اللہ نے اپنے بندوں کو سیدھا راستہ بتانے کے لیے اپنی خصوصی رحمت سے نبوت و رسالت کا سلسلہ شروع کیا جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کر اختتام پذیر ہوا۔جس کو اللہ کی آخری کتاب حق نے اپنی ایک سو آیات کے ذریعہ بیان فرمایا جن میں سے تین آیات پیش خدمت ہیں۔
۱۔قل یا یہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا( اعراف:۱۵۸)
(اے نبی) آپ کہیں اے لوگو بے شک میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف۔
۲۔و ما ارسلناک الا کافۃ للناس بشیرا و نذیرا( سبا:۲۸)
اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر
۳۔وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین(سورۃ انبیاء:۱۰۷)
اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر
ان تینوں آیات میں اللہ کے آخری نبی سے متعلق واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ وہ ذات مقدسہ تمام انسانوں کے لیے نبی و رسول اور تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ جب کہ قرآنی اسلوب سے واضح طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب بھی کسی نبی کا تذکرہ ہوا تو یہ بھی بتایا گیا کہ وہ کسی قوم کے لیے رسول و نبی بن کر آئے مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
لقد ارسلنا نوحاً الی قومہ( اعراف:۵۹)
والی عاد اخاہم ہودا قال یقوم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ(اعراف:۶۵)
ولوطا اذ قال لقومہ( اعراف:۸۰)
مگر جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت تذکرہ قرآن میں ہوتا ہے تو قرآن اپنے سابقہ اسلوب کو تبدیل کر کے بجائے کسی قوم کو مخاطب کرنے کے ان لفظوں میں نبوت و رسالت محمد کا اعلان کرتا ہے کہ:
یایہا الناس انی رسول اللّٰہ الیکم جمیعاً
و ما ارسلناک الا رحمۃ اللعالمین۔
کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی قبیلہ و علاقہ کے لیے نہیں وہ تمام انسانیت کے لیے نبی و رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ ایسے ہی خود صاحب ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنی نبوت سے متعلق تقریباً دو صد فرامین جاری فرمائے جن میں سے تین فرامین پیش خدمت ہیں۔
۱۔قال کانت بنوا اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلما ہلک نبی خلفہ نبی وانہ لا نبی بعدی و سیکون خلفاء فیکثرون
(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی سیاست خود ان کے انبیاء علیھم السلام کیا کرتے تھے جب کسی نبی کی وفات ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے نبی کو ان کاخلیفہ بنا دیتا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔
۲۔قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم لعلیّ انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی۔
(بخاری ،ذکر غزوۃ تبوک)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم میرے ساتھ ایسے ہو جیسے ہارون موسیٰ کے ساتھ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
۳۔قال رسول الّٰلہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم یایہا الناس انہ لم یبق من النبوۃ الا المبشرات۔
(بخاری ، کتاب التعبیر)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! نبوت کا کوئی جز باقی نہیں سوائے اچھے خوابوں کے۔
صاحب ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان تین فرامین سے بالکل واضح طور پر یہی بات سامنے آرہی ہے کہ آپ پوری انسانیت کے لیے نبی و رسول ہیں آپ کے بعد کوئی نبوت و رسالت نہیں۔ ہاں ایک ارشاد آپ کا اس طرح بھی ہے کہ:
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم انّہ سیکون فی امتی کذابون ثلثون کلہم یزعم انہ نبی وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی۔
(مسلم)
آپ نے فرمایا قریب ہے کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے۔ جن میں سے ہر ایک کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔
ان مذکورہ فرامینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بالکل یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ تمام انسانوں کے لیے اور تمام جہانوں کے لیے نبی و رسول ہیں اور اگر آپ کے بعد کوئی شخص دعوائے نبوت کرے وہ جھوٹا ہے۔
