صحیح بخاری
کتاب الصلح
باب: دو آدمیوں میں میل ملاپ کرانے کے لیے جھوٹ بولنا گناہ نہیں ہے
حدیث نمبر : 2692
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح، عن ابن شهاب، أن حميد بن عبد الرحمن، أخبره أن أمه أم كلثوم بنت عقبة أخبرته أنها، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول " ليس الكذاب الذي يصلح بين الناس، فينمي خيرا، أو يقول خيرا ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا صالح بن کیسان سے ، ان سے ابن شہاب نے ، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ ان کی والدہ ام کلثوم بنت عقبہ نے انہیں خبر دی اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ جھوٹا وہ نہیں ہے جو لوگوں میں باہم صلح کرانے کی کوشش کرے اور اس کے لیے کسی اچھی بات کی چغلی کھائے یا اسی سلسلہ کی اور کوئی اچھی بات کہہ دے۔
ایک پوصٹ نظروں سے گزری جس پر بد دیات منکر حدیث نے اس حدیث پر یہ اعتراض کیا کہ نبیﷺ کے فرمان میں جھوٹ بولنی کی اجاذت دی گئی ہے۔محترم قارئین اہل باطل کی یہ مجبوری ہے کہ جب بھی وہ اسلام کے خلاف بولتے ہے اس میں ہد ردجہ خیانت ہوتی ہے ۔۔ اور یہی کام اس خائن منکر حدیث نے اپنی پوصت میں کیا پہلی بات تو حدیث پوری نہیں لکھی بلکہ صرف حدیث کا حوالہ دے دیا اور اپنی پوصٹ پر یہ ٹائٹل دے دیا
"جھوٹ بولنا سنت نبی پاکﷺ ہے "
قارئین کرام اس حدیث میں اس انسان کو جو دو انسانوں میں صلح کرانے کے لئے کچھ اچھے کلمات اپنی طرف سے شامل کرتا ہے تاکہ ان دو آدمیوں میں جن میں جگھڑا ہوا ہے ختم ہو جائے اور ان میں صلح ہو جائے اور ایسے کلمات جو اس نے ان دونوں میں صلح کرانے کے لئے اپنی طرف سے بولے تھے ان کلمات پر جھوٹ کا اطلاق نہیں ہوگا کہا گیا ہے۔ کیونکہ اس نے اچھی نیت سے یہ الفاظ شامل کئے۔۔
قارئین کرام اگر کوئی انسان کسی ایسے دو انسانوں میں صلح کرادے جو ایک دوسرے کی جان کے پیاسے بنے ہوئے ہے اور وہ صلح کرانے میں اگر جھوٹ کا بھی استعمال کرے تو یہ جائز ہے بلکہ اس کا اس کو اجر ملے گا کیونکہ اللہ ہی کا فرمان ہے ۔۔۔
مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢابِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًاۭوَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا
جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانون کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی
سورہ المائدہ:32
اگر ایک انسان دو انسانوں میں جھوٹ بول کر صلح کرا دے اور ان میں سے ایک کی جان صرف اس لئے بچ جائے کیونکہ صلح کرانے والے نے اپنے کلمات میں جھوٹ کا استعمال کیا تھا تو اس طرح کے جھوٹ سے تو اس نے اللہ کے کلام کو ہورا کیا کہ " جس نے کسی ایک بھی جان کو بچایا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا"۔لیکن منکر حدیث قسم کے لوگ لوگوں میں صلح چاھتے ہی نہیں انکا کام ہے لوگوں میں فتنہ فساد مچانا اور مسلمانوں کو یہ منظور نہیں۔۔۔۔
ان تمام گزارشات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ کسی کا حق یا کسی پر ظلم کرنے کے لئے جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں بلکہ دو لوگوں میں صلح کرانے کے لئے جھوٹ بولنے کی اجازت ہے۔۔۔ اور کسی کی جان بچانا ان میں صلح کروا کر گویا پوری انسانیت کو بچانا ہے۔۔الحمداللہ۔
قارئین کرام شریعت میں تو اس قدر اجازت ہے کہ جس شخص کو کفر پر مجبور کیا جائے اور وہ جان بچانے کے لئے قولاً یا فعلاً کفر کا ارتکاب کر لے جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، تو وہ کافر نہیں ہوگا۔۔
مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِهٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَقَلْبُهٗ مُطْمَـﭟ بِالْاِيْمَانِ
جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کیا، اِلا یہ کہ وہ مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو یہ معاف ہے
