۔ابن تیمیہ مروج افکارتجسیم :
بانی افکاروہابیت ابن تیمیہ نے جن عقائد کوپھیلانے کی کوشش کی ان میں سے ایک خداوندمتعال کے جسم ہونے اورجسم وجسمانیت کے لوازم جیسے کرسی پربیٹھنا ، ہنسنااورچلنا وغیرہ پرعقیدہ رکھنا ہے ۔
ابن تیمیہ کہتاہے :''لیس فی کتاب اللہ ولاسنة رسولہ ولاقول احد من سلف الامة وائمتھا انہ لیس بجسم وان صفاتہ لیست اجساما واعراضا ؟!فنفی المعانی الثابتة بالشرع والعقل بنفی الفاظ لم ینف معناھا شرع ولاعقل، جھل وضلال ''(١)کتاب خدا ،سنت رسول خد ا ۖاور اسی طرح آئمہ سلف کے اقوال میں سے کسی میں یہ نہیں ہے کہ خداجسم نہیں رکھتا اور جسم وعرض ہو نے سے منزہ ہے لہذاایک ایسے معنی کا انکار کرنا جسے عقل وشریعت نے رد نہیں کیا ایک طرح کی نادانی اور گمراہی ہے ۔
اور پھر لکھتا ہے:
''والکلام فی وصف اللہ بالجسم نفیاواثباتا بدعة ، لم یقل احد من سلف الامة وائمتھا ان اللہ لیس بجسم ، کمالم یقولوا ان اللہ جسم ''(2)
خدا وند متعال کے جسم ہو نے کی نفی واثبات کے بارے میں بحث کرنا بدعت ہے آئمہ امت اور سلف میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ خدا جسم نہیں رکھتا جیسا کہ یہ بھی نہیں کہا کہ وہ جسم رکھتا ہے ۔ایک اور مقام پر لکھا ہے :(3)
قرآن وسنت اور صحابہ وتابعین کے کلام میں کہیں پہ مشبہ (جو خدا کو مخلوقات سے تشبیہ دیتے ہیں ) کی مذمت نہیں کی گئی ہے ۔(4)
٢۔جسمانیت خدا وند متعال اور سعودی عرب کی فتوی دینے والی اعلی کمیٹی :
خدا وند متعال کی جسمانیت کے بارے میں ہو نے والے سوال کے جواب میں سعودی عرب کی فتوی دینے والی اعلی کمیٹی نے یوں لکھا ہے :(5)
چونکہ جسمانیت خدا کی نفی واثبات کے بارے میں روایات میں بیان نہیں کیا گیا بنا بر ایں مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اسکی نفی یا اثبا ت کے بارے میں بحث کرے اسلئے کہ صفا ت خدا توقیفی ہیں (یعنی جو کچھ آیات وروایات میں بیان ہوا اسکے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے )۔
٣۔وہابیوں کے خداکا مسکرانا :
ابن تیمیہ اپنے رسالئہ عقیدہ الحمویةمیں لکھتا ہے :
خدا مسکراتا ہے اور روزقیامت مسکراتے ہوئے اپنے بندوں پر تجلی کرے گا۔(6)
٤۔وہابیوں کے خدا کا عرش سے زمین پر آنا :
ابن تیمیہ کہتا ہے :خدا ہر رات آسمان سے زمین پر اتر کر صدا دیتا ہے کہ ہے کوئی جو مجھے پکارے تاکہ میں اسکی حاجت پوری کروں ؟ہے کوئی جو مجھ سے بخشش طلب کرے تاکہ میں اسے بخش دوں ...؟اور یہ کام طلو ع فجر تک انجا م دیتا ہے اسکے بعد لکھتا ہے :
''فمن انکرالنزول اوتاول فھو مبتدع ضالّ ''(7)جو بھی خداکے آسمان سے زمین پر نازل ہونے کا انکار کرے یا اسکی توجیہ کرے وہ بدعت گزار اور گمراہ ہے ۔
ابن بطوطہ اپنے سفر نامہ میں لکھتاہے :
جب میں دمشق کی جا مع مسجد میں تھا تو ابن تیمہ نے منبر پہ کہا :
ان اللہ ینزل الی السماء الدنیا کنزولی ھذا .خداعالم دنیا کی طرف ایسے ہی اتر تا ہے جیسے میں اتر رہا ہو ں اور پھر منبر سے ایک زینہ نیچے اترا ۔
مالکی فقیہ ابن الزہراء نے اس پر اعتراض کیا اور اس کے عقائد کو ملک ناصر تک پہنچایا ۔اس نے اسے زندان میں ڈالنے کا حکم صادر کیا اور وہ زندان میں ہی مرگیا ۔(8)
