حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات طبعی تھی یا حادثاتی؟
کچھ لوگ اس معاملے میں صحابہ کا نام لیتے ہیں کہ انہوں نے معاذ اللہ انہیں شہید کیا تھا۔
کیا یہ درست ہے؟
معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڈھا کھدوایا اوراس کے اوپر سے اسے چھپا کر وہاں پر اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کو بلوایا اماں عائشہ رضی اللہ عنہا وہاں پہچنچی تو گڈھے میں گرگئی اور ان کی وفات ہوگئیں ۔
اس جھوٹ اوربہتان کے برعکس بخاری کی اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کہ فطری وفات ہوئی تھی کیونکہ اگر گڈھے میں گر کر وفات ہوگئی ہوتی تو پھر وفات سے قبل لوگوں کی آمدرفت کا سلسلہ نہ ہوتا اسی طرح اجازت وغیرہ کا ذکر بھی نہ ہوتا کیونکہ یہ صورت حال اسی وقت ہوتی ہے جب کسی کی وفات اس کے گھر میں فطری طور پر ہو۔
نیز بخاری کی یہی حدیث صحیح ابن حبان میں بھی ہے اوراس میں ابن عباس کے لئے عیادت کے الفاظ ہیں ، ملاحظہ ہو
قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ مِنْ صَالِحِي بَنِيكَ جَاءَكِ يَعُودُكِ , قَالَتْ: فَأْذَنْ لَهُ فَدَخَلَ عَلَيْهَا[صحيح ابن حبان: 16/ 41]۔
عیادت کا لفظ بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات فطری طریقہ پرہوئی تھی ۔
بلکہ حاکم کی روایت میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیماری کی پوری صراحت ہے ملاحظہ ہوں الفاظ
جاء ابن عباس يستأذن على عائشة رضي الله عنها في مرضها [المستدرك على الصحيحين للحاكم: 4/ 9 ، صححہ الحاکم ووافقہ الذھبی]۔
کیا یہ درست ہے؟
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات طبعی ہی تھی کیونکہ وفات میں اصل یہی ہے اور اس اصل کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے ، بلکہ بعض روایات سے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی طبعی وفات ہی کی طرف اشارہ ملتا ہے چنانچہ
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَبْلَ مَوْتِهَا عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ مَغْلُوبَةٌ، قَالَتْ: أَخْشَى أَنْ يُثْنِيَ عَلَيَّ، فَقِيلَ: ابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْ وُجُوهِ المُسْلِمِينَ، قَالَتْ: ائْذَنُوا لَهُ، فَقَالَ: كَيْفَ تَجِدِينَكِ؟ قَالَتْ: بِخَيْرٍ إِنِ اتَّقَيْتُ، قَالَ: «فَأَنْتِ بِخَيْرٍ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، زَوْجَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَنْكِحْ بِكْرًا غَيْرَكِ، وَنَزَلَ عُذْرُكِ مِنَ السَّمَاءِ» وَدَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلاَفَهُ، فَقَالَتْ: دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَثْنَى عَلَيَّ، وَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ نِسْيًا مَنْسِيًّا
[صحيح البخاري: 6/ 106 رقم 4753 ]۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَبْلَ مَوْتِهَا عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ مَغْلُوبَةٌ، قَالَتْ: أَخْشَى أَنْ يُثْنِيَ عَلَيَّ، فَقِيلَ: ابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْ وُجُوهِ المُسْلِمِينَ، قَالَتْ: ائْذَنُوا لَهُ، فَقَالَ: كَيْفَ تَجِدِينَكِ؟ قَالَتْ: بِخَيْرٍ إِنِ اتَّقَيْتُ، قَالَ: «فَأَنْتِ بِخَيْرٍ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، زَوْجَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَنْكِحْ بِكْرًا غَيْرَكِ، وَنَزَلَ عُذْرُكِ مِنَ السَّمَاءِ» وَدَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلاَفَهُ، فَقَالَتْ: دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَثْنَى عَلَيَّ، وَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ نِسْيًا مَنْسِيًّا
[صحيح البخاري: 6/ 106 رقم 4753 ]۔
ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے تھوڑی دیر پہلے، جبکہ وہ نزع کی حالت میں تھیں، ابن عباس نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میری تعریف نہ کرنے لگیں۔ کسی نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور خود بھی عزت دار ہیں (اس لئے آپ کو اجازت دے دینی چاہئے) اس پر انہوں نے کہا کہ پھر انہیں اندر بلا لو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا کہ آپ کس حال میں ہیں؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں خدا کے نزدیک اچھی ہوں تو سب اچھا ہی اچھا ہے۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ انشاءاللہ آپ اچھی ہی رہیں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور آپ کی برات (قرآن مجید میں) آسمان سے نازل ہوئی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی خدمت میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما حاضر ہوئے۔ محترمہ نے ان سے فرمایا کہ ابھی ابن عباس آئے تھے اور میری تعریف کی، میں تو چاہتی ہوں کہ کاش میں ایک بھولی بسری گمنام ہوتی۔
معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڈھا کھدوایا اوراس کے اوپر سے اسے چھپا کر وہاں پر اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کو بلوایا اماں عائشہ رضی اللہ عنہا وہاں پہچنچی تو گڈھے میں گرگئی اور ان کی وفات ہوگئیں ۔
اس جھوٹ اوربہتان کے برعکس بخاری کی اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کہ فطری وفات ہوئی تھی کیونکہ اگر گڈھے میں گر کر وفات ہوگئی ہوتی تو پھر وفات سے قبل لوگوں کی آمدرفت کا سلسلہ نہ ہوتا اسی طرح اجازت وغیرہ کا ذکر بھی نہ ہوتا کیونکہ یہ صورت حال اسی وقت ہوتی ہے جب کسی کی وفات اس کے گھر میں فطری طور پر ہو۔
نیز بخاری کی یہی حدیث صحیح ابن حبان میں بھی ہے اوراس میں ابن عباس کے لئے عیادت کے الفاظ ہیں ، ملاحظہ ہو
قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ مِنْ صَالِحِي بَنِيكَ جَاءَكِ يَعُودُكِ , قَالَتْ: فَأْذَنْ لَهُ فَدَخَلَ عَلَيْهَا[صحيح ابن حبان: 16/ 41]۔
عیادت کا لفظ بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات فطری طریقہ پرہوئی تھی ۔
بلکہ حاکم کی روایت میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیماری کی پوری صراحت ہے ملاحظہ ہوں الفاظ
جاء ابن عباس يستأذن على عائشة رضي الله عنها في مرضها [المستدرك على الصحيحين للحاكم: 4/ 9 ، صححہ الحاکم ووافقہ الذھبی]۔
یہ اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات فطری طورپر مرض الموت میں ان کے گھر پر ہوئی تھی ۔