صاحب ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس ابھی زندہ تھے کہ دو آدمیوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ان میں ایک کانام مسیلمہ تھا ۔مسیلمہ نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اس کے دعویٰ نبوت کے بعد کافی تعداد میں اس کے پیروکار ہوئے اور مسیلمہ اپنی نبوت کے دعوے کے ساتھ حضور علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کرتا تھا اور اس کی اذان میں حضور علیہ السلام کی رسالت کی گواہی دی جاتیتھی مگر چونکہ وہ آپ کے منصب ختم نبوت کا منکر تھا۔ آپ کے بعد نبوت کا عویدار تھا۔ حضور علیہ السلام نے خود بھی اس کو مرتد سمجھ کر اس کے خلاف اعلانِ جنگ فرمایا اور اس اعلانِ جنگ کو صحابہ رضوان اللہ علیہم نے باوجودیکہ حضور علیہ السلام کے انتقال کے بعدکا وقت صحابہ و عمائدین ملت کے لیے انتہائی پریشانی کا وقت تھالیکن اس پریشانی کے عالم میں بھی فقہاء صحابہ مسیلمہ کا قلع قمع کرنے کو ضروری سمجھا کہ اس کدّ و کاوش میں صحابہ کو جتنا جانی نقصان اٹھانا پڑا،اتنا اس سے پہلے دین کی تمام جنگوں کو ملا کر بھی جانی نقصان نہیں ہوا کیونکہ یہ منصبِ ختمِ نبوت پر ڈاکہ تھا اس کو ہر حال میں ختم کرنا بھی ضروری تھا۔ اس کے بعد بھی جب کبھی کسی نے نبوت و رسالت کا دعویٰ کیا قرآن کی ایک سو آیات حضور علیہ السلام کے تقریباً دو صد فرامین کی روشنی میں مسلمانوں نے کبھی بھی کسی دعوائے نبوت کو چلنے نہ دیا۔ پوری امت محمدیہ اس بات پر متفق ہے۔ حضور علیہ السلام کے بعد کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
حضور علیہ السلام کی نبوت و رسالت کے بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ان میں ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی بھی ہے جس نے تقریباً ایک سو سال پہلے دعویٰ نبوت کیا اور یہ کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔ اس کی کتابیں اس قسم کے دعووں سے بھری پڑی ہیں۔
۱۔ چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے میرے پاس آئیل آیا اور اس نے مجھے چن لیا اور اپنی انگلی کو گردش دی اور یہ اشارہ کیا کہ خدا کا وعدہ آ گیا (اور اس پر حاشیہ لکھا)اس جگہ آئیل خدا تعالیٰ نے جبرائیل کا نام رکھا اس لیے بار بار رجوع کرتا ہے۔
(حقیقۃ الوحی مندرجہ روحانی خزائن،جلد۲۲،صفحہ ۱۰۶)
۲۔ غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لیے میں مخصوص کیا گیا ہوں اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ ان میں پائی نہیں گئی۔
( حقیقۃ الوحی مندرجہ روحانی خزائن جلد۲۲،صفحہ۴۰۷)
۳۔ یہ کس قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وحی الٰہی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا اور آئندہ کو قیامت تک اس کی کوئی بھی امید نہیں۔ صرف قصوں کو پوجا کرو۔ پس ایسا مذہب کچھ مذہب ہو سکتا ہے جن میں براہِ راست خدا تعالیٰ کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا جو کچھ ہیں قصے ہیں اور کوئی اگرچہ اس کی راہ میں اپنی جان بھی فدا کرے، اس کی رضا جوئی میں فنا ہو جائے، ہر ایک چیز پر اس کو اختیار کر لے ......تب بھی وہ اس پر اپنی شناخت کا دروازہ نہیں کھولتا اور مکالمات اور مخاطبات سے اس کو مشرف نہیں کرتا اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس زمانہ میں مجھ سے زیادہ بیزار ایسے مذہب سے اور کوئی نہ ہو گا میں ایسے مذہب کا نام شیطانی مذہب رکھتا ہوں نہ کہ رحمانی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ایسا مذہب جہنم کی طرف پہنچاتا ہے اور اندھا رکھتا ہے اور اندھا ہی مارتا ہے اور اندھا ہی قبر میں پہنچاتا ہے۔
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ،مندرجہ روحانی خزائن جلد۲۱،صفحہ۳۵۴
یہ چند عبارتیں مرزا قادیانی کی پیش کی گئیں کہ وہ یہ دعویٰ رکھتا ہے کہ اس پر وحی آتی ہے جب کہ اس کے علاوہ کئی حوالہ جات اس کی کتابوں میں موجود ہیں کہ وہ وحی کے اترنے کا دعویدار ہے۔ نیز وہ نبوت ورسالت کا بھی دعویدار ہے جو اس کی کتابوں کے حوالہ سے پیش خدمت ہے۔
۱۔ خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا۔
(اربعین۳،مندرجہ روحانی خزائن ،جلد ۱۷،صفحہ۴۲۶)