٥۔وہابیوں کا خدا آنکھ سے دیکھا جا سکتاہے ۔
ابن تیمیہ علامہ حلی کی کتاب منھاج الکرامہ کے رد میں لکھی گئی اپنی کتاب منھاج السنةمیں لکھتا ہے :
آئمہ سلف و گزشتگان اور مذاہب اربعہ کے تمام مسلمانوں کا قول یہی ہے کہ آخرت میں خدا کو آنکھو ں سے دیکھا جاسکتا ہے اور علماء حدیث نے اس بارے میں پیغمبر ۖکی احادیث کو تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے ۔(9)
٦۔وہابیو ں کا خدا ہر جگہ نہیں ہوسکتا :
سعودی عرب میں فتوی جاری کرنے والی اعلی کمیٹی سے سوال کیا گیا :
ایسا شخص جو خدا وند متعال کے ہر جگہ موجود ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے اسکا شرعی حکم کیا ہے ؟اور اسے کیسے جواب دیا جاسکتا ہے ؟
تواس کمیٹی نے یوں جواب دیا:
اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ خداعرش پر ہے اور دنیا میں نہیں ہے بلکہ اس عالم سے خارج ہے خدا کے مخلوقات سے بلندی پر ہونے کی دلیل وہی اسکی طرف سے قرآن کا نزول ہے اور واضح ہے کہ نزو ل ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجیدمیں بیان ہوا :(وانزلناالیک الکتاب بالحق )۔(10)
ترجمہ: ہم نے قرآن کو آپکی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ۔
رسول اکرم ۖنے جب ایک کنیز کو آزاد کروانا چاہا تو اس سے پوچھا :خدا کہا ں ہے ؟کہنے لگی :آسمانوں میں ،فرمایا : میں کون ہوں ؟عرض کیا آپ اللہ کے رسول ہیں ۔
اس وقت آنحضرت ۖنے اسکے مالک سے فرمایا :یہ خاتو ن صاحب ایمان ہے اور تو اسے آزاد کرسکتا ہے ۔
اسی طرح رسول خدا ۖفرماتے ہیں :میں اس ذات کا امین ہوں جو آسمانوں میں ہے اور آسمانوں کی خبریں ہر صبح وشام مجھ تک پہنچتی رہتی ہیں۔
اور پھر سعودی فتوٰی کمیٹی لکھتی ہے :
(من اعتقد ان اللہ فی کل مکان فھو من الحلولیة ویرد علیہ بما تقدم من الادلة علی ان اللہ فی جھة العلو، وانہ مستوعلی عرشہ ، بائن من خلقہ ، فان انقاد لمادل علیہ الکتاب والسنة والاجماع ، والافھوکافر مرتدعن الاسلام ، (11)
جو بھی یہ عقیدہ رکھے کہ خدا وندمتعال ہرجگہ موجود ہے تو وہ دنیا میں خدا کے حلول کا قائل ہوا ایسے شخص کوسابقہ ادلة سے بیان کرنا چاہئے کہ خدا بلندی میںعرش پر موجود ہے اوراس عالم سے خارج ہے ، اگر قبول کرلے توصحیح ورنہ کافر ،مرتد اوراسلام کے دائرہ سے خارج ہے ۔
7۔وہابیوں کے خدا کا مچھر پر بیٹھنا:
ابن تیمیہ کہتا ہے :(ولوقد شاء لاستقرعلی ظھر بعوضة فاستقلت بہ بقدرتہ ولطف ربوبیتہ فکیف علی عرش عظیم ، اگرخدا چاہے تو مچھر کی پشت پربھی بیٹھ سکتا ہے تو پھر عرش عظیم پرکیوں نہیں ؟(12)
٨۔وہابیوں کا خدا نوجوان اورگھنگھریالے بالوںوالاہے :
ابویعلی نے عبداللہ بن عباس سے نقل کیاہے کہ رسول اکرم ۖ نے فرمایا: (رایت ربی عزوجل شاب امردجعدقطط ، علیہ حلیة حمرائ،
میں نے اپنے رب کودیکھا وہ نوجوان اورابھی اس کی ڈاڑھی کے بال نہیں آئے تھے سر کے بال گھنگریالے اورسرخ زیور سے مزین تھا۔
ابویعلی اپنی دوسری کتاب میںلکھتا ہے :
