہ کوئی اونٹ جو اللہ نے پیدا کیا ہو اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کا ہو ایسا نہیں ہوا کہ اسے میں نے اپنی پشت کے پیچھے نہ چھوڑ دیا ہو حضرت سلمہ کہتے ہیں پھر میں نے ان کے پیچھے تیر پھینکے یہاں تک کہ ان لوگوں نے ہلکا ہونے کی خاطر تیس چادریں اور تیس نیزوں سے زیادہ پھینک دیئے سوائے اس کے کہ وہ لوگ جو چیز بھی پھینکتے میں پتھروں سے میل کی طرح اس پر نشان ڈال دیتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پہچان لیں یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی پر آگئے اور فلاں بدر فرازی بھی ان کے پاس آگیا سب لوگ دوپہر کا کھانا کھانے کے لئے بیٹھ گئے اور میں پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر بیٹھ گیا فرازی کہنے لگا کہ یہ کون سا آدمی ہمیں دیکھ رہا ہے لوگوں نے کہا اس آدمی نے ہمیں بڑا تنگ کر رکھا ہے اللہ کی قسم اندھیری رات سے ہمارے ساتھ ہے اور لگاتار ہمیں تیر مار رہا ہے یہاں تک کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی تھا اس نے سب کچھ چھین لیا ہے فرازی کہنے لگا کہ تم میں سے چار آدمی اس کی طرف کھڑے ہوں اور اسے مار دیں حضرت سلمہ کہتے ہیں ان میں سے چار آدمی میری طرف پہاڑ پر چڑھے تو جب وہ اتنی دور تک پہنچ گئے جہاں میری بات سن سکیں حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کیا تم مجھے پہچانتے ہو انہوں نے کہا نہیں، اور تم کون ہو میں نے جواب میں کہا میں سلمہ بن اکوع ہوں اور قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس کو بزرگی عطا فرمائی ہے میں تم میں سے جسے چاہوں مار دوں اور تم میں سے کوئی مجھے نہیں مار سکتا۔ ان میں سے ایک آدمی کہنے لگا کہ ہاں لگتا تو ایسے ہی ہے پھر وہ سب وہاں سے لوٹ پڑے اور میں ابھی تک اپنی جگہ سے چلا ہی نہیں تھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواروں کو دیکھ لیا جو کہ درختوں میں گھس گئے حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ ان میں سب سے آگے حضرت اخرم اسدی تھے اور ان کے پیچھے حضرت ابوقتادہ تھے اور ان کے پیچھے حضرت مقداد بن اسور کندی تھے حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے جا کر اخرم کے گھوڑے کی لگام پکڑی وہ لٹیرے بھاگ پڑے میں نے کہا اے اخرم ان سے ذرا بچ کے رہنا ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں مار ڈالیں جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نہ آ جائیں۔ اخرم کہنے لگے اے ابوسلمہ اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور اس بات کا یقین رکھتے ہو کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے تو تم میرے اور میری شہادت کے درمیان رکاوٹ نہ ڈالو۔ حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتے ہیں کہ میں نے ان کو چھوڑ دیا اور پھر اخرم کا مقابلہ عبدالرحمن فرازی سے ہوا۔ اخرم نے عبدالرحمن کے گھوڑے کو زخمی کر دیا اور پھر عبدالرحمن نے اخرم کو برچھی مار کر شہید کر دیا اور اخرم کے گھوڑے پر چڑھ کر بیٹھ گیا اسی دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہسوار حضرت ابوقتادہ آ گئے تو حضرت ابوقتادہ نے عبدالرحمن فرازی کو بھی برچھی مار کر قتل کر دیا۔ قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس کو بزرگی عطا فرمائی ہے میں ان کے تعاقب میں لگا رہا اور میں اپنے پاؤں سے ایسے بھاگ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی صحابی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا اور نہ ہی ان کا گرد و غبار یہاں تک کہ وہ لیٹرے سورج غروب ہونے سے پہلے ایک گھاٹی کی طرف آئے جس میں پانی تھا جس گھاٹی کو ذی قرد کہا جاتا تھا تاکہ وہ لوگ اسی گھاٹی سے پانی پئیں کیونکہ وہ پیاسے تھے حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے دیکھا اور میں ان کے پیچھے دوڑتا ہوا چلا آ رہا تھا بلآخر میں نے ان کو پانی سے ہٹایا وہ اس سے ایک قطرہ بھی نہ پی سکے۔ حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتے ہیں کہ اب وہ کسی اور گھاٹٰ کی طرف نکلے میں بھی ان کے پیچھے بھاگا اور ان میں سے ایک آدمی کو پا کر میں نے اس کے شانے کی ہڈی میں ایک تیر مارا، میں نے کہا پکڑ اس کو اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کا دن کمینوں کی بربادی کا دن ہے۔ وہ کہنے لگا اس کی ماں اس پر روئے کیا یہ وہی اکوع تو نہیں جو صبح کو میرے ساتھ تھا میں نے کہا ہاں اے اپنی جان کے دشمن جو صبح کے وقت تیرے ساتھ تھا۔ حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں کہ انہوں نے دو گھوڑے ایک گھاٹی پر چھوڑ دیئے تو میں ان دونوں گھوڑوں کو ہنکا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے آیا حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتے ہیں کہ وہاں عامر سے میری ملاقات ہوئی ان کے پاس ایک چھاگل تھا جس میں دودھ تھا اور ایک مشیکزے میں پانی تھا۔ پانی سے میں نے وضو کیا اور دودھ پی لیا پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی پانی والی جگہ پر تھے جہاں سے میں نے لیٹروں کو بھگا دیا تھا اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اور تمام چیزیں جو میں نے مشرکوں سے چھین لی تھیں اور سب نیزے اور چادریں لے لیں اور حضرت بلال نے ان اونٹوں میں جو میں نے لٹیروں سے چھینے تھے ایک اونٹ کو ذبح کیا اور اس کی کلیجی اور کوہان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھونا۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے اجازت مرحمت فرمائی تاکہ میں لشکر میں سے سو آدمیوں کا انتخاب کروں اور پھر میں ان لیٹروں کا مقابلہ کروں اور جب تک میں ان کو قتل نہ کر ڈالوں اس وقت تک نہ چھوڑوں کہ وہ جا کر اپنی قوم کو خبر دیں حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آگ کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں مبارک ظاہر ہو گئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے سلمہ اب تو وہ غطفان کے علاقہ میں ہوں گے اسی دوران علاقہ غطفان سے ایک آدمی آیا اور وہ کہنے لگا کہ فلاں آدمی نے ان کے لئے ایک اونٹ ذبح کیا تھا اور ابھی اس اونٹ کی کھال ہی اتار پائے تھے کہ انہوں نے کچھ غبار دیکھا تو وہ کہنے لگے کہ لوگ آ گئے وہ لوگ وہاں سے بھی بھاگ کھڑیہوئے تو جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج کے دن ہمارے بہترین سواروں میں سے بہتر سوار حضرت قتادہ ہیں، اور پیادوں میں سب سے بہتر حضرت سلمہ ہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو حصے عطا فرمائے اور ایک سوار کا حصہ اور ایک پیادہ کا حصہ اور دونوں حصے اکٹھے مجھے ہی عطا فرمائے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غضباء اونٹنی پر مجھے اپنے پیچھے بٹھایا اور ہم سب مدینہ منورہ واپس آگئے دوران سفر انصار کا ایک آدمی جس سے دوڑنے میں کوئی آگے نہیں بڑھ سکتا تھا وہ کہنے لگا کیا کوئی مدینہ تک میرے ساتھ دوڑ لگانے والا ہے اور وہ بار بار یہی کہتا رہا۔ حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتے ہیں جب میں نے اس کا چیلنچ سنا تو میں نے کہا کیا تجھے کسی بزرگ کی بزرگی کا لحاظ نہیں اور کیا تو کسی بزرگ سے ڈرتا نہیں اس انصاری شخص نے کہا نہیں، سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان مجھے اجازت عطا فرمائیں تاکہ میں اس آدمی سے دوڑ لگاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو چاہتا ہے تو حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتے ہیں کہ میں نے اس انصاری سے کہا کہ میں تیری طرف آتا ہوں اور میں نے اپنا پاؤں ٹیڑھا کیا پھر میں کود پڑا اور دوڑنے لگا اور پھر جب ایک یا دو چڑھائی باقی رہ گئی تو میں نے سانس لیا پھر میں اس کے پیچھے دوڑا پھر جب ایک یا دو چڑھائی باقی رہ گئی تو پھر میں نے سانس لیا پھر میں دوڑا یہاں تک کہ میں نے اس کے دونوں شانوں کے درمیان میں ایک گھونسا مارا اور میں نے کہا اللہ کی قسم میں آگے بڑھ گیا اور پھر اس سے پہلے مدینہ منورہ پہنچ گیا حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ابھی ہم مدینہ منورہ میں صرف تین راتیں ہی ٹھہرے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکل پڑے حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میرے چچا حضرت عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رجزیہ اشعار پڑھنے شروع کر دیے۔ اللہ کی قسم اگر اللہ کی مدد نہ ہوتی تو ہمیں ہدایت نہ ملتی اور نہ ہم صدقہ کرتے اور نہ ہی ہم نماز پڑھتے اور ہم تیرے فضل سے مستغنی نہیں ہیں، اور تو ہمیں ثابت قدم رکھ جب ہم دشمن سے ملیں اور اے اللہ ہم پر سکینت نازل فرما۔ جب یہ رجزیہ اشعار سنے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کون ہے انہوں نے عرض کیا میں عامر ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا رب تیری مغفرت فرمائے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی انسان کے لئے خاص طور پر مغفرت کی دعا فرماتے تو وہ ضرور شہادت کا درجہ حاصل کرتا۔ حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب جب اپنے اونٹ پر تھے کہ بلند آواز سے پکارا اے اللہ کے نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عامر سے کیوں نہ فائدہ حاصل کرنے دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ہم خیبر آئے تو ان کا بادشاہ مرحب اپنی تلوار لہراتا ہوا نکلا اور کہتا ہے، خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اسلحہ سے مسلح، بہادر تجربہ کار ہوں جس وقت جنگ کی آگ بھڑکنے لگتی ہے۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ یہ میرے چچا عامر اس کے مقابلے کے لیے نکلے اور انہوں نے بھی یہ رجزیہ اشعار پڑھے خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں اسلحہ سے مسلح اور بے خوف جنگ میں گھسنے والا ہوں۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ عامر اور مرحب دونوں کی ضربیں مختلف طور پر پڑنے لگیں مرحب کی تلوار عامر کی ڈھال پر لگی اور عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نیچے سے مرحب کو تلوار ماری تو حضرت عامر کی اپنی تلوار خود اپنے ہی لگ گئی جس سے ان کہ شہ رگ کٹ گئی اور اسی نتیجہ میں وہ شہید ہوگئے۔ حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتے ہیں کہ میں نکلا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ کو دیکھا وہ کہنے لگے حضرت عامر کا عمل ضائع ہوگیا انہوں نے اپنے آپ کو خود مار ڈالا ہے۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روتا ہوا آیا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول عامر کا عمل ضائع ہوگیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کس نے کہا ہے۔ میں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے بھی کہا ہے جھوٹ کہا ہے بلکہ عامر کے لئے دگنا اجر ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف بھیجا ان کی آنکھ دکھ رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا کہ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہو یا اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ہوں حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتے ہیں کہ میں نے علی کو پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر آیا کیونکہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا تو ان کی آنکھیں اسی وقت ٹھیک ہوگئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا اور مرحب یہ کہتا ہوا نکلا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اسلحہ سے مسلح، بہادر تجربہ کار ہوں جب جنگ کی آگ بھڑکنے لگتی ہے۔ تو پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی جواب میں کہا کہ میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے اس شیر کی طرح جو جنگلوں میں ڈراؤنی صورت ہوتا ہے۔ میں لوگوں کو ایک صاع کے بدلہ اس سے بڑا پیمانہ دیتا ہوں۔ حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتے ہیں کہ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرحب کے سر پر ایک ضرب لگائی تو وہ قتل ہوگیا پھر خبیر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں پر فتح ہوگیا۔ ایک دوسری سند کے ساتھ حضرت عکرمہ بن عمار نے یہ حدیث اس حدیث سے بھی زیادہ لمبی نقل کی ہے دوسری سند کے ساتھ عکرمہ بن عمار سے اسی طرح روایت منقول ہے۔