محترم ساتھیو:۔السلام علیکم
قرآن ہمیں اطاعت رسولﷺ کا حکم دیتا ہے اور اس کی برکات سنت نبوی ﷺ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں جس پر چل کر ہر مسلمان رضا الہی کا
مستحق ہوتا ہے مگر اس کے برخلاف اگر مسلمان ایسی باتیں دین میں داخل کردے جو اس کے مطابق تو اچھا عمل ہے مگر نہ اس کا حکم قرآن میں موجود ہے اور نہ سنت نبوی ﷺ میں موجود ہے تو پھر وہ اس کے لئے کسی خیر کا باعث نہیں بن سکتا ہے چنانچہ اگر ہم قرآن کا مطالعہ کریں تو ہمیں اطاعت رسول ﷺکا حکم دیا گیا ہے " وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (سورہ النساء 63)"اور ہم نے ہر رسول کو صرف سی لئے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے " اور قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ نے اطاعت رسول ﷺ کا حکم دیا ہے مگر جب ہر نبی اپنی امت سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس امت کے زمانہ بعید کے لوگ اپنے وقت کے نبی کی سنتوں سے کس طرح اعراز کرتے ہیں یہ حدیث ہم اپنے مقام پر بیان کریں گے۔انشاء اللہ
دلائل عید میلاد نبی ﷺ
اب ہم ان دلائل کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرواتے ہیں جو اس کے حق میں دے کر اس رسم کو بعض ہمارے مسلمان بھائی دین میں داخل کرنے کی
کوشش کرتے ہیں۔
اسے ہمارے بعض بھائی عید سے تعبیر کرتے ہیں اور اسے عید میلاد النبی ﷺ کے نام سے مناتے ہیں جب ان سے کہا جاتا ہے کہ عیدیں تو دو سال میں دو ہی ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن کو بھی عید کیا جاتا اس لئے ہم اسے بھی عید کہتے ہیں اور کہتے ہیں جس دن نعمت حاصل ہو اس دن عید منانا انبیاء کی سنت ہے ۔ : اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا،اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے (کھانوں کا) ایک دستر خوان نازل کر جو ہمارے پہلے اور پچھلے (سب کیلئے) عید بن جائے (سورہ المائد 114) چنانچہ اسی قرآنی اصول کے تحت اللہ کی سب سے بڑی رحمت اور نعمت نبی ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری ہے اس لئے اس دن کو عید منانا جائز اور مستحسن ہے اور جب اللہ کا فضل اور رحمت حاصل ہو تو اس دن خوشی منانے کا حکم اللہ نے دیا ہے قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُون،(سورہ یونس 58)آپ کہہ دیجیے کہ لوگوں کو اللہ کے اس فضل اور رحمت پر خوشی منانا چاہئے وہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کر رہے ہیں۔
اور قرآن نے رحمت نبی ﷺ کو فرمایا ہے :"وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ، یعنی ہم نے آپ کو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا"۔[سورۃ الانبیاء:107)تو قرآن ہمیں خود رحمت پر خوشیا ں منانے کا حکم دے رہا ہے ۔
جواب : جمعہ عید ہے یہ کس نے بتایا ہے ظاہر سی بات ہے کہ یہ بات ہمیں فرمان رسول ﷺ سے معلوم ہوتی ہے اور صحابہ کرام کے اقوال سے بھی ثابت ہوتی ہیں ۔
أَبِي لُبَابَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُنْذِرِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ سَيِّدُ الْأَيَّامِ، وَأَعْظَمُهَا عِنْدَ اللَّهِ، وَهُوَ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ يَوْمِ الْأَضْحَى وَيَوْمِ الْفِطْرِ، »(سنن ابن ماجہ کتاب الصلاۃ باب فضل الجمعہ رقم 1084)
ابولبابہ بن عبد المنذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جمعہ تمام دنوں کا سردار ہے اور اللہ کے ہاں تمام دنوں سے زیادہ عظمت والا ہے اور یہ اللہ کے ہاں یوم الفطر اور یوم الاضحی سے بھی زیادہ معظم ہے۔ ۔
اس پر صحابہ کرام رضی عنھم کے اقوال بھی موجود ہیں
رَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلَامَ دِينًا} [المائدة: 3] وَعِنْدَهُ يَهُودِيٌّ فَقَالَ: لَوْ أُنْزِلَتْ هَذِهِ عَلَيْنَا لَاتَّخَذْنَا يَوْمَهَا عِيدًا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «فَإِنَّهَا نَزَلَتْ فِي يَوْمِ عِيدَيْنِ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ، وَيَوْمِ عَرَفَةَ» : «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ»(ترمذی کتاب تفسیر باب سورہ المائدہ رقم 3044)
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت ( اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا) 5۔ المائدہ : 3) پڑھی تو ان کے پاس ایک یہودی تھا۔ وہ کہنے لگا کہ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید کے طور پر مناتے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جس دن یہ آیت نازل ہوئی تھی اس دن یہاں دو عیدیں تھیں۔ عرفات کے دن کی اور جمعہ کے دن کی۔
نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے ثابت ہے کہ جمعہ عید کا دن ہے اگر ایسا کوئی قول عید میلاد النبیﷺ کو عید کہنے کے بارے میں منقول ہو تا تو ہمارے بھائی ضرور بیان کرتے مگر ایسی کوئی بات منقول ہی نہیں ہے اس لئے اس کو بیان نہیں کیا جاتا اور جہاں تک سورہ مائدہ کی اس آیت کا تعلق ہے تو وہ یہ خود فرماتے ہیں کہ انبیاء کی سنت ہے تو انبیاء کی سنت کا ان سے ثابت ہونا بھی ضروری ہے تو اگر نبی ﷺ نے کبھی 12 ربیع الاول کے دن عید میلاد منایا ہے تو ہمیں ضرور بتایا جائے ۔
اور جہاں تک قرآن رحمت پر خوشیا ں منانے کا حکم دے رہا ہے تو وہ قرآن کی رحمت ہے جیسا کہ اس سے قبل آیت میں بیان ہوا ہے اب ہم دونوں آیات آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ (57) قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (58) (سورہ یونس)اے لوگوں یقینا تمہارےرب کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آچکی ہے جو دلوں کے روگ میں شفا ہے اور مومنوں کے لئے ھدایت اور رحمت ہے۔ آپ کہہ دیجیے کہ لوگوں کو اللہ کے اس فضل اور رحمت پر خوشی منانا چاہئے وہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کر رہے ہیں۔ اور قرآن رمضان المبارک میں نازل ہوا ہے جیسا اللہ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے" شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزلَ فِيه"(البقرۃ 185)ماہ رمضان میں قرآن نازل کیا گیا۔
تو قرآن کی اس آیت کے مطابق اللہ نے قرآن کو رحمت کہا ہے اور اس رحمت کے آنے کی خوشی ہم ہر سال عید الفطر کے طور پر منانے ہیں اور اس کا حکم ہمیں نبی ﷺ نے دیا ہے یہ ہماری خود ساختہ عید نہیں ہے جس کو کا حکم نہ نبی ﷺ نے دیا اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے منائی ہے ۔
دلیل 2: عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا یقیناً ثواب ہےاور اس کے جواز کے لیےاتنا کافی ہے کہ قرآن و حدیث میں کہیں کام سے منع نہیں کیا گیا، اور احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ جو چیز منع نہ کی گئی اور وہ قرآن وحدیث کے مخالف بھی نہ ہو تو وہ جائز ہوا کرتی ہے، اور یہ مسلّمہ قاعدہ ہے:"اَلأصلُ فِي الأشْيَاءِ إبَاحَة"،یعنی چیزوںمیں اصل اباحت ہے، جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے، چنانچہ بزار نے حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اللہ تعالیٰ نے جسے اپنی کتاب میں حلال فرمایا وہ حلال ہے اور جسے حرام فرمایا وہ حرام ہے اور جس کے بارے میں سکوت فرمایا تو وہ معاف ہے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کی عافیت کو قبول کرو، بے شک اللہ عزوجل کی یہ شان نہیں کہ وہ کوئی چیز بھولے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:"وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا، یعنی تمہارا رب بھولنے والا نہیں" [مریم:64]
جواب: ہمارے بھائی یہ کہتے ہیں کہ عید میلاد النبی ﷺ منانا ثواب ہے اور جس چیز سے منع نہیں وہ جائز ہوتی ہے اوروہ یہ مسلمہ قاعدہ بیان کرتے ہیں "اَلأصلُ فِي الأشْيَاءِ إبَاحَة"،یعنی چیزوںمیں اصل اباحت ہے اس میں خود موجود ہے کہ یہ اباھت چیزوں سے متعلق ہے عبادات یا ثواب کی نوعیت سے متعلق باتوں پر نہیں ہے اور جس حدیث کا ذکر کی گیا ہے اس میں بھی یہی موجود ہے کہ حلال فرمایا اور حرام فرمایا تو یہ کھانے پینے سے متعلق چیزوں سے ہے اور ہمارے بات کی تائید ابن عباس کے قول سے بھی ہوتی ہے
ابْنَ عَبَّاسٍ وَقَرَأَ: {قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلِيَّ مُحَرَّمًا} [الأنعام: 145] ، الْآيَةَ، وَقَدْ كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَتْرُكُونَ أَشْيَاءَ تَقَذُّرًا , فَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى كِتَابَهُ وَبَيَّنَ حَلَالَهُ وَحَرَامَهُ , فَمَا أَحَلَّ فَهُوَ حَلَالٌ , وَمَا حَرَّمَ فَهُوَ حَرَامٌ , وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ عَفْوٌ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: {قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلِيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ} [الأنعام: 145]
سنن الکبری لبیہقی رقم 19459)