ابوزرعہ دمشقی نے اس روایت کو صحیح قرار دیاہے ...اوراحمد بن حنبل نے کہاہے (ھذاحدیث رواہ الکبری عنالکبر عن الصحابة عن النبی ۖ فمن شک فی ذلک اوفی شئی منہ فھو جھمی لاتقبل شھادتہ ولایسلم علیہ ولایعادفی مرضہ، اس حدیث کو بزرگان نے اکابر صحابہ کے واسطے سے پیغمبرۖ سے نقل کیا ہے اورجو بھی اس کے صحیح ہونے میں شک کرے وہ جہنمی ہے اس کی شہادت قبول نہیں ہوگی نہ اس پرسلام کیاجائے گا اورنہ ہی بیمار ہونے کی
صورت میں اس کی عیادت کی جائے گی۔(13)
٩۔وہابیوں کے خدا کا آنکھ کے دردمیں مبتلاہونا :
شہر ستانی متوفی ٥٤٨ہجری مشبھہ کے خرافات کو نقل کرنے کے بعد لکھتاہے :
وزادوافی الاخبار اکاذیب وضعوھا ونسبوھا الی النبی علیہ الصلاة والسلام۔واکثر ھا مقتبسة من الیھود فان التشبیہ فیھم طباع حتی قالوا :شتکت عیناہ فعادتہ الملائکة وبکی علی طوفان نوح حتی رمدت عیناہ)(14)
مشبہہ نے جھوٹی احادیث جعل کرکے انہیں پیغمبر علیہ الصلاة والسلام کی طرف نسبت دے دی ان میں سے اکثر روایات یہودیوں سے لی گئی ہیں اس لئے کہ آئین یہود کی اساس تشبیہ ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں :خدا کی آنکھوں کے دردمیںمبتلاہواتو ملائکہ عیادت کے لئے گئے اورطوفان نوح میں ہونے والی نابودی کی وجہ سے خدا نے اتناگریہ کیا کہ آنکھوں کے دردمیں مبتلاہوگیا ۔(15)
١٠۔وہابیوں کے خدا کا پیغمبر ۖ سے مصافحہ کرنا :
شہرستانی کے مطابق مشبہہ پیغمبر ۖ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
لقینی ربی فصافحنی ووضع یدہ بین کتفیی حتی وجدت برداناملہ،
میں نے اپنے رب سے ملاقات کی تواس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور اپنے ہاتھوں کو میرے شانوں کے درمیان رکھاتو میں نے اس کے ہاتھوں کی ٹھنڈک کومحسوس کیا۔(16)
١١۔وہابیوں کا خدا فقط ڈاڑھی اورشرمگاہ نہیں رکھتا :
ابوبکر عربی کہتا ہے :ایک معتبرشخص نے مجھ سے نقل کیا کہ ابویعلی (ابن تیمیہ کاامام)کہتاہے :
(اذاذکر اللہ تعالی وماورد من ھذہ الظواھر فی صفاتہ ، یقول: الزمونی ماشئتم فانی التزمہ، الااللحیة والعورة. (17)
جب بھی خدا کی صفات کے بارے میں بات ہوجو روایات میں بیان ہوئیں تووہ کہتا ہے :اس میں میری پیروی کرو اورمیں ڈاڑھی اورشرمگاہ کے علاوہ اس کے تمام اعضاء کا قائل ہوں ۔
١٢۔ وہابیوں کے نبی کاان کے خدا کے پاس بیٹھنا :
ابن تیمیہ کاشاگردابن قیم لکھتاہے :
(ان اللہ یجلس علی العرش ویجلس بجنبہ سید نا محمدۖ وھذا ھوالمقام المحمود )
خدا عرش پربیٹھتا ہے اوررسول خدا ۖ اس کے پہلو میںبیٹھتے ہیں اوریہی وہ مقام محمود ہے ۔(18)
١٣۔وہابیوں کاخدا عرش سے چار انگلیاں بڑاہے:
ابن عربی اس آیت شریفہ ،علی العرش استوی ، (طہ ،٥)کی تفسیر میںلکھتاہے :
انہ جالس علیہ ، متصل بہ ،وانہ اکبرباربع اصابع ، اذلایصح ان یکون اصغرمنہ ، لانہ العظیم ، ولایکون مثلہ لانہ (لیس کمثلہ شئی )فھواکبر من العرش باربع اصابع،
خدا عرش پربیٹھا ہے اور اس سے ملاہواہے وہ عرش سے چارانگلوں کی مقدار چوڑاہے اورممکن نہیںکہ وہ عرش سے چھوٹا ہو اس لئے کہ خدا عظیم ہے اور یہ بھی صحیح نہیں کہ وہ اس کے برابر ہوکیونکہ وہ بے مثل ہے لہٰذا وہ عرش سے چار انگلیاں بڑاہے۔ (19)
