Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

عورتوں کے لیے ایک سے زیادہ شوہروں کی ممانعت کیوں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • عورتوں کے لیے ایک سے زیادہ شوہروں کی ممانعت کیوں



    ایک سے زیادہ شوہروں کی ممانعت کیوں؟



    ’’اگر اسلام ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دیتا ہے تو وہ ایک عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی اجازت کیوں نہیں دیتا؟‘‘

    بہت سے لوگ جن میں بعض مسلمان بھی شامل ہیں اس امر کی دلیل مانگتے ہیں کہ جب ایک مسلمان مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت ہے تو یہی ’’حق‘‘ عورت کو کیوںنہیں دیا گیا؟

    سب سے پہلے میں یہ کہوں گی کہ اسلامی معاشرے کی بنیاد عدل اور مساوات ہے۔ اللہ نے مرد اور عورت کو برابر پیدا کیا ہے لیکن مختلف صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کے ساتھ۔ مرد اور عورت جسمانی اور نفسیاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اس لیے کہ ان کے کردار اور ذمہ داریاں بھی مختلف ہیں۔ مرد اور عورت اسلام میں برابر ہیں لیکن ہو بہو ایک جیسے نہیں۔

    سورئہ نساء کی آیات 22 تا 24 میں ان عورتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن سے مسلمان مرد شادیاں نہیں کر سکتے، مزید برآں آخری آیت 24 کے مطابق ان عورتوں سے بھی شادی ممنوع ہے جو’’ شادی شدہ ‘‘ہوں۔ مندرجہ ذیل نکات یہ حقیقت واضح کرتے ہیں کہ اسلام عورت کو ایک سے زیادہ مرد رکھنے سے کیوں روکتا ہے

    ٭ اگر ایک آدمی کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان سے پیدا ہونے والے بچوں کے ماں باپ کی آسانی سے شناخت ممکن ہے۔ اس صورت میں بچے کی ماں اور باپ کی پہچان ہو سکتی ہے۔ ایک سے زیادہ شوہر ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والے بچوں کی ماں تو معلوم ہوتی ہے مگر باپ کا پتہ نہیں چل سکتا۔ اسلام ماں اور باپ دونوں کی پہچان کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے نزدیک جو بچے اپنے والدین کو نہیں جانتے، خاص طور پر اپنے باپ کو، وہ بہت زیادہ ذہنی تکلیف، بے چینی اور کشمکش کا شکار ہوتے ہیں اور اکثر ایسے بچوں کا بچپن ناخوشگوار ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ طوائفوں کے بچوں کا بچپن صحت مند اور خوشگوار نہیں ہوتا۔ ایسے تعلق سے پیدا ہونے والے بچے کو جب اسکول میں داخل کرایا جاتا ہے اور اس وقت ماں سے اس کے باپ کا نام پوچھا جاتا ہے تو اُسے دو یا اس سے زیادہ ناموں کا حوالہ دینا پڑتا ہے۔ میں مانتی ہوں کہ موجودہ سائنسی ترقی کی بدولت جین ٹیسٹ کے ذریعے سے ماں اور باپ کی شناخت ہو سکتی ہے، اس لیے یہ نکتہ جو ماضی میں مؤثر تھا ممکن ہے کہ اب نہ ہو لیکن بچوں کے ناخوشگوار بچپن اور ان کی ذہنی تکلیف کا مسئلہ بدستور برقرار رہتا ہے اور یہ وراثت، یعنی باپ کی جائیداد وغیرہ کی تقسیم کے مسئلے میں بھی پیچیدگی کا باعث بنتا ہے۔

    ٭ مرد فطری طور پر عورتوں کی نسبت متعدد شادیوں کا زیادہ خواہشمند ہوتا ہے۔

    ٭ جسمانی یا حیاتیاتی طور پر ایک مرد کے لیے کئی بیویاں رکھنے کے باوجود اپنے فرائض انجام دینا آسان ہوتا ہے جبکہ ایک عورت کے لیے جو ایک سے زیادہ شوہر رکھتی ہو بحیثیت بیوی اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہر گز ممکن نہیں۔ ایک عورت ہر ماہواری کے دوران میں بہت سی نفسیاتی اور مزاج کی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔

    ٭ ایک عورت جس کے ایک سے زیادہ شوہر ہوں، اسے بیک وقت ایک سے زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات رکھنے پڑیں گے تو اس کو بہت سی جنسی بیماریاں لگ سکتی ہیں جو وہ اپنے کسی شوہر کو منتقل کر سکتی ہے ،چاہے اس کے تمام شوہروں کے دوسری خواتین سے غیر ازدواجی تعلقات نہ بھی ہوں لیکن یہ صورت حال مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں پیش نہیں آتی۔

    ٭ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ اور نگران بنایا ہے۔ وہ خاوند کی اولاد اور گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے، اور یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک سے زیادہ گھروں کی دیکھ بھال کر سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مرد کے اندر ایک فطری غیرت ہے، جو ہر سلیم الفطرت شخص کے اندر پائی جاتی ہے، کہ بیوی کے معاملے میں وہ کسی کی شراکت برداشت نہیں کرتا۔ یہ غیرت نہ صرف انسانوں میں ہے بلکہ حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے کہ وہ بھی اس معاملے میں شراکت برداشت نہیں کرتے۔

    جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عمرو بن میمون کے حوالے سے بندروں کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے فتح الباری میں اسے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں یمن میں ایک ٹیلے پر اپنے خاندان کی بکریاں چرا رہا تھا کہ ایک بندر اور بندریا وہاں آئے۔ بندر نے بندریا کا بازو اپنے سر کے نیچے رکھا اور سو گیا۔ اس دوران ایک اور بندر آیا اور اس نے بندریا کو بہکایا اور وہ اس کے ساتھ چلی گئی اور تھوڑا دور جا کر انھوں نے بدکاری کی، پھر بندریا واپس آئی اور اپنا ہاتھ بندر کے سر کے نیچے داخل کرنا چاہا تو وہ جاگ اُٹھا۔ اس نے اسے سونگھا اور چلانے لگا۔ کئی بندر اکٹھے ہو گئے، وہ مسلسل چلائے جا رہا تھا اور اس بندریا کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ بندر ادھر ادھر گئے اور اس بندر کو لے آئے جس نے بدکاری کی تھی۔ انھوں نے ان دونوں کے لیے ایک گڑھا کھودا اور انھیں رجم کر دیا۔

    (فتح الباری: 202/7، حدیث: 3859)

    اسی طرح خنزیر کے علاوہ تمام جانوروں میں یہ غیرت کی حس موجود ہے۔ جب حیوان برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کی مؤنث کو کوئی اور نر جفتی کرے تو انسان اپنی شریکِ حیات میں شراکت کیسے برداشت کر سکتا ہے؟
    یہ تمام وہ ظاہری وجوہ ہیں جن کا آسانی سے علم ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے اوربھی بہت سی وجوہ ہوں جن کا علم دانائے راز، اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہی کو بہتر طور پر ہو کہ اس نے عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے سے کیوں منع کیا ہے۔


Working...
X