۲۔ وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا تا کہ تم سمجھو کہ قادیان اسی لیے محفوظ رکھا گیا کہ وہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا۔(دافع البلاء مندرجہ روحانی خزائن جلد۱۸،صفحہ۲۲۵،۲۲۶)
۳۔ سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔
(دافع البلاء مندرجہ روحانی خزائن جلد۱۸،صفحہ ۲۳۱)
۴۔ مبارک ہے وہ شخص جس نے مجھے پہچانا میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے نوروں میں سے آخری نور ہوں بد قسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔
(روحانی خزائن جلد۱۹،صفحہ۶۱)
۵۔ محمد رسول اللّٰہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینہماس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔
(ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد۱۸،صفحہ۲۰۷)
ان جیسے دیگر بہت سے حوالہ جات سے اس کی کتابیں بھری پڑی ہیں کہ وہ نبوت و رسالت کا دعویدار ہے۔ جب کہ قرآن مجید کی ایک سو آیات ہیں جن میں سے تین اوپر ذکر کی گئیں دو سو فرامین رسول علیہ السلام میں سے تین احادیث ذکر کی گئیں وہ صاف بتا رہی ہیں کہ پوری انسانیت کے لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی رسول ہیں ۔ جب تک انسانیت ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت و نبوت ہے۔ آپ کی نبوت و رسالت آخری نبوت و رسالت ہے۔ آپ کے بعد کوئی نبی و رسول نہیں اور اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی قسم کی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا، کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
مرزا قادیانی کے دعوائے نبوت پر مشتمل عبارات کے سامنے آجانے کے بعد بھی اگر کوئی کہے جیسا کہ مرزائی قادیانی طبقہ ہمیشہ دھوکہ دینے کے لیے کہتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی صرف مجدد یا مہدی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے نبوت کا دعویٰ نہیں تو ان کی خدمت میں یہ درخواست ہے کہ ذرا بتاؤ تو دعویٰ نبوت ہے کیا؟
کیا یہ کہنا کہ ’’سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا‘‘۔ ’’سچا خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا‘‘۔ یہ دعویٰ نبوت و رسالت نہیں ہے تو اور کیا ہے اس کے باوجود بھی اگر کوئی پھر بھی دھوکہ دے کہ مرزا قادیانی نے دعویٰ نبوت نہیں کیا تو ایسے ہی شخص کے لیے مرزا قادیانی یوں کہتے ہیں کہ
’’ہماریجماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعویٰ اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ وہ ایک معمولی مدت تک صحبت میں رہ کر اپنی معلومات کی تکمیل کر سکے وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے اس لیے باوجود اہل حق ہونے کے ان کو ندامت اٹھانی پڑتی ہے۔ چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار سے دیا گیا حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے حق یہ ہے خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوئی ہے اس میں ایسے الفاظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہو سکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں اس وقت تو پہلے کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیح سے الفاظ موجود ہیں۔
(ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد ۱۸،صفحہ۲۰۶)
مرزا قادیانی کی اس تحریر کے بعد بھی اگر کوئی کہتا ہے کہ مرزا قادیانی نے دعوائے نبوت و رسالت نہیں کیا تو وہ بڑا دھوکے باز ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ مینٹل کیس ہو اس کو کسی ہسپتال میں داخل کروانا چاہیے۔
ہاں اگر کوئی شخص اتنا ہی پریشان ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کو نبی و رسول ماننے پر شرمندہ ہے اور کوشش میں ہے کہ اسے کوئی کافر نہ کہے تو اس کے لیے راستہ کھلا ہے یہ کہ حضور علیہ السلام کے بعد کسی قسم کی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرنے والے کے جھوٹا اور کافر ہونے کا اعلان کرے اور اللہ کے آخری نبی و رسول حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی چھتری کے نیچے آ جائے تو وہ مسلمان کہلانے کا مستحق ہو گا۔ دنیا و آخرت میں ہر قسم کی شرمندگی سے نجات ملے گی۔ لیکن اگر کوئی خیال کر لے کہ وہ مرزا قادیانی کو بھی نبی مانے اور مسلمان کہلانے کاحق بھی ہو ۔
