کیا صحیحین کی صحت پر اجماع ہے؟
یہ زمانہ فتنوں کا زمانہ ہے'ہر آئے دن کسی نہ کسی نئے فتنے کا ظہور ہوتارہتا ہے۔اللہ تعالی نے چونکہ اس دنیا کودارآزمائش بنایا ہے اس لیے یہ تو ممکن نہیں ہے کہ دنیا سے شر ختم ہو جائے۔ اگر ایک برائی اپنے انجام کوپہنچے گی تو اس کی جگہ دوسری برائی لے لے گی لیکن یہ اللہ تعالی کی سنت ہے کہ وہ کسی بھی باطل یاشر کو دوام نہیں بخشتے۔ دوام'ہمیشگی'تسلسل اور بالآخر غلبہ'چاہے وہ دلیل کی بنیاد پر ہو یا قوت کی بنیاد پر'صرف حق ہی کے لیے ہے۔أمت مسلمہ کی تاریخ میں اہل سنت کے بالمقابل ہر دور میں فرق باطلہ اپنے گمراہ کن نظریات پھیلاتے رہے لیکن ہر گروہ یا تو اپنی طبعی عمر گزارنے کے بعد مر گیا اور اس کا نام صرف کتابوں میں باقی رہ گیا جیسا کہ خوارج و معتزلہ وغیرہ ہیں یا وہ دلیل و برہان کے میدان میں اہل سنت سے مغلوب ہو گیااور اس کی نشوونما رک گئی جیسا کہ یہود و نصاری ہیں یا أمت مسلمہ نے اسے اپنے وجود سے کاٹ کر علیحدہ کر دیا جیسا کہ قادیانی ہیں۔عصر حاضر کی آزمائشوں میں سے ایک بڑی آزمائش وہ تجدد پسند مفکرین ہیں جو أئمہ سلف کے بالمقابل علوم اسلامیہ میں ان جیسا'رسوخ فی العلم'نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجودسلف صالحین کی تحقیق پر اپنی کج بحثیوں کو ترجیح دیتے ہیں ان علماء میں بعض وہ بھی ہیں جو براہ راست تو احادیث کا انکار نہیں کرتے لیکن جو احادیث بھی ان کو اپنی عقل و فکر سے متعارض نظر آئیں'ان کی تضعیف کے لیے نئے نئے اصول وضع کر لیتے ہیں۔جیسا کہ بعض معاصرفضلاءنے صحیح بخاری و صحیح مسلم کی بعض ان احادیث کو ضعیف یا موضوع قرار دیا کہ جن کے بارے میں سلف کا اتفاق ہے کہ وہ صحیح ہیں۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم کے ان ناقدین میں سرسید احمد خان'علامہ تمنا عمادی'علامہ عنایت اللہ مشرقی'مولاناحبیب الرحمن کاندھلوی'مولانا حبیب اللہ ڈیروی'مولانا محمد اسحاق صدیقی ندوی'جاوید احمد غامدی'شبیر ازہر میرٹھی وغیرہ شامل ہیں۔علاوہ ازیں عصر حاضر کے بعض مصلحین اور اسلامی تحریکوں کے بڑے بڑے زعماءکہ جن کی دعوتی 'تبلیغی اور اصلاحی خدمات امت مسلمہ پر ایک عظیم احسان ہیں'بھی اس فتنے کا کسی نہ کسی طرح شکار ہو گئے مثلاسید جمال الدین افغانی'مفتی محمد عبدہ'علامہ اسد'مولانا ابو الکلامآزاد'مولانا عبید اللہ سندھی'مولانا مودودی 'مولانا حمید الدین فراہی وغیرہ ' اب تو بخاری و مسلم کی احادیث کی تضعیف کا یہ فتنہ اس حدتک آگے بڑھ گیا ہے ہر دوسرا شخص جو کہ عربی زبان کے دو چار لفظ پڑھ لیتا ہے بخاری و مسلم کی احادیث کے بارے میں اپنی رائے دینے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی بعض روایات پر خود أئمہ سلف میں سے بعض اہل علم نے نقد کی ہے 'اس لیے یہ عقیدہ رکھنا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کا ایک ایک سوشہ بھی قطعی طور پر صحیح ہے اور اس سوشے کی صحت پر بھی ایسا ہی اجماع ہے جیسا کہ کتاب اللہ کے ایک ایک حرف کی صحت پر'تو یہ عقیدہ درست نہیں ہے۔
لیکن اس کے برعکس ہمارے نزدیک یہ فکر بھی غلط طور رائج ہو گئی ہے کہ صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں ضعیف روایات بھی موجود ہیں۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم پر أئمہ سلف کی نقد اور ان ہی میں سے بعض کی طرف سے اس کے جوابات آنے کے بعد ان کتابوں کی قدر و قیمت اور منزلت بہت بڑھ گئی ہے اور یہ نقد اس درجے کی نہیں ہے کہ اس سے صحیحین کی کسی روایت کا ضعف ثابت ہوتا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ اس نقد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحیحین کی ایسی منتقد روایات صحت کے اس درجے کو نہیں پہنچتی کہ جس کا امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی کتابوں میں التزام کیا ہے۔
صحیح بخاری وصحیح مسلم کی صحیح احادیث کو دوسری کتب احادیث کی صحیح احادیث پر کئی اعتبار سے فضیلت حاصل ہے اس لیے صحیح بخاری و صحیح مسلم کی تمام احادیث 'الخبر المحتف بالقرائن' کی قبیل سے ہیں کہ جس کا درجہ عام خبر واحد سے بڑھ کر ہے ۔امام ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
لیکن اس کے برعکس ہمارے نزدیک یہ فکر بھی غلط طور رائج ہو گئی ہے کہ صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں ضعیف روایات بھی موجود ہیں۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم پر أئمہ سلف کی نقد اور ان ہی میں سے بعض کی طرف سے اس کے جوابات آنے کے بعد ان کتابوں کی قدر و قیمت اور منزلت بہت بڑھ گئی ہے اور یہ نقد اس درجے کی نہیں ہے کہ اس سے صحیحین کی کسی روایت کا ضعف ثابت ہوتا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ اس نقد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحیحین کی ایسی منتقد روایات صحت کے اس درجے کو نہیں پہنچتی کہ جس کا امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی کتابوں میں التزام کیا ہے۔
صحیح بخاری وصحیح مسلم کی صحیح احادیث کو دوسری کتب احادیث کی صحیح احادیث پر کئی اعتبار سے فضیلت حاصل ہے اس لیے صحیح بخاری و صحیح مسلم کی تمام احادیث 'الخبر المحتف بالقرائن' کی قبیل سے ہیں کہ جس کا درجہ عام خبر واحد سے بڑھ کر ہے ۔امام ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
'الخبر المحتف بالقرائن' کی کئی اقسام ہیں:ان میں ایک وہ ہے جسے امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہو اور وہ تواتر کی حد کو نہ پہنچی ہو۔ایسی خبر واحد کے ساتھ بہت سے قرائن ملے ہوتے ہیں: جن میں ایک فن حدیث میں امام بخاری و امام مسلم کا عظیم المرتبت ہونا ہے دوسرا'ان حضرات کو صحیح احادیث کو ضعیف سے الگ کر کے بیان کرنے میں باقی أئمہ پر فوقیت حاصل ہے تیسراان کی کتب کو علما کی طرف سے 'تلقی بالقبول'حاصل ہے۔
کیاصحیح بخاری و صحیح مسلم کی تمام روایات صحیح ہیں؟
امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ دونوں کا اپنی صحیحین کے بارے میں دعوی یہ ہے کہ ان کی صحیحین میں موجود تمام روایات صحیح حدیث کے درجے کو پہنچتی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب صحیح بخاری کے بارے میں فرماتے ہیں :
ما أدخلت فی ھذا الکتاب الا ما صح(سیر أعلام النبلاء'امام ذھبی'جلد١٠'ص٢٨٣'دار الفکر'بیروت)
امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ دونوں کا اپنی صحیحین کے بارے میں دعوی یہ ہے کہ ان کی صحیحین میں موجود تمام روایات صحیح حدیث کے درجے کو پہنچتی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب صحیح بخاری کے بارے میں فرماتے ہیں :
ما أدخلت فی ھذا الکتاب الا ما صح(سیر أعلام النبلاء'امام ذھبی'جلد١٠'ص٢٨٣'دار الفکر'بیروت)
میں نے اپنی اس کتاب میں صرف صحیح روایات ہی کو بیان کیا ہے۔
