منکرین حدیث کے شبہات اور ان کے جوابات
پہلا شبہ
حدیث اور سنت وحی نہیں، اس لیے حجت نہیں ہوسکتی۔
جواب نمبر1
اس شبہ کا پہلا جواب یہ ہے کہ انہوں نے جو قاعدہ بنا لیا ہے ، وہ قاعدہ غلط ہے۔ مثلاً: باپ بیٹے کو ایک حکم دیتا ہے، بیٹا اس حکم کو مانتا ہے تو کیا وہ حکم وحی ہوتا ہے؟ پرویز صاحب اپنے شاگردوں کو حکم کریں، شاگرد اطاعت نہ کریں کیونکہ پرویز صاحب بذریعہ وحی نہیں بولتے، تو کیا یہ بات درست ہوگی؟ گویا یہ لوگ رسول اللہﷺ کو باپ یا استاد کامرتبہ نہیں دیتے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ سورۃ القصص، آیت نمبر 19 تا 21 میں ہے کہ جب ان سے ایک قبطی مارا گیا تو شہر کے باہر سے ایک آدمی آیا۔ اس نے کہا: موسیٰ علیہ السلام! بادشاہ نے آپ کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے، آپ نکل جائیں۔ موسیٰ علیہ السلام ڈرتے ہوئے وہاں سے نکل گئے۔ اس آدمی نے یہ حکم وحی کے ذریعے سے نہیں دیا تھا تو معلوم ہوا کہ وحی کے بغیر بھی اقوال حجت ہوا کرتے ہیں۔
جواب نمبر2
اس شبہ کا دوسرا جواب یہ ہے کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ حدیث بھی اللہ کی طرف سے وحی ہے۔
جواب نمبر3
منکرین حدیث اپنے اس دعویٰ ”حدیث وحی نہیں“ کو قرآن سے ثابت کریں۔ وہ ثابت نہیں کرسکیں گے
[وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً [الإسراء : 88]
دوسرا شبہ
حدیث اس لیے حجت نہیں کہ اس وقت لکھی ہوئی نہیں تھی۔
جواب نمبر1
یہ قاعدہ بنا لینا کہ جو چیز لکھی ہوئی نہ ہو، وہ حجت نہ ہوگی، یہ اصول غلط ہے۔ اپنے اس اصول کی دلیل پیش کریں۔ قرآن مجید میں اس کے برعکس دلیل موجود ہے کہ جب وہ آدمی موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو اس نے موسیٰ علیہ السلام کو لکھا ہوا کوئی رقعہ نہیں دکھایا۔ اگر تحریر کے بغیر کوئی چیز تسلیم نہ کی جاسکتی ہو تو پھر موسیٰ علیہ السلام کی وہ تبلیغ کوئی حیثیت نہیں رکھتی جو انہوں نے تورات اترنے سے پہلے فرعون کو دعوت دی تھی کیونکہ وہ لکھی ہوئی نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی ہلاکت کے بعد بنی اسرائیل کو تورات کی نعمت سے نوازا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ القصص، آیت نمبر: 43 میں موجود ہے
[وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ مِن بَعْدِ مَا أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولَى بَصَائِرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ [القصص : 43]]
حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کو جو تبلیغ کرتے رہے، فرعون نے اس کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو غرق کیا۔ اس قانون کی رو سے قبل از کتاب موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ حجت نہیں ہوسکتی۔ اگر حجت نہ ہو تو پھر فرعون کو جو غرق کرنے کی سزا دی گئی ، وہ کس جرم کی تھی؟ اس سے معلوم ہوا کہ حجت بننے کےلیے اس کا لکھا ہوا ہونا ضروری نہیں۔
جواب نمبر 2
یہ قاعدہ بنانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے بہت کم نبی ہیں جو لکھی ہوئی ہدایت لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ اگر یہ قانون نافذ کردیا جائے تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ مثلاً: آج کتنے ہی کاروبار ہیں جو ٹیلیفون پر طے کرلیے جاتے ہیں۔ اگر ہم یہ قاعدہ تسلیم کرلیں تو پھر قرآن مجید بھی حجت نہیں رہتا کیونکہ رسول اللہﷺ کے پاس جس وقت قرآن آتا تھا، وہ لکھا ہوا نہیں ہوتا تھا، ورنہ کفار یہ اعتراض نہ کرتے
[وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَاباً نَّقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إَلاَّ بَشَراً رَّسُولاً [الإسراء : 93]]
گویا یہ قاعدہ تسلیم کرنا قرآن سے راہ فرار اختیار کرنا ہے۔
جواب نمبر3
اس سے پہلے یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ زمانہ رسالت میں حدیث لکھی جاتی تھی۔
تیسرا شبہ
حدیث اس لیے حجت نہیں کہ یہ بالمعنیٰ مروی ہے۔ محدثین روایت کرتے وقت معنیٰ کا خیال رکھتے تھے۔ الفاظ کا خیال نہیں رکھتے تھے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ موجودہ الفاظ حدیث رسول اللہﷺ کے ہیں یا نہیں؟ اس وجہ سے حدیث حجت نہیں ہوسکتی۔
پہلا جواب
اس شبہ کا پہلا رد یہ ہے کہ یہ جو اصول بنا لیا گیا ہے کہ بالمعنیٰ روایت حجت نہیں ہوسکتی، اس کا ثبوت ہونا چاہیے۔ اس قاعدہ کی نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی۔ نقل کے اس لیے خلاف ہے کہ اس کا ثبوت قرآن میں کہیں بھی موجود نہیں اور عقل کے اس لیے خلاف ہے کہ جو مسائل نکالے جاتے ہیں وہ معنیٰ کے لحاظ سے نکالے جاتے ہیں مثلاً: کوئی شخص کہتا ہے : ”ہذا شیئ حرام“ تو حرمت ثابت ہوجائے گی۔ ”لا یحل ، ولا یجوز“ حرمت ہی کے معنیٰ میں ہیں۔ تو معلوم ہوا کہ معنیٰ محفوظ ہونا چاہیے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حدیث کی حفاظت کا ذمہ بھی اٹھا یا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
[إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ [الحجر : 9]]
دوسرا جواب
اس کا دوسرا رد یہ ہے کہ حدیث کا اکثر حصہ روایت باللفظ پر مشتمل ہے کیونکہ محدثین نے روایت بالمعنیٰ کےلیے کچھ شرائط لگا رکھی ہیں۔ مثلاً: جس کو الفاظ یاد نہیں، وہ روایت بالمعنیٰ کرے گا۔ جس کو الفاظ یاد ہیں، وہ روایت بالمعنیٰ کرتا ہی نہیں۔ روایت بالمعنیٰ بہت قلیل ہے۔ پھر حدیث دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ احادیث جن کے الفاظ میں تعبد پایا جاتا ہے۔ مثلاً: دعا ہے، ورد ہے، ذکر اللہ ہے۔ لفظ تعبد والی جتنی احادیث ہیں، وہ سب کی سب باللفظ محفوظ ہیں۔ جیسے صحیح بخاری میں ہے
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو سونے کی دعا سنائی
فَلَمَّا بَلَغْتُ: اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، قُلْتُ: وَرَسُولِكَ، قَالَ: «لاَ، وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ»
(صحیح البخاری: 247)
کہ میں نے اس دعا میں ” آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ “ کے بعد ” وَرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ “ پڑھا جو اصل میں ” وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ “ تھا تو رسول اللہﷺ نے فوراً فرمایا: ” وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ “ پڑھو۔ منکرین حدیث کو چاہیے کہ کم از کم وہ روایات جو بالمعنیٰ روایت نہیں ، ان کو تسلیم کرکے عمل شروع کردیں۔ سب احادیث کو ترک کردینا انصاف نہیں۔
تیسرا جواب
اگر حدیث کے حجت بننے کےلیے شرط لگائی جائے کہ وہ روایت بالمعنیٰ نہ ہو، پھر اس شرط سے تو قرآن مجید بھی حجت نہیں بن سکتا۔ کیونکہ قرآن مجید کا اکثر حصہ روایت بالمعنیٰ پر مشتمل ہے۔ حدیث تو اس کے مقابلے میں عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ مثلاً: تورات، انجیل، زبور اور صحیفے دوسری زبانوں میں نازل ہوئے تھے۔ قرآن مجید میں کئی مرتبہ ان کے حوالے دیے گئے ہیں۔ وہ قرآن کی عربی زبان میں روایت بالمعنیٰ ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے درمیان جتنے مکالمے ہوئے، وہ السنہ عجمیہ میں تھے۔ قرآن مجید میں معنیٰ کا اعتبار کرتے ہوئے ان کو عربی میں نقل کیا گیا۔