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی "کہہ دیجئے میں نہیں پاتا جو وحی کیا گیا میری طرف اس میں سے کچھ بھی حرام" تو بعض لوگوں نے بہت سی اشیاء ترک کردی اس پر ابن عباس نے فرمایا کہ اللہ نے اپنی کتاب میں بیان کی حلال اور حرام پھر جو اس میں حلال کیا وہ حلال ہے اور جو اس میں حرام کیا وہ حرام ہے اور جس سے سکوت کیا وہ معاف ہے اس کے بعد یہ آیت تلاوت کی ۔
ابن عباس کا قول اس بات کو بالکل واضح کرتا ہے کہ یہ احادیث چیزوں سے متعلق ہیں ان کا عبادات سے کوئی تعلق نہیں ہے اگر ایک آدمی زندگی میں کبھی شراب نہیں پیتا تو اس کو روز شراب نہ پینے کا ثواب تو نہیں ملے گا ہاں اگر وہ روز شراب پیے کا تو اس کو اس کا گناہ ضرور ملے گا تو یہ احادیث چیزوں کی اباحت کے بارے میں ہیں جبکہ وہ عمل جس سے ثواب ملتا ہے جیسا کہ ہمارے بھائی سمجھتے ہیں کہ عید میلاد منانے سے ثواب ملتا ہے اس کے بارے میں نبی اکرمﷺ نے کیا فرمایا ہے توجہ سے بڑھئے ۔
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ» (صحیح مسلم رقم 1718 کتاب الاقضیہ باب نقص الْأَحْكَامِ الْبَاطِلَةِ وَرَدِّ مُحْدَثَاتِ الْأُمُور) جو کوئی ایسا کام کرے جس کے لئے ہمارا حکم نہ ہو وہ مردود ہے
نبی اکرم ﷺ نے واضح فرمادیا ہے کہ وہ عمل مردود ہے جس کا ہم نے حکم نہیں دیا اور وہ کیا جائے تو دین کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے تمام دین
کی باتیں بتا دیں ہے جو ایک مسلمان ثواب سمجھ کر کرتا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہے " اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُم(المائدہ 3 )آج کے دن ہم نے تمہارے دین کو مکمل کردیا ہے۔تو دین میں اب کوئی بھی نئی بات داخل کرنے کی کوئی گونجائش نہیں ہے اور جو ایسا کوئی عمل کرے گا تو وہ عمل اس حدیث کی رو سے مردود ہو کا سورہ المائدہ کی اس آیت کی تشریح نبی اکرم ﷺ نے خود فرمائی ہے کہ
فَقَالَ: صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَقِيَ شَيْءٌ يُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّةِ، ويُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ، إِلَّا وَقَدْ بُيِّنَ لَكُمْ»(طبرانی الکبیر رقم 1647)
نبی اکرم ﷺنے فرمایا ہر وہ بات جو تمہیں جنت میں لے جائے اور جو جہنم سے دور کردے وہ تم سے واضح طور پر بیان کر دی گئی ہے ۔
اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں "وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ} [المائدة: 67](صحیح بخاری کتاب التفسیر باب سورہ نجم رقم 4855) جو یہ کہتا ہے کہ نبی ﷺ نے دین کی کوئی بات چھپائی ہے وہ جھوٹا ہے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی "اے رسولﷺ پہنچا دیجئے جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے ۔
ان آیات اور احادیث سے یہ بات اظرہ من لاشمس کی مانند ہے کہ دین کے ہر عمل کے بارے میں نبی اکرمﷺ نے فرمادیا ہے اور جو یہ کہتا ہے کہ یہ عید میلاد النبیﷺ منانا ثواب اور دین کے مطابق ہے تو اسے یہ بتانا ہوگا کہ یہ بات نبیﷺ نے کہاں فرمائی ہے کیونکہ دین تمام کا تمام مکمل ہو چکا ہے ۔
دلیل 3: ہمارے بعض بھائی جب یہ ثابت نہیں کر پاتے کہ نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے 12ربیع الاول منائی ہے تووہ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ شریعت نے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی ہے کہ جو کام نبی اکرمﷺ نے نہ کیا یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہ کیا وہ کیا نہیں جاسکتا ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی ایسے متعدد کام کیے ہیں اور اس کی مثال وہ قرآن مجید کا ایک مصھف میں جمع کرنا بطور دلیل پیش کرتے ہیں اور ثانیا وہ بدعت حسنہ کی تاویل پیش کرتے ہیں کہ یہ ایک نیک عمل ہے اور بدعت حسنہ ہے جس کے لئے وہ صحیح مسلم اور بخاری سے روایت پیش کرتے ہیں ۔
جواب: قرآن اور حدیث میں کسی کام کے ناجائز ہونے کی یہ دلیل نہیں ہےکہ وہ کام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کیا تو وہ کام کرنا جائز نہیں ہے
جو بھی یہ کہتا ہے وہ قرآن اور حدیث سے واقف نہیں ہے قرآن میں معتدد آیات موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا حکم ماننا لازمی ہے اور ان میں سے ایک ہم یہاں پیش کیے دیتے ہیں لَقَدْ كانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (سورہ الاحزاب 21)تمہارے لئے رسول ﷺ کی حیات مبارکہ میں بہترین اسوہ ہے ۔ اور حدیث میں اس کی وضاحت نبی ﷺ نے خود فرمائی ہے وَيَقُولُ: «أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللهِ، وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»( صحیح مسلم کتاب الجمعہ رقم 867)
