پہلے اللہ کا پڑوس پھر گھر کی درخواست
وَضَرَبَ
اللَّـهُ
مَثَلًا
لِّلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ
رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي
الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
﴿١١﴾
اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی جبکہ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں مکان بنا اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دے
سورة التحريم
تفسیر ابن کثیر میں ہے
سعادت مند آسیہ(فرعون کی بیوی) رضی اللہ تعالٰی عنھا
حضرت فتادہ فرماتے ہیں روئے زمین کے تمام تر لوگوں میں سب سے زیادہ سرکش فرعون تھا لیکن اس کے کفر نے بھی اس کی بیوی کو کچھ نقصان نہ پہنچایا اس لئے کہ وہ اپنے زبردست ایمان پر پوری طرح قائم تھیں اور رہیں جان لو کہ اللہ تعالیٰ عادل حاکم ہے وہ ایک گناہ پر دوسرے کو نہیں پکڑتا۔ حضرت سلمان فرماتے ہیں فرعون اس نیک بخت بیوی کو طرح طرح سے ستاتا تھا سخت گرمیوں میں انہیں دھوپ میں کھڑا کر دیتا لیکن پروردگار اپنے فرشتوں کے پروں کا سایہ ان پر کر دیتا اور انہیں گرمی کی تکلیف سے بچا لیتا بلکہ ان کے جنتی مکان کو دکھا دیتا جس سے ان کی روح کی تازگی اور ایمان کی زیادتی ہو جاتی، فرعون اور حضرت موسیٰ کی بابت یہ دریافت کرتی رہتی تھیں کہ کون غالب رہا تو ہر وقت یہی سنتیں کہ موسیٰ غالب رہے بس یہی ان کے ایمان کا باعث بنا اور یہ پکار اٹھیں کہ میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لائی۔ فرعون کو جب یہ معلوم ہوا تو اس نے کہا کہ جو بڑی سے بڑی پتھر کی چٹان تمہیں ملے اسے اٹھوا لاؤ اسے چت لٹاؤ اور اسے کہو کہ اپنے اس عقیدے سے باز آئے اگر باز آ جائے تو میری بیوی ہے عزت و حرمت کے ساتھ واپس لاؤ اور اگر نہ مانے تو وہ چٹان اس پر گرا دو اور اس کا قیمہ قیمہ کر ڈالو، جب یہ لوگ پتھر لائے انہیں لے گئے لٹایا اور پتھر ان پر گرانے کے لئے اٹھایا تو انہوں نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی پروردگار نے حجاب ہٹا دیئے اور جنت کو اور وہاں جو مکان ان کے لئے بنایا گیا تھا اسے انہوں نے اپنی آنکھوں دیکھ لیا اور اسی میں ان کی روح پرواز کر گئی جس وقت پتھر پھینکا گیا اس وقت ان میں روح تھی ہی نہیں، اپنی شہادت کے وقت دعا مانگتی ہیں کہ اللہ جنت میں اپنے قریب کی جگہ مجھے عنایت فرما اس دعا کی اس باریکی پر بھی نگاہ ڈالئے کہ پہلے اللہ کا پڑوس مانگا جا رہا ہے پھر گھر کی درخواست کی جا رہی ہے۔
مسند احمد میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر چار لکیریں کھنیچیں اور صحابہ سے دریافت کیا کہ جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو پورا علم ہے، آپ نے فرمایا سنو تمام جنتی عورتوں میں سے افضل سیدہ خدیجہ بنت خویلد اورسیدہ فاطمہ بنت محمد اور سیدہ مریم بنت عمران اورسیدہ آسیہ بنت مزاحم ہیں جو فرون کی بیوی تھیں،
صحیح بخاری صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردوں میں سے تو صاحب کمال بہت سارے ہوئے ہیں، لیکن عورتوں میں سے کامل عورتیں صرف سیدہ آسیہ ہیں جو فرعون کی بیوی تھیں اور سیدہ مریم بنت عمران ہیں اور سیدہ خدیجہ بنت خویلد ہیں اور سیدہ عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہی ہے جیسے سالن میں چوری ہوئی روٹی کی فضیلت باقی کھانوں پر۔