سورہ النحل:106
اگر کوئی انسان مجبور ہے تو وہ کلمہ کفر بھی پڑھ سکتا ہے قرآن نے اس کی اجازت دی ہے تو اگر حدیث میں اس طرح کی کیفیت پر جھوٹ بولنے کی اجاذت دے دی تو پھر حدیث پر اعتراض کیوں؟
کیا منکر حدیث اس ایت پر بھی پوسٹ لگائے گا اور خیانت سے کام لے گا ہوری آیت نہیں صرف حوالہ لکھ دے گا ؟
کہ کلمہ کفر ہڑھنے میں کوئی قباحت نہیں قرآن نے اس کی اجازت دی ہے ؟؟؟۔۔
حدیث شریف قرآن کی آیت کے مطابق ہے۔
لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىھُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۢ بَيْنَ النَّاسِ ۭ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًا
ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی خیر نہیں، ہاں بھلائی اس کے مشورے میں جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادے سے یہ کام کرے اسے ہم یقیناً بہت بڑا ثواب دیں گے ۔۔
سورہ النساء :114
اس ایت میں ان خوفیہ سرگوشیوں کو اجر کا بائث بتایا ہے جو لوگوں میں صلح کرانے کے لئے کی جائے تو بتائے اس ایت میں تو خد کہ دیا کہ صلح کرانے کے لئے خفیہ سر گوشیوں میں بہت بڑا ثواب ہے تو بتائے حدیث میں کہا اس سے ہٹ کر بات بیان ہوئی حدیث میں بھی تو یہی بیان ہوا کہ ان دو لوگوں میں صلح کے لئے کوئی اچھی بات پھلائی جائے ؟۔۔
قارئین کرام انشاء اللہ اس خائن کی خیانت تو عیان ہو چکی ہے الحمداللہ ان لوگوں کا مقصد ہی یہی ہے کہ عام عوام کو جنہیں دین اسلام کے بارے میں زیادہ علم نہیں ان کو نبیﷺ کی ثابت شدہ احادیث سے بد ظن کیا جائے ورنہ یہ اپنا خود ساختہ دین اہنی دکان کیسے چلائنگے۔۔لیکن اللہ تعالی کا دین ھمیشہ غالب رھے گا اور یہ اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے یہ جو نئے فرقے پیدا ہوگئے ہے ان کی کوئی بھی خیانت کام نا آئی گی بلکہ یہ اور بے نقاب ہونگے دنیا کے سامنے ان شاء اللہ۔۔۔اب ھم مذید اس حوالے سے کچھ وضاحت بیان کر دیتے ہے۔۔
۔جھگڑنے والوں كے درميان صلح كے ليے جھوٹى قسم كھانا۔
كيا لڑے ہو شخصوں كے مابين صلح كرانے كے ليے جھوٹى قسم كھانى جائز ہے ؟
الحمد للہ
مؤمن كے ليے اصل تو يہى ہے كہ وہ سچ بولے اور سچائى كو ہى اختيار كرے، اور صحيح اور حق كلام ہى كرے؛ كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اے ايمان والو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور سچائى اختيار كرنے والوں كا ساتھ دو ﴾التوبۃ ( 119
اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے
عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا
" تم سچائى كو لازم پكڑو، كيونكہ سچائى نيكى اور بھلائى كى طرف راہنمائى كرتى ہے، اور يقينا نيكى جنت كى طرف لے جاتى ہے، اور آدمى سچ بولتا رہتا اور سچائى كو تلاش كرتا رہتا ہے حتى كہ اللہ تعالى كے ہاں صديق لكھ ديا جاتا ہے، اور تم جھوٹ بولنے سے اجتناب كرو، كيونكہ جھوٹ فجور كى راہنمائى كرتا ہے اور فجور آگ كى طرف لے جاتا ہے، اور آدمى جھوٹ بولتا رہتا اور جھوٹ تلاش كرتا رہتا ہے حتى كہ اللہ تعالى كے ہاں اسے كذاب اور جھوٹا لكھ ديا جاتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر
( 5743 )
صحيح مسلم حديث نمبر
( 2607 ).
شريعت اسلاميہ ميں ايك دوسرے كے مابين صلح كرانے كى بہت زيادہ اہميت پائى جاتى ہے، اور اس صلح كرانے والے كو صلح كے نتيجہ ميں بہت زيادہ اجروثواب حاصل ہوتا ہے، اسى طرح لوگوں كے مابين فساد اور خرابى پيدا كرنے ميں بہت زيادہ اور شديد قسم كى تحذير پائى جاتى ہے.
مسلمان معاشرہ ميں آپس ميں ايك دوسرے كے درميان اصلاح كرنے كى اہميت اور اختلاف و نفرت كے بہت زيادہ خطرناك ہونے كى بنا پر اللہ سبحانہ وتعالى نے اصلاح كرنے اور عداوت و نزاع اور اختلاف ختم كرنےكى غرض سے جھوٹ بولنا مباح كيا ہے، كيونكہ عداوت و نزاع اور اختلاف كے نتيجہ ميں لوگوں كے دين پر سلبى اثر پڑتا ہے.
ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا
" كيا تمہيں نماز اور روزہ كے درجہ سے بھى افضل چيز نہ بتاؤں ؟
تو صحابہ كرام نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ضرور بتائيں
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا
" آپس ميں ايك دوسرے كى صلح كرانا، كيونكہ ايك دوسرے كے مابين فساد مچانا يہى مونڈھ دينے والى ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2509 ) ترمذى نے اس حديث كو حسن صحيح كہا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مروى ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا يہ مونڈھ دينے والى ہے، ميں يہ نہيں كہتا كہ يہ بالوں كو مونڈھ دينے والى ہے، بلكہ يہ دين كو مونڈھ كر ركھ ديتى ہے " انتہى.
اور اللہ تعالى نے جس پر كرم كيا ہو اور اسے مسلمانوں كے مابين صلح كرانے كى توفيق دى اور اسے اس صلح اور اصلاح كرانے كے ليے جھوٹ بولنے كى ضرورت محسوس ہو تو اس ميں كوئ حرج نہيں، اور اسے جھوٹا كہنا جائز نہيں، كيونكہ اس نے تو شرعى مصالح ميں ميں ايك عظيم معاملے كے ليے جھوٹ بولا ہے، جس ميں شريعت نے جھوٹ بولنا مباح كيا ہے، جيسا كہ صحيحين كى درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:
ام كلثوم بنت عقبہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا
" جو لوگوں كے درميان صلح كرانے كے ليے جھوٹ بولتا ہے وہ كذاب اور جھوٹا نہيں، وہ اچھى چغلى كرتا اور اچھى بات كہتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر
( 2546 )
صحيح مسلم حديث نمبر
( 2605 ).
ليكن رہا مسئلہ اصلاح اور صلح كرانے كے ليے جھوٹى قسم اٹھانا تو ظاہر يہى ہوتا ہے كہ يہ جائز ہے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں
" مؤمن كے ليے تو مشروع يہى ہے كہ وہ كم از كم قسميں اٹھائے چاہے سچا بھى ہو پھر بھى زيادہ قسميں نہ اٹھائے؛ كيونكہ زيادہ قسميں كھانے سے ہو سكتا ہے وہ جھوٹ ميں پڑ جائے، اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ جھوٹ بولنا حرام ہے، اور جب يہ جھوٹ كے ساتھ ہو تو اس كى حرمت اور بھى زيادہ شديد ہو جائيگى.
ليكن اگر جھوٹى قسم اٹھانے كى كوئى ضرورت يا راجح مصلحت پيش آ جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ حديث ميں آتا ہے كہ
ام كلثوم بن عقبہ بن ابى معيط رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا
" لوگوں كے درميان صلح كرانے كےليے جھوٹ بولنے والا شخص كذاب اور جھوٹا نہيں، وہ خير كى چغلى اور خير بات كہے..
اس ليے اگر وہ لوگوں ميں صلح كرانے كے ليے ايسا كہے كہ: اللہ كى قسم تيرے ساتھى تو صلح كرنا پسند كرتے ہيں، اور وہ يہ پسند كرتے ہيں كہ آپ كسى بات پر متفق ہو جائيں، اور وہ اس اس طرح چاہتے ہيں، پھر وہ دوسرے گروہ كے پاس آئے اور انہيں بھى اسى طرح كى بات كہے، ليكن اس كا مقصد خير اور بھلائى اور اصلاح كا ہو تو مذكورہ حديث كى بنا پر اس ميں كوئى حرج نہيں.
اور اسى طرح اگر كوئى انسان يہ ديكھے كہ كوئى شخص دوسرے پر ظلم كرتے ہوئے اسے قتل كرنا چاہتا ہے، يا اس پر كسى دوسرى چيز ميں ظلم كر رہا ہے تو اسے كہے
اللہ كى قسم يہ ميرا بھائى ہے، حتى كہ وہ اسے اس ظالم سے بچا لے، اگر وہ اسے ناحق قتل كرنا چاہتا ہو، يا اسے بغير كسى حق كے مارنا چاہتا ہو اور اسے يہ علم ہو كہ اس نے اسے احتراما بھائى كہا ہے، تو اس طرح كى حالت اور مصلحت ميں اپنے بھائى كو ظلم سے بچانا واجب ہے
مقصد يہ ہے كہ اصل ميں جھوٹى قسم اٹھانى ممنوع اور حرام ہے، ليكن جب جھوٹى قسم اٹھانے ميں كوئى جھوٹ سے بھى بڑى مصلحت پيدا ہوتى ہو جيسا كہ سابقہ حديث ميں تين مقام پر ہے "
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز
( 1 / 54 ).