ایں خیال است و محال است وجنوں
مولانا محمد مغیرہ
۱۔قل یا یہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا( اعراف:۱۵۸)
(اے نبی) آپ کہیں اے لوگو بے شک میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف۔
۲۔و ما ارسلناک الا کافۃ للناس بشیرا و نذیرا( سبا:۲۸)
اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر
۳۔وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین(سورۃ انبیاء:۱۰۷)
اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر
ان تینوں آیات میں اللہ کے آخری نبی سے متعلق واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ وہ ذات مقدسہ تمام انسانوں کے لیے نبی و رسول اور تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ جب کہ قرآنی اسلوب سے واضح طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب بھی کسی نبی کا تذکرہ ہوا تو یہ بھی بتایا گیا کہ وہ کسی قوم کے لیے رسول و نبی بن کر آئے مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
لقد ارسلنا نوحاً الی قومہ( اعراف:۵۹)
والی عاد اخاہم ہودا قال یقوم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ(اعراف:۶۵)
ولوطا اذ قال لقومہ( اعراف:۸۰)
مگر جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت تذکرہ قرآن میں ہوتا ہے تو قرآن اپنے سابقہ اسلوب کو تبدیل کر کے بجائے کسی قوم کو مخاطب کرنے کے ان لفظوں میں نبوت و رسالت محمد کا اعلان کرتا ہے کہ:
یایہا الناس انی رسول اللّٰہ الیکم جمیعاً
و ما ارسلناک الا رحمۃ اللعالمین۔
کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی قبیلہ و علاقہ کے لیے نہیں وہ تمام انسانیت کے لیے نبی و رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ ایسے ہی خود صاحب ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنی نبوت سے متعلق تقریباً دو صد فرامین جاری فرمائے جن میں سے تین فرامین پیش خدمت ہیں۔
۱۔قال کانت بنوا اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلما ہلک نبی خلفہ نبی وانہ لا نبی بعدی و سیکون خلفاء فیکثرون
(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی سیاست خود ان کے انبیاء علیھم السلام کیا کرتے تھے جب کسی نبی کی وفات ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے نبی کو ان کاخلیفہ بنا دیتا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔
۲۔قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم لعلیّ انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی۔
(بخاری ،ذکر غزوۃ تبوک)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم میرے ساتھ ایسے ہو جیسے ہارون موسیٰ کے ساتھ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
۳۔قال رسول الّٰلہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم یایہا الناس انہ لم یبق من النبوۃ الا المبشرات۔
(بخاری ، کتاب التعبیر)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! نبوت کا کوئی جز باقی نہیں سوائے اچھے خوابوں کے۔
صاحب ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان تین فرامین سے بالکل واضح طور پر یہی بات سامنے آرہی ہے کہ آپ پوری انسانیت کے لیے نبی و رسول ہیں آپ کے بعد کوئی نبوت و رسالت نہیں۔ ہاں ایک ارشاد آپ کا اس طرح بھی ہے کہ:
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم انّہ سیکون فی امتی کذابون ثلثون کلہم یزعم انہ نبی وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی۔
(مسلم)
آپ نے فرمایا قریب ہے کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے۔ جن میں سے ہر ایک کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔
ان مذکورہ فرامینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بالکل یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ تمام انسانوں کے لیے اور تمام جہانوں کے لیے نبی و رسول ہیں اور اگر آپ کے بعد کوئی شخص دعوائے نبوت کرے وہ جھوٹا ہے۔