ایک اور جگہ اپنی کتاب صحیح بخاری کے بارے میں فرماتے ہیں:
ما أدخلت فی الصحیح حدیثا الا بعد ان استخرت اللہ تعالی و تیقنت صحتہ(ھدی الساری مقدمہ فتح الباری'علامة ابن حجر'ص٣٤٧'دار نشرالکتب الاسلامیة،لاھور)
ما أدخلت فی الصحیح حدیثا الا بعد ان استخرت اللہ تعالی و تیقنت صحتہ(ھدی الساری مقدمہ فتح الباری'علامة ابن حجر'ص٣٤٧'دار نشرالکتب الاسلامیة،لاھور)
میں نے اپنی 'صحیح ' میں کوئی حدیث اس وقت تک نہیں لکھی جب تک میں نے اللہ سے استخارہ نہیں کر لیا اور مجھے اس حدیث کی صحت کا یقین نہیں ہو گیا۔
ایک اور مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ سے منقول ہے:
ما أدخلت فی کتابی الجامع الا ما صح(تہذیب الکمال 'جلد٦'ص٢٣٠'مؤسسة الرسالة'بیروت)
ما أدخلت فی کتابی الجامع الا ما صح(تہذیب الکمال 'جلد٦'ص٢٣٠'مؤسسة الرسالة'بیروت)
میں نے اپنی کتاب' الجامع 'میں صرف صحیح احادیث ہی بیان کی ہیں۔
امام مسلم رحمہ اللہ پنی کتاب صحیح مسلم کے بارے میں فرماتے ہیں:
لیس کل شیء عندی صحیح وضعتہ ھاھنا انما وضعت ھاھنا ماأجمعوا علیہ (صحیح مسلم' کتاب الصلاة'باب التشہد فی الصلاة)
لیس کل شیء عندی صحیح وضعتہ ھاھنا انما وضعت ھاھنا ماأجمعوا علیہ (صحیح مسلم' کتاب الصلاة'باب التشہد فی الصلاة)
میں نے ہر صحیح حدیث اپنی کتاب میں بیان نہیں کی بلکہ میں نے اس کتاب میں ہر وہ حدیث بیان کی ہے کہ جس کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے ۔
ایک اور جگہ امام مسلم فرماتے ہیں:
عرضت کتابی ھذا (المسند)علی أبی زرعة فکل ما أشارعلی فی ھذا الکتاب أن لہ علة و سببا ترکتہ و کل ما قال أنہ صحیح لیس لہ علة فھو الذی أخرجت(سیر أعلام النبلاء'امام ذھبی'جلد١٠'ص٣٨٤'دار الفکر'بیروت)
عرضت کتابی ھذا (المسند)علی أبی زرعة فکل ما أشارعلی فی ھذا الکتاب أن لہ علة و سببا ترکتہ و کل ما قال أنہ صحیح لیس لہ علة فھو الذی أخرجت(سیر أعلام النبلاء'امام ذھبی'جلد١٠'ص٣٨٤'دار الفکر'بیروت)
میں نے اپنی کتاب شیخ أبو زرعہ پر پیش کی تو انہوں نے میری اس کتاب میں جس حدیث کی طرف بھی اشارہ کیا کہ اس میں کوئی ضعف کا سبب یا علت ہے تو میں نے اس حدیث کو چھوڑ دیا اور جس کے بارے میں بھی انہوں نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کوئی علت نہیں ہے تو اس کو میں نے اپنی اس کتاب میں بیان کیا ہے۔
امام مسلم رحمہ اللہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
انما أخرجت ھذا الکتاب و قلت ھو صحاح و لم أقل أن ما لم أخرجہ من الحدیث فی ھذا الکتاب ضعیف و لکن انما أخرجت ھذا من الحدیث الصحیح لیکون مجموعا عندی و عند من یکتبہ عنی و لا یرتاب فی صحتھا(تہذیب الکمال'جلد١'ص١٤٨'١٤٩' دار الکتب العلمیة' بیروت)
انما أخرجت ھذا الکتاب و قلت ھو صحاح و لم أقل أن ما لم أخرجہ من الحدیث فی ھذا الکتاب ضعیف و لکن انما أخرجت ھذا من الحدیث الصحیح لیکون مجموعا عندی و عند من یکتبہ عنی و لا یرتاب فی صحتھا(تہذیب الکمال'جلد١'ص١٤٨'١٤٩' دار الکتب العلمیة' بیروت)
میں نے تو اس کتاب کو لکھا ہے اور اس کو صحیح کا نام دیا ہے اور میں یہ نہیں کہتا کہ جس حدیث کو میں نے اپنی اس کتاب میں بیان نہیں کیا وہ ضعیف ہے 'میں نے تو اس کتاب میں صحیح احادیث کا ایک حصہ بیان کیا ہے تاکہ خود میرے اور مجھ سے آگے نقل کرنے والوں کے لیے ایک صحیح احادیث کا مجموعہ تیار ہو سکے کہ جس کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہ ہو۔
امام ابو عبد اللہ الحمیدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم نجد من الأئمة الماضین من أفصح لنا فی جمیع ما جمعہ با الصحة الا ھذین الامامین(مقدمة ابن الصلاح'ص٢٦' دار الحدیث للطباعة و النشر و التوزیع)
لم نجد من الأئمة الماضین من أفصح لنا فی جمیع ما جمعہ با الصحة الا ھذین الامامین(مقدمة ابن الصلاح'ص٢٦' دار الحدیث للطباعة و النشر و التوزیع)
ہم نے پچھلے أئمہ میں سے'امام بخاری و امام مسلم کے علاوہ کسی ایک کو بھی ایسا نہیں پایا کہ جس نے یہ وضاحت کی ہو کہ اس کی تمام جمع کردہ روایات صحیح ہیں۔
کیا صحیح بخاری و صحیح مسلم کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے؟
بعض محدثین کا یہ دعوی ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے۔ امام ابن صلاح رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
جمیع ما حکم مسلم بصحتہ من ھذا الکتاب فھو مقطوع بصحتہ و العلم النظری حاصل بصحتہ فی نفس الأمر و ھکذا ما حکم البخاری بصحتہ فی کتابہ و ذلک لأن الأمة تلقت ذلک بالقبول سوی من لا یعتد بخلافہ و وفاقہ فی الاجماع۔(صیانة صحیح مسلم' امام ابن صلاح' ص٨٥'دار الغرب الاسلامی)
وہ تمام احادیث کہ جن کو امام مسلم نے اپنی کتاب میں صحیح کہاہے ان کی صحت قطعی ہے اور ان سے حقیقت میں علم نظری حاصل ہوتا ہے 'اسی طرح کامعاملہ ان احادیث کا بھی ہے کہ جن کو امام بخاری نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام امت کے نزدیک ان کتابوں کو 'تلقی بالقبول'حاصل ہے سوائے ان افراد کے کہ جن کے اختلاف یا اتفاق سے اس اجماع کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
الأستاذ أبو اسحاق الاسفرائینی رحمہ اللہ نے بھی اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ صحیحین کی تمام روایات صحیح ہیں اور ان سے علم قطعی حاصل ہوتا ہے۔امام ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
الأستاذ أبو اسحاق الاسفرائینی فانہ قال:أھل الصنعة مجمعون علی أن الأخبارالتی اشتمل علیھاالصحیحان مقطوع بھا عن صاحب الشرع وان حصل الخلاف فی بعضھا فذلک خلاف فی طرقھا و رواتھا۔(النکت علی کتاب ابن الصلاح' جلد١' ص٣٧٧' المجلس العلمی أحیاء تراث الاسلامی)
الأستاذ أبو اسحاق الاسفرائینی فانہ قال:أھل الصنعة مجمعون علی أن الأخبارالتی اشتمل علیھاالصحیحان مقطوع بھا عن صاحب الشرع وان حصل الخلاف فی بعضھا فذلک خلاف فی طرقھا و رواتھا۔(النکت علی کتاب ابن الصلاح' جلد١' ص٣٧٧' المجلس العلمی أحیاء تراث الاسلامی)
استاذ ابو اسحاق اسفرائینی نے کہا:اہل فن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیحین میں جو احادیث موجود ہیں وہ قطعیت کے ساتھ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ثابت ہیں'اگر ان میں موجود بعض روایات میں اختلاف ہے تو یہ ان احادیث کے طرق اور راویوں کے بارے میں اختلاف ہے۔
امام الحرمین 'امام جوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لو حلف انسان بطلاق امرأتہ أن مافی کتابی البخاری و مسلم مما حکما بصحتہ من قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما ألزمتہ الطلاق و لا حنثتہ لاجماع المسلمین علی صحتھما۔(المنھاج شرح صحیح مسلم'امام نووی'جلد١' ص١٣٦'دارالمؤیدالریاض)
