موضوع روایات کی طرح ان کو وضع کرنے والے دجالوں کے سلسلہ میں علماء اورمحدثین نے سخت موقف اختیار کیا ہے۔ ان کے نزدیک حدیث وضع کرنے والا گویا اسی سلوک کا مستحق ہے جو سلوک مرتد اور مفسد کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
ابو العباس سراج کہتے ہیں کہ میںمحمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس حاضر ہوا اوران کو ابن کرام کاایک مکتوب دیا جس میں چند احادیث کے بارے میں سوال کیا گیا تھا، ان میں زہری، سالم اور سالم کے والد کی سند سے یہ روایت بھی تھی کہ:
"الايمان لا يزيد ولا ينقص" (ایمان گھٹتا اور بڑھتا نہیں ہے)۔
تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خط کی پشت پر لکھا کہ :
"من حدث بهذا استوجب به الضرب الشديد والحبس الطويل"
(جس نے یہ حدیث بیان کی ہے وہ سخت سزا اور طویل قید کا مستحق ہے)۔
الاباطیل والمناکیر ، 1 / 1920
وضع حدیث کا مرتکب اکبر کبائر کا مرتکب گردانا گیا ہے۔
قواعد التحدیث ص:152
اور ابو محمد الجوینی نے اس کی تکفیر کی ہے۔
الحدیث النبوی ، ص:332
اسی طرح ائمہ مالکیہ میں ناصر الدین ابن المنیر نے بھی اس کی تکفیر کی ہے۔
موضوعات کبیر ص:9 ۔ نزہۃ النظر ص:58
علامہ ذہبی نے ابو داؤد کے حوالے سے لکھا ہے کہ یحییٰ بن معین نے سوید الانباری کے بارے میں کہا ہے وہ "حلال الدم (اس کا خون حلال)" ہے۔
میزان الاعتدال ، 1 / 445
ابن عتیبہ نے معلی کے بارے میں کہا کہ اگر وہ ابن نجیع سے فلاں موضوع روایت بیان کرتاہے تو اسکی گردن مار دینے کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ عبدالکریم بن ابی احوجا اور محمد بن مصلوب جیسے کذبوں کو قتل کی سزا دی گئی۔
تدریب الراوی۔ 1 / 284
ایسے مجرموں کی گواہی مردود اوراس کی ثقاہت مجروح ہے۔ وہ اگر توبہ بھی کر لے تب بھی اہلِ علم کے نزدیک ناقابلِ اعتبار ہے اس کی کوئی روایت قبول نہیں کی جائے گی۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے ایک راوی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ایک جھوٹی حدیث بیان کی پھر توبہ کر لی تو انہوں نے جواب دیا کہ اس کی توبہ اللہ اور اس کے درمیان مگر اس سے حدیث کبھی روایت نہیں کی جائے گی۔
کتاب الکفایۃ فی علم الروایۃ ، ص:155
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث چار قسم کے لوگوں سے نہیں لی جائے گی:
1۔وہ آدمی جو بے وقوفی میں مشہور ہے اگرچہ وہ زیادہ روایت کرنے والا ہے۔
2۔وہ آدمی جو لوگوں کے معاملے میں جھوٹ بولتا ہے اگرچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ منسوب کرنے کے سلسلہ میں متہم نہیں ہے۔
3۔صاحبِ بدعت جو اپنی بدعت کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے۔
4۔وہ شیخ جو عبادت میں معروف ہے مگر اسے اس کا شعور نہیں کہ وہ کیسی حدیث بیان کرتا ہے۔
السنۃ ومکانتہا فی التشریع الاسلامی۔ ص:109
ابو العباس سراج کہتے ہیں کہ میںمحمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس حاضر ہوا اوران کو ابن کرام کاایک مکتوب دیا جس میں چند احادیث کے بارے میں سوال کیا گیا تھا، ان میں زہری، سالم اور سالم کے والد کی سند سے یہ روایت بھی تھی کہ:
"الايمان لا يزيد ولا ينقص" (ایمان گھٹتا اور بڑھتا نہیں ہے)۔
تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خط کی پشت پر لکھا کہ :
"من حدث بهذا استوجب به الضرب الشديد والحبس الطويل"
(جس نے یہ حدیث بیان کی ہے وہ سخت سزا اور طویل قید کا مستحق ہے)۔
الاباطیل والمناکیر ، 1 / 1920
وضع حدیث کا مرتکب اکبر کبائر کا مرتکب گردانا گیا ہے۔
قواعد التحدیث ص:152
اور ابو محمد الجوینی نے اس کی تکفیر کی ہے۔
الحدیث النبوی ، ص:332
اسی طرح ائمہ مالکیہ میں ناصر الدین ابن المنیر نے بھی اس کی تکفیر کی ہے۔
موضوعات کبیر ص:9 ۔ نزہۃ النظر ص:58
علامہ ذہبی نے ابو داؤد کے حوالے سے لکھا ہے کہ یحییٰ بن معین نے سوید الانباری کے بارے میں کہا ہے وہ "حلال الدم (اس کا خون حلال)" ہے۔
میزان الاعتدال ، 1 / 445
ابن عتیبہ نے معلی کے بارے میں کہا کہ اگر وہ ابن نجیع سے فلاں موضوع روایت بیان کرتاہے تو اسکی گردن مار دینے کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ عبدالکریم بن ابی احوجا اور محمد بن مصلوب جیسے کذبوں کو قتل کی سزا دی گئی۔
تدریب الراوی۔ 1 / 284
ایسے مجرموں کی گواہی مردود اوراس کی ثقاہت مجروح ہے۔ وہ اگر توبہ بھی کر لے تب بھی اہلِ علم کے نزدیک ناقابلِ اعتبار ہے اس کی کوئی روایت قبول نہیں کی جائے گی۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے ایک راوی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ایک جھوٹی حدیث بیان کی پھر توبہ کر لی تو انہوں نے جواب دیا کہ اس کی توبہ اللہ اور اس کے درمیان مگر اس سے حدیث کبھی روایت نہیں کی جائے گی۔
کتاب الکفایۃ فی علم الروایۃ ، ص:155
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث چار قسم کے لوگوں سے نہیں لی جائے گی:
1۔وہ آدمی جو بے وقوفی میں مشہور ہے اگرچہ وہ زیادہ روایت کرنے والا ہے۔
2۔وہ آدمی جو لوگوں کے معاملے میں جھوٹ بولتا ہے اگرچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ منسوب کرنے کے سلسلہ میں متہم نہیں ہے۔
3۔صاحبِ بدعت جو اپنی بدعت کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے۔
4۔وہ شیخ جو عبادت میں معروف ہے مگر اسے اس کا شعور نہیں کہ وہ کیسی حدیث بیان کرتا ہے۔
السنۃ ومکانتہا فی التشریع الاسلامی۔ ص:109