چند ضعیف و موضوع احادیث پر تبصرہ و تحقیق
ابو طاہر حافظ زبیر علی زئی حضر و اٹک
الحمد ﷲ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الامین، اما بعد! بعض لوگ اپنے باطل نظریات کیلئے قرآن و سنت میں لفظی و معنوی تحریفات کیساتھ ساتھ بعض موضوع اور ضعیف روایات بھی پیش کرتے ہیں لہٰذا اس مختصر مضمون میں چند ایسی ہی روایات پر تبصرہ و تحقیق پیش خدمت ہے
جن سے عامۃ المسلمین کے شبہ میں پڑنے کا خطرہ ہے وما توفیقی الا باﷲ۔
حدیث نمبر1۔ من صلی عند قبری سمعتہ ۔یعنی جو شخص مجھ پر میری قبر کے پاس درود پڑھے میں اسے سنتا ہوں۔الخ (شعب الایمان للبیہقی ج2 ص18 ح1583، فضائل حج ص901حنفی بہشتی زیور، از عالم فقی بریلوی ص 490وغیرہ)
تحقیق : اس روایت کا مرکزی راوی محمد بن مروان السدی ہے (بیہقی ، میزان الاعتدال وغیرہ)
عبداﷲ بن نمیر رحمۃ اﷲ علیہ اور جریر بن عبدالحمید رحمۃا ﷲ علیہ نے کہا: کذاب (یعنی جھوٹا ہے) امام صالح جزرۃ نے کہا: کان ضعیفا و کان یضع یہ (محمد بن مروان) ضعیف تھا اور (بلکہ)یہ (جھوٹی حدیثیں) گھڑتا تھا (تہذیب التہذیب ص 9ص387)۔
حافظ برہان الدین الحلبی نے ا سکا تذکرہ (الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث) میں کیا ہے ۔(ص404)۔
بعض لوگوں نے اس روایت کی ایک اور سند ابو الشیخ الاصبہانی رحمۃ اﷲ علیہ کی کسی کتاب سے تلاش کی ہے۔ (دیکھئے تسکبن الصدور ص326-327) حالانکہ یہ روایت بھی باطل ہے اس میں ابو الشیخ رحمۃ اﷲ علیہ کے استاد عبدالرحمن بن احمد الاعراج کی عدالت نامعلوم ہے۔(نیز دیکھئے آئینہ تسکین الصدور ص 113)
حدیث نمبر 2 ۔ اختلاف امتی رحمتی یعنی میری امت کا اختلاف رحمت ہے (الجامع الصغیر وغیرہ)
تحقیق :
حدیث نمبر3۔ لولاک لما خلقت الافلاک:
تحقیق : اس کی کوئی سند بھی ہمارے علم میں نہیں ہے۔ امام صنعانی نے اسے موضوع قرار دیا ہے امام ذیلعی کی (گنجینہ موضوعات) کتاب الفردوس میں بھی روایت(لفظاً یا معناً) نہیں ملی۔ ابن عساکر والی روایت کو ابن جوزی اورسیوطی دونوں نے موضوع قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر4۔یاساریۃ الجبل (الاصباہ وغیرہ)
ابن عمر سے روایت ہے کہ عمر نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک شخص کو امیر بنایا جس کا نام ساریہ تھا آپ خطبہ دے رہے تھے کہ آپ نے پکار کر کہا ساریہ پہاڑ کو لازم پکڑ لشکر سے ایک قاصد آیا کہنے لگا اے امیر المومنین جب ہم دشمن سے ملے تو ہماری شکست ہوئی تو ایک پکارنے والے نے پکارا اے ساریہ پہاڑ کو لازم پکڑ ہم نے اپنی پیٹھیں پہاڑ کی طرف کر لیں تو اﷲ نے ان کو شکست دی روایت کیااس کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں ۔
تحقیق:حدیث نمبر5۔ الابدال یکونون بالشام ۔(مسند احمد ج1ص112)
شریح بن عبید سے روایت ہے کہ اہل شام کا علی رضی اﷲ عنہ کے پاس ذکر کیاگیا اور کہاگیا اے امیر المومنین ان پر لعنت کریں آپ نے فرمایا نہیں میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے فرماتے تھے ابدال اہل شام میں ہوں گے وہ چالیس آدمی ہیں جب بھی ان میں سے کوئی آدمی فوت ہوجاتا ہے اس کی جگہ اور آدمی اﷲ تعالیٰ بدل دیتا ہے ان کی برکت سے بارش برستی ہے ان کی دعاؤں سے دشمنوں پر فتح حاصل کی جاتی ہے اور اہل شام سے ان کی وجہ سے عذاب پھیر دیاجاتا ہے
تحقیق: اسکی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے(مسند احمد بتحقیق احمد محمد شاکر ج2 ص171 ح869) شریح بن عبید کی جناب علی رضی اﷲ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے
حدیث نمبر 6۔
تحقیق:
حدیث نمبر7۔ یاجابر اول ما خلق اﷲ نور نبیک ۔ اے جابر اﷲ نے سب سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا کیا ۔(زرقانی، نشر الطیب وغیرہ )
تحقیق:
محمد بن سنان اور جابر الجعفی کے علاوہ اس کی سند میں المفضل بن صالح (ابو جمیلہ الاسدی) ہے جسے ابن الفضائری (رافضی) وغیرہ نے کذاب یضع الحدیث قرار دیا ہے (تنقیح المقال للمامقانی الرافضی ج3 ص237-238) بلکہ ہاشم معروف (رافضی) نے لکھا ہے کہ ۔ (الموضوعات ص 230 بحوالہ رجال الشیعہ فی المیزان ص 119 الکویت) یعنی اسماء الرجال میں سے (رافضی ) مصنفین کا اتفاق ہے کہ یہ شخص جھوٹا تھا اور احادیث گھڑتا تھا۔
حدیث نمبر8۔ سعید بن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ جب حرہ کا واقعہ پیش آیا تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں تین دن اذان اور اقامت نہ کہی گئی اور سعید بن مسیّب کو نماز کا وقت معلوم نہیں ہوتا تھا مگر خفی آواز سے کہ اس حجرہ کے اندر سے سنتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک وہاں تھی۔ (سنن الدارمی ج1 ص44 ح94)
تحقیق: اس روایت کے ایک راوی سعید بن عبد العزیز ثقہ ہیں مگر آخر عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے (تہذیب التقریب، و عام کتب الرجال، کتب المختلطین، التلخیص الحبیر ج3 ص180 اسکا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ مروان بن محمد نے انکے اختلاط سے پہلے روایت کی ہے۔ دوسرا یہ کہ سعید نے اسکی صراحت بھی بیان نہیں فرمائی کہ سعید بن المسیّب کا یہ واقعہ انہیں کس سند سے معلوم ہوا تھا؟
حدیث نمبر9۔ ابی الجوزاو سے روایت ہے کہ مدینہ میں سخت قحط پڑ گیا پس انہوں نے عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے پاس شکایت کی عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا تم قبر نبوی اور آسمان کے درمیان روشن دان بناؤ یہاں تک کہ قبر اور آسمان کے درمیان رکاوٹ نہ ہو۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا جیسا کہ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا۔ بہت زیادہ بارش برسائی گئی یہاں تک کہ گھاس اگی اور اونٹ موٹے ہوگئے اور چربی سے پھٹ گئے تو اس سال کا نام فتق رکھا گیا۔
تحقیق: عمرو بن مالک کی بعض محققین نے توثیق کی ہے مگر امام بخاری رحمۃ اﷲ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے (تہذیب ج1 ص336) ابو الجوزاء اوس بن عبداﷲ کی ام المومنین سے ملاقات میں اختلاف ہے ا س روایت میں بشرط صحت۔ ا س نے نہیں بتایا کہ اسے یہ روایت کس ذریعہ سے معلوم ہوئی ہے؟ ایسی مشکوک اور منقطع روایت پر قبر پرستی کی بنیاد رکھنا انتہائی مذموم حرکت ہے۔ ۔
حدیث نمبر 10۔ ایک روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ آدم علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا کی تھی۔ (المستدرک حاکم ج2 ص218)
تحقیق: اسے حافظ ذہبی نے موضوع اور باطل قرار دیا (میزان وغیرہ) اس کے ایک راوی عبد الرحمن بن زید بن اسلم کے بارے میں صاحب مستدرک امام حاکم فرماتے ہیں: روی عن ابیہ احادیث موضوعۃ الخ (المدخل الی الصحیح ص 154) یعنی اس نے اپنے باپ سے موضوع روایات بیان کی ہیں۔ (جن کی ملامت اسی پر ہے) اس کا شاگرد عبداﷲ بن سلم مجہول (یا) المعجم الصغیر میں مجہول راویوں کے ساتھ اس کی دوسری سند موجود ہے جس کا موضوع ہونا ظاہر ہے۔ (دیکھئے مجمع الزوائد 8 ص253)وغیرہ۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ ہمیں کتاب وسنت پر ثابت قدم رکھے اور ہمارا خاتمہ من احب اﷲ و ابغض ﷲ و اعطی ﷲ ومنع ﷲ فقد استکمل الایمان کے مطابق ہو ۔آمین۔
وما علینا الا البلاغ