بعثت رحمت العالمین ﷺ
روئے زمین پر ساری انسانیت تباہ حال تھی برصغیر پاک و ہند میں تینتیس کروڑ بت پوجے جاتے تھے۔ شمالی ایشیائی اقوام، چین ،وسط ایشیا ، سا ئبیریا ہو یا روس کسی کو کھانے پینے، پاک ناپاک ،حلال و حرام ،جائز و ناجائز کی تمیز نہیں تھی۔وسط ایشیائی اقوام زندہ جانوروں کا گوشت کاٹ کر کھا جاتے تھے۔ افریقہ میں انسانوں کا گوشت کھایا جاتاہر طاقتور کمزور کو لوٹ لیتا ،بیویاں اوربچے چھین کرغلام بنا لیتے۔ایران میں آگ کی پوجا ہوتی،ظلم و جور، تباہی اوربربادی تھی ۔شاہی خاندان کے بیشتر حکمرانوں میں سے کسی نے اپنی بھانجی سے شادی کر رکھی تھی تو کسی نے اپنی بہن سے اور کسی نے اپنی بیٹی سے۔رومن ایمپائر میں بھوکے درندوں کے سامنے انسانوں کو چھوڑ کر تماشا دیکھا جاتا ۔ یورپ اور مغربی اقوام کو مکان بنانا نہیں آتا تھا غاروں میں رہنے والے وحشی اور درندے تھے ۔آج کل سائینٹفک طریقے سے درندگی کرتے ہیں۔آج ہماری سائنس کہتی ہے کہ یہ زمین آسمان سارے ایک غبار سا ایک شے تھی جس کی بنیاد پانی پر ہوئی پھر ایک کوہ بنا۔ اس میں ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا اُس دھماکے کے نتیجے میں کچھ ستارے، کچھ سیارے ، کہیں سورج ، چاند بن گیا اور کُرے بن گئے ۔اس طرح ایک کرہ زمین بھی بن گئی ۔ زمین کے پھر ٹکڑے بنے اور رفتہ رفتہ جڑکر براعظم بن گئے کہیں پانی کی روائیدگی آئی جانور ، گھاس پھوس ، درخت پیدا ہونے لگ گئے ندیاں نہریں بن گئیں اور وہ دھماکہ ابھی تک تھما نہیں اس لئے کہ تخلیق کا عمل مسلسل جاری وساری ہے اور یہ بات چودہ سو سال پہلے قرآن پاک نے بتائی تھی کہ زمین و آسمان ایک شے تھی ہم نے اسے الگ کر دیا۔
دوسرا بڑا دھماکہ عالم انسانیت میں بعثت محمد رسول اﷲ ﷺ کا ہے کہ انسانی ذہنوں سے لیکر قلوب تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔اُن کی آنکھیں نہ دیکھ سکیں لیکن انہوں نے رب العٰلمین کو دیکھنے سے زیادہ یقین کر لیا۔اتنا بڑا دھماکہ ہوا کہ آج کسی جنگل میں بیٹھے ہوئے چرواہے سے پوچھو تو اُس کے ذہن تک بھی وہ لہر پہنچ گئی کہ قیامت ،آخرت، حساب کتاب ، ثواب وگناہ اوررب العالمین ہے اس کے حضور ہمیں جانا ہے۔بعثت رسالت ﷺ نے انسانی دلوں کو تجلیات باری کی آماجگاہ بنا دیا ۔فروغ سینا جن انوارات کی ایک جھلک برداشت نہ کر سکا۔ تجلیات باری سے بڑی بڑی سنگلاخ چٹانیں چٹخ چٹخ کر جل کر سرمہ بن گئیں ۔ ان تجلیات کو ایمان لانے والے بندوں کے قلوب میں یوں سمو دیا کہ وہ ان کی غذا، دوا اور حیات بن گئی۔ جب ایسے لوگ اٹھے تو کفر اور باطل، ظلم و جور پر ایک کپکپی طاری ہو گئی چند نفوس قدسی جو نور ایمان سے مشرف ہوئے وہ اس روشنی کو لے کر یوں پھیل گئے۔جیسے باد سحر پھولوں سے خوشبو لے کر پھیل جاتی ہے اور آج تک کوئی انسان اس بات کا تجزیہ نہیں کرسکاکہ روئے زمین پر پھیلے ہوئے اتنے بڑے ظلم کے ان سنگلاخ چٹانوں کو ان چند بادہ نشینوں نے چند برسوں میں تروڑ مروڑ کر اپاہج کیسے کر دیا؟ دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بتوں کی خدائی کو تباہ کر دیا ظالموں کے ظلم مٹا دیئے اور بڑے بڑے متکبر فرعونوں کے سر کے تاج توڑ کر غریبوں میں بانٹ دئیے اورروئے زمین پر امن وانصاف، عدل اور بندوں کا رب العٰلمین سے ایسا تعلق قائم ہواکہ آج بھی جو چاہے حضورﷺ پر ایمان لائے اور اپنی مناجات براہ راست رب العٰلمین سے گزارش کرے۔
