خطبہ فتح مکہ
فتح مکہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک طویل خطبہ دیا، یمن کے ایک صاحب ابو شاہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے لئے یہ لکھ دیجئے۔ آپ نے حکم دیا
’اکتبوا لأبی شاه‘
ابوشاہ کے لئے اسے لکھ دو۔
بخاري، الصحيح، 6 : 2522، رقم : 6486
٭ حضر ت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنر ابو بکر بن حزم کو یہ فرمان لکھ کر بھیجا۔
’أنظر ما کان من حديث رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فاکتبه فانی خفت دروس العلم و ذهاب العلماء ولا يقبل إلا حديث النبی صلی الله عليه وآله وسلم ولتفشو العلم ولتجلسوا حتی يعلم من لا يعلم فان العلم لا يهلک حتی يکون سرا‘
بخاری، الصحيح، 1 : 49، رقم : 34
دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام حدیثیں لکھ لو! مجھے علم کے مٹنے اور علماء کے (دنیا سے) چلے جانے کا ڈر ہے اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث قبول کی جائے، علم کو خوب پھیلائیں اور اہل علم بیٹھیں تا کہ بے علموں کو تعلیم دیں، علم صرف اس وقت تباہ ہوتا ہے جب راز بن جائے‘‘۔
حدیثیں لکھی جاتی تھیں
٭ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے سوا مجھ سے زیادہ کسی کے پاس حدیثیں نہیں۔
’فإنه کان يکتب ولااکتب‘
وہ لکھا کیا کر تے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔
بخاری، الصحيح، 1 : 54، رقم : 113
٭ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو سنتا یاد رکھنے کی نیت سے لکھ لیتا۔ بعض لوگوں نے یہ کہہ کر مجھے منع کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہوئی ہر بات لکھ لیتے ہو حالانکہ آپ انسان ہیں غصہ اور رضا کی حالت میں بات کرتے ہیں، میں لکھنے سے رک گیا پھر میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کر دی، آپ نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طر ف اشارہ کر کے فرمایا۔’أکتب‘ ’لکھا کر‘ ’فوالذی نفسی بيده ما يخرج منه إلا حق‘ ’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس منہ سے صرف حق نکل سکتا ہے‘‘۔
ابوداؤد، السنن، 3 : 318، رقم : 3646
کتابت حدیث
٭رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
قيد و العلم بالکتاب.
’’علم کو لکھ کر قابو کر لو‘‘۔
حاکم، المستدرک، 1 : 188، رقم : 360
٭ حضر ت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے دو عادتیں زندہ رہنے کا حوصلہ اور شوق دیتی ہیں
- [*=center]الصادقۃ
[*=center]الوھط
الصادقۃ وہ بیاضی (رجسڑ) صحیفہ ہے جس میں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثیں لکھی ہیں۔
الوھط وہ زمین جسے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے رفاہ عامہ کے لئے و قف کیا تھا، حضرت عبداللہ بن عمرو العاص رضی اللہ عنہ اس کے منتظم تھے۔
ابن عبدالبر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 86
٭ ر بیع بن سعد کہتے ہیں میں نے جابر رضی اللہ عنہ کو ابن سابط کے پاس تختیو ں پر حدیث پاک لکھتے دیکھا۔
ابن عبدالبر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 86
٭ ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’علم کو قید تحریر میں لاؤ۔‘‘
ابن عبدالبر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 86
٭ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے ایک کتا ب دکھا کر حلفاً کہا کہ یہ (احادیث) میرے والد نے اپنے ہا تھ سے لکھی تھی۔
ابن عبدالبر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 86