نبی اکرمﷺ نے فرمایا : سب سے بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے اور سب سے برے نئے کام ہیں اور ہر نیا کام گمراہی ہے ۔
تو نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ سے ہی ہمیں تمام باتیں اخذ کرنی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ نبی اکرم ﷺ کی پیروی کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے چنانچہ دین کا کوئی بھی عمل ایسا نہیں ہے جو نبی اکرم ﷺ نے نہ بتایا ہے جیسا ماقبل حدیث میں نقل کیا گیا ہے تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی نیک عمل بتایا جائے اور اسے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نہ کریں تو صحابہ کرام کا دین کے کسی عمل کو نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عمل دین میں نہیں ہے اگر وہ عمل دین میں ہے تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسا کوئی عمل چھوڑ نہیں سکتے تھے اور میں اس سے قبل بھی حدیث بیان کر چکا "وہ عمل جس میں ہمارا حکم نہیں وہ مردود ہے"جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بہت سے ایسے کام ہیں جو نبی اکرمﷺ کے دور مبارک میں نہیں ہوئے مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیے ہیں تو اس کے بارے میں حدیث پیش خدمت ہے
قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً، وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، وَذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ، فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: وَعَظْتَنَا مَوْعِظَةَ مُوَدِّعٍ، فَاعْهَدْ إِلَيْنَا بِعَهْدٍ، فَقَالَ: «عَلَيْكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا، وَسَتَرَوْنَ مِنْ بَعْدِي اخْتِلَافًا شَدِيدًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»(سنن ابن ماجہ باب اتِّبَاعِ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّي رقم 42)
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول ﷺ ہماے درمیان خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوے اور بہت نصیحت کی اور اس سے ہمارے دل ڈر گئے اور آنکھیں جوش مارنے لگی پھر لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ یہ نصیھت تو ایسی معلوم ہوتی ہے کہ جیسے آپ رخصت فرمارہے ہوں آپ ہمیں وصیت کریں آپﷺ نے فرمایا اپنے اوپر اللہ کا تقویٰ لازم کر لو اور کہنا ماننے کو چاہے حبشی غلام ہی تم پر حاکم کیوں نہ ہو اور تم میرے بعد سخت اختلاف پاؤ گے تو لازم پکڑو تم اپنے دانتوں سے میری سنت اور میرے خلفائے راشدین اورہدایت یافتہ لوگوں کی سنت اور بہت بچو نئے کامو سے اس لئے ہر بدعت گمراہی ہے ۔
تو اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل کو سنت کا درجہ دیا ہے اور اپنے بعد ان کی اتباع کی ہدایت کی ہے چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل سنت ہی کہلائے گا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے وہ تمام کام جو انہوں نے آپس میں مشاورت سے کیے ہیں وہ سنت ہی کے ضمن میں آتے ہیں کیونکہ ان کو سنت کا درجہ نبی اکرم ﷺ نے ہی دیا ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم ﷺ کی سنتوں پر نثار ہونے والی ہستیاں تھیں اس وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے ان کے راستہ کو بھی سنت قرار دیا ہے مگر ان کے بعد زمانہ بعید کے لوگوں کے لئے جو سنت کو چھوڑ کر وہ کام کرتے ہیں جن کا حکم نہ نبی ﷺ نے دیاہے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پر عمل کیا ہے ایسے لوگوں کےبارے میں حدیث میں کیا ہے خود پڑھیے
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللهُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ، وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ، ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ، وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ، فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الْإِيمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ»( صحیح مسلم جلد 1 کتاب ایمان باب كَوْنِ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ مِنَ الْإِيمَانِ رقم 80)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھ سے پہلے کوئی نبی علیہ السلام ایسے نہٰں بھیجے گئے جن کے حواری اور اصحاب نہ ہوں جو ان کے طریقے پر چلتے ہیں اور ان کے حکم کی پیروی کرتے ہیں پھر ان کے بعد ایسے ناخلف لوگوں پیدا ہوتے ہیں جو زبان سے کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں اور ایسے کام کرتے ہیں جن کا حکم نہیں ہوتا ہے پھر جو ان ناخلفوں سے ہاتھ سے لڑے وہ مومن اور جو زبان سے لڑے (یعنی ان کی باتوں کی رد کرے) وہ مومن اورجو کوئی ان کو دل میں برا جانے وہ مومن اور اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے ۔
