سوال : کیا سلف صالحین کے قول پر مطلقا عمل جائز ہے؟بشرطیکہ صحیح ہوں۔
[فتاویٰ المدینہ:٦١]
جواب : اس بارے میں کوئی خاص قاعدہ و قانون تو نہیں ہے لیکن اس کے لیے بعض شرطیں رکھی جا سکتی ہیں۔مثلا ایک مسئلہ میں صحابی کا قول موجود ہو جو کتاب اللہ کی کسی نص یا نبی علیہ السلام کے کسی فرمان کے مخالف نہ ہو اور یہ قول یا فعل صحابہ کے درمیان مشہور ہو اور کسی صحابی کی طرف سے اس کے خلاف قول منقول نہ ہو۔تو ایسی صورت میں صحابی کے قول و فعل کو لینے پر دل مطمئن ہے۔بعض لوگ غلو کرتے ہیں۔کہتے ہیں کہ وہ بھی بندے تھے اور ہم بھی بندے ہیں۔جب ایک صحابی اس معاملہ کو جائز سمجھتا ہے تو کیا ہوا؟میں اس کو حرام سمجھتا ہوں۔
تو ایسے شخص کو ہم اس طرح جواب دیتے ہیں کہ بھائی تم صحابی کی نسبت کیا ہو ؟
اور تمہاری علمی حیثیت اور فقاہت اللہ کے رسول کے صحابی کے مقابلہ میں کیا ہے؟
اس لیے ہم پر واجب ہے کہ ہم اپنی آراء کے اندر بھی نرمی سے کام لیں اور ہم تکبر نہ کریں۔اور ہمیں چاہیے کہ ہم سلف صالحین کے حقیقی پیروکار بنیں اور ان کے برابر چلیں اور ہم ان کی مخالفت نہ کریں،ماسوائے اس کے جو کتاب و سنت سے ثابت ہو۔
[فتاویٰ البانیہ،ص 120-121]
[فتاویٰ المدینہ:٦١]
جواب : اس بارے میں کوئی خاص قاعدہ و قانون تو نہیں ہے لیکن اس کے لیے بعض شرطیں رکھی جا سکتی ہیں۔مثلا ایک مسئلہ میں صحابی کا قول موجود ہو جو کتاب اللہ کی کسی نص یا نبی علیہ السلام کے کسی فرمان کے مخالف نہ ہو اور یہ قول یا فعل صحابہ کے درمیان مشہور ہو اور کسی صحابی کی طرف سے اس کے خلاف قول منقول نہ ہو۔تو ایسی صورت میں صحابی کے قول و فعل کو لینے پر دل مطمئن ہے۔بعض لوگ غلو کرتے ہیں۔کہتے ہیں کہ وہ بھی بندے تھے اور ہم بھی بندے ہیں۔جب ایک صحابی اس معاملہ کو جائز سمجھتا ہے تو کیا ہوا؟میں اس کو حرام سمجھتا ہوں۔
تو ایسے شخص کو ہم اس طرح جواب دیتے ہیں کہ بھائی تم صحابی کی نسبت کیا ہو ؟
اور تمہاری علمی حیثیت اور فقاہت اللہ کے رسول کے صحابی کے مقابلہ میں کیا ہے؟
اس لیے ہم پر واجب ہے کہ ہم اپنی آراء کے اندر بھی نرمی سے کام لیں اور ہم تکبر نہ کریں۔اور ہمیں چاہیے کہ ہم سلف صالحین کے حقیقی پیروکار بنیں اور ان کے برابر چلیں اور ہم ان کی مخالفت نہ کریں،ماسوائے اس کے جو کتاب و سنت سے ثابت ہو۔
[فتاویٰ البانیہ،ص 120-121]