صاحب ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس ابھی زندہ تھے کہ دو آدمیوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ان میں ایک کانام مسیلمہ تھا ۔مسیلمہ نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اس کے دعویٰ نبوت کے بعد کافی تعداد میں اس کے پیروکار ہوئے اور مسیلمہ اپنی نبوت کے دعوے کے ساتھ حضور علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کرتا تھا اور اس کی اذان میں حضور علیہ السلام کی رسالت کی گواہی دی جاتیتھی مگر چونکہ وہ آپ کے منصب ختم نبوت کا منکر تھا۔ آپ کے بعد نبوت کا عویدار تھا۔ حضور علیہ السلام نے خود بھی اس کو مرتد سمجھ کر اس کے خلاف اعلانِ جنگ فرمایا اور اس اعلانِ جنگ کو صحابہ رضوان اللہ علیہم نے باوجودیکہ حضور علیہ السلام کے انتقال کے بعدکا وقت صحابہ و عمائدین ملت کے لیے انتہائی پریشانی کا وقت تھالیکن اس پریشانی کے عالم میں بھی فقہاء صحابہ مسیلمہ کا قلع قمع کرنے کو ضروری سمجھا کہ اس کدّ و کاوش میں صحابہ کو جتنا جانی نقصان اٹھانا پڑا،اتنا اس سے پہلے دین کی تمام جنگوں کو ملا کر بھی جانی نقصان نہیں ہوا کیونکہ یہ منصبِ ختمِ نبوت پر ڈاکہ تھا اس کو ہر حال میں ختم کرنا بھی ضروری تھا۔ اس کے بعد بھی جب کبھی کسی نے نبوت و رسالت کا دعویٰ کیا قرآن کی ایک سو آیات حضور علیہ السلام کے تقریباً دو صد فرامین کی روشنی میں مسلمانوں نے کبھی بھی کسی دعوائے نبوت کو چلنے نہ دیا۔ پوری امت محمدیہ اس بات پر متفق ہے۔ حضور علیہ السلام کے بعد کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
حضور علیہ السلام کی نبوت و رسالت کے بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ان میں ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی بھی ہے جس نے تقریباً ایک سو سال پہلے دعویٰ نبوت کیا اور یہ کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔ اس کی کتابیں اس قسم کے دعووں سے بھری پڑی ہیں۔
۱۔ چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے میرے پاس آئیل آیا اور اس نے مجھے چن لیا اور اپنی انگلی کو گردش دی اور یہ اشارہ کیا کہ خدا کا وعدہ آ گیا (اور اس پر حاشیہ لکھا)اس جگہ آئیل خدا تعالیٰ نے جبرائیل کا نام رکھا اس لیے بار بار رجوع کرتا ہے۔
(حقیقۃ الوحی مندرجہ روحانی خزائن،جلد۲۲،صفحہ ۱۰۶)
۲۔ غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لیے میں مخصوص کیا گیا ہوں اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ ان میں پائی نہیں گئی۔
( حقیقۃ الوحی مندرجہ روحانی خزائن جلد۲۲،صفحہ۴۰۷)
۳۔ یہ کس قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وحی الٰہی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا اور آئندہ کو قیامت تک اس کی کوئی بھی امید نہیں۔ صرف قصوں کو پوجا کرو۔ پس ایسا مذہب کچھ مذہب ہو سکتا ہے جن میں براہِ راست خدا تعالیٰ کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا جو کچھ ہیں قصے ہیں اور کوئی اگرچہ اس کی راہ میں اپنی جان بھی فدا کرے، اس کی رضا جوئی میں فنا ہو جائے، ہر ایک چیز پر اس کو اختیار کر لے ......تب بھی وہ اس پر اپنی شناخت کا دروازہ نہیں کھولتا اور مکالمات اور مخاطبات سے اس کو مشرف نہیں کرتا اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس زمانہ میں مجھ سے زیادہ بیزار ایسے مذہب سے اور کوئی نہ ہو گا میں ایسے مذہب کا نام شیطانی مذہب رکھتا ہوں نہ کہ رحمانی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ایسا مذہب جہنم کی طرف پہنچاتا ہے اور اندھا رکھتا ہے اور اندھا ہی مارتا ہے اور اندھا ہی قبر میں پہنچاتا ہے۔
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ،مندرجہ روحانی خزائن جلد۲۱،صفحہ۳۵۴
یہ چند عبارتیں مرزا قادیانی کی پیش کی گئیں کہ وہ یہ دعویٰ رکھتا ہے کہ اس پر وحی آتی ہے جب کہ اس کے علاوہ کئی حوالہ جات اس کی کتابوں میں موجود ہیں کہ وہ وحی کے اترنے کا دعویدار ہے۔ نیز وہ نبوت ورسالت کا بھی دعویدار ہے جو اس کی کتابوں کے حوالہ سے پیش خدمت ہے۔
۱۔ خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا۔
(اربعین۳،مندرجہ روحانی خزائن ،جلد ۱۷،صفحہ۴۲۶)
۲۔ وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا تا کہ تم سمجھو کہ قادیان اسی لیے محفوظ رکھا گیا کہ وہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا۔(دافع البلاء مندرجہ روحانی خزائن جلد۱۸،صفحہ۲۲۵،۲۲۶)
