Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

دین کی بیٹیاں: پاکستانی تناظر میں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • دین کی بیٹیاں: پاکستانی تناظر میں





    پاکستانی عورت1947کے بعد سے آج تک اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے ایک بہت مشکل لڑائی میں مصروف رہی ہے۔ اس کی یہ لڑائی آج بھی شدت سے جاری ہے۔اس میں افغان جنگ نے اس کے لیے بہت خوفناک کردار ادا کیا ہے۔1956 میں پاکستان کا پہلا آئین مرتب ہوا، اس میں عورتوں کو ووٹ کے دوہرے حقوق ملے، یعنی پاکستانی عورت عام انتخابات میں ووٹ ڈال سکتی تھی اور عورتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے ہونے والے انتخابات میں بھی ووٹ ڈالنے کا حق رکھتی تھی۔ عورتوں کے لیے شادی، طلاق، نان نفقہ اور بچوں کی تحویل نہایت اہم معاملات ہیں، اس بارے میں قانون سازی کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا جس نے 1956 میں اپنی رپورٹ پیش کردی۔ لیکن اس رپورٹ کی سفارشات کے بارے میں مولویوں نے اتنا شور مچایا کہ یہ رپورٹ سرد خانے میں رکھ دی گئی۔جنرل ایوب خان کے زمانے میں جسٹس راشد کی رپورٹ پر ایک بار پھر غور ہوا اور اسی رپورٹ کی سفارشات کو نظر میں رکھتے ہوئے 1961 میں فیملی لازکا اجرا ہوا۔ ان قوانین نے لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر مقررکی، مردوں کی دوسری شادی پر بڑی حد تک روک لگا دی اور اس کے لیے پہلی بیوی کی تحریری اجازت لازمی ٹہری۔ ان ہی قوانین کے تحت نکاح اور طلاق کا اندراج لازمی ٹہرا اور نکاح نامے میں عورت کے طلاق کے حق کی شق بھی شامل کی گئی۔ طلاق کی صورت میں بچوں کی تحویل اور نان نفقہ کی ادائیگی کے معاملات بھی نسبتاً بہتر اور عورتوں کے حق میں ہوئے۔عائیلی قوانین نے مولویوں کے اندر شدید غیظ و غضب کو جنم دیا اور پاکستانی عورت الزامات اوردریدہ دہنی کی ایک نئی آزمائش میں ڈالی گئی۔ ایوب خان کا زمانہ ہو یا آج کا دور، مولویوں کے اس طیش کا سبب ایک ہی رہا ہے۔ انھیں اس بات سے خوف آتا ہے کہ عورت جو سماج کا کمزور اور کچلا ہوا طبقہ ہے، اگر وہ اور اس کے معاملات ان کے دائرہ اختیار سے باہر نکل گئے تو ان کی روزی روٹی اور حلوے مانڈے کا کیا ہوگا۔جنرل ایوب کے زمانے میں عورتوں کو جہاں 1961 میں فیملی لازکے نفاذ سے قدرے سکون ملا وہیں ان کے حقوق پر ایک کاری ضرب اس وقت لگی جب 1962کے آئین میں ان سے براہ راست انتخابات کا حق چھین لیا گیا جو انھیں 1956کے آئین میں دیا گیا تھا۔ 1962 کے آئین میں یہ کہا گیا تھا کہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے مردوں کے ووٹ سے منتخب ہونے والی عورتیں ہی مرکزی یا صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ سکیں گی۔ اس طرح منتخب ہونے والی خواتین کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ اسمبلی میں عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کریں کیونکہ وہ تو خود صدر کے رحم و کرم پر تھیں اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات کرنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔1971سے 1977تک کا دور پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا مختصر عرصہ ہے جس میں پاکستانی عورت کو سانس لینے، آگے آنے اور کاروبار زندگی میں زیادہ کھل کر حصہ لینے کا موقع ملا۔ 