Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

طلاقِ ثلاثہ کا شرعی حکم

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • طلاقِ ثلاثہ کا شرعی حکم


    اللہ تعالیٰ نے شریعت اسلامیہ میں مرد و زن کے درمیان ناچاقی کی بناء پر جو تفریق ہو جاتی ہے اس کا حل بڑے ہی احسن انداز میں فرمایا ہے۔ جب ایک خاوند اور بیوی کے درمیان تنازع اور اختلاف جنم لیتا ہے اور ان میں مودت و محبت ختم ہو جاتی ہے اور مرد اپنی منکوحہ کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتا تو اسے شریعت کی رو سے حق حاصل ہے کہ وہ اسے طلاق دے کر فارغ کر دے۔ طلاق کا صحیح طریق کار یہ ہے کہ مرد اپنی زوجہ کو اس طہر میں جس میں اس نے مجامعت نہیں کی ایک طلاق دے دے اور بیوی کو اسی حال میں چھوڑ دے یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے ۔ اختتامِ عدت پر بیوی کو ایک طلاق بائن پڑ جاتی ہے۔ دورانِ عدت اگر خاوند کو ندامت وغیرہ ہو اور وہ اپنی بیوی سے رجوع کرنا چاہتا ہے تو اسے رکھ سکتا ہے اور اگر عدت گزرنے کے بعد دونوں میں صلح ہو جائے تو نکاح جدید کے ساتھ دوبارہ اپنا گھر آباد کر سکتے ہیں اور اگر شوہر عدت کے بعد بیوی کو بسانا نہ چاہے تو عورت آزاد ہے وہ کہیں اور اپنا عقد کرواسکتی ہے۔ اگر پہلی طلاق کے بعد شوہر اپنی مطلقہ کو زوجیت میں لے لیتا ہے اور اس کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کر لیتا ہے اور پھر کسی وقت دونوں میں شیطانی وساوس و خطرات کی بنا پر حالات کشیدہ ہو گئے اور صلح و صفائی نہ ہو سکی تو دوسری طلاق دے سکتا ہے جیسا کہ اوپر مذکورہ ہوا۔ اور دوسری طلاق کے بعد عدت کے دوران مرد کو رجوع کا حق ہے اور عدت کے بعد نکاح جدید سے دوبارہ خانہ آبادی ہو سکتی ہے اس کے بعد پھر کبھی تیسری طلاق دے ذالی تو عورت قطعی طور پر حرام ہو جائے گی اور رجوع کا حق ختم ہو جائے گا۔ عورت عدت گزر کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرواسکتی ہے اور یہ نکاح شرعی طریقے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی نیت سے ہو نہ کہ شوہر اوّل کے لئے حلال ہونے کی غرض سے۔۔۔ اب اگر زوجِ ثانی فوت ہو گیا یا زندگی میں کبھی اس نے طلاق دے دی اور یہ عورت دوبارہ اگر شوہراوّل کی طرف لوٹنا چاہے تو عدت کے بعد اس کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے اور ایسا واقعہ ہزاروں میں سے شاید کوئی ایک آدھ ہوا ہو۔

    زمانۂ جاہلیت میں لوگ اپنی بیویوں کو کئی کئی بار طلاق دیتے اور عدت کے اندر رجوع کرتے رہتے تھے نہ عورت کو صحیح بساتے اور نہ ہی آزاد کرتے۔ مقصد زوجہ کو تنگ کرنا ہوتا
    تھا تو اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے اس دستور کو ختم کر کے دوبار رجوع کا حق دے دیا اور تیسری بار بالکل ان کا رشتہ ختم کر ڈالا۔



    ارشاد باری تعالیٰ ہے

    ''طلاق (جس کے بعد خاوند رجوع کر سکتا ہے) دوبار ہے پھر دو طلاقوں کے بعد یا تو دستور کے موافق اپنی بیوی کو رہنے دے یا اچھی طرح سے رخصت کر دے۔''

    (البقرہ : ۲۲۹)



    اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے (الطّلاق مرّتٰن)فرمایا ہے اور مرّتان مرّة کا تثنیہ ہے جس کا مطلب صاف ہے کہ طلاق دو مرتبہ وقفہ بعد وقفہ ہے نہ کہ اکھٹی دو طلاقیں

    اور اس کی کئی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔ ایک مقام پر فرمایا