طبری اپنی تفسیر میںاس آیت شریفہ(وسع کرسیہ السموات والارض )(20)کے ذیل میںعبداللہ بن خلیفہ سے رسول اکرم ۖ کاقول نقل کرتاہے کہ آپ ۖنے فرمایا:وانہ لیقعد علیہ فمایفضل منہ مقدار ربع اصابع ، ثم قال باصابعہ ،
خدا عرش پربیٹھا ہے اوراس کے چاروں طرف چارچارانگلوں کی مقداربڑھا ہواہے اس کے بعد پھر فرمایا:خدا اپنی چارانگلیوں کی مقدار ، (21)
دیلمی نے عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے :
ان اللہ ملاعرشہ یفضل منہ کمایدورالعرش اربعة اصابع باصابع الرحمن عزوجل(22)
خداوند متعال عرش پراس طرح چھایاہواہے کہ اس کے چاروں طرف اپنی چارانگلیوں کی مقدار بڑھاہواہے ۔
١٤۔ کرسی کا خدا کے بوجھ سے چیخنا:
سیوطی نے مختلف اسناد کے ساتھ عمر سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں :
ایک عورت رسول خدا ۖ کی خدمت میںحاضر ہوئی اورعرض کرنے لگی میرے لئے دعافرمائیں کہ خدا مجھے جنت میں داخل کرے ، رسول خد ا ۖ نے خدا کی عظمت بیان کی اورپھر فرمایا:ان کرسیہ وسع السموات والارض وان لہ اطیطاکاطیط الرحل الجدید اذا رکب من ثقلہ.
خدا کی کرسی نے تمام زمین وآسمان کوگھیراہوا ہے اورجب خدا اس پربیٹھتا ہے تووہ اسی طرح چیختی ہے جس طرح اونٹ کے بچے پر سوار ہوں تو وہ چیختا ہے۔(24)
ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔(25)
١٥۔وہابیوں کے خدا کا تیز تیز چلنا :
سعودی عرب میں فتویٰ صادر کرنے والی اعلیٰ کمیٹی سے سوال کیا گیا : ''ھل للہ صفة الھرولة؟'' کیا خدا میں تیز تیز چلنے کی صفت پائی جاتی ہے ؟ توا نھوں نے یوں جواب دیا :
''نعم ! صفة الھرولة علی نحو ما جاء فی الحدیث القدسی الشریف علی مایلیق بہ قال تعالیٰ : اذا تقرب الی العبد شبرا تقربت الیہ ذراعا ، واذا تقرب الیہ ذراعا تقربت منہ باعا ، واذا اتانی ماشیا اتیتہ ھرولة؛ رواہ البخاری ومسلم ''.(26)
ہاں ! صحیح بخاری اور مسلم نے خدا کے تیز تیز چلنے کی صفت کے بارے میں حدیث قدسی میں لکھا ہے کہ خد ا فرماتا ہے : جو کوئی ایک بالشت میری طرف بڑھتا ہے تو میںایک قدم اس کی طرف بڑھتا ہوں اور جب وہ چل کر میری طرف آئے تو میں تیز چل کر اس کی طرف بڑھتا ہوں۔
سابق سعودی مفتی اعظم عبد العزیز بن باز ایک سوال کے جواب میں لکھتا ہے :
''اما الوجہ والیدان والعینان والساق والاصابع فقد ثبتت فی النصوص من الکتاب والسنة الصحیحة وقال بھا اہل السنة والجماعة واثبتوھا للہ سبحانہ علی الوجہ اللائق بہ سبحانہ وھکذا النزول والھرولة جاء ت بھا الاحادیث الصحیحة ونطق بھا الرسول ]صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم [واثبتھا لربہ عزوجل علی الوجہ اللا ئق بہ سبحانہ ''.(27)
البتہ خدا کے چہرہ ، ہاتھ، آنکھ اور انگلیوں کے بارے میں کتاب اور سنت صحیح میں بیان ہوا ہے اور اہل سنت الجماعت کا عقیدہ اسی پر استوار ہے اسی طرح خدا کا عالم مادہ کی طرف نزول اور تیز تیز چلنے کی صفت بھی صحیح احادیث میںذکر ہوئی ہے اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )نے ان صفات کو خدا کی شان کے مطابق ثابت کیا ہے ۔
(١)التأسیس فی رد اساس التقدیس ١:١٠١
(2)الفتاوی ٥:١٩٢
(3)فاسم المشبھة لیس لہ ذکر بذم ، فی الکتاب والسنة ولاکلام احد من الصحابة والتابعین .