٭ بشیر بن نھیک (شاگرد رشید ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے جو سنتا لکھ لیتا جب میں ان سے رخصت ہونے لگا تو اپنی کتاب ان کو پیش کی اور عرض کی یہ ہے مجموعہ آپ سے سنی ہوئی احادیث کا، انہوں نے فرمایا ٹھیک ہے۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 87
٭ ابو قلابہ کہتے ہیں مجھے لکھ لینا زیادہ پسند ہے کہ بھول نہ جاؤں۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 87
٭ عبد اللہ بن خنیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے لوگوں کو براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کانوں کے قلم پکڑے حدیثیں لکھتے دیکھا۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 87
٭ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیثیں لکھنے کی اجا زت دی۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 87
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے بیٹو ں سے فرمایا کرتے علم کو لکھ کر قابو کرو۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 87
٭ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کی یارسول اللہ ’’علم کو قید کرنا کیا ہے؟ فرمایا لکھنا‘‘۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 88
٭ پہلا شخص جس نے علم حدیث کو مدون کیا اور لکھا ابن شہاب زہری میں۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 88
٭ابو الزناد کہتے ہیں ہم حلال و حرام سے متعلق حدیثیں لکھا کر تے تھے اور ابن شہا ب زہری جو حدیث سنتے لکھ لیتے، جب ان کی احتیاج ہوئی تو مجھے پتہ چلا کہ وہی سب سے بڑے عا لم تھے۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 88
٭ معاویہ بن قرہ کہتے ہیں جو علم حدیث نہ لکھے اسے عالم نہ سمجھو۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 88
٭ حسن بن عمرو کہتے ہیں میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک حدیث بیان کی، انہوں نے اس کا انکار کیا۔ میں نے کہا جناب میں نے یہ حدیث آ پ سے سنی ہے، فرمایا اگر مجھ سے سنی ہے تو میرے پاس لکھی ہوگی۔ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور ہمیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کی بہت سی تحریریں دکھائیں ان میں وہ حدیث مل گئی۔ فرمانے لگے میں نے تجھے کہا تھا کہ اگر میں نے تجھے یہ حدیث سنائی ہے تو میرے پاس لکھی ہو گی۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 89
٭ عر وہ بن زبیر (سیدہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا کے بھا نجے) کی کتابیں واقعہ حرہ میں جل گئیں، کہا کر تے تھے کاش میرا اہل و مال جل جاتا کتب حدیث نہ جلتیں۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 90
٭ سفیان ثوری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں تین قسم کی حدیثیں لکھنا چاہتا ہوں۔
- [*=center]حدیث لکھتا ہوں اور اسے دین بناتا ہوں
[*=center]ایسے شخص سے حدیث لکھتا ہوں جس میں توقف کرتا ہوں، نہ رد کرتا ہوں، نہ دین بناتا ہوں۔
[*=center]کمزور راوی کی حدیث پہچاننا چاہتا ہوں مگر اسے اہمیت نہیں دیتا۔ ان روایات کا علم بھی حاصل کرتا جنہیں قبول کرتا ہوں جن سے ان کا علم حاصل کرتا ہوں جو ناقابل قبول ہیں تا کہ صحیح و غلط میں پرکھ ہو۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 91
٭ امام ابن شہاب زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے ہمیں تمام احادیث و سنن جمع کر نے کا حکم دیا، ہم نے دفتر دفتر مجموعے تیار کئے، انہوں نے اپنی تمام سلطنت میں ایک ایک نسخہ بھیج دیا۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 92
