بدعت اورقیامت کے دن بدعتی کا حشر
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں حوض کوثر پر تمہارا انتظار اور بندوبست کروں گا اور ضرور بالضرور تم میں سے کچھ لوگ دکھانے کے لیے ظاہر کیے جائيں گے- پھر ضرور انہیں مجھ سے دور کھینچ لیا جائے گا- میں کہوں گا، میرے پروردگار! میرے ساتھی ہیں- کہا جائے گا، بےشک آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ کے بعد نئے کام ایجاد کرلیے تھے
(یعنی دین میں بدعات کو رواج دیا تھا)-
تخریج: بخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض
(6576)
انس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حوض پر میرے ساتھیوں (مسلمانوں) میں سے کچھ لوگ صرف میرے پاس پانی پینے کے لیے آئيں گے حتی کہ جب میں انہیں پہچان لوں گا تو مجھہ سے دور کھینچ لیے جائيں گے- میں کہوں گا، میرے ساتھی (مسلمان )ہیں- اللہ فرمائے گا آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (وفات کے) بعد دین میں نئے کام ایجاد کرلیے تھے-
تخریج: بخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض
(6582)
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک میں حوض پر تمہارے لیے انتظار و استقبال کا سامان تیار کروں گا- جو میرے پاس سے گزرے گا پانی پیے گا اور جو پانی پی لے گا پھر کبھی پیاسا نہیں ہوگا- ضرور بضرور میرے پاس کچھ قومیں (مسلمانوں کی) آئيں گی میں انہیں جانتا ہوں گا (کہ وہ مسلمان ہونگے) وہ مجھے پہنچان لیں گی (کہ میں ان کا رسول ہوں) پھر میرے اور ان کے درمیان رکاوٹ حائل کردی جائے گا- (یعنی حوض کوثر سے دور کردیے جائيں گے)- ابو حازم رضی اللہ عنہ نے کہا پس نعمان بن ابی عیاش نے مجھ سے سماع کیا تو کہنے لگا کیا اسی طرح تونے سہل بن سعد سے سنا تھا؟ میں نے کہا، ہاں- کہا، میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ پر شہادت دیتا ہوں- یقینا میں نے اس سے سنا اور اس میں مزید یوں کہتے تھے، پس میں کہوں گا بےشک یہ مجھہ سے ہیں (میرے امتی ہیں)- کہا جائے گا، بے شک آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد (وفات کے بعد)دین میں نئے کام ایجاد کرلیے؟ پس میں (رسول اللہ) کہوں گا، شدید بغض اور دوری ہو، دوری ہو، اس کے لیے جس نے میرے بعد (میرے دین کو) بدل ڈالا-
تخریج: بخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض
(6583)،
(6584)
فوائد: ان اوپر بیان کی گئی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بدعتی لوگ (جو لوگ دین میں ثواب کی خاطر نئے کام ایجاد کریں) حوض کوثر کے پانی سے محروم رہیں گے- بدعت ایسا قبیح گناہ لے کہ اس سے توبہ بھی انتہائی مشکل ہے کیونکہ انسان اسے برا سمجھ کر نہیں بلکہ نیک او رباعث اجر و ثواب سمجھ کر بجا لاتا ہے- نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
{ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس فیہ فھو رد}
" جس نے ہمارے اس معاملے (دین) میں کوئی ایسا کام ایجاد کیا جو اس میں نہیں تھا تو وہ مردود ہے-"
(صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور-)
ایک اور روایت میں ہے کہ
{ عن عائشۃ رضی اللہ عنہھا قالت :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد} " عائشہ رضی اللہ عنہھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہماری مہر نہیں تو وہ رد کیا ہوا ہے-" یعنی وہ کام جو ہم نے نہیں کیا
(صحیح مسلم، کتاب الاقضیۃ، باب نقص الاحکام الباطلۃ ورد محدثات الامور)
جامع ترمذی میں ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
من ابتدع بدعۃ ضلالۃ لا ترضی اللہ ورسولہ کان علیہ مثل آثام من عمل بھا لا ینقص ذلک من اوزارالناس شیئا
" جس نے کوئی گمراہی کی بدعت ایجاد کی، جو اللہ اور اس کے رسول کو راضی نہیں کرتی، اس پر ان تمام لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا جنہوں نے اس بدعت پر عمل کیا لیکن اس سے لوگوں کےگناہوں سے کچھ کم نہیں ہوگا (انہیں اپنے گناہ مکمل ملیں گے لیکن اتنا گناہ بدعت ایجاد کرنے والے کو بھی ملتا رہے گا
( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدع)
سنن نسائي کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوراں خطبہ یہ کلمات کہا کرتے تھے
{ وشر الامور محدثاتھا و کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار}
"معاملات میں سے بدترین وہ ہیں جو (دین میں) نئے ایجاد کیے گئے ہوں اور ہر نئی ایجاد کی جانے والی چيز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے"-
(سنن نسائی، کتاب صلاۃالعیدین، باب کیف الخطبۃ)
ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بدعات سے بچنے کی نصیحت فرمائی ہے
{ ایاکم ومحدثات الامور}
