جنگ کا طبل بج چکا تھا مسلمانوں اور کفار کی فوج آمنے سامنے تھی ۔ کفار کی طرف سے ایک شہسوار اور دلیر آدمی نے اپنے گھوڑے کی پشت پر چھلانگ لگائی ، اپنی تلوار کو لہراتے ہوئے تکبر اور غرور سے بولا کوئی ہے مرد میدان جو میرے مقابلے پر آئے ۔ کسی صحابی نے اس کی للکار کا جواب نہیں دیا کیونکہ سب جانتے تھے کہ وہ عمرو بن عبدود ہے جو عرب کا مشہور لڑاکا ہے جو اکیلا ہی بہت سوں پر بھاری ہے جو اپنی تلوار کے ایک وار سے ہی دسیوں کا کام تمام کردیتا ہے تو اس کے مقابلے پر آنے کی کون جرات کرتا۔ مسلمانوں کی فوج میں خاموشی چھا گئی
اتنے میں ایک نوعمر نوجوان اٹھا جو عفوان شباب پر تھا ، رگ و پے میں ایمان اتر چکا تھا ، دل اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبریز تھا ۔ اس نوجوان نے عمرو بن عبدود کی للکار کا جواب دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مقابلے پر جانے کی اجازت طلب کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹھ جاؤ جانتے نہیں وہ عمرو بن عبدود ہے ۔ وہ نوجوان خاموشی سے بیٹھ گیا
عمرو بن عبدود نے پھر للکارا کوئی ہے مرد میدان جو میرے مقابلے پر آئے ۔ کہاں ہے تمہاری جنت ، جس کے بارے میں تمہارا گمان ہے کہ جو قتل ہو وہ جنت میں جاتا ہے تو کیا وہ جنت کسی کو نہیں چاہیے ۔
سب صحابہ خاموشی سے بیٹھے رہے لیکن وہی نوعمر نوجوان پھر اٹھا اور اسکی للکار کا جواب دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ازراہ شفقت فرمایا بیٹھ جاؤ تم جانتے نہیں کہ وہ عمرو ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ اس لڑاکے کے مقابلے پر اس نو عمر لڑکے کی بجائے کوئی تجربہ کار آدمی جائے ۔
عمرو بن عبد مسلمانوں کا مذاق اڑانے لگا ۔ اور یہ شعر پڑھنے لگا
ان کو پکار پکار کر میرا گلا بیٹھ گیا کہ ہے کوئی جو مقابلے میں آئے
جب میں میدان میں کھڑا ہوتا ہوں تو ان کے بہادر بھی بزدل ہو جاتے ہیں
عمرو بن عبدود نے جب یہ دل دہلا دینے والے کلمات کہے تو اس نوجوان سے برداشت نہ ہوا اور وہ بھاگ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اجازت طلب کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ وہ عمرو ہے ۔اس پر اس نوجوان نے کہا کہ عمرو ہی کیوں نہ ہو مجھے اپنے اللہ پر توکل ہے ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی ۔
نوجوان نے اپنی تلوار لی اور گھوڑے پر سوار ہوکر عمرو بن عبدود کے سامنے پہنچ گیا ۔ عمرو نے پوچھا اسے لڑکے تو کون ہے ۔ انہوں نے جواب دیا میں فلاں اب فلاں ہوں ۔ عمرو نے کہا اے بھتیجے تمہارے بڑے کہاں ہیں جو عمر میں تجھ سے بڑے ہوں میں تمہارا خون بہانا پسند نہیں کرتا
اس نوجوان نے کہا میں تمہیں دو باتوں کی طرف بلاتا ہوں یا تو اسلام قبول کرلو یا مجھ سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ عمرو نے کہا کہ اسلام کی مجھے کوئی ضرورت نہیں اور اپنی تلوار نکال کر اس نوجوان پر حملہ کردیا تلوار ایک شعلے کی طرح اس نوجوان کی طرف آئی ۔ اس نوجوان نے فورا" اپنی ڈھال پر وار روکا لیکن وار میں اس قدر قوت تھی کہ وہ ڈھال کو توڑتی ہوئی اس میں پھنس گئی اور ڈھال سر پر لگنے سے نوجوان کا سر زخمی ہوگیا ۔ اب اس نوجوان نے وار کیا اور اس قدر طاقت سے کیا کہ تلوار اس کی زرہ کو کاٹتی ہوئی اس کے کندھے پر لگی اور عمرو وار کی قوت کی وجہ سے خون میں لت پت ہوکر گھوڑے سے گر گیا
ہر طرف سے اللہ اکبر کی آوازیں بلند ہوئی اور سب نے کہا بے شک تم ہی جوان مرد ہو
جانتے ہیں یہ نوجوان کون تھا ۔ دنیا اس نوجوان کو شیر خدا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے جو واقعی خدا کے شیر تھے
(سیرت ابن ہشام 236/3 )
اتنے میں ایک نوعمر نوجوان اٹھا جو عفوان شباب پر تھا ، رگ و پے میں ایمان اتر چکا تھا ، دل اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبریز تھا ۔ اس نوجوان نے عمرو بن عبدود کی للکار کا جواب دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مقابلے پر جانے کی اجازت طلب کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹھ جاؤ جانتے نہیں وہ عمرو بن عبدود ہے ۔ وہ نوجوان خاموشی سے بیٹھ گیا
عمرو بن عبدود نے پھر للکارا کوئی ہے مرد میدان جو میرے مقابلے پر آئے ۔ کہاں ہے تمہاری جنت ، جس کے بارے میں تمہارا گمان ہے کہ جو قتل ہو وہ جنت میں جاتا ہے تو کیا وہ جنت کسی کو نہیں چاہیے ۔
سب صحابہ خاموشی سے بیٹھے رہے لیکن وہی نوعمر نوجوان پھر اٹھا اور اسکی للکار کا جواب دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ازراہ شفقت فرمایا بیٹھ جاؤ تم جانتے نہیں کہ وہ عمرو ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ اس لڑاکے کے مقابلے پر اس نو عمر لڑکے کی بجائے کوئی تجربہ کار آدمی جائے ۔
عمرو بن عبد مسلمانوں کا مذاق اڑانے لگا ۔ اور یہ شعر پڑھنے لگا
ان کو پکار پکار کر میرا گلا بیٹھ گیا کہ ہے کوئی جو مقابلے میں آئے
جب میں میدان میں کھڑا ہوتا ہوں تو ان کے بہادر بھی بزدل ہو جاتے ہیں
عمرو بن عبدود نے جب یہ دل دہلا دینے والے کلمات کہے تو اس نوجوان سے برداشت نہ ہوا اور وہ بھاگ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اجازت طلب کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ وہ عمرو ہے ۔اس پر اس نوجوان نے کہا کہ عمرو ہی کیوں نہ ہو مجھے اپنے اللہ پر توکل ہے ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی ۔
نوجوان نے اپنی تلوار لی اور گھوڑے پر سوار ہوکر عمرو بن عبدود کے سامنے پہنچ گیا ۔ عمرو نے پوچھا اسے لڑکے تو کون ہے ۔ انہوں نے جواب دیا میں فلاں اب فلاں ہوں ۔ عمرو نے کہا اے بھتیجے تمہارے بڑے کہاں ہیں جو عمر میں تجھ سے بڑے ہوں میں تمہارا خون بہانا پسند نہیں کرتا
اس نوجوان نے کہا میں تمہیں دو باتوں کی طرف بلاتا ہوں یا تو اسلام قبول کرلو یا مجھ سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ عمرو نے کہا کہ اسلام کی مجھے کوئی ضرورت نہیں اور اپنی تلوار نکال کر اس نوجوان پر حملہ کردیا تلوار ایک شعلے کی طرح اس نوجوان کی طرف آئی ۔ اس نوجوان نے فورا" اپنی ڈھال پر وار روکا لیکن وار میں اس قدر قوت تھی کہ وہ ڈھال کو توڑتی ہوئی اس میں پھنس گئی اور ڈھال سر پر لگنے سے نوجوان کا سر زخمی ہوگیا ۔ اب اس نوجوان نے وار کیا اور اس قدر طاقت سے کیا کہ تلوار اس کی زرہ کو کاٹتی ہوئی اس کے کندھے پر لگی اور عمرو وار کی قوت کی وجہ سے خون میں لت پت ہوکر گھوڑے سے گر گیا
ہر طرف سے اللہ اکبر کی آوازیں بلند ہوئی اور سب نے کہا بے شک تم ہی جوان مرد ہو
جانتے ہیں یہ نوجوان کون تھا ۔ دنیا اس نوجوان کو شیر خدا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے جو واقعی خدا کے شیر تھے
(سیرت ابن ہشام 236/3 )