(4)بیان تلبیس الجھمیة فی تاسیس بدعھم الکلامیة ١:١٠٩
(5)ونظراً الی ان التجسیم لم یرد فی النصوص نفیہ ولااثباتہ فلا یجوز للمسلم نفیہ ولااثباتہ لان الصفات توقیفیة (فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ٣:٢٢٧.
(6)مجموعہ الرسائل الکبری :٤٥١، رسالہ ١١
(7)مجموعہ الرسائل الکبری :٤٥١، رسالہ ١١
(8)رحلة ابن بطوطہ :١١٣
(9)امااثبات رویةاللہ بالابصار فی الآخر ة فھو قول سلف وائمتھا وجماھیر المسلمین من اھل المذاھب الاربعة وغیرھا وقد تواترت فیہ الاحادیث عن النبی ۖ عندعلماء الحدیث ۔منھاج السنہ٣:٣٤١ .
(10)مائدہ، ٥: ٤٨
(11)فتاوی اللجنة للبحوث العلمیة والافتاء ٣ :٢١٦و٢١٨.
(12)التاسیس فی رداساس التقدیس ١:٥٦٨
(13)طبقات الحنابلة ٣:٨٢٨١، ابطال التاویلات ،١:١٤١، تالیف ابویعلی
(14)ملل ونحل ١:١٥٣
(15)ملل ونحل ١:١٥٣
(16)ملل ونحل ١:١٠٠
(17)العواصم من القواصم : ٢١٠، الطبعة الحدیثة ٢:٢٨٣، و دفع شبہ التشبیہ باکف التنزیہ :٩٥و١٣٠(حاشیہ)
(18)بدائع الفوائد٤:٣٩.
(19)العوصم من القواصم :٢٠٩.
(20)بقرہ :٢٥٥۔
(21)جامع البیان ٣، :١٦۔
(22)فردوس الاخبار ١:٢١٩
(23)قال السیوطی :واخرج عبدبن حمید وابن ابی عاصم فی السنة والبزار وابو یعلی وابن جریر ابوالشیخ والطبرانی وابن مردویہ والضیاء المقدسی فی المختار ة عن عمر، ان امراة اتت النبی ۖ فقالت :ادع اللہ ان یدخلنی الجنة ، فعظم الرب تبارک وتعالی وقال :ان کرسیہ وسع السماوات و الارض ،ان لہ اطیطاً کأطیط الرحل الجدید اذا رکب من ثقلہ ، درالمنثور ١:٣٢٨.
(24) مجمع الزوائد ١: ٨٣ پہ لکھتا ہے : ''راوہ البزار ورجالہ رجال الصحیح دوسری جگہ لکھتا ہے((رواہ ابو یعلیٰ فی الکبیر و رجالہ الصحیح)) عبد اللہ بن خلیفة الہمذانی وھو ثقةمجمعالزوائد ١٠:١٥٩''.
(25)فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث والافتاء ٣: ١٩٦، فتویٰ شمارہ ٦٩٣٢.
(26) فتاویٰ بن باز ٥: ٣٧٤.