لو حلف انسان بطلاق امرأتہ أن مافی کتابی البخاری و مسلم مما حکما بصحتہ من قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما ألزمتہ الطلاق و لا حنثتہ لاجماع المسلمین علی صحتھما۔(المنھاج شرح صحیح مسلم'امام نووی'جلد١' ص١٣٦'دارالمؤیدالریاض)
اگر کوئی شخص یہ قسم اٹھا لے کہ اگر صحیح بخار ی و صحیح مسلم میں کی تمام روایات صحیح نہ ہوں تو اس کی بیوی کو طلاق ہے 'تو ایسی صورت میں اس کی بیوی نہ تو طلاق ہو گی اور نہ وہ شخص حانث ہو گا کیونکہ مسلمانوں کا صحیح بخار ی و صحیح مسلم کی صحت پر اجماع ہے ۔
امام أبو نصر السجزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أجمع أھل العلم الفقہاء و غیرھم أن رجلا لو حلف الطلاق أن جمیع ما فی کتاب البخاری مما روی عن النبی قد صح عنہ و رسول اللہ قالہ لا شک فیہ أنہ لا یحنث و المرأة بحالھا فی حبالتہ۔(مقدمہ ابن الصلاح'حافظ ابن الصلاح' ص٢٦'دار الحدیث بیروت)
أجمع أھل العلم الفقہاء و غیرھم أن رجلا لو حلف الطلاق أن جمیع ما فی کتاب البخاری مما روی عن النبی قد صح عنہ و رسول اللہ قالہ لا شک فیہ أنہ لا یحنث و المرأة بحالھا فی حبالتہ۔(مقدمہ ابن الصلاح'حافظ ابن الصلاح' ص٢٦'دار الحدیث بیروت)
تمام اہل علم فقہاء اور ان کے علاوہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص اس بات پر حلف اٹھا لے کہ جو کچھ صحیح بخاری میں اللہ کے رسول سے مروی روایات موجود ہے وہ آپ سے ثابت ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ آپ ہی کے فرامین ہیں'تو ایسا شخص حانث نہ ہو گا اور عورت اس کے عقد میں باقی رہے گی۔
علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و جاء محمد بن اسماعیل البخاری امام المحدثین فی عصرہ فخرج احادیث السنة علی أبوابھا فی مسندہ الصحیح بجمیع الطرق التی للحجازیین و العراقیین و الشامیین و اعتمدوا منھا ما أجمعوا علیہ دون مااختلفوا فیہ... ثم جاء الامام مسلم بن الحجاج القشیری فألف مسندہ الصحیح حذا فی حذو البخاری فی نقل المجمع علیہ (مقدمہ ابن خلدون'ص٤٩٠'دار الجیل'بیروت)
و جاء محمد بن اسماعیل البخاری امام المحدثین فی عصرہ فخرج احادیث السنة علی أبوابھا فی مسندہ الصحیح بجمیع الطرق التی للحجازیین و العراقیین و الشامیین و اعتمدوا منھا ما أجمعوا علیہ دون مااختلفوا فیہ... ثم جاء الامام مسلم بن الحجاج القشیری فألف مسندہ الصحیح حذا فی حذو البخاری فی نقل المجمع علیہ (مقدمہ ابن خلدون'ص٤٩٠'دار الجیل'بیروت)
اس کے بعد امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری اپنے زمانے میں سامنے آئے انہوں نے اپنی صحیح مسند میں احادیث کو ابواب کی ترتیب پر بیان کیا اور اپنی کتاب میں حجازیوں 'عراقیوں اور شامیوں کے ان طرق سے احادیث کو نقل کیا کہ جن پر ان کا اجماع تھااور جن طرق میں اختلاف تھا ان کو نہ لیا...پھر امام مسلم بن حجاج القشیری آئے انہوں نے صحیح مسند میں امام بخاری کے طریقہ کی پیروی کرتے ہوئے صرف انہی احادیث کو بیان کیا کہ جن کی صحت پر اجماع تھا۔
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فقد أجمع أھل ھذا الشأن علی أن أحادیث الصحیحین أو أحدھما کلھا من المعلوم صدقہ بالقبول المجمع علی ثبوتہ وعند ھذہ الاجماعات تندفع کل شبھة و نزول کل تشکیک۔(قطر الولی'ص٢٣٠٭)
فقد أجمع أھل ھذا الشأن علی أن أحادیث الصحیحین أو أحدھما کلھا من المعلوم صدقہ بالقبول المجمع علی ثبوتہ وعند ھذہ الاجماعات تندفع کل شبھة و نزول کل تشکیک۔(قطر الولی'ص٢٣٠٭)
اہل فن کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیحین یا ان میں سے کسی ایک کی تمام احادیث کا صحیح ہوناامت میں ان کتابوں کے'تلقی بالقبول' سے ثابت ہے اور اس 'تلقی بالقبول ' کے ثابت ہونے پر اجماع ہے ۔اور اس قسم کے اجماعات سے ہر قسم کا شبہ رفع ہو جاتا ہے اور شک دور ہو جاتا ہے۔
شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے بھی صحیحین کی صحت پر اجماع نقل کیا ہے ۔شاہ صاحب فرماتے ہیں:
أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع و أنھما متواتران الی مصنفیھما و أنہ کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین۔(حجة اللہ البالغة' شاہ ولی اللہ محدث دہلوی' جلد١' ص٢٩٧' أصح المطابع کراچی)
أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع و أنھما متواتران الی مصنفیھما و أنہ کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین۔(حجة اللہ البالغة' شاہ ولی اللہ محدث دہلوی' جلد١' ص٢٩٧' أصح المطابع کراچی)
جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ جو بھی متصل مرفوع احادیث صحیحین میں وجود ہیں وہ قطعاًصحیح ہیں اور ان دونوں کتابوں کی سند اپنے مصنفین تک متواتر ہے اور جو کوئی بھی ان کتابوں کی قدر و قیمت کم کرنا چاہتا ہے وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔
محدث العصر مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصلالمرفوع صحیح بالقطع و انھما متواتران الی مصنفیھما و أنہ کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین۔(مقدمة تحفة الأحوذی'ص٤٧'دار الکتب العلمیة' بیروت)
جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ان دونوں کتابوں میں جو بھی متصل مرفوع احادیث موجود ہیں وہ قطعی طور پر صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں اور جو کوئی بھی ان دونوں کتابوں کا درجہ کم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔
معروف دیوبندی عالم مولانا سرفراز صفدر خاں رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
بخاری و مسلم کی جملہ روایات کے صحیح ہونے پرامت کا اجماع و اتفاق ہے۔اگر صحیحین کی 'معنعن'حدیثیں صحیح نہیں تو امت کا اتفاق اوراجماع کس چیز پرواقع ہواہے جبکہ راوی بھی سب ثقہ ہیں۔(أحسن الکلام'مولانا محمد سرفرازصفدر خان 'جلد١'ص٢٤٩'طبع سوم اکتوبر ١٩٨٤)
پس معلوم ہوا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی جمیع روایات کی صحت پر أئمہ محدثین کا اتفاق ہے اور یہ اتفاق ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی اجتہادی مسئلے میں فقہاء کا اتفاق ہوتا ہے ۔یہ بات واضح رہے کہ کسی حدیث کی تصحیح یا تضعیف میں محدثین کا اجماع معتبر ہو گا اور اس میں کسی فقیہ کی مخالفت سے اجماع کا دعوی متأثر نہ ہوگا جس طرح کے کسی فقہی مسئلے میں أصل اعتبار فقہاء کے اتفاق کا ہو گا اور کسی محدث کے اختلاف سے اجماع ختم نہیں ہو گاکیونکہ ہر فن میں اہل فن کا ہی اتفاق و اجماع معتبر ہو تا ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس بارے مقدمہ اصول تفسیر میں بحث کی ہے۔
کیا صحیحین کی بعض روایات پر أ ئمہ سلف کی طرف سے تنقید ہوئی ہے ؟