یہ وہ حدیث ہے جس پر ایسے لوگ پورے اترتے ہیں جو سنتوں سے اعراز کرتے ہیں اور ایسے کام کرنے کے جواز تلاش کرتے ہیں جس کا حکم ہی نہیں دیا گیا ہے کوئی یہ اعتراض بھی کر سکتا ہے کہ یہ تو پہلی امت کے بارے میں ہے مگر اگر اس حدیث کو غور سے پڑھا جائے تو اس میں نبی ﷺان سے جھاد کرنے کے بارے میں فرمارہے ہیں تو اس سے نبی ﷺ اس بات کی نشادہی کرارہے ہیں کہ میری امت میں بھی ایسے لوگ پیدا ہوں گے اللہ ہمیں ایسےلوگو ں میں نہ کرے ۔اب بدعت حسنہ کی جانب چلتے ہیں ہمارے بھائیوں کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ بدعت حسنہ یعنی کوئی نیک عمل جاری کیا جائے تو وہ بدعت حسنہ کے ضمن میں آتا ہے اور عید میلاد النبی ﷺ سے بڑا کونسا نیک عمل ہوگا ۔
جواب: ہم بڑے اطمینان سے یہ عرض کرتے ہیں کہ دین اسلام میں کسی بدعت حسنہ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے دین میں صرف بدعت ہے اور ہر وہ بدعت جو ثواب کی نیت سے کی جائی وہ مردود ہے جو لوگ بدعت حسنہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ یہ حدیث بیان کرتے ہیں
(1017) حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ يَزِيدَ، وَأَبِي الضُّحَى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هِلَالٍ الْعَبْسِيِّ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمِ الصُّوفُ فَرَأَى سُوءَ حَالِهِمْ قَدْ أَصَابَتْهُمْ حَاجَةٌ، فَحَثَّ النَّاسَ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَأَبْطَئُوا عَنْهُ حَتَّى رُئِيَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ. قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ جَاءَ بِصُرَّةٍ مِنْ وَرِقٍ، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ، ثُمَّ تَتَابَعُوا حَتَّى عُرِفَ السُّرُورُ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا، وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، كُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا، وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ» ،
کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ کمبل پہنے ہوئے تھے آپ ﷺ نے ان کا برا حال دیکھا اور ان کی محتاجی دریافت کی تو لوگوں کو رغبت دلائی صدقہ دینے کی لوگوں نے صدقہ دینے میں دیر کی یہاں تک کہ اس بات کا رنج آپ ﷺ کے چہرے مبارک پر معلوم ہوا پھر ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے روبیوں کی تھیلی دی اس کے بعد دوسرے آئے اور پھر تار بندھ گیا آپ ﷺ کا چہرہ مبارک پر خوشی کے اثار نمایا ں ہو گئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص اسلام میں اچھی بات نکالے پھر لوگ اس کے بعد اس پر عمل کرین تو اس کو اتنا ثواب ہوگا جتنا سب عمل کرنے والوں کو ہوگا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی اور جو اسلام میں بری بات نکالے اور لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں تو تمام عمل کرنے والوں کے برابر گناہ اس پر لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کا گناہ کچھ کم نہ ہو گا
اس پوری حدیث میں کہیں بھی بدعت حسنہ کا کوئی ذکر نہیں ہے اس میں صدقہ کی ترغیب دی گئی تھی اور صدقہ کرنا اسلام میں پہلے سے موجود ہے اور اگر ہم اس باب کی دوسری حدیث پر غور کریں تو یہ بات مکمل طور پر واضح ہو جائی گی
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَابْنُ حُجْرٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنُونَ ابْنَ جَعْفَرٍ، عَنِ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى، كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ، كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا» (صحیح مسلم کتاب العلم رقم 1018) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص ہدایت کی طرف بلائے اس کو ہدایت پر چلنےئ والوں کا بھی ثواب ملے گا اور چلنے والوں کا ثواب کچھ کم نہ ہوگا اور جو شخص گمراہی کی طرف بلائے کا اس کو گناہ پر چلنے والوں کا بھی گناہ ہو گا اور چلنے والوں کا گناہ کچھ کم نہ ہوگا۔
