Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

صلوۃ التراویح کے حوالے سے چند ضعیف روایات کا تذکرہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • صلوۃ التراویح کے حوالے سے چند ضعیف روایات کا تذکرہ


    صلوۃ التراویح کے حوالے سے چند ضعیف روایات کا تذکرہ


    1:کان یصلی فی شھر رمضان عشرین رکعتہ(ابن عباسؓ)۔۱
    رمضان میں بیس رکعت نماز پڑھتے تھے۔
    منکر باطل ہے(روای ابراہیم بن عثمان ثقہ نہیں(ابن معین)ضعیف ہے(احمد)اس سے سکوت ہے،سخت مجروح ہے(بخاری) متروک الحدیث(نسائی) شعبہ نے اس کی تکذیب کی ہے۔ذہبی فرماتے ہیں اس کی یہ روایت منکر ہے(میزان ص۴۰ج۱) من گھٹرت ہے(سلسلہ ضعیفہ ص۲۳۶ج۱)
    2:فصلی اربع و عشرین رکعتہ و اوتر بثلاث۔(جابرؓ)۔۲
    چوبیس رکعت اور تین وتر پڑھے۔
    من گھڑت ہے اس کی سند کے دو روای مجہول ہیں اور دو متہم بالکذب ہیں جن میں ایک روای محمد بن حمید رازی ہے(میزان ص۵۳۰ج۳) اور دوسرا راوی محمد کا استاذ عمر بن ہارون کذاب اور خبیث ہے(میزان ص۲۲۸ج۳)
    3:کان الناس فی زمن عمر یقومون فی رمضان بثلاث وعشرین رکعتہ۔(یزید بن رومانؒ)۔۳
    لوگ حضرت عمرؓ کے زمانے میں(23) رکعتوں کو قیام کیا کرتے تھے۔
    منقطع ہے یزید نے حضرت عمرؓ کا زمانہ نہیں پایا(نصب الرایہ ص۱۵۴ج۲
    4:حضرت علیؓ نے حکم دیا کہ امام لوگوں کو پانچ ترویحے(بیس رکعت) پڑھائیں۔۴
    ضعیف ہے روای ابو الحسنا مجہول ہے(تحفۃ الاحوذی ص۷۴ج۲)۔اس کی سند ضعیف ہے(بیہقی ص۴۹۷ج۲)
    5:حضرت علیؓ نے قاریوں کو بلایا اور ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کوبیس رکعت پڑھائے۔۵
    ایک راوی حماد بن شعبہ ضعیف ہے(ابنِ معین) اس میں نظر ہے قابل حجت نہیں (بخاری) اس کی اکثر روایات پر متابعت نہیں(تحفۃ الاحوذی ص۷۵ج۲) اس کا استادسائب مختلط ہے(تقریب ص۲۳۹)
    6:حضرت عمرؓ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ بیس رکعت پڑھائے۔۶
    منقطع ہے ،یحی نے حضرت عمرؓ کو نہیں پایا(تحفۃ الاحوذی ص۷۵ج۲)
    7:لوگ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں رمضان میں بیس رکعت قیام کرتے تھے۔(سائب بن یزیدؓ)۔۷
    شاذہے راوی یزید بن خصیفہ ثقہ ہے لیکن جب اپنے سے زیادہ ثقہ کی مخالفت کرے تو اس کی روایت شاذ ہوتی ہے۔امام احمد فرماتے ہیں منکر الحدیث ہے(تہذیب ص۳۴۰ج۱۱)حالانکہ امام احمد نے انہیں ثقہ بھی کہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ متفرد ہویا اپنے ثقہ کی مخالفت کرے تو اس وقت یہ منکر الحدیث ہوتا ہے اس نے محمد بن یوسف کی مخالفت کی ہے جن کی روایات میں گیارہ کا ذکر ملتا ہے اور وہ اس سے زیادہ ثقہ ثبت ہے،لہذا اس مخالفت کی بنا پر اس کی روایت شاذ ہے۔
    8:ہم حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے۔۸
    اس کا روای ابو عثمان بصری نا معلوم ہے(تحفۃ الاحوذی ص۷۵ج۱)
    9:لوگ حضرت عمر،عثمان اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنھم کے زمانے میں بیس رکعت کا قیام کیا کرتے تھے۔۹
    مدرج ہے،بعض حضرات اس کی نسبت امام بیہقی کی طرف کی ہے جو غلط ہے۔علامہ نیموی حنفی اور علامہ عبد الرحمن مبارکفوری فرماتے ہیں کہ عثمان اور علی والے الفاظ مدرج ہیں جو امام بیہقی کی تصانیف میں نہیں پائے جاتے(آثار السنن ص۲۵۲وتحفۃ الاحوذی ص۷۲ج۲)
    10:حضرت عمرؓ نے لوگوں کو ابی بن کعب ؓکی امامت پر جمع کیا اور وہ ان کو بیس رکعت پڑھاتے تھے۔۱۰
    منقطع ہے ،حضرت حسن بصری ؒ کی حضرت عمرؓ سے ملاقات ثابت نہیں ہے،حسن حضرت عمرؓ کی خلافت کے آخری دو سالوں میں پیدا ہوئے(تہذیب ص۲۶۴ج۲)۔

    حواشی

    ۱:بیہقی ص ۴۹۶ ج۲،أ رواءالغلیل ص۱۹۰ج۲،تاریخ بغداد ص۱۱۳ج۶،ص۴۵ج۱۲،ضعیفہ ص۳۵ج۲
    ۲:ضعیفۃ ص۳۶ج۲
    ۳:نصب الرایہ ص۱۵۳ج۲،بیہقی ص۴۹۶ج۲،موطا امام مالک ص۹۱
    ۴:بیہقی ص۴۹۷ج۲
    ۵:موطا ص۷۱، بیہقی ص۴۹۷ج۲
    ۶:ابن ابی شیبہ ص۱۶۳ ج۲ح۷۶۸۲
    ۷: ابن ابی شیبہ ص۱۶۳ ج۲ح۷۶۸۴
    ۸: بیہقی ص۴۹۶ج۲
    ۹: بیہقی ص۴۹۷ج۲
    ۱۰: آثار السنن ص۲۵۲وتحفۃ الاحوذی ص۷۲ج۲



    Last edited by lovelyalltime; 6 July 2012, 17:04.
Working...
X