"دین میں نئے نئے کام (یعنی بدعات) ایجاد کرنے سے بچتے رہنا-"
مسند احمد:4/126، دارمی:1/57، ابو داؤد، کتاب السنۃ، باب فی لزوم السنۃ:5607، ترمذی، کتاب العلم، باب فی الاخذ بالسنۃ واجتناب لبدع:2676، ابن ماجہ، مقدمہ، باب اتباع السنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین:42، مستدرک حاکم:1/96
بدعتی کو پناہ دینے سے بھی منع کیا گیا ہے- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
{ لعن اللہ من آوی محدثا}
" اللہ تعالی کی لعنت ہو ایسے شخص پر جو بدعتی کو پناہ دے-"
(صحیح مسلم، کتاب لاضاحی، باب تحریم الذبح لغیر اللہ تعالی ملعن فاعلہ)
امام دارمی بیان کرتے ہیں کہ ھم سے حکم بن مبارک نے بیان کیا، حکم بن مبارک کہتے ھیں کہ ھم سے عمروبن یحی نے بیان کیا،عمروبن یحی کہتے ھیں کہ میں نے اپنے باپ سے سنا،وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ھیں کہ انھوں نے فرمایا
"ھم نمازفجرسے پہلے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر بیٹھ جاتے،اورجب وہ گھر سے نکلتے توان كے ساتھ مسجد روانہ ہوتے،ایک دن کا واقعہ ہے کہ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ آئے اور کہا کیا ابوعبدالرحمن (عبداللہ بن مسعود) نکلے نہیں ؟ھم نے جواب دیا نہیں،یہ سن كر وہ بھی ساتہ بیٹھ گئے،یہاں تک ابن مسعود باہرنکلے،اورھم سب ان کی طرف کھڑے ہو گئے تو ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ان سے مخاطب ہوئے اور کہا : ائے ابوعبدالرحمن ! میں ابھی ابھی مسجد میں ایک نئی بات دیکھ آ رہا ھوں،حالانکہ جوبات میں نے دیکھی وہ الحمد للہ خیر ہی ھے،ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ کونسی بات ھے؟ ابوموسی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگرزندگی رہی توآپ بھی دیکھ لیں گئے،کہا وہ یہ بات ھے کہ کچھ لوگ نمازكے انتظارميں مسجد کے اندرحلقہ بنائے بیٹھے ھیں،ان سب كے ہاتوں ميں كنكرھیں،اورہرحلقے میں ایک آدمی متعین ھے جو ان سے کہتا ہے کہ سو100 بار اللہ اکبر کہو،توسب لوگ سوباراللہ اکبرکہو،توسب لوگ سو بار اللہ اکبر کہتے ھیں،پھرکہتا ہے سو بار لاالہ الااللہ کہو توسب لوگ لاالہ الااللہ کہتے ہیں ،پھرکہتا ہے کہ سوبارسبحان اللہ کہو توسب سوبارسبحان اللہ کہتے ہیں-ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھرآپ نے ان سے کیا کہا ،ابوموسی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ کی رائے کے انتظارمیں میں نے ان سے کچھ نہیں کہا؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ نے ان سے یہ کیوں نہیں کہ دیا کہ آپنے اپنے گناہ شمارکرو،اورپھراس بات کا ذمہ لےلیتے کہ ان کی کوئی نیکی بھی ضائع نہیں ہوگی- یہ کہ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد کی طرف روانہ ہوئے اورھم بھی ان کے ساتھ چل پڑے،مسجد پہنچ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ نے حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس کھڑے ہوکرفرمایا: تم لوگ کیا کررہے ہو! یہ کنکریاں ہیں جن پرھم تسبیح وتہلیل کررہے ہیں ،ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اس کی بجائے تم اپنے اپنے گناہ شمارکرو،اورمیں اس بات کا ذمہ لیتا ہوں کہ تمھاری کوئی نیکی پھی ضائع نہیں ہوگی، تمھاری خرابی ھے اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ابھی توتمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کثیرتعداد میں موجود ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےچھوڑے ہوئے کپڑے نہیں پھٹے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برتن نہیں ٹوٹے اورتم اتنی جلدی ہلاکت کا اشکارہوگئے،قسم ہے اس ذات کی جسکے ہاتھ میں میری جان ہے! یا توتم ایسی شریعت پر چل رہے ہوجونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ھے -- نعوذوباللہ -- بہترھے،یا گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو-انھوں نے کہاائے ابوعبدالرحمن ! اللہ کی قسم اس عمل سے خیر کے سوا ھماراکوئی اورمقصدنہ تھا-ابن مسعود نے فرمایا ایسے کتنے خیرکے طلبگار ھیں جوخیرتک کبھی پہنچ ہی نہیں پاتے- چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ھم سے ایک حدیث بیان فرمائی کہ ایسی ايك قوم ايسى ہو گی جوقرآن پڑھے گی،مگرقرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا- اللہ کی قسم ! کیا پتہ کہ ان میں سے زیادہ ترشائد تمھیں میں ھوں- یہ باتیں کہ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے واپس چلے آئے- عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان حلقوں کے اکثرلوگوں کو ھم نے دیکھا کہ نہروان جنگ میں وہ خوارج کے شانہ بشانہ ھم سے نیزہ زنی کررہے تھے۔
سنن دارمی
( باب کراھیۃ اخزالرای)