۳۔ سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔
(دافع البلاء مندرجہ روحانی خزائن جلد۱۸،صفحہ ۲۳۱)
۴۔ مبارک ہے وہ شخص جس نے مجھے پہچانا میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے نوروں میں سے آخری نور ہوں بد قسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔
(روحانی خزائن جلد۱۹،صفحہ۶۱)
۵۔ محمد رسول اللّٰہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینہماس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔
(ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد۱۸،صفحہ۲۰۷)
ان جیسے دیگر بہت سے حوالہ جات سے اس کی کتابیں بھری پڑی ہیں کہ وہ نبوت و رسالت کا دعویدار ہے۔ جب کہ قرآن مجید کی ایک سو آیات ہیں جن میں سے تین اوپر ذکر کی گئیں دو سو فرامین رسول علیہ السلام میں سے تین احادیث ذکر کی گئیں وہ صاف بتا رہی ہیں کہ پوری انسانیت کے لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی رسول ہیں ۔ جب تک انسانیت ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت و نبوت ہے۔ آپ کی نبوت و رسالت آخری نبوت و رسالت ہے۔ آپ کے بعد کوئی نبی و رسول نہیں اور اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی قسم کی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا، کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
مرزا قادیانی کے دعوائے نبوت پر مشتمل عبارات کے سامنے آجانے کے بعد بھی اگر کوئی کہے جیسا کہ مرزائی قادیانی طبقہ ہمیشہ دھوکہ دینے کے لیے کہتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی صرف مجدد یا مہدی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے نبوت کا دعویٰ نہیں تو ان کی خدمت میں یہ درخواست ہے کہ ذرا بتاؤ تو دعویٰ نبوت ہے کیا؟
کیا یہ کہنا کہ ’’سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا‘‘۔ ’’سچا خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا‘‘۔ یہ دعویٰ نبوت و رسالت نہیں ہے تو اور کیا ہے اس کے باوجود بھی اگر کوئی پھر بھی دھوکہ دے کہ مرزا قادیانی نے دعویٰ نبوت نہیں کیا تو ایسے ہی شخص کے لیے مرزا قادیانی یوں کہتے ہیں کہ
’’ہماریجماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعویٰ اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ وہ ایک معمولی مدت تک صحبت میں رہ کر اپنی معلومات کی تکمیل کر سکے وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے اس لیے باوجود اہل حق ہونے کے ان کو ندامت اٹھانی پڑتی ہے۔ چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار سے دیا گیا حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے حق یہ ہے خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوئی ہے اس میں ایسے الفاظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہو سکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں اس وقت تو پہلے کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیح سے الفاظ موجود ہیں۔
(ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد ۱۸،صفحہ۲۰۶)
مرزا قادیانی کی اس تحریر کے بعد بھی اگر کوئی کہتا ہے کہ مرزا قادیانی نے دعوائے نبوت و رسالت نہیں کیا تو وہ بڑا دھوکے باز ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ مینٹل کیس ہو اس کو کسی ہسپتال میں داخل کروانا چاہیے۔
ہاں اگر کوئی شخص اتنا ہی پریشان ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کو نبی و رسول ماننے پر شرمندہ ہے اور کوشش میں ہے کہ اسے کوئی کافر نہ کہے تو اس کے لیے راستہ کھلا ہے یہ کہ حضور علیہ السلام کے بعد کسی قسم کی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرنے والے کے جھوٹا اور کافر ہونے کا اعلان کرے اور اللہ کے آخری نبی و رسول حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی چھتری کے نیچے آ جائے تو وہ مسلمان کہلانے کا مستحق ہو گا۔ دنیا و آخرت میں ہر قسم کی شرمندگی سے نجات ملے گی۔ لیکن اگر کوئی خیال کر لے کہ وہ مرزا قادیانی کو بھی نبی مانے اور مسلمان کہلانے کاحق بھی ہو ۔
ایں خیال است و محال است وجنوں
مولانا محمد مغیرہ