منکرین حدیث اس کا یہ جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ روایت بالمعنیٰ اللہ نے کی ہے۔ حدیث میں روایت بالمعنیٰ انسانوں نے کی ہے۔ اس لیے قرآن میں تو حجت ہے، حدیث میں حجت نہیں ہوسکتی۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ روایت بالمعنیٰ ہونےکے لحاظ سے سب برابر ہیں۔ کسی چیز کے روایت بالمعنیٰ ہونے سے اس کی حجیت کی نفی تو نہ ہوئی۔ باقی انسانوں کی روایت بالمعنیٰ کے حجیت میں مخل ہونے کی دلیل درکار ہے۔
چوتھا شبہ
حدیث ظنی ہے۔ جو چیز ظنی ہو، وہ حجت نہیں ہوسکتی۔
[إَنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئاً [يونس : 36]]
جواب
اس اعتراض کا جواب سننے سے پہلے لفظ ظن کا معنیٰ سمجھنا ضروری ہے۔
[(1) غیر علمی زبانوں پر متعارف اصطلاحات غیر اصطلاحی معانی استعمال ہوکر بعض سادہ لوح حضرات کےلیے لغزش کا موجب ہورہی ہیں۔ ان ہی اصطلاحات سے ایک اصطلاح ”ظن“ کی بھی ہے۔ حدیث کے متعلق یہ شبہ بھی پیدا کیا گیا ہے کہ یہ ظنی ہے۔ (حجیت حدیث، ص: 29)
(2) غلطی کی اصل وجہ ظن کا پنجابی زبان میں استعمال ہے اور ان حضرات کی عربی زبان اور اس کے محاورات سے ناواقفیت۔ (حجیت حدیث، ص: 33)]
قرآن مجید میں ظن کا لفظ پانچ معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
پہلا معنیٰ: یقین ہے۔ سورۃ البقرۃ ، آیت: 46 میں ہے
[الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ [البقرة : 46]]
یہاں ظن کا معنیٰ یقین ہے۔
دوسرا معنیٰ: ظن غالب ہے۔ سورۃ البقرۃ، آیت : 230 میں ہے
[فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ [البقرة : 230]]
یہاں ظن کا معنیٰ: غالب ظن ہے۔
تیسرا معنی: شک ہوتا ہے جو یقین کے مقابلہ میں ہوتا ہے، جیسے کافر کہتے ہیں
[إِن نَّظُنُّ إِلَّا ظَنّاً وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [الجاثية : 32]]
ظن کا چوتھا معنیٰ: جھوٹ بولنا ہوتا ہے۔ جیسے
[وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لاَ يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلاَّ أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَظُنُّونَ [البقرة : 78]]
” يَظُنُّونَ“ کا معنیٰ ہے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
[وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ [الجاثية : 24]]
ظن کا پانچواں معنیٰ: سوئے ظن ہوتا ہے۔ جیسے سورۃ الحجرات، آیت: 12 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
[اجْتَنِبُوا كَثِيراً مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ [الحجرات : 12]]
یہاں ظن کا معنیٰ سوئے ظن ہے۔
[إَنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئاً [يونس : 36]] میں ظن حق کے مقابلے میں ہے کہ حق کے مقابلے میں ظن نہیں چل سکتا۔ لیکن اگر ظن غالب ہو ، حق کے مقابلے میں نہ ہو تو اس پر عمل ہوگا۔ جیسے میاں بیوی حدود قائم کریں تو رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہاں [إَنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئاً [يونس : 36]] میں ظن کا معنیٰ جہالت لاعلمی ہے کہ حق کے مقابلہ میں لاعلمی کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ حدیث حق ہے۔ اور حق کے مخالف حق کیسے ہوگا؟ اس سے معلوم ہوا کہ ظن بھی بعض صورتوں میں معتبر ہوتا ہے۔