    اے ایمان والوں تم سے تین مرتبہ تمہارے غلام اور نابالغ بچے بھی اذن طلب کیا کریں نماز فجر سے پہلے اور جب تم دوپہر کو اپنے کپڑتے اتارتے ہو۔ اور عشاء کی نماز کے بعد اور یہ تین اوقات تمہارے لئے پردے کے ہیں۔

    (نور : ۵۸)



    مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ثلاث مرّات کا لفظ استعمال کیا ہے جو کہ مرة کی جمع ہے اور ساتھ ہی اس کی وضاحت بھی کر دی کہ یہ تین اوقات وقفہ بعد وقفہ ہیں جس سے معلوم ہوا کہ مرة میں دفعہ کا مفہوم شامل ہے۔ لہٰذا (الطّلاق مرّتٰن)کا معنی یہ ہوا کہ دو مرتبہ وقفہ بعد وقفہ طلاق ہے جس میں مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے۔ اگر بیک وقت ان طلاقوں کا نفاذ کر دیا جائے تو مرد کو اللہ نے جو سوچ بچار کا وقفہ فراہم کیا تھا وہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے شریعت اسلامیہ میں بیک وقت اکھٹی تین طلاقیں دینے کو
    شرع سے مذاق قرار دیا گیا ہے جیسا کہ سنن نسائی کتاب الطلاق میں حدیث ہے کہ ایک آدمی نے عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں تین اکھٹی طلاقیں دے دیں تو اللہ کے نبی

    صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ناراض ہوئے اور فرمایا


    ''کیا میری موجودگی میں اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔''


    اس حدیث مبارکہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ اکھٹی تین طلاقیں دے دینا شریعت کے ساتھ مذاق ہے اور حرام و ناجائز ہے۔


    (الطّلاق مرّتٰن)

    کے بعد پھر آگے ارشاد فرمایا

    پھر اگر وہ اس کو طلاق دے دے (یعنی تیسری طلاق)تو اب وہ عورت اس کے لئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے پھر اگر وہ (شوہر ثانی ) اس کو طلاق دے دے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ آپس میں رجوع کر لیں اگر انہیں یقین ہے کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیں گے۔

    (البقرہ : ۲۳۰)



    یعنی اس طرح وقفہ بعد وقفہ تیسری طلاق واقع ہو جائے تو عورت مرد کے لئے قطعی طور پر حرام ہو جائے گی تاوقتیکہ عورت کا خانہ آبادی کی خاطر کسی دوسرے مرد سے نکاح ہو اور حسب دستور زندگی گزاریں اور پھر کبھی نا چاقی ہو تو زوج ثانی طلاق دے دے یا فوت ہو جائے تو پھر شوہر اوّل کی طرف بیوی لوٹ سکتی ہے۔ بیک وقت اکھٹی تین طلاقیں
    دے دینے سے صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے شریعت اسلامیہ کا یہی فتویٰ ہے اور عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں یہی طریق کار تھا
    جیسا کہ سیدنا عبداللہ
    بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ


    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالوں میں اکھٹی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھی۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس کام میں لوگوں کے لئے سوچ و بچار کی مہلت دی گئی تھی اس میں انہوںنے جلد ی کی۔ اگر ہم ان تینوں پر لازم کردیں۔۔۔ تو انہوں نے اس فیصلے کو ان پر لازم کر دیا۔

    (صحیح مسلم۱/۴۷۷، مسند احمد۱/۳۱۴)



    اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور عہدِ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں اکھٹی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھی اور عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ شرعی فیصلہ تھا کیونکہ دین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخص پر وحی نازل
    نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جو فیصلہ کیا وہ تہدید اً اور بطورِ سزا کے تھا نہ کہ شرعاً اس طرح درست تھا۔



    اور یہ فیصلہ اگر شرعی تھا سیاسی و تعزیری نہ تھا تو عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ، عہدِ ابی بکر اور خود ان کے ابتدائی دو سالوں میں جو فیصلہ تھا پھر اس کی کیا حیثیت بنتی ہے یہی بات ہے کہ حنفی علماء نے بھی اس کو تعزیری اور سیاسی فیصلہ ہی تسلیم کیا ہے جو کہ ایک حاکم وقت بعض اوقات جاری کر دیتا ہے۔

