مسائل جنین
اس کائنات میں ان گنت چیزیں اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کے رب ہونے کی دلیل مہیا کر رہے ہیں۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ مکمل کائنات ہی باری تعالیٰ کے خالق ہونے پر بہت بڑی نشانی ہے تو بجا ہوگا۔ خالق کائنات نے اپنی ہر مخلوق میں اپنے شاہکار اور کمالات کا اظہار کیا ہے تاکہ یہ بھٹکی ہوئی امت اور یہ راہ سے بے راہ خلقت دلائل و براہین کو دیکھ کر اپنے حقیقی الہٰ رب العالمین سے دنیا صحیح معنی میں بندگی کا رشتہ قائم کرے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے
﴿سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۭ﴾
(فصلت:۴۱/۵۳)
’’عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں گے افق پر اور انہیں کی جانوں میں یہاں تک کہ واضح ہو جائے گا ان پر کہ یہ قرآن (وحی) حق ہے۔‘‘
اس کائنات میں سب سے بڑی حقیقت اور خالق کائنات کا شاہکار خود انسان کا اپنا وجود ہے، جو اپنے جسم و حبثہ کے اعتبار سے گو بہت بڑا نہیں مگر اس ساخت پر تدبر و تفکر کریں تو خود با خود یہ اندازہ ہوتا چلاجائے گا کہ حضرت انسان جیسی مشین آج تک دنیا میں نہ کوئی ایجاد کر سکا اور نہ ہی ایجاد کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ اس مشین میں ہزارہاں ایسے (Systems) ہیں جو کہ انسان خود حیرت زدہ ہے کہ اس چھوٹے سے جسم میں اتنا بڑا نظام یہ کیسے ممکن ہے؟ مگر یہ تمام تر نشانیاں صرف اسی بات پر دلیل ہیں کہ اے انسان اس تمام کائنات کا ایک ہی خالق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ مسائل جنین (Embroylogy) اور تخلیق انسانیت (The Developing Human) پر قرآن و صحیح حدیث میں کئی مسائل کو ذیر بحث لایا گیا ہے۔ جو کہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ آج سے ۱۴۰۰ سال قبل نہ کوئی دور بین تھی نہ خودربین اور نہ ہی الٹرا سونو گرافی کا وجود تھا۔ مگر قرآن و صحیح حدیث میں ان مسائل کو اس طرح ثابت کیا کہ آج کی جدید تحقیقات نے تسلیم کرلیا کہ قرآن و صحیح حدیث بغیر کسی شبہ کسی شک کے اللہ تعالیٰ کی وحی ہیں۔ قرآن مجید نے مسائل جنین پر ایک طویل گفتگو فرمائی ہے اور اُس مرحلے سے لے کر جب مرد کا مادہ عورت کے رحم میں جاتا ہے سے لے کر بچے کا دنیا میں آنے تک کا سارا مرحلہ چاہے وہ اندرونی مراحل ہوں یا بیرونی مراحل سب کو ایک بہترین انداز میں ثابت کیا ہے۔ اسی طرح سے صحیح حدیث میں بھی ان مسائل پر مختلف مقامات پر گفتگو فرمائی گئی ہے۔
مثلاً رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں
’’ان احدکم یجمع فی بطن امہ اربعین یوما ثم علقة مثل ذالک ثم یکون مضغة مثل ذالک ثم یبعث اللہ ملکاً فیومر باٴربع برزقہ واجلہ وشقی اور سعید۔۔۔۔‘‘
(صحیح البخاری، کتاب القدر، ج:۱۳، رقم الحدیث: ۶۰۹۴،۶۰۹۵)
’’تم میں سے ہر شخص پہلے اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ ہی رکھا جاتا ہے، پھر اتنی ہی مدت میں علقہ یعنی خون کی پھٹکی بنتا ہے، پھر چالیس دن میں مضغہ (گوشت کا لوتھڑا) پھر چار ماہ بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اس کے بارے میں (ماں کے پیٹ میں ہی ) چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے، اس کی روزی، اس کی موت، بدعت ہے یا نیک ہے،
دوسری حدیث میں ذکر ہے کہ اس کا لڑکا یا لڑکی ہونے کے بارے میں بھی پوچھا جاتا ہے۔ ‘‘
نبی کریم ﷺ کے فرمان مبارک سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تخلیقی اجزاء یعنی منی سے خون تک کا دقفہ چالیس روز کا پھر خون سے گوشت کا وقفہ چالیس روز تک ہوتا ہے، یعنی ہر انسان کی تخلیق کے تخلیقی اجزاء چالیس دن میں ہوا کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان میں ایک بہت بڑی نشانی ہے مسائل جنین کے ماہر ڈاکٹر کیتھ مور رقمطراز ہیں
’’حدیثی ذکر کی پہلی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ ہر انسان کی تخلیقی اجزاء چالیس دنوں (۵ ہفتے اور ۵ دنوں) میں جمع ہو جاتے ہیں۔ تخلیقی اجزاء کو سائنسی زبان میں پرائیمورڈیا (Primordia) کہتے ہیں۔ حدیثی ذکر کے سلسلے کی جنینیاتی تشریح میں جنینیاتی دورانیہ (Embryomic Period) کا بیان آ چکا ہے۔ یہ دورانیہ پانچ یا چھ ہفتوں میں مکمل ہوتا ہے۔ جس میں تمام اعضا سواے تولیدی اعضاء کے پرائیمورڈیا کی نمو ہو جاتی ہے۔ اس طرح حدیثِ رسول ﷺ اور جدید سائنس سے حاصل شدہ معلومات میں عین مطابقت ہے۔ یاد رہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ساتویں صدی عیسوی کا ہے جس میں سائنسی معلومات کا فقدان تھا۔ اس دور کی رسولِ کریم ﷺ کی حدیث اور بیسویں صدی عیسوی کی معلومات میں بعینہ مماثلت ہر غیر متعصب انسان کو رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے کی صاف اور مبین دلیل ہے۔
حدیثی ذکر کی دوسری حدیث سے واضح ہے کہ بیالیس راتیں گزرنے کے بعد بھی تولیدی اعضاء کی ابتداء نہیں ہوتی اور نازل شدہ فرشتہ اللہ تعالیٰ سے صنف کے متعلق پوچھتا ہے اور اس کے حکم کو ریکارڈ کرتا ہے۔ جدید سائنسی معلومات کے مطابق چھٹے ہفتے (۴۲ دنوں) میں تولیدی اُبھار گونیڈیل رجز (Gonadial Ridges) نمودار ہوتے ہیں، جن کی طرف ابتدائی تخمی سیلز (Primordial Germ Cells) جمع ہونا شروع ہوتے ہیں اور پھر ان سے ساتویں ہفتے میں تولیدی اعضاء کے پرائیمورڈیا تشکیل ہو کر ان میں صنفی کرداروں (Sexual Characters) کی ابتداء ہوتی ہے۔
کیا یہ معلومات دینِ اسلام کی حقانیت کی کھلی اور بین دلیلیں نہیں ہیں؟ ان معجزات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی اگر کوئی انسان دینِ اسلام پر ایمان نہ لائے تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے انصاف کا تقاضہ ہے کہ اس کو جہنم رسید کرے۔ اللہ تعالیٰ عذابِ نار سے بچائے۔ آمین
(تخلیقِ انسان اور معجزات قرآن از ڈاکٹر کیتھ مور، ص:۸۹)