صحیحین کی اکثر و بیشتر روایات وہ ہیں کہ جن کی صحت پر أئمہ سلف میں سے کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا ۔ہاں !چند ایک مقامات ایسے ہیں کہ جن پر بعض محدثین نے نقد کی ہے۔امام ابن صلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أن ما انفرد بہ البخاری أو مسلم مندرج فی قبیل ما یقطع بصحتہ لتلقی الأمة کل واحد من کتابیھما بالقبول ... سوی أحرف یسیرة تکلم علیھا بعض أھل النقد من الحفاظ کا لدارقطنی وغیرہ و ھی معروفہ عند أھل ھذا الشأن۔(مقدمة ابن صلاح'امام بن صلاح' ص٢٩'دار الحدیث للطباعة و النشر والتوزیع)
جس حدیث کو بھی امام بخاری یا امام مسلم نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے وہ قطعاً صحیح ہے کیونکہ امت میں ان دونوں أئمہ کی کتب کو'تلقی بالقبول'حاصل ہے...سوائے چند کلمات کے ،کہ جن پر بعض حفاظ مثلا اما م دار قطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے کلام کیا ہے اور یہ مقامات اہل فن کے ہاں معروف ہیں۔
حافظ عراقی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح بخاری و صحیح مسلم کے وہ مقامات کہ جن پر تنقید ہوئی ہے وہ تھوڑے نہیں بلکہ زیادہ ہیں۔حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أن ما استثناہ من المواضع الیسیرةقد أجاب عنھا العلماء أجوبة و مع ذلک فلیست بیسیرة بل ھی مواضع کثیرة و قد جمعتھا فی تصنیف مع الجواب عنھا۔(التقیید والایضاح'حافظ زین الدین عراقی'ص٢٩'دار الحدیث للطباعة و النشر والتوزیع)
امام ابن صلاح رحمہ اللہ نے 'تلقی با لقبول'سے جن چندمقامات کو مستثنی قراردیا ہے ان کا بھی علماء نے (صحیح بخاری و صحیح مسلم کا دفاع کرتے ہوئے)جواب دیا ہے اور یہ مقامات تھوڑے نہیں بلکہ زیادہ ہیں'میں نے ان تمام مقامات کو جمع کرکے ان کا جواب بھی دیا ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک صحیحین کی جن روایات پر بعض محدثین نے نقد کی ہے ان میں سے صرف بیس روایات ایسی ہیں کہ جن پر کلام کی گنجائش تھی۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قد نظر أئمة ھذاالفن فی کتابیھما و وافقوھما علی تصحیح ما صححاہ الا مواضع یسیرة نحو عشرین حدیثا غالبھا فی مسلم۔(منھاج السنة' جلد٧' ص٢١٥' ادارة الثقافة و النشر بجامعة الامام محمد بن سعود)
فن حدیث کے علماء نے امام بخاری و امام مسلم کی کتابوں کا بغور مطالعہ کیا ہے اور انہوں نے ان دونوں کتابوں کی احادیث کی صحت پر ان حضرات کی تصحیح سے اتفاق کیا ہےسوائے چند ایک مقامات کے،جو کہ تقریبا بیس کے قریب احادیث ہیں اور ان میں سے بھی اکثر صحیح مسلم میں ہیں۔
امام علی بن مدینی 'امام احمد بن حنبل اور امام یحیی بن معین رحمہم اللہ و غیرہم کے نزدیک صحیح بخاری میں صرف چارروایات معلول تھیں۔علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
لما صنف البخاری کتاب الصحیح عرضہ علی ابن المدینی و أحمد بن حنبل و یحی بن معین و غیرھم فاستحسنوہ و شھدوا لہ بالصحة الا أربعة أحادیث۔(ھدی الساری مقدمہ فتح الباری'ص٤٩١'دار نشر الکتب الاسلامیة'لاہور)
جب امام بخاری نے اپنی' صحیح' مکمل کر لی تو انہوں نے اس کتاب کو امام علی بن مدینی 'امام احمد بن حنبل'امام یحی بن معین وغیرہ پر پیش کیا تو انہوں نے اس کتاب کو عمدہ کتاب قرار دیا اور سوائے چار احادیث کے بقیہ تمام روایات کی صحت کی گواہی دی۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہم نے صحیحین کے تقریبا دو سو مقامات پر بعض اعتراضات وارد کیے ہیں۔امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قد استدرک جماعة علی البخاری و مسلم أحادیث أخلا بشرطھما فیھا و نزلت عن درجة ما التزماہ ... و قد ألف الامام الحافظ أبو الحسن علی بن عمر الدار قطنی فی بیان ذلک کتابہ المسمی بالاستدراکات و التتبع و ذلک فی مائتی حدیث مما فی الکتابین۔ (مقدمہ امام نووی لصحیح مسلم'ص١٤٦'دار المعرفة'بیروت)
محدثین کی ایک جماعت نے صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی بعض ان روایات کو جمع کیا ہے کہ جن میں دونوں اماموں نے اپنی شرائط کا لحاظ نہیں رکھا اور ایسی روایات بھی اپنی کتب میں نقل کر دیں جو باعتبار صحت صحیحین کی عام روایات سے درجے میں کم ہیں...حافظ علی بن عمر الدارقطنی نے اس موضوع پر 'الاستدراکات والتتبع' کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے'جس میں انہوں نے صحیحین کی ایسی دو سو روایات کو جمع کیا ہے۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح بخاری کے ایک سو دس مقامات ایسے ہیں کہ جن پر امام الدارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے نقد کی ہے ۔امام ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
و عدة ما اجتمع لنا من ذلک مما فی کتاب البخاری و ان شارکہ مسلم فی بعضہ مائة و عشرة أحادیث منھا ما وافقہ مسلم علی تخریجہ و ھو اثنان و ثلاثون حدیثا و منھا ماانفرد بتخریجہ و ھو ثمانیة و سبعون حدیثا۔ (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری ص٣٤٥'دار نشر الکتب الاسلامیة' لاہور)
اور صحیح بخاری میں' متکلم فیہ'روایات کی تعداد ایک سودس ہے کہ جن میں سے بتیس روایات ایسی ہیں جو کہ صحیح مسلم میں بھی موجود ہیں اور اٹھہترروایات ایسی ہیں جو کہ صرف صحیح بخاری میں ہیں۔
اوپر کی بحث سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ علماء کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے منتقد مقامات کم ہیں یا زیادہ،
1۔ہمارے خیال میں یہ اختلاف لفظی ہے جن محدثین نے صحیحین کے منتقد مقامات کو بذاتہ دیکھا ،جیسا کہ امام عراقی رحمہ اللہ غیرہ ہیں،تو انہوں نے ان کو 'مواضع کثیرة'یعنی زیادہ مقامات قرار دیا ور جن أئمہ نے متکلم فیہ مقامات کو صحیحین کی غیر متکلم فیہ روایات کی نسبت سے دیکھا تو انہوں نے ان مقامات کو 'مواضع یسیرة 'قرار دیا 'جیسا کہ امام ابن صلاح رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے ہے ۔امام نووی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیحین کی تقریبا ساڑھے بارہ ہزار روایات میں دو سو احادیث ایسی ہیں کہ جن پر تنقید ہوئی ہے اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق صحیحین کی تقریبا بیس روایات ایسی ہیں کہ جن پر نقد صحیح ہوئی ہے او ر ان میں سے بھی اکثر روایات صحیح مسلم کی ہی۔ یہ تو ائمہ محدثین کے اقوال میں تطبیق کی ایک صورت ہے۔
2۔ائمہ کے اقوال میں تطبیق کی دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ امام نووی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیحین کی تقریبا ساڑھے بارہ ہزار روایات میں دو سو احادیث ایسی ہیں کہ جن پر تنقید ہوئی ہے اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق صحیحین کی تقریبا بیس روایات ایسی ہیں کہ جن پر نقد صحیح ہوئی ہے او ر ان میں سے بھی اکثر روایات صحیح مسلم کی ہیں۔لہذا اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے کہ صحیحین کی کتنی احادیث یا مقامات پر نقد ہوئی تو یہ احادیث یا مقامات 'مواضع کثیرة'معلوم ہوتے ہیں اور اگر ایک دوسرے پہلو غور کیا جائے کہ ا یسی کتنی احادیث ہیں کہ جن پر نقد صحیحvalid ہوئی ہے تو یہ روایات 'مواضع یسیرة 'معلو م ہوں گی۔