    اس بات کی تفصیل فقہ کی معروف کتاب جامع الرموز کتاب الطلاق اور حاشیہ طحطاوی ١١٥٢ پر موجود ہے۔



    لہٰذا سال مذکور نے جو اپنی زوجہ کو تین اکھٹی طلاقیں دے دیں وہ شرعاً ایک طلا ق رجعی واقع ہوئی ہے اور سائل نے ایک دن بعد جو اپنی زوجہ سے رجوع کر لیا یہ اس کا شرعی ھق ہے جو اللہ تعالیٰ نے (الطّلاق مرّتٰن) میں عنایت فرمایا اور اس کے بعد مولوی کا سائل کی بیوی کو حلالہ کے لئے اس کے بھائی سے نکاح پڑھنا شرعاً فعل حرام ہے اور مولوی کی جہالت ، نادانی، بے وقوفی اور حماقت ہے ۔ ایسے ہی جاہل مولوی لوگوں کی گمراہی کا باعث بنتے ہیں۔ سائل کے سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی اپنے مذہب سے بھی بے خبر اور جاہل ہے۔ دوران عدت نکاح پڑھنا کسی بھی مکتب فکر کے نزدیک جائز نہیں فقہ کی رو سے جو طلاقِ ثلاثہ کا وقوع ہونا ہے اس کی اجازت نہیں کہ عدت کے دوران ہی نکاح حلالہ کیا جائے اور عورت کو پہلے خاوند کے پاس ہی رہنے دیا جائے اور نکاھ دوسرے شہور سے پڑھ دیا جائے۔ یہ ایک لطیفہ سے کم نہیں۔ بہر کیف حلالہ کروانا شرعاً ناجائز و حرام ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل پر لعنت ذکر کی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے زنا سمجھتے تھے


    ''سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ حلالہ کرنے والے اور کروانے والے پر لعنت کرے۔''

    (مسند احمد۲/۲۲۳، بیہقی۷/۲۷)



    علاوہ ازیں یہی حدیث سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نسائی ، ابنِ ابی شیبہ، جامع ترمذی اور سنن دارمی میں موجود ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح اور امام ابنِ قطان نے بخاری کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ کیجئے التلخیص الحبیر لا بن حجر عسقلانی علاوہ ازیں سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

    کیا میں تمہیں ادھار سانڈھ کی خبر نہ دوں ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ۖ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حلالہ کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ حلالہ کرنے اور کروانے والے پر لعنت کرے۔


    (ابنِ ماجہ۱۹۳۲، مستدرک حاکم۲/۱۹۸، بیہقی۷/۲۰۸)


    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا

    ''اللہ کی قسم میرے پاس حلالہ کرنے والا اور کروانے والا لایا گیا تو میں دونوں کو سنگسار کر دوں گا۔''



    (مصنف عبدالرازق۲/۲۶۵، سنن سعید بن منصور۲/۴۹،۵۰ ، بیہقی۷/۲۰۸)


    عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ

    ''حلالہ کرنے والا مرد و عورت اگرچہ بیس سال اکھٹے رہیں، وہ زنا ہی کرتے رہیں گے۔''

    (المغنی ابنِ قدامہ ۱۰/۵۱)


    ایک آدمی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ پھر طلاق دہندہ کے بھائی نے اس کے مشورے کے بغیر اس عورت سے نکاح کر لیا تا کہ وہ اس کو اپنے بھائی کے لئے حلال کر دے۔ کیا یہ پہلے خاوند کے لئے حلال ہو سکتی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نکاح شرعی کے بغیر یہ حلال نہیں ہو سکتی ہم اس طریقے (یعنی حلالہ) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بدکاری (زنا) شمار کرتے تھے۔

    ملاحظہ ہو: مستدرک حاکم۲۸۶،۲/۲۱۷، بیہقی۷/۲۰۸ التلخیص الحبیر۳/۱۷۱۔ تحفة الاحوذی ١٧٥٢، امام حاکم نے اس روایت کو بخاری مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے ان کی اس پر موافقت کی ہے



    مذکور بالا احادیث و آثار صحیحہ سے معلوم ہوا کہ حلالہ کرنا زنا ہے اور فعل حرام حلالہ کرنے اور کروانے والا لعنتی ہے۔ اپنی زوجہ کو تین طلاقیں اکھٹی دے ڈالیں وہ شرعاً ایک طلاق رجعی ہے جس میں اسے رجوع کا حق حاصل ہے


Working...
X