اﷲ پاک فرماتے ہیں زمینوں آسمانوں ساری مخلوق پر میرے بے پناہ ا حسانات ہیں سب کوپیدا کیا سب پر میرا احسان ہے۔سب کو وجود دیا،زندگی ،روزی سب کو محبتیں دیں لیکن میرا احسان تم پر ہے کہ میں نے محمد رسول اﷲ ﷺ کو مبعوث فرما دیا۔اب یہ احسان ایسا ہے کہ تخلیق کائنات اس کے سامنے معدوم ہو گئی۔بعثت عالی کے ساتھ جہاں معجزات و برکات ہیں وہاں ارشادات رسول ﷺ بھی ہیں جن کی پاسداری کرنا پڑتی ہے۔آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین کے اندر آنے کے لئے اپنی تراش خراش کرنا پڑتی ہے۔پاکیزگی اپنانے کے لئے صفائی کرنا پڑتی ہے۔ہمت و محنت سے کام لینا پڑتا ہے۔رسومات ورواجات چھوڑ کر سنت رسول ﷺ اپنانا پڑتی ہیں ۔اپنی خواہشات کو رضائے الہٰی کے حصول کے لئے چھوڑنا پڑتا ہے اور اپنی رائے و پسند سے دستبردار ہو کر اسے حضور ﷺ کی پسند میں فنا کرنا پڑتا ہے اور یہ سب کچھ کرنا حضور ﷺ کی برکات آسان کردیتی ہیں۔لیکن تب جب کوئی بعثت رحمت عالم ﷺ سے حصہ پائے۔ تیرہ برس تک حضور ﷺ کی غلامی کے لئے دنیا کی ہر اذیت برداشت کی ان کے وجود گرم سلاخوں سے داغے گے۔گرم ریت پر لٹا کر سینے پر پتھر رکھے گئے۔کوڑے مارے گئے،شہید کئے گئے،زخمی
کئے گئے بھوکا پیاسا رکھا گیا۔کون سا ظلم ہے جو مجبور مسلمانوں پرمکہ مکرمہ کے رہنے والے مشرکین نے روا نہ رکھا ہو۔لیکن انہوں نے غلامی محمد رسول اﷲ ﷺ کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ہر دکھ برداشت کیا۔حتٰی کہ گھر،شہر ،جائیدادیں چھوڑیں۔ سب کچھ قربان کر دیااور خالی ہاتھ ہجرت کر کے حضور ﷺ کی خدمت میں چلے گئے۔۔پھر مدینہ منورہ پر حملہ ،بدر و احد،خندق میں کفار مشرکین نے بڑا زور لگایا انہوں نے قربانیاں دیں ،زخمی ہوئے لیکن حق غلامی ادا کرتے رہے۔
آج آپ ولادت کی بات کرتے ہیں۔کیا آپ ﷺ نے نہیں فرمایا کہ میرے زمین پر قدم رکھنے سے اجتماعی عذاب نازل ہونا بند ہو گئے۔لوگوں کی صورتیں مسخ ہونا بند ہو گئیں ۔ساری زمین مسجد بن گئی۔پانی میں پاک کرنے کی طاقت تھی آپ کے قدم مبارک سے اﷲ نے مٹی کو یہ تاثیر د ے دی کہ پانی سے وضو کرو تو جسم پاک ہوتا ہے اگر ضرورت تییم کی ہو تو حضورﷺ فرماتے ہیں ہڈیاں اُن کا گودا تک پاک ہو جاتا ہے۔لاغر سانڈھنی پہ آپ ﷺ بیٹھے تو وہ جوانوں سے تیز ہو گئی۔دودھ خشک ہو چلا تھا نہریں جاری ہو گئیں۔ جہاں جہاں حضور ﷺ قدم رکھتے وہ جگہ گلزار ہو جاتی۔جس گھر میں قدم رکھتے وہ بابرکت ہو جاتا۔جس جانور پر سوار ہوتے وہ تیز رفتار ہو جاتا۔ یثرب جس کا ترجمہ دارالبلاء درست ہے ایک خاص قسم کا مرض جو وہاں جاتا اس کا شکار ہو جاتا۔یثرب کو مدینہ کس نے بنا دیا۔ساری قوم میلاد مناتی ہے بعثت کوئی نہیں مناتا۔کیوں کہ جب بعثت کا تذکرہ ہو گا تو ایمان لانا پڑے گا۔حضور اکرم ﷺ کی اطاعت اور غلامی کرنا پڑے گی۔خواہشوں،جھوٹی انا ،تکبر و غرور،لالچ و حوس کے سارے بت دل سے نکالنے ہوں گے اور ان سب کی جگہ ایک اﷲ کی حکومت قائم کرنا ہو گی ۔