صحیحین کی منتقداحادیث کا درجہ کیا ہے؟
صحیحین پر امام الدرقطنی،أبو مسعود الدمشقی اور أبو علی الغسانی رحمہم اللہ وغیرہم کی تنقید سے ان کتب کا رتبہ بہت بڑھ گیا ہے کیونکہ صحیحین پر جلیل القدر أئمہ محدثین کی تنقید کے بعد ان مقامات ا ور روایات کی وضاحت ہو گئی کہ جن میں کوئی علت پائی جاتی تھی یا کسی علت کے پائے جانے کا امکان تھا۔صحیحین کے پر ہونے والی اس تنقید کا جواب امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم، امام ابن حجر رحمہ اللہ نے شرح بخاری اور اس کے علاوہ بہت سے علماء نے مستقل کتابوں میں دیا ہے۔
صحیحین پر ہونے والی اس تمام نقد اور اس کے جواب کے بعد ان دونوں کتب میں وہ مقامات متعین ہو گئے کہ جن میں کوئی علل پائی جاتی ہیں اور ان علل کے درجہ کا تعین بھی ہو گیا ہے کہ وہ علل قادحہ ہیں یا نہیں ہیں۔اب عصر حاضر میں کسی بھی عالم کے لیے یہ گنجائش باقی نہیں رہی کہ وہ صحیحین کی کسی ایسی روایت پر کلام کرے کہ جس پر سلف نے کلام نہ کیا ہوکیونکہ امام الدارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ کے کام سے یہ متعین ہو گیا کہ صحیحین میں صرف یہ مقامات ایسے ہیں کہ جن میں کلام کی گنجائش موجود ہے۔ اب اگر کوئی شخص امام الدارقطنی یاأئمہ سلف میں سے کسی اور محدث کی بیان کردہ تحقیقات کی روشنی میں صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی کسی حدیث پر نقد کرتا ہے تو اس کی یہ تنقیدصحیحین پر کوئی مستقل بالذات تنقید شمار نہ ہو گی اور ایسی تنقید کاأئمہ سلف ہی میں سے بہت سے أئمہ نے کافی و شافی جواب دے دیا ہے ۔اور اگر کوئی شخص صحیحین کی کسی ایسی روایت پر تنقید کرتا ہے کہ جس پر أئمہ سلف میں سے کسی نے بھی کلام نہ کیا ہو تو ایسا شخص اجماع محدثین کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ جن روایات پر محدثین نے تنقید نہ کی تو اس سے یہ طے ہو گیا کہ تمام محدثین کے نزدیک یہ روایات صحیح ہیں لہذا ان روایات پر کلام کرنا جمیع محدثین کے دعوی صحت کو چیلنچ کرنا ہے اور ایسا دعوی ہی ناقابل التفات ہے چہ جائیکہ اس کی تحقیق کی جائے۔
اب اس مسئلے کی طرف آتے ہیں کہ محدثین مثلا امام الدارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے صحیحین کی روایات پر جو کلام کیاہے کیا اس سے صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی روایات کو ضعیف قرار دیا جا سکتا ہے ؟ امام نووی رحمہ اللہ کے نزدیک اما م الدارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے صحیحین کی بعض روایات پرجن اصولوں کی روشنی میں کلام کیا ہے وہ اصول جمہور محدثین اور فقہاء کے ہاں قابل قبول نہیں ہیں۔ ا مام نووی رحمہ اللہ کا ایک قول یوں منقول ہے:
وقال النووی فی شرح البخاری:ما ضعف من أحادیثھما مبنی علی علل لیست بقادحة۔ (قواعد التحدیث'شیخ جمال الدین قاسمی'ص١٩٨'دارالنفاس)
امام نووی نے صحیح بخاری کی شرح میں لکھا ہے کہ صحیحین کی جن احادیث کو ضعیف قرار دیا گیا ہے وہ ایسی علل پر مبنی ہیں جو کہ 'علل قادحة' نہیں ہیں۔
ایک اورجگہ امام نووی فرماتے ہیں:
و ذلک الطعن الذی ذکرہ فاسد مبنی علی قواعد لبعض المحدثین ضعیفة جدا مخالفة لما علیہ الجمھور من أھل الفقہ و الأصول و غیرھم۔ (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری'ص٣٤٦'دار نشر الکتب الاسلامیة'لاہور)
امام الدارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے صحیحین کی احادیث پر جو طعن کیا ہے وہ بعض محدثین کے ایسے قواعد پر مبنی ہے جو بہت ہی ضعیف ہیں اور ان قواعد کے مخالف ہیں کہ جن کوجمہور فقہاء اور اصولیین وغیرہ نے بیان کیا ہے۔
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح بخاری و صحیح مسلم کے جن رواة پربعض دوسرے محدثین کی طرف سے جرح ہوئی ہے وہ ایسی جرح نہیں ہے جو کہ موجب طعن ہو۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ما احتج البخاری و مسلم و أبو دؤد بہ من جماعة علم الطعن فیھم من غیرھم محمول علی أنہ لم یثبت الطعن المؤثر مفسر السبب۔(مقدمہ للنووی لشرح مسلم'جلد١'ص٢٥'دار الفکر'بیروت)
جن رواة سے امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی کتابوں میں حدیث لی ہے ان میں سے بعض پر ان کے علاوہ محدثین کی طرف سے جو جر ح ہوئی ہے اس سے ان رواة پر کوئی ایسامؤثر طعن ثابت نہیں ہوتاجو کہ سبب طعن کی وضاحت کرنے والابھی ہو ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح بخاری کی منتقد احادیث بھی کئی فوائد کی حامل ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فانہ أبعد الکتابین عن الانتقاد... و فی الجملة من نقد سبعة آلاف درھم فلم یبرج فیھا الا دراھم یسیرة و مع ھذا فھی مغیرة لیست مغشوشة محضة فھذا امام فی صنعتہ۔(منھاج السنة'جلد٧'ص٢١٦'ادارة الثقافة و النشر بجامعةالامام محمد بن سعود)
صحیح بخاری دونوں کتابوں (یعنی صحیحین)میں سے تنقید سے زیادہ دور ہے او ر من جملہ جو شخص سات ہزاردراہم کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور ان میں چند(پرانے)دراہم کے علاوہ کسی چیز کی ملاوٹ نہیں کرتا اوراس کے باوجود کہ یہ (پرانے)دراہم بھی محض کھوٹے سکوں کی مانند نہیں ہیں بلکہ فائدہ مند ہیں،کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ اس فن کے امام تھے۔
امام سخاوی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیحین کی روایات پر ہونے والی نقد سے اس کی کسی روایت کا ضعف ثابت نہیں ہوتا ۔اما م سخاوی،امام ابو اسحاق اسفرائینی رحمہما اللہ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں:
أھل الصنعة مجمعون علی أن الأخبار التی اشتمل علیھا الصحیحان مقطوع بصحتہ أصولھا و متونھا لا یحصل الخلاف فیھا بحال و ان حصل فذاک اختلاف فی طرقھا و و رواتھا قال فمن خالف حکمہ خبرا منھا و لیس لہ تأویل سائغ للخبر نقضنا حکمہ لأن ھذہ الأخبار تلقتھا الأمة بالقبول۔(فتح المغیث'جلد١'٥١'دار الکتب العلمیة'بیروت)
اہل فن کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیحین کی تمام احادیث کے اصول اور متون قطعی طور پر صحیح ہیں اور ان میں کسی قسم کا بھی اختلاف نہیں ہے اگر کہیں کوئی اختلاف ہے تو وہ اس کے طرق اور راویوں کا اختلاف ہے۔ پس جس عالم کا کوئی حکم صحیحین کی احادیث کے مخالف ہوا اور اس حکم کی کوئی ایسی تاویل نہ ہو جو کہ اس خبر کو شامل ہو سکے تو ہم ایسے حکم کو رد کر دیں گے کیونکہ صحیحین کی روایات کو امت میں'تلقی بلقبول'حاصل ہے۔