٭ صالح بن کسیان کہتے ہیں میں اور ابن شہاب زہری حصول علم میں مصروف تھے۔ ہمارا سنن و احادیث لکھنے پر اتفاق ہو گیا، پس ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام احادیث لکھ لیں پھر امام زہری نے کہا ہمارے ساتھ صحابہ کرام کی بھی تمام احادیث و آثار لکھیں، میں نے کہا نہیں، وہ سنت میں شامل نہیں، امام زہری نے کہا وہ سنت میں شامل ہیں چنانچہ انہوں نے لکھ لیں اور میں نے نہ لکھیں وہ کامیاب رہے میں نے عمر ضائع کی۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 92
٭ امام زہری کہتے ہیں، بادشاہوں نے مجھ سے حدیث رسول لکھنے کا مطالبہ کیا تو میں نے انہیں کتابیں لکھ دیں پھر مجھے اللہ تعالی ٰ سے شرم آتی کہ بادشاہوں کے لئے لکھوں اور دوسروں کے لئے نہ لکھو ں؟
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 92
٭ خلیفہ عبدالملک کے بیٹے شھاب نے امام زہری سے حدیث لکھنے کے لئے دو کاتب مقرر کئے جنہوں نے ان کے ہاں قیام کیا اور سال بھر احادیث لکھتے رہے۔ المبرد نے خلیل بن احمد (امام النحو) کا یہ قول نقل کیا ہے میں نے جو سنا لکھ لیا اور جو لکھا اسے یاد کر لیا اور جو یاد کر لیا اس نے مجھے فائدہ پہنچایا۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 93
حدیث لکھنے سے منع کیو ں فرمایا؟
یاد رکھو! کسی صحابی یا بعد کے امام و بزرگ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث و سنت کی اہمیت و حجیت اور اصل شریعت ہونے کا کبھی انکار کیا نہ شک۔ جیسے اطيعواﷲ کا مطلب ہے قرآن پر ایما ن، اسی طرح اطیعو الرسول کا مطلب ہے حدیث و سنت رسول پر ایمان رکھنا۔ دونوں کو احکام شرع کے اصل اصول ماننا جیسے اطیعو اللہ کا انکار، قرآن کا انکار، اسی طرح سنت و حدیث رسول کا انکار اطیعوالرسول کا انکار ہے اور ہر انکار مستقل کفر ہے۔ ہا ں ایک خاص وقت کے لئے خاص حکمت کے تحت حدیث لکھنے سے منع کیا گیا، جیسے قرآن کو کتا بی شکل میں مدون و مرتب کرنے میں اکابر صحابہ کا اختلاف ہوا، ہر نئے کام میں تردد و اختلاف پیدا ہو جاتا ہے جو بحث و تمحیص اور مخلصانہ افہام و تفہیم سے زائل ہو جاتاہے۔
٭ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا گیا، کیا اچھا ہو کہ آپ ہمیں حدیثیں لکھوا دیا کر یں، انہوں نے فرمایا ہم تمہیں لکھواتے نہیں، ہم سے حاصل کرو جیسے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کیں۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 76
٭ ابو نضرہ کہتے ہیں میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا، ہم آپ سے جو حدیثیں سنتے ہیں، ان کو لکھ نہ لیا کر یں؟ انہو ں نے کہا تم حدیثوں کو مصاحف بنانا چاہتے ہو؟ تمہارے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم کو حدیثیں سناتے اور ہم انہیں زبانی یاد کر لیا کر تے تھے۔ تم بھی اسی طر ح یاد کرو جیسے ہم زبانی یاد کرتے تھے۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 76
٭ امام مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حدیثیں یا ان کی کتابیں لکھنے کا ارادہ کیا، پھر فرمایا کتاب اللہ کے ساتھ کوئی کتاب تحریر نہیں ہوسکتی۔ امام مالک نے کہا ابن شہاب زہری کے پاس ایک ایک کتاب کے سوا جس میں ان کی قوم کا نسب لکھا تھا کوئی کتاب نہ تھی۔ لوگوں میں لکھنے کا نہیں، حفظ کرنے کا رواج تھا، جو لکھتا تھا وہ حفظ کرنے کی نیت سے لکھتا تھا جب حفظ کر لیتا تحریر مٹا دیتا۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 77
نہ لکھنے کی وجوہات
علامہ ابن عبد البر رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کے ایک باب میں کتابت حدیث کے حق میں اور دوسرے میں اس کے خلاف متعدد روایات و اقوال جمع کر دیئے ہیں۔ ہم نے دونوں کی ایک جھلک آ پ کے سامنے پیش کر دی تا کہ مثبت و منفی دونو ں پہلو سامنے آ جائیں دونوں کا خلاصہ یہ ہے :
٭ ہر نئے کام میں پہلے ہچکچاہٹ ہوتی ہے جیسے کتابی صورت میں جمع قرآن کے سوال پر ہوئی۔