تفسیرابن کثیر تفسیر سورة التحريم
اللَّـهُ
مَثَلًا
لِّلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ
رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي
الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
﴿١١﴾
اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی جبکہ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں مکان بنا اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دے
سورة التحريم
تفسیر ابن کثیر میں ہے
سعادت مند آسیہ(فرعون کی بیوی) رضی اللہ تعالٰی عنھا
حضرت فتادہ فرماتے ہیں روئے زمین کے تمام تر لوگوں میں سب سے زیادہ سرکش فرعون تھا لیکن اس کے کفر نے بھی اس کی بیوی کو کچھ نقصان نہ پہنچایا اس لئے کہ وہ اپنے زبردست ایمان پر پوری طرح قائم تھیں اور رہیں جان لو کہ اللہ تعالیٰ عادل حاکم ہے وہ ایک گناہ پر دوسرے کو نہیں پکڑتا۔ حضرت سلمان فرماتے ہیں فرعون اس نیک بخت بیوی کو طرح طرح سے ستاتا تھا سخت گرمیوں میں انہیں دھوپ میں کھڑا کر دیتا لیکن پروردگار اپنے فرشتوں کے پروں کا سایہ ان پر کر دیتا اور انہیں گرمی کی تکلیف سے بچا لیتا بلکہ ان کے جنتی مکان کو دکھا دیتا جس سے ان کی روح کی تازگی اور ایمان کی زیادتی ہو جاتی، فرعون اور حضرت موسیٰ کی بابت یہ دریافت کرتی رہتی تھیں کہ کون غالب رہا تو ہر وقت یہی سنتیں کہ موسیٰ غالب رہے بس یہی ان کے ایمان کا باعث بنا اور یہ پکار اٹھیں کہ میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لائی۔ فرعون کو جب یہ معلوم ہوا تو اس نے کہا کہ جو بڑی سے بڑی پتھر کی چٹان تمہیں ملے اسے اٹھوا لاؤ اسے چت لٹاؤ اور اسے کہو کہ اپنے اس عقیدے سے باز آئے اگر باز آ جائے تو میری بیوی ہے عزت و حرمت کے ساتھ واپس لاؤ اور اگر نہ مانے تو وہ چٹان اس پر گرا دو اور اس کا قیمہ قیمہ کر ڈالو، جب یہ لوگ پتھر لائے انہیں لے گئے لٹایا اور پتھر ان پر گرانے کے لئے اٹھایا تو انہوں نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی پروردگار نے حجاب ہٹا دیئے اور جنت کو اور وہاں جو مکان ان کے لئے بنایا گیا تھا اسے انہوں نے اپنی آنکھوں دیکھ لیا اور اسی میں ان کی روح پرواز کر گئی جس وقت پتھر پھینکا گیا اس وقت ان میں روح تھی ہی نہیں، اپنی شہادت کے وقت دعا مانگتی ہیں کہ اللہ جنت میں اپنے قریب کی جگہ مجھے عنایت فرما اس دعا کی اس باریکی پر بھی نگاہ ڈالئے کہ پہلے اللہ کا پڑوس مانگا جا رہا ہے پھر گھر کی درخواست کی جا رہی ہے۔
مسند احمد میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر چار لکیریں کھنیچیں اور صحابہ سے دریافت کیا کہ جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو پورا علم ہے، آپ نے فرمایا سنو تمام جنتی عورتوں میں سے افضل سیدہ خدیجہ بنت خویلد اورسیدہ فاطمہ بنت محمد اور سیدہ مریم بنت عمران اورسیدہ آسیہ بنت مزاحم ہیں جو فرون کی بیوی تھیں،
صحیح بخاری صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردوں میں سے تو صاحب کمال بہت سارے ہوئے ہیں، لیکن عورتوں میں سے کامل عورتیں صرف سیدہ آسیہ ہیں جو فرعون کی بیوی تھیں اور سیدہ مریم بنت عمران ہیں اور سیدہ خدیجہ بنت خویلد ہیں اور سیدہ عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہی ہے جیسے سالن میں چوری ہوئی روٹی کی فضیلت باقی کھانوں پر۔
تفسیرابن کثیر تفسیر سورة التحريم