ظن کے معنیٰ کے لحاظ سے ظنی حدیث کی دو صورتیں ہیں
ایک صورت یہ ہے کہ وہ ظنی الثبوت ہو۔
دوسری صورت یہ ہے کہ وہ ظنی الدلالت ہو۔
منکرین حدیث کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں کوئی ظن نہیں : [ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ [البقرة : 2]] تو اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے اللہ کی طرف سے نازل ہونے میں کوئی شک نہیں، اس کا ثبوت قطعی ہے۔ دلالت کے لحاظ سے قرآن اور حدیث دونوں برابر ہیں۔ کچھ حدیثیں ظنی الدلالت ہیں اور کچھ قطعی الدلالت ہیں۔ اسی طرح دلالت کے اعتبار سے کئی آیات ظنی ہیں اور کچھ دوسری قطعی ہیں۔
مثلاً: ” «كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ» (صحیح البخاری: 4343)“ کہ ہر مسکر حرام ہے۔ اس کی دلالت بالاتفاق قطعی ہے۔ ” «لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ» (صحیح البخاری: 756)“ کی دلالت بالاتفاق قطعی ہے اور کئی احادیث ظنی الدلالت ہوتی ہیں۔ مثلاً: کسی حدیث میں لفظ مشترک ہو۔ جیسے ” مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ (صحیح البخاری: 7527)“ کا معنیٰ بے نیاز ہونا ہوتا ہے۔ اور دوسرا معنیٰ سُر لگانا ہوتا ہے۔
اسی طرح سورۃ البقرۃ ، آیت: 282 میں ہے
[وَلاَ يُضَآرَّ كَاتِبٌ وَلاَ شَهِيدٌ [البقرة : 282]] فعل مضارع کے معلوم یا مجہول ہونے کے لحاظ سے معنیٰ میں فرق پڑے گا کہ کاتب اور گواہ کو تکلیف نہ دی جائے۔ یا کاتب اور گواہ نقصان نہ پہنچائیں۔ ہر وہ آیت جو لفظ مشترک والی ہوگی، وہ ظنی ہوگی۔ جیسے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں
[هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ [آل عمران : 7]]
جو آیات متشابہات ہیں ، وہ سب کی سب ظنی ہوں گی۔ لیکن قرآن مجید ثبوت اور سند کے لحاظ سے قطعی ہے۔ واقع کے لحاظ سے قرآن متواتر ہے۔ اگر ظنی ہونے کی وجہ سے حدیث حجت نہ ہو تو قرآن بھی حجت نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ بھی ظنی ہے۔ احادیث کا وہ ذخیرہ جو تواتر سے منقول ہے، وہ ظنی نہیں، بلکہ قطعی ہے۔ اسے تو حجت ماننا چاہیے۔
پانچواں شبہ
حدیث قرآن مجید کے خلاف ہے، اس لیے حجت نہیں ہوسکتی۔ مثلاً: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں
[فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاء فِي الْمَحِيضِ وَلاَ تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىَ يَطْهُرْنَ [البقرة : 222]]
اور حدیث میں ہے: «وَكَانَ يَأْمُرُنِي، فَأَتَّزِرُ، فَيُبَاشِرُنِي وَأَنَا حَائِضٌ»
(صحیح البخاری: 299)
اس قسم کی کچھ دوسری روایات پیش کی جاتی ہیں۔
جواب نمبر1
یہ شبہ منکرین حدیث کا اپنا نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی معتزلہ اور مرجئہ یہ اعتراض بناتے رہے ہیں۔ کئی حنفی بھی اس قاعدے کے قائل ہوکر احادیث کا رد کرتے ہیں۔ خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ ایک صاحب الرائے کے پاس جب ”البیعان بالخیار“ والی حدیث پیش کی گئی تو اس نے حدیث کا رد کردیا۔
(تاریخ بغداد، ج: 13، ص: 387، طبع: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
حالانکہ یہ حدیث تواتر کا درجہ رکھتی ہے۔
(صحیح البخاری: 2110)
منکرین حدیث اس قاعدے کےلیے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد آپ پر احادیث پیش کی جائیں گی ، ان کو قرآن پر پرکھ لینا، اگر مخالف ہو تو چھوڑ دینا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث باطل ہے، بلکہ حدیث ہے ہی نہیں۔