اس حدیث نے بات مکمل طور پر واضح کردی کہ اس حدیث میں نیکی پر چلنے کا ذکر ہے اور نیک وہی ہوتی ہے جو قرآن اور سنت سے ثابت ہو اس لئے یہ حدیث کسی طرح بھی بدعت حسنہ کی کوئی دلیل نہیں ہو سکتی ہے دوسری روایت جو اس ضمن میں پیش کی جاتی ہے وہ امیر المومنین عم رضی اللہ عنہ کا قول "نعمت بدعہ ھذہ " جو انہوں نے صلاۃ تراویح میں لوگوں کو ایک امام کے پیچھے جمع کر دیا تھا مگر یہ الفاظ انہوں نے لغوی طور پر استعمال کیے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نبیﷺ یہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھا چکے ہیں اور جب عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی جمع کیا تب بھی اکثر لوگ تراویح جماعت کے ساتھ ہی پڑھ رہے تھے مگر ایک ہی مسجد میں الگ الگ اماموں کے پیچھے تھے ان سب کو آپ رضی اللہ عنہ نے ایک ہی امام کے پیچھے کر دیا اور اس کی دلیل پیش ہے ۔
قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ. يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ. فَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَانِي «لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ» ، فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ، فَقَالَ عُمَرُ «نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ» (موطا امام مالک بَابُ مَا جَاءَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ
عبدالرحمن بن عبدالقاری فرماتے ہیں میں نکلا امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان میں مسجد کی طرف تو لوگ نماز تراویح پڑھ رہے تھے کوئی اکیلا پڑھ رہا تھا اور کسی شخص کے پیچھے آتھ دس لوگ پڑھ رہے تھے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر ان سب کو ایک قاری کے پیچھے کر دوں تو اچھا ہو پھر آپ نے سب کو ابی بن کعب کے پیچھے کر دیا دوسرے رات میں ان کے ساتھ آیا تو دیکھا سب لوگ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں تب آپ نے فرمایا یہ نئی بات اچھی ہے۔
اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے ایک امام کے پیچھے جمع کرنے سے قبل بھی لوگ جماعت سے نماز پڑھ رہے تھے اور نبی اکرم ﷺیہ جماعت اپنی حیات مبارکہ میں پڑھائی تھی (دیکھئے بخاری کتاب صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان رقم 2012) اور عمر رضی اللہ عنہ نے
یہ بدعت کا لفظ لغوی طور پر استعمال کی تھا اور اس کی دلیل یہ ہے
وَالْبِدْعَةُ عَلَى قِسْمَيْنِ: تَارَةً تَكُونُ بِدْعَةً شَرْعِيَّةً، كَقَوْلِهِ: «فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ» ، وَتَارَةً تَكُونُ بِدْعَةً لُغَوِيَّةً، كَقَوْلِ أَمِيرِ
المؤمنين عمر بن الخطاب عَنْ جَمْعِهِ إِيَّاهُمْ عَلَى صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ وَاسْتِمْرَارِهِمْ: نعمت البدعة هذه.(تفسیر ابن کثیر جلد 1 تحت آیت 117 ص277)بدعت دو قسم کی ہے جیسا کے حدیث میں ہے ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے یہ شرعی بدعت ہے اور کبھی یہ لغوی طور پر استعمال ہوتی ہے جیسے امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ اچھی بدعت ہے ۔
ابن کثیر رحمہ کی وضاحت سے ثابت ہوتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں بدعت کا لفظ لغوی طور پر استعمال کیا تھا ورنہ شریعت میں کتنا ہی اچھا عمل کیوں نہ ہو اور چاہے کتنی نیک نیتی سے کیاجارہا ہو اسے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے غلط ہی مانا اور اسے بدعت گمراہی ہی سمجھا ہے اور اس کی دلیل پیش ہے ۔
، ثُمَّ مَضَى وَمَضَيْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَى حَلْقَةً مِنْ تِلْكَ الْحِلَقِ، فَوَقَفَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: «مَا هَذَا الَّذِي أَرَاكُمْ تَصْنَعُونَ؟» قَالُوا: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حصًا نَعُدُّ بِهِ التَّكْبِيرَ وَالتَّهْلِيلَ وَالتَّسْبِيحَ. قَالَ: «فَعُدُّوا سَيِّئَاتِكُمْ، فَأَنَا ضَامِنٌ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِكُمْ شَيْءٌ وَيْحَكُمْ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، مَا أَسْرَعَ هَلَكَتَكُمْ هَؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ، وَهَذِهِ ثِيَابُهُ لَمْ تَبْلَ، وَآنِيَتُهُ لَمْ تُكْسَرْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّكُمْ لَعَلَى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدَى مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أوْ مُفْتَتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ» . قَالُوا: وَاللَّهِ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَيْرَ. قَالَ: «وَكَمْ مِنْ مُرِيدٍ لِلْخَيْرِ لَنْ يُصِيبَهُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَنَّ» قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ "، وَايْمُ اللَّهِ مَا أَدْرِي لَعَلَّ أَكْثَرَهُمْ مِنْكُمْ، ثُمَّ تَوَلَّى عَنْهُمْ.(سنن دارمی کتاب العلم بَابٌ فِي كَرَاهِيَةِ أَخْذِ الرَّأْيِ رقم 210)
(عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے) تو لوگ حلقہ بنائے بیٹھے تھے ان میں سے ایک حلقہ کے پاس آئے اور فرمایا یہ کیا ہے جو میں تم لوگوں کو کرتے ہوئے دیکھتا ہوں انہوں نے کہا ہم تکبیر تہلیل اور تسبیح ان کنکریوں پر گنتے ہیں آپ نے فرمایا اپنے گناہوں کو شمار کرو میں تمہارا ضامن ہوں کہ تمہاری نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی اے امت محمد ﷺ تم پر افسوس تم کتنی جلدی ہلاک ہوگئے ابھی تمہارے درمیان اصحاب رسول ﷺ کی کثرت موجود ہیں اور ابھی نبی ﷺ کے کبڑے پرانے نہیں ہوئے اور نہ ان کے برتن ٹوٹے ہیں قسم اس کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کیا تم ایسے طریقے پر ہو جس پر محمد ﷺ سے زیادہ ہدایت ہے یا تم نے گمراہی کا دروازہ کھولا ہے انہوں نے کہا ہمارا تو صرف نیکی کا ارادہ ہے آپ نے فرمایا بہت سے لوگ نیکی کا ارادہ کرتے ہیں جنہیں ہرگزنیکی حاصل نہیں ہوتی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ ایک قوم ایسی ہوگی جو قرآن پڑھی گی مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا اللہ کی قسم شاید ان میں سے اکثر لوگ تم میں سے ہوں۔
وَاللَّهِ لَآتِيَنَّهُمْ: بِحَدِيثٍ لَا يَجِدُونَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ - جَلَّ وَعَلَا - وَلَمْ يَسْمَعُوهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلِّي أُتَّبَعُ قَالَ مُعَاذٌ: فَإِيَّاكُمْ وَمَا جَاءَ بِهِ فَإِنَّ مَا جَاءَ بِهِ ضَلَالَةٌ "(حوالہ ایضا رقم 209)
(معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک عالم ہوگا وہ کہے گا ) اللہ کی قسم میں ان کو ایسی باتیں بتاؤں گا جو نہ کتاب اللہ میں ہوں گی اور نہ ہی نبی ﷺ
فرمائی ہوں گی تب شاید یہ میری بات مانے ، بھر معاذرضی اللہ عنہ نے فرمایا جو وہ باتیں بتائے گا اس سے بچو وہ گمراہی ہے ۔
مجاهد قال دخلت مع عبد الله [ بن عمر ] مسجدا وقد أذن [ فيه ] ونحن نريد أن نصلي [ فيه ] فثوب المؤذن فخرج عبد الله بن عمر من المسجد وقال اخرج بنا من عند هذا المبتدع ! ولم يصل فيه [
قال ] وإنما كره عبد الله التثويب الذي أحدثه الناس
(سنن ترمذی تحت رقم ١٩٨)
مجاہد فرماتے ہیں میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے داخل ہوا وہاں اذان ہو چکی تھی پھر موذن نے توثیب کی(الصلاہ خیر من النوم) تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا نکل اس بدعتی کی مسجد سے پھر اس میں نماز نہ پڑھی اور (مجاہد رحمہ اللہ )نے فرمایا عبداللہ بن عمر اس توثیب کو برا جانتے تھے جو لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نکالی تھی۔
یہ سب سے بڑی دلیل بن سکتی تھی ان کے لئے جو بدعت حسنہ کے قائل ہیں ان الفاظ کی اصل بھی شریعت میں موجود ہے اور یہ کلمات اچھائی پر بھی مشتمل ہیں
فرق صرف اتنا ہے کہ یہ اس مقام پر نہیں کہے گئے جہاں شریعت نے اس کو مقرر کیا ہے (یعنی فجر کی اذان میں) مگر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ان اچھائی پر مبنی کلمات کی مذمت کی اور موذن کو بدعتی کہا اور وہاں رکنا گوارہ نہیں کیا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بدعت حسنہ کی دین میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ چاہے کتنی نیکی کی غرض سے بدعت کی جائے وہ بدعت گمراہی کاسبب ہی ہوگی
اس سے نیک کا حصول ممکن نہیں ہے اور دین میں بدعت بری ہی ہوتی ہے اس سے اچھائی حاصل نہیں ہوتی ہے۔
بعض نام نہاد علماء عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لئے مختلف کتب کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مقدمیں ائمہ اور محدثین نے بدعت کی تقسیم کی ہے اور اس کے حوالے بھی درج کرتے ہیں تاکہ عوام الناس پر یہ تاثر قائم کیا جا سکے کہ دین میں بدعت کی تقسیم ائمہ اور محدثین نے ہی کی ہے ،