تمہاری حیثیت کیا ہے ؟ کون پہچانے گا ہمیں ! کون جانتا ہے ہمیں ! کیا ہماری وجہ سے موسم بدل جائیں گے؟ کیا ہماری وجہ سے دھوپ میں روشنی نہیں رہے گی؟ کیا ہماری وجہ سے دریا رستہ چھوڑ دیں گے؟ہاں ! میں کہتا ہوں چھوڑ دیں گے......! اﷲ کا ایک بندہ فارس کی فتح کے وقت لڑتا لڑتا لب دریا پہنچا ۔یزدگرد نے حکم دیا ساری کشتیاں بہا دواور سارے پل توڑ دو۔صبح لب دریا حارث بن مثنی لشکر کو لے کرصف آرا ء ہیں اور دریا طغیانی پر ہے۔کہتا ہے ’’یا اﷲ ! اگر تو میں اپنی ذات ،ملک اور مال و دولت حاصل کرنے کے لئے نکلا ہوں تو ہمارا غرق دریا ہونا بہتر ہے۔ لیکن اگر اُس نور کو سینے میں سجا کر ،کائنات، زمین اورتیرے انسانوں کے دلوں سے ظلمتیں مٹانے نکلا ہوں تو دریا بھی تیرے زمین بھی تیری اس دریا کو کہہ دے ہم نے پار جانا ہے۔‘‘ سارے لشکر کو حکم دیاکہ دریا میں اتر جاؤ۔اونٹ،گھوڑے اور باپیادہ لشکر دریا میں اترا تو اتنا بند بندھ گیا کہ پانی کناروں سے باہر نکلنے لگا۔آج بھی تاریخ میں موجود ہے کہ فارس کے سپاہی بھاگ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ دیو آمدن، دیو آمدن دیو آمدن ......یہ کوئی اور مخلوق آ گئی ہے دوسرے کنارے پر پہنچ کرامیر لشکر نے پوچھا کہ’’ کچھ کسی کا کھویا تو نہیں۔ایک سانڈنی سوار نے کہا۔’’ جناب میرے پالان کے ساتھ لکڑی کا ایک پیالہ تھا جو اب نہیں ہے۔ابھی امیر لشکر نے جواب نہیں دیا کہ پانی کی لہر آئی اور پیالہ باہر پھینک دیا۔میں کہتا ہوں تیرے وجود سے دریا بدل سکتے ہیں۔زمانے بدل سکتے ہیں۔رات کا دن ہو سکتا ہے۔بارشیں نازل ہو سکتی ہیں۔مصیبتیں ٹل سکتی ہیں۔لیکن تو اپنے آپ کو جان تو سہی کہ میں ہوں کیا؟اور میری تیری پہچان ہے بعثت محمد رسول اﷲ ﷺ جو لمحے میں کائنات کو منور کر گیا۔ انسان کو انسان سے الگ کر گیا۔ظالم و عادل ، کافرو مومن ،حق و باطل کو الگ کر گیااور دونوں کی راہیں جدا کر دیں۔حضور ﷺسے بعثت کا رشتہ رکھنے والوں کے لئے تو آگ جلائی گئی تھی لیکن آگ نے جلنے سے انکار کر دیا تھا پھر اس قوم کی مساجد میں بم کیوں پھٹ رہے ہیں؟ کیا کوئی ایک بندہ بھی مسجد میں نہیں ہوتا کہ جس کے خلوص کے طفیل یہ تباہی رک جائے؟
عراق سے لیکر مشرق بعید تک ،افغانستان ، کشمیر،فلسطین ،الجزائر ،شیشان ہو یا کوسوو مسلمان کے درد کا علاج آج بھی وہی ہے۔سپر طاقتوں کا علاج آج بھی وہی ہے جو روز اول محمد رسول اﷲ ﷺ نے دیا تھا اور وہ ہے ایمان۔ بعثت رحمت عالم ﷺ وہ نقطہ ہے جس نے ہمیں ایمان عطا کیا اور ایمان وہ سانچا ہے جو فرد کو جو کچھ وہ پہلے تھا اس سے مٹا کر ایک نیا انسا ن بنا دیتا ہے۔یہ زمین اﷲ کے نام سے خالی نہیں ہو گی بلکہ پاکستان کا نقشہ بدلے گا۔جو میں دیکھ رہا ہوں وہ نقشہ یہ ہے کہ سارا برصغیرپاکستان ہو گا۔انشاء اﷲ لیکن یاد رکھیں ہو گا کربلا سے گزر کر۔آپ دیکھ رہے ہیں دنیائے کفر کی طاغوتی طاقتیں ایک جگہ مجتمع ہو رہی ہیں آج بر صغیر کا ایک حصہ طاغوتی
طاقتوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے اور اس کا ایک حصہ نعرہ تکبیر سے
گونج رہا ہے۔یہ ٹکرائیں گے فتح اﷲ کے نام کی ہو گی اور سارا بر صغیر ریاست اسلامی بن کر روئے زمین پر احیائے اسلام کا سبب بنے گا۔اگر ہم آج اس طرف پلٹ آئیں تو اﷲ ہمیں توفیق دے دے گا ورنہ جو پلٹے گا ۔وہ اس سعاد ت سے بہرہ ور ہو گا۔