1973میں جب ملک کا متفقہ آئین بنا تو اس میں پاکستانی عورتوں کو پاکستانی مردوں کے مساوی آئینی حقوق دیے گئے۔ اس آئین میں کہا گیا تھا:٭تمام شہری قانون کے روبرو، مساویانہ حیثیت رکھتے ہیں اور مساویانہ قانونی تحفظ کے حق دار ہیں، محض صنف کی بنا پر کسی شہری کے خلاف امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔٭کسی بھی شہری کو، جو پاکستان کی سروسز میں تقرری کی اہلیت رکھتا ہے، محض صنف کی بنا پر اسے تقرری کے سلسلے میں امتیازی سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ ٭ قومی زندگی کے تمام شعبوں میں، خواتین کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ ریاست، شادی، خاندان اور ماں کو تحفظ فراہم کرے گی۔ ٭ریاست اس بات کو یقینی بنائے گی کہ خواتین کو ان شعبوں میں ملازم نہ رکھا جائے جو ان کی صنف سے مطابقت نہیں رکھتے۔1978 میں ہمارے یہاں جنرل ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ آ گئی۔ 1979 میں ضیاء نے اسلام کے نام پر سزا کے چار ایسے قوانین نافذ کیے جن میں حدود آرڈیننس بھی شامل ہے، جس سے عورتوں کے حقوق پر کاری ضرب لگی۔ حدود آرڈیننس کے مطابق حکومت پاکستان کا ’’اسلام‘‘ کسی ایسی مظلوم عورت کو تحفظ دینے سے قاصر ہے جو بدبختی سے زنابالجبرکا شکار ہوئی ہو کیونکہ عورت ہونے کی وجہ سے اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف اس کی تنہا گواہی اس مرد کو سزا نہیں دلاسکتی۔1984 میں قانونِ شہادت جاری کیا گیا جس میں عورت کا گواہی دینے کا حق محدود کردیا گیا، مردوں اور عورتوں کی شہادت کے درمیان تمیز قائم کر کے عورتوں کے خلاف واضح امتیازی رویہ اختیار کیا گیا۔ شریعت بل نے عورتوں کے دیگر حقوق بھی سلب کر لیے۔پاکستان میں ڈکٹیٹر شپ نے جب اسلام کی آڑ لے کر پاکستان میں جمہوری روایات کو کچلنے اور خواتین کو بے دست و پا کرنے کی بھرپور مہم کا آغاز کیا تو عورتوں نے ویمنز ایکشن فورم waf بنایا جس میں وکالت، صحافت، ادب ، تعلیم، طب اور دوسرے پیشوں سے وابستہ متعدد خواتین نے پاکستانی عورتوں اور مردوں کو اپنے خلاف بننے والے امتیازی قوانین کے نتائج سے آگاہ کرنے، حدود آرڈیننس کے خلاف احتجاج کرنے اور آمریت اور بنیاد پرستی کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عہد کیا اور میدان میں آگئیں۔ 13 فروری 1983 کادن پاکستانی عورتوں کی تاریخ کا ایک اہم اور ان کے لیے ایک نئی آزمائش کے آغاز کا دن ہے جب انھوں نے کھل کر آمریت کا سامنا کیا اور امتیازی قوانین کے خلاف جلوس نکالا۔یہ وہ زمانہ ہے جب متعدد شہروں میں عورتوں کے احتجاجی جلوسوں پر بے دریغ لاٹھی چارج ہوا۔ پولیس کے سورماؤں نے انھیں بالوں سے پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹا، ان کے کپڑے پھاڑے گئے، انھیں گندی گالیاں دی گئیں، انھیں گرفتار کر کے حوالات اور جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس زمانے میں پاکستانی عورت جن کڑی آزمائشوں سے گزری اور نام نہاد اسلامی قوانین کی جس کند چھری سے ذبح کی گئی اس کے ایک نہیں سیکڑوں واقعات ہیں لیکن صفیہ بی بی نامی اندھی لڑکی کا مقدمہ ’’ضیاء الحق برانڈ اسلامی عدل کا شاہ کار‘‘ ہے۔اس لڑکی کی باپ اور بیٹے نے عصمت دری کی جس کے نتیجے میں وہ ایک بچے کی ماں بنی۔ اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والے باپ اور بیٹے تو چارگواہوں کے نہ ہونے کی بناء پر رہا کردیے گئے لیکن صفیہ بی بی چونکہ بچے کی ماں بنی تھی اس لیے اس پر زنا ’’ثابت‘‘ تھا چنانچہ اسے زنا کے تحت سنگساری کی سزا سنادی گئی۔ یہ وہ واقعہ تھا جس پر پاکستانی عورت نے شدید احتجاج کیا تھا اور یہ سزا ضیاء حکومت کو واپس لینی پڑی۔جنرل ضیاء الحق کے اسلامائزیشن کے دور سے آج تک پاکستانی عورت بہت سے مرحلوں سے گزری۔ اس نے کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ لیکن بنیاد پرست عناصر اسلام کے نام پر اس کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ لڑکیوں کے 700 سے زیادہ اسکول وہ بم اور باردو سے اڑا چکے ہیں۔ لیکن پھر بھی نہ لڑکیاں پڑھنے سے باز آئیں اور نہ استانیاں پڑھانے سے۔ الیکٹرانک میڈیا، اخبار اور ادبی رسالوں کے صفحوں پر پاکستانی عورت اپنے حقوق کی لڑائی لڑرہی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اسے اس کا جمہوری حق دلانے کے لیے کوئی نہیں آئے گا۔ یہ جان کاری اسے اپنے آئینی اور جمہوری حقوق کے لیے لڑنے اور آگے بڑھنے کے لیے اکساتی ہے۔ کیونکہ اس طرح وہ اپنے لیے اور اپنی اگلی پیڑھیوں کے لیے ایک بہتر زندگی کا خواب دیکھ سکتی ہے اور اس کی تعبیر حاصل کر سکتی ہے۔یہ پاکستان کی صورتحال کا اجمالی جائزہ تھا اب ہم اگر چند جملوں میں تقسیم کے بعد ہندوستان کی مسلمان عورت کی حالت پر نظر ڈالیں تو وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ایک سیکولر آئین کے تحت زندگی گزارنے کے باوجود اپنے حقوق سے محروم ہے۔ یہ محرومی ریاست کی طرف سے اس کے حصے میں نہیں آئی۔ بلکہ اس کے اپنے باپ، شوہر، بھائی اور دیگر مرد رشتے داروں سے بڑھ کر مفتیان دین مبین اس محرومی کے ذمے دار ہیں۔ جمہوریت مردوں اور عورتوں دونوں کو ہر طور کی غلامی سے نجات دلانے کا سفر جاری رکھتی ہے۔ہندوستان کے مسلمان مردوں کی ایک بھاری تعداد اپنے آئینی اور جمہوری حقوق حاصل کرتی ہے لیکن وہ اپنی عورت کی تعلیم، ترقی اور اس کے شعور میں اضافے سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ جس کی سب سے بڑی مثال شاہ بانو کیس ہے۔ ہندوستانی عدلیہ نے اسے جو حق دیا تھا وہ بنیاد پرست عناصر نے اس سے چھین لیا۔ وہ جانتے ہیں کہ اس طرح عورت پر سے ان کا اختیار پہلے کم اور پھر بالکل ختم ہو جائے گا۔ اس کے لیے وہ مذہب کا غلط سہارا لیتے اور اپنی عورت کو ڈراتے ہیں۔ مسلمان عورت کو خود ہی لڑ کر اپنے بنیادی، انسانی، غیر امتیازی اور مساوی حقوق حاصل کرنے ہوں گے۔


    (دلی کے سیمینار میں پڑھے جانے والے مضمون ’دین کی بیٹیاں‘کا اختصاریہ)

Working...
X