صاحب 'تنقیح الأنظار' شیخ محمد بن ابراہیم الوزیر رحمہ اللہ کے نزدیک صحیحین کی احادیث پر کلام سے ان کی روایات نہ توضعیف ہوئی ہیں اورنہ ہی اس سے ضعف لازم آتا ہے۔شیخ صاحب فرماتے ہیں:
أعلم أن المختلف فیہ من حدیثھما ھو الیسیر و لیس فی ذلک الیسیر ما ھو مردود بطریق قطعیة و لا اجماعیة بل غایة ما فیہ أنہ لم ینعقد علیہ الاجماع وأنہ لا یتعرض علی من عمل بہ و لا علی من توقف فی صحتہ و لیس الاختلاف یدل علی الضعف و لا یستلزمہ۔(الروض الباسم'جلد١'ص٢٧٧'باب الاحادیث المتکلم فیھا فی الصحیحین'دار عالم الفوائد للنشر و التوزیع)
یہ بات اچھی طرح جان لو کہ صحیحین کی بہت کم روایات( کی صحت و ضعف) کے بارے میں محدثین کا اختلاف ہے اور یہ مختلف فیہ روایات بھی قطعیت کے ساتھ یا اجماعاًمردود نہیں ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ( ان روایت پر کلام سے)یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان روایات کی صحت پر محدثین کا اجماع نہیں ہے لہذانہ اس کے پیچھے پڑا جائے گاجو کہ ان پر عمل کرتا ہے اور نہ اس سے تعرض ہو گا جو کہ ان کی صحت میں توقف کرتا ہے ا ور محدثین کے اس قسم کے اختلاف سے نہ ہی کوئی روایت ضعیف ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا ضعف لازم آتا ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ کے نزدیک اب کسی بھی عالم کے لیے صحیحین کی کسی سند پر کلام کی گنجائش باقی نہیں رہی ۔امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و قد دفع أکابر الأمة من تعرض للکلام علی شیء مما فیھما و ردوہ أبلغ رد وبینواصحتہ أکمل بیان فالکلام لی أسنادہ بعد ھذا لا یأتی بفائدة یعتد بھا فکل رواتہ قد جاوز القنطرة و ارتفع عنھم القیل و القال و صارواأکبر من أن یتکلم فیھم بکلام۔ (قطر الولی'ص٢٣٠'٢٣١٭) امت کے أکابر علماء نے ان تمام شبہات کا جواب دیا ہے جو کہ صحیحین پر کیے گئے تھے اور ان تمام اعتراضات کا اچھی طرح رد کرتے ہوئے ان دونوں کتابوں کی صحت کو خوب واضح کر دیا ہے۔اس( تنقید و تنقیح )کے بعداب میرا صحیحین کی کسی سند پر کلام کرنا 'بے فائدہ ہے ۔صحیحین کے تمام راوی پل پار کر چکے ہیں اوران کے بارے میں قیل و قال کی گنجائش ختم ہو گئی ہے اور وہ اس مرتبے سے اوپر ہو چکے ہیں کہ ان کی ذات میں کسی قسم کا کلام کیاجائے۔
ایک اور جگہ امام شوکانی فرماتے ہیں:
فقد أجمع أھل ھذا الشأن علی أن أحادیث الصحیحین أو أحدھما کلھا من المعلوم صدقہ بالقبول المجمع علی ثبوتہ وعند ھذہ الاجماعات تندفع کل شبھة و نزول کل تشکیک(قطر الولی'ص٢٣٠٭)
پس اہل فن کا اس پر اجماع ہے کہ صحیحین یا ان میں سے کسی ایک کتاب کی تمام احادیث کی صحت اس 'تلقی بالقبول'سے معلوم ہے جو کہ اجماع سے ثابت ہے اور اس قسم کے اجماعات سے ہر قسم کا شبہ رفع ہو جاتا ہے اور ہر قسم کا شک دور ہو جاتا ہے۔
جیسا کہ ہم اس مضمون کے شروع میں یہ ذکر کر چکے ہیں کہ امام بخاری و امام مسلم کا اپنی صحیحین کے بارے میں دعوی یہ ہے کہ ان میں موجود تمام روایات محدثین کے وضع کردہ اصول حدیث کی روشنی میں صحیح حدیث کے معیار پر پوری اترتی ہیں۔لہذااگر کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں کوئی روایت ضعیف ہے تووہ دراصل امام بخاری و امام مسلم کی تحقیق کو چیلنج کر رہا ہے،اور اگرتو ایسا ناقد امام بخاری و امام مسلم کے پائے کا محدث نہیں ہے،جیسا کہ عصر حاضر کے ان متجددین، مفکرین اور فضلاء کا معاملہ ہے کہ جن کا ذکر اس مضمون کے شروع میں گزر چکا ہے،تواس کی صحیح بخاری و صحیح مسلم پریہ تنقید ناقابل التفات ہو گی۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
من انتقد علیھما یکون قولہ معارضا لتصحیحھما و لا ریب فی تقدیمھما فی ذلک علی غیرھا فیندفع الاعتراض من حیث الجملة۔ (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری'ص٣٤٧'دار نشرالکتب الاسلامیة'لاھور)
جس نے بھی صحیح بخاری وصحیح مسلم پر تنقید کی،اس کا قول امام بخاری و امام مسلم کی تصحیح کے معارض ہو گا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام بخاری و امام مسلم اس مسئلے میں بقیہ محدثین پر مقدم ہیں اس لیے من جملہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث پر تمام اعتراضات دور ہو جاتے ہیں۔
شیخ احمد شاکررحمہ اللہ کے نزدیک اما م الدارقطنی رحمہ اللہ وغیرھم نے صحیحین پر جو نقد کی ہے وہ اس اعتبار سے نہیں ہے کہ صحیحین کی روایات اس سے ضعیف قرار پائیں بلکہ ان محدثین نے صحیحین پراپنے نقد میں اس أمر کی وضاحت کی ہے کہ امام بخاری و امام مسلم رحمہما اللہ نے اپنی کتب میں بعض روایات میں صحت حدیث کے اس اعلی درجے کا التزام نہیں کیا ہے کہ جس کو انہوں نے عام طور پر صحیحین میں بطور معیار اختیار کیاہے۔شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
الحق الذی لا مریة فیہ عند اہل العلم بالحدیث من المحققین'و ممن اھتدی بھدیھم و تبعھم علی بصیرة من الأمر:أن أحادیث الصحیحین صحیحةکلھا'لیس فی واحدمنھامطعن أو ضعف۔و انما انتقد الدارقطنی و غیرہ من الحفاظ بعض الأحادیث،علی معنی أن ماانتقدوہ لم یبلغ فی الصحة الدرجة العلیاالتی التزمھا کل واحد منھم فی کتابہ.و أماصحة الحدیث فی نفسہ فلم یخالف أحد فیھا.فلا یھولنک ارجاف المرجفین و زعم الزاعمین أن فی الصحیحین أحادیث غیر صحیحة۔ (الباعث الحثیث'الشیخ أحمد محمد شاکر'ص٤٤'٤٥'وزارة الأوقاف والشؤون الاسلامیة'دولة قطر)
اس مسئلے میں حق بات کہ جس میں،محققین محدثین اور بصیرت کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں کے نزدیک کوئی شک نہیں ہے،یہ ہے کہ صحیحین کی تمام روایات صحیح ہیں۔ان میں کوئی ایک بھی روایت ایسی نہیں ہے کہ جو کہ قابل طعن یا ضعیف ہو۔اور امام الدار قطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے جو بعض احادیث پر کلام کیاہے وہ اس اعتبار سے ہے کہ وہ (یعنی منتقد)احادیث صحت کے اس اعلی درجے کو نہیں پہنچتی جس کاالتزام شیخین نے اپنی کتب کی ہر روایت میں کیاہے ۔جہاں تک فی نفسہ کسی حدیث کی صحت کا معاملہ ہے تو اس میں کسی ایک عالم کا بھی اختلاف نہیں ہے ۔پس تمہیں افواہیں اڑانے والوں کاپروپیگنڈا اور گمان کرنے والوں کا گمان ڈرا نہ دے کہ صحیحین میں کچھ روایات ایسی بھی ہیں جو کہ غیر صحیح ہیں۔
جو بات شیخ احمد شاکررحمہ اللہ فرما رہے ہیں وہی بات امام نووی رحمہ اللہ نے بھی ایک جگہ لکھی ہے۔امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قد استدرک جماعة علی البخاری و مسلم أحادیث أخلا بشرطھما فیھا و نزلت عن درجة ما التزماہ ... و قد ألف الامام الحافظ أبو الحسن علی بن عمر الدار قطنی فی بیان ذلک کتابہ المسمی بالاستدراکات و التتبع و ذلک فی مائتی حدیث مما فی الکتابین۔(مقدمہ امام نووی لصحیح مسلم'ص١٤٦' دار المعرفة'بیروت)