٭ عربوں کو اپنے حافظہ پر بڑا اعتماد تھا فصیح و بلیغ خطبات، سینکڑوں اشعار کے قصائد، مراثی، غزلیات اور نسبت عام لوگوں کو زبانی یاد ہوتے تھے۔ لکھنے کو ذہنی کمزوری اور حفظ کو بجا طور پر کمال سمجھتے تھے۔
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو دین کا مرکز و محور مانتے تھے۔ آ پ کی ہربات کو حق سمجھ کر زندگی کا عملی لائحہ عمل بنا لیتے تھے۔ آ پ کے دامن کرم سے وابستگی کو دین اور اس میں کمی کو ایمان سے محرومی سمجھتے تھے۔
٭ دور اول میں جس طرح ماننے والوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا۔ منکرین، حاسدین اور منافقین کی شیطانی سازشیں بھی زوروں پر تھیں۔ اپنے رسول سے مسلمانوں کی بے مثال عقیدت و وابستگی نے منکرین کے دلوں میں آگ لگا دی تھی۔ انہیں یقین تھا کہ حق و صداقت کا یہ سورج کبھی غروب نہ ہوگا، اس لئے ان کی ہمیشہ یہ کوشش بلکہ حسرت رہی کہ قرآن کریم کو ختم کر دیں یا پہلی کتابوں کی طرح اسے منحرف کر دیں یا کم سے کم یہ ممکن نہیں تو اس لافانی کتاب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و تفسیر اور عملی زندگی سے الگ کر دیں تا کہ اس کی انقلابی تعلیم و تربیت سے دنیا کو محروم کیا جائے۔
کتاب اللہ کا متن لیکر من مانی تفسیر کر کے اسلام کے رخ روشن پر شیطانی تلبیس کے پردے ڈال دیں اس مقصد کے لئے ایک طرف قرآن کریم کے متن کے خلاف کوششیں ہوئیں جو اپنی موت آپ مر گئیں، پھر حدیث و سنن کے خلاف پروپیگینڈا کیا گیا تا کہ نبوی تشریح سے امت کو محروم کیا جائے اور دین کا پورا نقشہ بدل دیا جائے پھر قرآن میں تحریف کے لئے صحیح احادیث کے مقابل میں جعلی روایات کو گھڑا اور پھیلایا گیا، مگر اس دین کا محافظ اس کی حفاظت کرتا رہا۔ جہاں اصل چیز ہوتی ہے وہیں جعلی اور نقلی مال بھی آ جاتا ہے اور یہ سب کچھ اسلام کے ساتھ روز اول سے ہوتا رہا۔ چنانچہ جہاں سنت و حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر امت کو کار بند کیا وہیں من گھڑت اور جعلی روایا ت ہی نہیں، آیا ت پر بھی نظر رکھی۔ مسلیمہ کذاب سے لیکر مر زا قادیانی تک نبوت کے ہر جھوٹے دعو یدار نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اپنے حق میں من گھڑت وحی اور آیتیں بنائیں اور گھڑیں۔ لہٰذا خدشہ تھا کہ صحیح و غلط، خلط ملط نہ ہو جائے۔ متن قرآن میں کمی بیشی نہ ہو جائے اسی کے پیش نظر احادیث کے لکھنے، نہ لکھنے میں اختلا ف ہوا۔ حدیث پاک کی حجیت میں تو کبھی کسی مسلمان کو اختلاف ہوا ہی نہیں اور جو اختلاف کرے وہ مسلما ن نہیں۔
اس مقصد کے لئے احادیث کی جمع و تدوین بھی ضروری تھی اور ملاوٹ سے اسے پاک رکھنا بھی ضروری تھا۔ لہٰذا جو علم و تقویٰ میں معروف اور محتاط تھے ان کیلئے حفظ و کتابت حدیث کا راستہ کھول دیا اور جو اس درجہ و معیار کے نہ تھے ان کو اس کام سے منع کر دیا گیا، اس لئے اجازت و ممانعت دونوں ساتھ ساتھ ہیں جس کام سے اطمینان ہو اس کی حوصلہ افزائی فرمائی اور جو کام غیر تسلی بخش پایا اس کی ممانعت فرما دی یہ صرف حدیث کی بات نہیں، قرآن کریم کے وہ تمام نسخے جو غیر معیاری تھے اور خدشہ تھا کہ آئندہ کسی وقت باعث فتنہ ہو نگے، ان کو بھی جلایا گیا اور آج بھی بالفرض غفلت و کوتاہی یا عناد کی بنا پر کوئی قرآن پاک کا تحریف شدہ نسخہ شائع کرے، اسے مسلمان حکومت ضبط کرے گی اور متعلقہ شخص یا ادارہ کو اس جرم کی سزا ہوگی۔ اللہ کی کروڑہا رحمتیں ہوں ان نفوس قدسیہ پر جنہوں نے صحیح وغلط کی تحقیق و تمیز کی۔ دشمن کی سازشوں کو بے نقاب کیا اور صحیح احادیث کے مجموعے تیار کر کے امت بلکہ انسانیت کی ہدایت کا سامان کیا۔ اللہ تعالیٰ منکرین حدیث و قرآن کو ہدایت دے اور خلق خدا کو ان کے شر سے بچائے۔