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ائمہ اور محدثین نے بدعت کی پانچ اقسام بیان کی ہیں مگر یہ سب دنیاوی لحاظ سے بیان کی ہے کہ دنیا میں نبی اکرمﷺ کے دور مبارک کے بعد جو تبدیلی وجود میں آئی ہیں اسے انہوں نے بدعت قرار دیا ہے جسے اصطلاح میں انہوں بدعت عادات کے نام سے منسوب کیا ہے ان اقسام بدعات کا عبادات اور دین سے کوئی تعلق نہٰیں ہے جب ہم ان کی امثال آپ کے سامنے پیش کریں گے تو آپ پر خود ہی واضح ہو جائے گا اب ہم ترتیب وار امثال کے ساتھ آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں ۔
بدعت واجب :اس بدعت واجب میں جو مثالیں بیان کی گئی ہیں ائمہ اور محد ثین نے انھیں واجب قرار دیا ہے یعنی یہ بدعت ہر مسلمان کو کرنی واجب ہے ۔
امثال: الاشتغال بعلم النحو الذي يفهم به كلام الله تعالى وكلام رسول الله - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، وذلك واجب؛ لأن حفظ الشريعة واجب، ولا يتأتى حفظها إلا بذلك وما لا يتم الواجب إلا به، فهو واجب، الثاني حفظ غريب الكتاب والسنة في اللغة، الثالث تدوين أصول الدين وأصول الفقه، الرابع الكلام في الجرح والتعديل، وتمييز الصحيح من السقيم، وقد دلت قواعد الشريعة على أن حفظ الشريعة مذاهب القدرية والجبرية والمرجئة والمجسمة والرد على هؤلاء من البدع الواجبة
عربی گرامر سیکھنا تاکہ قرآن اور حدیث نبوی ﷺ پر غور تفکر کر سکے علوم شریعت کو سیکھنا جیسا کہ تدوین اصول دین اور فقہ علم جرح التعدیل تاکہ صحیح اور ضعیف حدیث میں تمیز کر سکے اور قدریوں اور مرجئہ اور ایسے باطل فرقوں کا رد کرنا بدعت واجب ہے۔
بدعت محرم :اس بدعت کو ائمہ نے حرام قرار دیا ہے اور اس کی امثال درج ذیل ہیں ۔
امثال: مذاهب القدرية والجبرية والمرجئة والمجسمة (بدعت محرمہ یہ کہ قدریہ مرجئہ اور جسمۃ کا مذہب اختیار کرنا۔
بدعت مستحب :بدعت مستحب میں ائمہ نے درج ذیل امثال بیان کی ہیں ۔
امثال : إحداث الرُبِط والمدارس، والكلام في دقائق التصوف (مدارس قائم کرنا اور کلام تصوف کو سیکھنا)
بدعت مكروه :بدعت مکروہ کی مثال میں ائمہ یہ بیان کرتے ہیں ۔
امثال : كزخرفة المساجد، وتزويق المصاحف، (مساجد میں چراغاں کرنا اور قرآن مجید کو جزدان سے مزین کرنا۔
بدعت مباح : اس کی امثال میں ائمہ نے متعدد چیزین بیان کی ہیں ۔
امثال : المصافحة عقب الصبح والعصر، ومنها: التوسع في اللذيذ من المآكل، والمشارب، والملابس، والمساكن، ولبس الطيالسة، وتوسيع الأكمام.( صبح اور شام کے وقت مصافحہ کرنا ، مختلف قسم کی نوعیت کے کھانے (مثلا چائنیز فاسٹ فوڈز وغیرہ) مختلف قسم کے میؤجات مشروبات (کولڈ ڈرنک وغیرہ) مختلف قسم کے ملبوسات ، رہائش گاہیں تعمیر کرنا ،ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنا (تھذیب الاسماء لغات جلد 2 تشریح لفظ بدع)
یہ وہ بدعت کی اقسام ہیں جن کو ائمہ ومحدثین نے بیان کیا ہے ان میں سے کچھ کو انہوں نے واجب قرار دیا ہے اب آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ جس دین میں بدعت کے بارے میں وعید اتنی سخت ہو وہاں بدعت کی ایک ایسی قسم بھی بیان کی گئی ہے جس کا کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے نعوذ باللہ اور دوسری جانب بدعت مباح ہے جس کو ہم عام فہم میں بدعت حسنہ بھی کہتے ہیں اس میں جو مثالیں بیان کی ہے وہ آپ کے سامنے ہیں کوئی بھی مسلمان ثواب کی نیت سے گھر نہیں بناتا یا مختلف اقسام کی ڈشز ثواب کی نیت سے نہ بناتا ہے اور نہ کھاتا ہے اورمختلف قسم کے مشروبات جو آج کل عام ہیں مختلف قسم کے میوے ثواب کی نیت سے یا دین سمجھ نہیں کھائے پیے جاتے ہیں یہ سب بدعت حسنہ کے تحت آتے ہیں ان کو پڑھ کر آپ خود بھی فیصلہ کر یں کیا یہ دین کا حصہ ہیں ہرگز نہیں اسی لئے ہم نے اس سے ماقبل ہی عرض کیا تھا کہ دین میں کسی بدعت حسنہ کی گنجائش نہیں ہے ائمہ نے بدعت کی یہ اقسام عادات کےزمرے میں بیان کی ہے جن کو انہوں بدعت لغوی سے تعبیر کیا ہے دین میں ہر نئی بات گمراہی ہے چاہے وہ کتنی نیک نیتی سے کی گئی ہو جیسا ہم نے اقوال صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے ثابت کیا ہے ۔
حصول بحث
بھائیوں عید میلاد النبی ﷺ اگر دین میں ثواب اور دین کے احکام کے مطابق ہوتا تو نبی ﷺ ہمیں ضرور اس کے بارے میں بیان کرتے کیونکہ انہوں نے ہمیں ہر وہ دین کی بات پہنچائی ہے جو ہمیں جنت میں لے کر جائے گی تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کی ولادت جو دین میں اس قدر ثواب اور رحمت کا باعث ہو جیسا کہ بہت سے نام نہاد علماء بیان کرتے ہیں اور یہ بات انہوں نے نہ بتائی ہو جن پر دین نازل کیا گیا ہے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو معلوم ہوا بس یہ نام نہاد علماء جان گئے ۔ دین قرآن اور سنت اور اس کی اتباع کا نام ہے اس لئے اپنی زندگی میں سنت رسول ﷺ کو داخل کرو تب قیامت کے دن حوض کوثر سے مستفید ہو گے انشاءاللہ تعالی العزیز۔