جواب 2
دوسرا جواب یہ ہے کہ آپ نے یہاں بطور دلیل حدیث کو پیش کیا ہے۔ پہلے حدیث کو حجت تسلیم کریں ، پھر پیش کریں کیونکہ آپ تو منکرین حدیث ہیں۔
جواب3
قرآن مجید میں کوئی ایسا قانون نہیں کہ جو حدیث قرآن کے موافق ہوگی، وہ حجت ہوگی اور جو موافق نہ ہو، وہ حجت نہیں بن سکے گی۔ یہ بات انہوں نے اپنی طرف سے بنائی ہے۔ خلاف اس میں ہوتا ہے کہ ایک جگہ چیز کی نفی ہو اور دوسری جگہ اسی کا اثبات ہو۔ لیکن قرآن میں ایک مسئلہ نہیں۔ رسول اللہﷺ اسے بیان کردیں تو یہ حدیث قرآن کے خلاف کیسے ہوگی؟ جیسے وضوء کے بعض فرائض قرآن مجید میں نہیں ہیں، اصل میں حدیث نے قرآن مجید کی وضاحت کی ہے۔ یہاں [فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاء [البقرة : 222]] میں حکم ہے کہ جماع سے الگ رہو۔ اور ” فَيُبَاشِرُنِي“ کا معنیٰ ہے کہ جسم کو جسم کے ساتھ لگانا۔ اسی طرح ” «البَيِّعَانِ بِالخِيَارِ» (صحیح البخاری: 2110)“ والی حدیث بھی عقود کے منافی نہیں۔ یہ تخصیص ہے ، خلاف نہیں۔ احناف کہتے ہیں کہ حدیث ظنی ہے اور قرآن قطعی ہے۔ قطعی کی تخصیص ظنی کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔ حالانکہ کتاب و سنت میں اس قاعدہ کے اثبات کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
چھٹا شبہ
منکرین حدیث کہتے ہیں کہ حدیث عقل کے خلاف ہے، اس لیے حجت نہیں ہوسکتی، کیونکہ عقل نقل پر مقدم ہوتی ہے۔
جواب
منکرین حدیث کا یہ شبہ بھی نیا نہیں بلکہ پرانا ہے۔ معتزلہ اور جہمیہ نے اسی اصول کے تحت احادیث کا انکار کیا ہے۔ اس شبہ کا سبب یہ ہے کہ جب فلسفہ عربی زبان میں آیا تو بہت سے علماء اس سے متاثر ہوگئے اور عقل کو نقل پر مقدم کرنا شروع کردیا۔ ان متاثرین میں معتزلہ بھی تھے۔ انہوں نے اسی شبہ کی بناء پر اللہ کے متکلم ہونے کا انکار کیا۔ اہل سنت میں سے احناف بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ چنانچہ انہوں نے شرط لگا دی کہ حدیث قیاس کے خلاف نہ ہو تو مانی جائے گی۔
مثلاً: بیع المصراۃ والی احادیث ہیں کہ ایک ایسی گائے یا بکری خریدی جس کا دودھ روک دیا گیا ہو، تاکہ قیمت زیادہ مل جائے، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ خریدار ایسے جانور کو واپس کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی ایک صاع کھجوروں کا بھی واپس کرے گا۔ یہ صاع تمر دودھ کے بدلے ہوگا۔ بعض احناف کہتے ہیں کہ یہ حدیث عقل کے خلاف ہے۔ عقل تو یہ چاہتی ہے کہ اس سے جتنا دودھ پیا ہے، اتنی قیمت واپس کردے۔ ہوسکتا ہے کہ اس نے دودھ زیادہ پیا ہو اور صرف ایک صاع کھجوریں دے، یہ عقل کے خلاف ہے۔ انہوں نے فلاسفہ سے متاثر ہو کر ایسی باتیں بنائی ہیں۔
پہلا رد
ان کے اس شبہ کا پہلا رد یہ ہے کہ عقلیں زیادہ ہیں۔ یہودی اور عیسائی بھی عاقل ہیں اور مسلمان بن عقل رکھتے ہیں۔ اب یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ حدیث کون سی عقل کے خلاف ہے؟ پہلے اس عقل کا تعین کرنا چاہیے۔ کیونکہ ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ عقل کے مخالف ہے تو دوسرا کہہ سکتا ہے کہ یہ عقل کے موافق ہے۔ پھر منکرین حدیث یا متاثرین حدیث کے پاس عقل کو معین کرنے کا کوئی قاعدہ بھی نہیں ۔ ہاں ایک عقل ہے جس کو میزان مقرر کیا جاسکتا ہے، وہ رسول اللہﷺ کی عقل ہے۔ اب جو بھی حدیث رسول اللہو سے ثابت ہوجائے، وہ عقل کے خلاف نہیں ہوسکتی کیونکہ آپﷺ کی عقل معیاری ہے۔ جب احادیث معیاری عقل کے مطابق ہیں تو جب کبھی وہ جس عقل کے خلاف قرار دی جائیں گی، وہ عقل ہی نہیں ہوگی بلکہ کم عقلی ہوگی۔