محدثین کی ایک جماعت نے صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی بعض ان روایات کو جمع کیا ہے کہ جن میں دونوں اماموں نے اپنی شرائط کا لحاظ نہیں رکھا اور ایسی روایات بھی اپنی کتب میں نقل کر دیں جو باعتبار صحت 'صحیحین کی عام روایات سے درجے میں کم ہیں...حافظ علی بن عمر الدارقطنی رحمہ اللہ نے اس موضوع پر 'الاستدراکات والتتبع' کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے،جس میں انہوں نے صحیحین کی ایسی دو سو روایات کو جمع کیا ہے۔
اس بحث کا خلاصہ کلام یہی ہے کہ صحیحین کی روایات پر أئمہ سلف نے جو تنقید کی ہے وہ اکثر و بیشتر اس درجے کی نقد نہیں ہے کہ جس سے صحیحین کی کسی روایت کا ضعیف ہونا لازم آئے اس لیے اس کلام کے بعد بھی صحیحین کی تمام روایات صحیح ہیں،اگرچہ صحیحین کی منتقد روایات کا درجہ ان روایات سے کم ہے کہ جن پر محدثین کی طرف سے کوئی کلام نہیں ہوااس لیے زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ ترجیحات کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ بنا لیا جائے کہ اگر صحیحین کی دو روایات باہم آپس میں معارض ہوں تو غیر منتقد روایت کو منتقد روایت پر ترجیح دی جائے گی لیکن اس ترجیح کے بعد بھی ہم منتقد روایت کو صحیح ہی کہیں گے جیسے کہ منسوخ روایت صحیح ہوتی ہے ۔ بعض متجددین کو صحیحین کی بعض روایات میں جو اشکال پیدا ہوتے ہیں ۔اگر وہ ان کے حل کے لیے صحیحین کو ضعیف قرار دینے کی تحریک چلانے کی بجائے ان احادیث کی مناسب تأویلات کا رستہ اختیار کرتے تو اللہ تعالی لازما ان کے شکوک و شبہات کو رفع فرما دیتے اور آج صحیح بخاری و صحیح مسلم فن حدیث میں نااہل مفکرین و نام نہاد محققین کے ہاتھوں کھیل تماشہ نہ بن جاتی۔
صحیحین کی احادیث کی صحت،قطعی ہے یا ظنی؟
امام ابن صلاح رحمہ اللہ (متوفی٦٤٣ھ) فرماتے ہیں:
وھذا القسم جمیعہ مقطوع بصحتہ۔(مقدمہ ابن الصلاح'ص٢٨'دارالحدیث للطباعةو النشر و التوزیع)
اس قسم(یعنی صحیحین)کی تمام روایات قطعا صحیح ہیں۔
امام ابن صلاح سے پہلے یہ موقف حافظ محمد بن طاہر المقدسی اور أبو النصر عبد الرحیم بن عبد الخالق رحمہما اللہ نے پیش کیا تھا۔امام حافظ عراقی(متوفی ٨٠٦ھ) رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قد سبقہ الیہ الحافظ ابو الفضل محمد بن طاہرالمقدسی وابو النصر عبدالرحیم بن عبد الخالق بن یوسف فقالا أنہ مقطوع بہ۔ (التقیید والایضاح'حافظ زین الدین عراقی'ص٢٨'دارالحدیث للطباعةو النشر و التوزیع)
یہ موقف حافظ أبو طاہر المقدسی اور أبو نصر عبد الرحیم بن عبد الخالق رحمہما الللہ نے امام ابن صلاح رحمہ اللہ سے پہلے بیان کیا ہے ان دونو ں کا کہنا یہ ہے کہ صحیحین کی روایات قطعی طورپر صحیح ہیں۔
شیخ عز الدین بن عبد السلام اور امام نووی نے حافظ ابن صلاح رحمہم اللہ کے اس موقف پر تنقید کی ہے۔حافظ عراقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
و قد عاب الشیخ عز الدین بن عبد السلام علی ابن الصلاح ھذا... و قال الشیخ محی الدین النووی فی التقریب و التیسیر خالف ابن الصلاح المحققون و الأکثرون فقالوا یفیدالظن مالم یتواتر۔(التقیید و الایضاح'حافظ زین الدین عراقی'ص٢٨'٢٩'دارالحدیث للطباعةو النشر و التوزیع)
شیخ عزالدین بن عبد السلام نے ابن صلاح رحمہما اللہ کے اس موقف پر نقد کی ہے ...اور امام نووی رحمہ اللہ نے 'تقریب'اور 'تیسیر' میں کہا ہے کہ ابن صلاح کا موقف محقق اور جمہور علماء کے خلاف ہے جن کا کہنا یہ ہے کہ صحیحین کی روایات اس وقت تک ظن کا فائدہ دیتی ہیں جب تک کہ متواتر نہ ہوں۔
امام نووی رحمہ اللہ نے دو دعوے کیے ہیں ایک یہ کہ جمہور اور محققین محدثین کا موقف یہ ہے کہ صحیحین کی روایات کی صحت قطعی نہیں ہے بلکہ ظنی ہے ۔امام نووی رحمہ اللہ کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ یہ جمہور یا محققین کا قول ہے۔امام ابن حجر ،امام نووی رحمہما اللہ کے تعاقب میں فرماتے ہیں:
فقول الشیخ محی الدین النووی خالف ابن صلاح المحققون و الأکثرون غیر متجہ .بل تعقبہ شیخنا شیخ الاسلام فی محاسن الاصطلاح فقال ھذا ممنوع فقد نقل المتأخرین عن جمع من الشافعیة و الحنفیة و المالکیة و الحنابلة أنھم یقطعون بصحة الحدیث الذی تلقتہ الأمة بالقبول۔(النکت علی ابن صلاح'جلد١'ص٣٧٤'المجلس العلمی احیاء تراث الاسلامی)
امام نووی رحمہ اللہ کا یہ قول کہ ابن صلاح رحمہ اللہ کا موقف جمہور اور محققین محدثین کے خلاف ہے،صحیح نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے شیخ،شیخ الاسلام نے 'محاسن الاصطلاح' میں لکھا ہے کہ امام نووی کی بات غلط ہے ۔ہمارے شیخ نے متأخرین شافعیہ،حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کی ایک جماعت سے یہ نقل کیاہے کہ وہ ایسی حدیث کی صحت کو قطعی مانتے ہیں کہ جس کو امت میں 'تلقی بالقبول'حاصل ہو۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فان جمیع أھل العلم با الحدیث یجزمون بصحة جمہور أحادیث الکتابین و سائر الناس تبع لھم فی معرفة الحدیث فاجماع أھل العلم بالحدیث علی أن ھذا الخبر صدق کاجماع الفقہاء علی أن ھذا الفعل حلال أو حرام أو واجب و اذ اأجمع أھل العلم علی شیء فسائر الناس تبع لھم فاجماعھم معصوم لا یجوز أن یجمعوا علی خطأ۔(فتاوی ابن تیمیہ'جلد١٨'ص١٧'وزارة الشؤون الاسلامیة و الأوقاف و الدعوة و الأرشاد'المملکة العربیة السعودیة)
تمام محدثین صحیحین کی اکثر احادیث کوقطعاصحیح کہتے ہیں اور عوام الناس حدیث کے علم میں محدثین کے متبعین ہیں،پس محدثین کا کسی خبر کی صدق پر اجماع ایسا ہی ہے جیسا کہ فقہاء کا کسی فعل پر اجماع ہو کہ یہ حلال،حرام یا واجب ہے اور جب اہل علم کا کسی چیز پر اجماع ہوجائے تو تمام عوام لناس اس اجماع میں علماء کے تابع ہوتے ہیں(پس علماء کا اجماع،پوری امت کے اجماع کے قائمقام ہے)پس امت اپنے اجماع میں معصوم ہے،پوری امت کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ خطا پر اکھٹی ہو۔
امام نووی رحمہ اللہ کا دوسرا دعوی یہ ہے کہ صرف خبر متواتر سے علم یقین حاصل ہوتا ہے،امام نووی رحمہ اللہ کا یہ دعوی بھی صحیح نہیں ہے۔امام ابن حجر،امام نووی رحمہما اللہ کے تعاقب میں لکھتے ہیں :
أما قول الشیخ محی الدین نووی 'لا یفید العلم الا أن تواتر' فمنقوص بأشیائ:أحدھا الخبر المحتف بالقرائن یفیدا لعلم النظری و ممن صرح بہ امام الحرمین و الغزالی و السیف الآمدی و ابن الحاجب و من تبعھم 'ثانیھا الخبر المستفیض الوارد من وجوة کثیرة لا مطعن فیھا یفید العلم النظری للمتبحر فی ھذا الشأن وممن ذھب الی ھذا الاسناد أبو اسحاق الاسفرائینی و الاستاذ أبو منصور التمیمی و الأستاذ أبو بکر بن فورک...و ثالثھا ما قدمنا نقلہ عن الأئمة فی الخبر اذا تلقتہ الأمة بالقبول و لا شک أن اجماع الأمة علی القول بصحة الخبرأقوی من افادة العلم من القرائن المحتفة و من مجر کثرة الطرق۔(النکت علی ابن صلاح:جلد ١'ص٣٧٧'٣٧٨'المجلس العلمی احیاء تراث الاسلامی)
