Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

دل دماغ اور قدیم تہزیب

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • دل دماغ اور قدیم تہزیب

    شروع میں انسان کو دماغ کے ایک اہم عضو کے طور پر موجودگی کی خبر نہ تھی، چنانچہ غور وفکر اور سوچنے سمجھنے کی تمام تر صلاحیتیں قدیم انسان کے لیے ایک معمہ تھا، قدیم مصریوں (2500 قبل از عیسوی) کا خیال تھا کہ عقل دل میں ہوتی ہے اور دماغ بے فائدہ چیز ہے، یہی وجہ تھی کہ جسم کی تحنیط کے وقت وہ ناک کے ذریعے دماغ کو نکال باہر پھینکتے تھے حالانکہ تحنیط کے عمل کا مقصد ہی عالمِ سفلی تک منتقلی کے عمل کے دوران جسم کی حفاظت تھی، تاہم وہ دل کو نہیں نکالتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں دل روح اور عقل کا مرکز تھا

    عظیم یونانی فلسفی ارسطو کا خیال تھا کہ عقل وفکر دل میں انجام پاتی ہے اور دماغ کا کام خون کو ٹھنڈا رکھنا ہے، دی مقراطیس کا خیال تھا کہ روح تین حصوں پر منقسم ہے: عقل سر میں، احساسات دل میں اور لذت جگر میں

    “انسان کو جان لینا چاہیے کہ کچھ نہیں سوائے دماغ کے ہی مسرت، خوشی، ہنسی، کھیل اور غم، رنج، یاسیت اور ماتم آتا ہے. اور اسی سے ہی خصوصی انداز میں ہم حکمت اور علم حاصل کرتے ہیں اور دیکھتے اور سنتے ہیں، اور جانتے ہیں کہ کیا غلط اور کیا صحیح ہے، کیا برا اور کیا اچھا ہے، کیا میٹھا اور کیا بدمزہ ہے”

    دوسری قوموں کی طرح عرب بھی یہ بات نہیں جانتے تھے کہ عقل دماغ میں ہوتی ہے بلکہ ان کا بھی یہی خیال تھا کہ عقل اور فکر کی جگہ دل میں ہے، اسلام کی آمد کے بعد بھی صورتِ حال تبدیل نہ ہوئی، بلکہ اسلام خود اس مغالطے کے کھڈے میں گر گیا اور اس بات کو حقیقت جانتے ہوئے ان جانے میں اس خیال کو تقویت بخشی، قرآن اور حدیث میں ایسے متون موجود ہیں جن سے اس بات کی تصدیق بڑے آرام سے ہوجاتی ہے، سورہ اعراف کی آیت 179 میں یہ مغالطہ بڑے واضح انداز میں بیان ہے کہ سمجھ دل سے ہوتی ہے:

    وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۫ۖ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ ﴿۱۷۹﴾
    اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں۔ انکے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں اور انکی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں۔ اور ان کے کان ہیں پر ان سے سنتے نہیں۔ یہ لوگ بالکل چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے۔ یہی وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

    اور سورہ حج کی آیت 46 اس بات کی مزید تصدیق کرتی نظر آتی ہے:

    اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَتَکُوۡنَ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ یَّعۡقِلُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ اٰذَانٌ یَّسۡمَعُوۡنَ بِہَا ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ ﴿۴۶﴾
    سو کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر نہیں کی تاکہ ان کے دل ایسے ہوتے کہ ان سے سمجھ سکتے اور کان ایسے ہوتے کہ ان سے سن سکتے۔ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہو جاتے ہیں۔

    جبکہ صحیح مسلم میں درج ہے:

    “ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے یونس کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے انس بن مالک سے، انھوں نے فرمایا کہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرئیل علیہ السلام اترے اور انھوں نے میرا سینہ چاک کیا۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا” (حوالہ 1 اور 2

    تشنہ سوالات

    آج کی سائنس ہمیں بتاتی ہے ہم دماغ سے سوچتے ہیں سمجھتے ہیں ہماری عقل جس سے ہم منطقی انداز سے سوچتے ہیں فیصلے کرتے ہیں وہ تمام دماغ میں وقوع پزیر ہوتے ہیں تو قدیم اقوام نے تو اپنی نا سمجھی سے اسے دل میں وقوع ہونے والے معاملات سمجھا مگر اللہ اور قرآن میں ایسا کیوں ہوا؟
    قرآن اور احادیث میں جب بھی سوچے سمجھنے کی بات ہوئی لفظ قلب یا قلوب استعمال ہوا جس کا واضح مطلب دل ہے؟
    پورے قرآن میں کہیں ایک جگہ بھی عقل ، سمجھ بوجھ کے لئے دماغ لفظ استعمال نہیں جبکہ عرب دماغ کو بہت اچھی طرح جانتے تھے جبھی تین آیات میں دوزخ کے ذکر پر دماغ کے ابلنے کھولنے کا ذکر ہوا؟
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں
Working...
X