دوسرا رد
تھوڑی دیر کےلیے ہم آپ کی بات تسلیم کرلیں ، تب بھی آپ کے پاس موافقت اور مخالفت کا کوئی ضابطہ نہیں۔ اس کےلیے بھی ہمیں رسول اللہﷺ کی عقل کو دیکھنا پڑے گا یا قرآن کو دیکھنا ہوگا۔
تیسرا رد
قرآن مجید کی بھی کچھ آیات عقل کے خلاف ہیں، پھر تو قرآن مجید بھی حجت نہیں ہونا چاہیے۔ مثلاً: ہدہد کا گفتگو کرنا (سورۃ النمل: 22تا 26) اور چونٹیوں کا بولنا (سورۃالنمل: 18) عقل کے خلاف ہے بلکہ جتنے معجزات ہوئے ہیں، وہ سب عقل کے خلاف ہیں۔ منکرین حدیث آیات معجزات کی تاویل کرلیتے ہیں ، اسی طرح احادیث کی بھی تاویل کرلینی چاہیے۔ احادیث کو اس طرح حجت نہ ماننا کوئی درست طریقہ نہیں۔
ساتواں شبہ
حدیث اس لیے حجت نہیں کیونکہ وہ سائنس کے خلاف ہے۔
پہلا رد
سائنسی تحقیقات میں اختلاف رونما ہوئے ہیں۔ ان میں سے کس کو تسلیم کریں اور کس کو رد کریں؟ مثلاً: پہلے سائنسدان یہ کہتے تھے کہ زمین ساکن ہے ۔ اب سائنسدان کہتے ہیں کہ زمین متحرک ہے۔ پہلے سائنسدان کہتے تھے کہ آسمان مادی ہے۔ اب کہتے ہیں کہ حد نگاہ کا نام ہے۔
دوسرا رد
قرآن مجید بھی سائنس کے خلاف ہے۔ مثلاً: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
[حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ [الكهف : 86]] کہ جب ذوالقرنین انتہاء کو پہنچ گئے تو دیکھا کہ سورج کیچڑ والے گڑھے میں غروب ہورہا ہے۔
آج کے سائنسدان سورج کے غروب ہونے کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن بھی سائنس کے خلاف ہے۔ جہنم کی آگ کی شدت کے باوصف جہنم کے درختوں کا وجود اور پھلدار ہونا (سورۃ الصافات: 66-62)کیا یہ سائنس کے مطابق ہے؟ تو پھر قرآن کیسے حجت بنے گا؟
اصل بات یہ ہے کہ سائنس کی رسائی انسانی عقل تک محدود ہے۔ اس لیے ہمیں احادیث اس کے خلاف معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً: آج کل ٹیلیفون اور ٹیلیویژن، پہلے سائنسدان ان کو جانا نہیں کرتے تھے۔ اصل سائنس قرآن وحدیث ہی ہیں۔ جن کی رسائی انسان عقل تک ہی محدود نہیں بلکہ اللہ علیم وخبیر کے علم پر مبنی ہے۔
آٹھواں شبہ
احادیث آپس میں متعارض ہوتی ہیں۔
رد
احادیث میں حقیقی تعارض نہیں ہوتا۔ بفرض تسلیم قرآن مجید میں بھی ظاہری تعارض ہوتا ہے۔ تو جو جواب اس کا ہوگا، وہی تعارض احادیث کا جواب ہوگا۔ تو ثابت ہوا کہ ظاہری تعارض سے شئے کا حجت نہ ہونا لازم نہیں آتا۔ ورنہ قرآن بھی حجت نہیں رہے گا۔
نواں شبہ
اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور احادیث کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیا۔
جواب
اللہ تعالیٰ نے دونوں کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ [الحجر : 9]]
اس آیت میں ذکر سے صرف قرآن مجید مراد ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔
دسواں شبہ
حدیث تاریخ کے خلاف ہے۔
جواب
کیا تاریخی بات باسند ہے یا کہ بلاسند ہے؟ بلا سند کا کوئی اعتبار نہیں۔ اگر باسند ہے تو سند دیکھی جائے گی، کیا صحیح ہے یا ضعیف ہے؟ ضعیف ہے تو اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ صحیح ہے تو وہ حدیث کے خلاف نہیں۔ اور حدیث بھی اس کے خلاف نہیں۔ بفرض تسلیم قرآن مجید بسا اوقات تاریخی روایات کے خلاف آتا ہے، مثلاً: قرآن کہتا ہے
[وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لأَبِيهِ آزَرَ [الأنعام : 74]]
اور تاریخ آزر کو چچا کہتی ہے۔ جو جواب اس کا ہوگا، وہی حدیث کا تاریخ کے خلاف ہونے کا جواب ہوگا۔