جہاں تک امام نووی کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ تواتر کے بغیر خبر سے علم یقین حاصل نہیں ہوتا 'تو یہ دعوی چند وجوہات سے ناقص دعوی ہے۔پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ایسی خبر واحد کہ جس کا قرائن نے احاطہ کیا ہو،علم نظری کا فائدہ دیتی ہے جیسا کہ امام لحرمین،امام غزالی ،علامہ آمدی اور ابن الحاجب رحمہم اللہ وغیرہ نے بیان کیا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ایسی خبرمستفیض جو کہ کئی طرق سے مروی ہواور اس میں کسی قسم کا طعن نہ ہو،علم حدیث کے ماہرین کو علم نظری کا فائدہ دیتی ہے ۔اس بات کوالأستاذ أبو اسحاق اسفرائینی،الأستاذ أبو منصور التمیمی اورالأستاذ أبو بکر بن فورک رحمہم اللہ نے بیان کیاہے...تیسری بات یہ ہے کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اس بات پر اجماع ہے کہ ایسی خبر واحد کہ جس کو امت میں 'تلقی بالقبول'حاصل ہو قطعا صحیح ہوتی ہے ۔او ر کسی خبر کے صحیح ہونے پر امت کے اجماع سے جو علم یقین حاصل ہوتا ہے وہ روایت کے طرق کثیرہ یا قرائن محتفة سے بھی حاصل نہیں ہوتا۔
اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
و خبر الواحد المتلقی بالقبول یوجب العلم عند جمہورالعلماء من أصحاب أبی حنیفةو مالک و الشافعی و أحمد و ھو قول أکثر أصحاب الأشعری کا لأسفرائینی و ابن فورک۔(فتاوی ابن تیمیہ' جلد١٨' ص٤١'وزارة الشؤون الاسلامیة و الأوقاف و الدعوة و الأرشاد'المملکة العربیة السعودیة)
ایسی خبر واحد کہ جس کو'تلقی بالقبول'حاصل ہو علم کا فائدہ دیتی ہے اور یہی جمہور أحناف'مالکیہ'شوافع اور اصحاب أحمد کا قول ہے اور اکثر أشاعرہ کا بھی یہی مذہب ہے جیسا کہ الاستاذ اسفرائینی اور ابن فورک ہیں۔
امام حافظ ابن کثیر بھی،امام نووی رحمہما اللہ کے اس موقف سے مطمئن نہیں ہیں اور لکھتے ہیں کہ بات وہی صحیح ہے جو کہ حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ نے لکھی ہے۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ثم حکی أن الأمة تلقت ھذین الکتابین بالقبول'سوی أحرف یسیرةانتقدھا بعض الحفاظ'کالدارقطنی وغیرہ'ثم استنبط من ذلک القطع بصحتہ ما فیھمامن الأحادیث'لأن الأمة معصومة عن الخطأّ'فماظنت صحتہ و وجب علیھا العمل بہ'لا بدوأن یکون صحیحا فی نفس الأمر'وھذا جید.و قد خالف فی ھذة المسئلة الشیخ محی الدین النووی وقال :لا یستفاد قطع بالصحة من ذلک.قلت:و أنا مع ابن الصلاح فیما عول علیہ و أرشد الیہ.واللہ أعلم.(اختصار علوم الحدیث'حافظ ابن کثیر'ص٤٤'٤٥'وزارة الأوقاف والشؤون الاسلامیة'دولة قطر)
پھر ابن صلاح نے ان دونوں کتابوں کے لیے 'تلقی بالقبول' کا تذکرہ کیا سوائے چند الفاظ کے، کہ جن پر امام الدارقطنی وغیرہ نے کلام کیاہے۔پھر ابن صلاح نے اس'تلقی بالقبول' سے صحیحین کی احادیث کی صحت کی قطعیت پر استدلال کیاکیونکہ امت خطا سے معصوم ہے ۔پس جس حدیث کو امت نے صحیح سمجھا اوراس پر عمل واجب ہو گیاتو ضروری ہے کہ وہ روایت حقیقت میں بھی صحیح ہو،اور امام ابن صلاح کا یہ کلام عمدہ ہے۔اور اس مسئلے میں امام نووی رحمہ اللہ نے مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قطعی صحت کا علم حاصل نہیں ہوتا ۔میں (یعنی ابن کثیر) یہ کہتا ہوں:کہ میرا اس مسئلے میں وہی موقف ہے جو امام ابن صلاح رحمہ اللہ نے بیان کیاہے ۔
امام سیوطی بھی امام نووی رحمہما اللہ کی تنقید سے متفق نہیں ہیں،انہوں نے بھی اسی موقف کو صحیح قرار دیا ہے جوکہ امام ابن صلاح اور امام ابن کثیر رحمہما اللہ کا ہے۔امام سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وقال ابن کثیر:وأنا مع ابن صلاح فیما عول علیہ و أرشد الیہ'قلت:و ھو الذی أختارہ و لا أعتقد سواہ۔(تدریب الراوی'امام سیوطی'جلد١'ص١٠٦'قدیمی کتب خانہ کراچی)
اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے :کہ میں اس مسئلے میں ابن صلاح رحمہ اللہ کے موقف پر ہوں اور میں (یعنی امام سیوطی) یہ کہتا ہوں کہ میں بھی اسی(یعنی ابن کثیرکی) رائے کو پسند کرتا ہوں اور اس کے علاوہ کسی رائے کو نہیں مانتا۔
بعض محدثین نے اس بات پر اہل فن کا اجماع نقل کیاہے کہ صحیحین کی روایات کی صحت قطعی ہے ۔الأستاذ أبو اسحاق الاسفرائینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أھل الصنعة مجمعون علی أن الأخبارالتی اشتمل علیھاالصحیحان مقطوع بھا عن صاحب الشرع۔(النکت علی کتاب ابن الصلاح'جلد١'ص٣٧٧'المجلس العلمی احیاء تراث الاسلامی)
اہل فن کا اس پر اجماع ہے کہ صحیحین کی روایات قطعیت کے ساتھ اللہ کے رسولۖ سے ثابت ہیں۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے بھی اس پر اجماع نقل کیاہے ۔شاہ صاحب لکھتے ہیں:
أما الصحیحان فقد اتفقا المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع۔(حجة اللہ البالغة' شاہ ولی اللہ محدث دہلوی' جلد١' ص٢٩٧' أصح المطابع کراچی)
جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ صحیحین کی تمام متصل مرفوع روایات قطعا صحیح ہیں۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ صحیحین کی غیرمنتقد روایات کی صحت قطعی ہے، کیونکہ ان کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے اس لیے جب تک صحیحین کی بعض احادیث پربعض أئمہ محدثین کی طرف سے کلام نہیں ہوا تھا اس وقت تک تو ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ صحیحین کی اخبار کی صحت ظنی ہے لیکن تحقیق کے بعد صحیحین کی جن اخبار میں دو پہلوؤں(یعنی سچ اور جھوٹ) میں سے ایک پہلو پر محدثین کا اتفاق ہو گیا توان کی صحت قطعیت کے ساتھ متعین ہو گئی اور ایسی اخبار علم کا فائدہ دیتی ہیں لیکن جن اخبار یسیرۃ میں خبر کے دو پہلوؤں میں سے ایک پہلو پر سو فی صد محدثین کا اتفاق نہ ہو سکا بلکہ بعض محدثین ان اخبار میں بعض علل کی نشاندہی کی تو ان احادیث کی صحت ظنی رہی اور ان سےعلم ظنی حاصل ہوتا ہے۔ صحیحین کی بعض روایات پر أئمہ محدثین کے کلام نے ان کی غیر متکلم فیہ روایات کی صحت کو قطعاًمتعین کر دیا۔
حواشی
٭امام شوکانی رحمہ اللہ کی یہ کتاب ہمیں دستیاب نہ ہوسکی'اور اس کتاب کے دو حوالہ جات جو کہ اس مضمون میں شامل ہیں وہ مولاناغازی عزیرصاحب کے مولاناامین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کے تصور حدیث پر تین جلدوں پر مشتمل ایک وقیع،علمی تنقیدی مقالے کے قلمی نسخے سے لیے گئے ہیں،جو کہ ٩٩۔جے'ماڈل ٹاؤن لائبریری میں محفوظ ہے۔مولانا کا یہ مقالہ اگرچہ انڈیا سے شائع ہو چکا ہے لیکن ہمیں وہ مل نہ سکا۔