بانی افکاروہابیت ابن تیمیہ نے جن عقائد کوپھیلانے کی کوشش کی ان میں سے ایک خداوندمتعال کے جسم ہونے اورجسم وجسمانیت کے لوازم جیسے کرسی پربیٹھنا ، ہنسنااورچلنا وغیرہ پرعقیدہ رکھنا ہے ۔
ابن تیمیہ کہتاہے :''لیس فی کتاب اللہ ولاسنة رسولہ ولاقول احد من سلف الامة وائمتھا انہ لیس بجسم وان صفاتہ لیست اجساما واعراضا ؟!فنفی المعانی الثابتة بالشرع والعقل بنفی الفاظ لم ینف معناھا شرع ولاعقل، جھل وضلال ''(١)کتاب خدا ،سنت رسول خد ا ۖاور اسی طرح آئمہ سلف کے اقوال میں سے کسی میں یہ نہیں ہے کہ خداجسم نہیں رکھتا اور جسم وعرض ہو نے سے منزہ ہے لہذاایک ایسے معنی کا انکار کرنا جسے عقل وشریعت نے رد نہیں کیا ایک طرح کی نادانی اور گمراہی ہے ۔
اور پھر لکھتا ہے:
''والکلام فی وصف اللہ بالجسم نفیاواثباتا بدعة ، لم یقل احد من سلف الامة وائمتھا ان اللہ لیس بجسم ، کمالم یقولوا ان اللہ جسم ''(2)
خدا وند متعال کے جسم ہو نے کی نفی واثبات کے بارے میں بحث کرنا بدعت ہے آئمہ امت اور سلف میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ خدا جسم نہیں رکھتا جیسا کہ یہ بھی نہیں کہا کہ وہ جسم رکھتا ہے ۔ایک اور مقام پر لکھا ہے :(3)
قرآن وسنت اور صحابہ وتابعین کے کلام میں کہیں پہ مشبہ (جو خدا کو مخلوقات سے تشبیہ دیتے ہیں ) کی مذمت نہیں کی گئی ہے ۔(4)
٢۔جسمانیت خدا وند متعال اور سعودی عرب کی فتوی دینے والی اعلی کمیٹی :
خدا وند متعال کی جسمانیت کے بارے میں ہو نے والے سوال کے جواب میں سعودی عرب کی فتوی دینے والی اعلی کمیٹی نے یوں لکھا ہے :(5)
چونکہ جسمانیت خدا کی نفی واثبات کے بارے میں روایات میں بیان نہیں کیا گیا بنا بر ایں مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اسکی نفی یا اثبا ت کے بارے میں بحث کرے اسلئے کہ صفا ت خدا توقیفی ہیں (یعنی جو کچھ آیات وروایات میں بیان ہوا اسکے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے )۔
٣۔وہابیوں کے خداکا مسکرانا :
ابن تیمیہ اپنے رسالئہ عقیدہ الحمویةمیں لکھتا ہے :
خدا مسکراتا ہے اور روزقیامت مسکراتے ہوئے اپنے بندوں پر تجلی کرے گا۔(6)
٤۔وہابیوں کے خدا کا عرش سے زمین پر آنا :
ابن تیمیہ کہتا ہے :خدا ہر رات آسمان سے زمین پر اتر کر صدا دیتا ہے کہ ہے کوئی جو مجھے پکارے تاکہ میں اسکی حاجت پوری کروں ؟ہے کوئی جو مجھ سے بخشش طلب کرے تاکہ میں اسے بخش دوں ...؟اور یہ کام طلو ع فجر تک انجا م دیتا ہے اسکے بعد لکھتا ہے :
''فمن انکرالنزول اوتاول فھو مبتدع ضالّ ''(7)جو بھی خداکے آسمان سے زمین پر نازل ہونے کا انکار کرے یا اسکی توجیہ کرے وہ بدعت گزار اور گمراہ ہے ۔
ابن بطوطہ اپنے سفر نامہ میں لکھتاہے :
جب میں دمشق کی جا مع مسجد میں تھا تو ابن تیمہ نے منبر پہ کہا :
ان اللہ ینزل الی السماء الدنیا کنزولی ھذا .خداعالم دنیا کی طرف ایسے ہی اتر تا ہے جیسے میں اتر رہا ہو ں اور پھر منبر سے ایک زینہ نیچے اترا ۔
مالکی فقیہ ابن الزہراء نے اس پر اعتراض کیا اور اس کے عقائد کو ملک ناصر تک پہنچایا ۔اس نے اسے زندان میں ڈالنے کا حکم صادر کیا اور وہ زندان میں ہی مرگیا ۔(8)
٥۔وہابیوں کا خدا آنکھ سے دیکھا جا سکتاہے ۔
ابن تیمیہ علامہ حلی کی کتاب منھاج الکرامہ کے رد میں لکھی گئی اپنی کتاب منھاج السنةمیں لکھتا ہے :
آئمہ سلف و گزشتگان اور مذاہب اربعہ کے تمام مسلمانوں کا قول یہی ہے کہ آخرت میں خدا کو آنکھو ں سے دیکھا جاسکتا ہے اور علماء حدیث نے اس بارے میں پیغمبر ۖکی احادیث کو تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے ۔(9)
٦۔وہابیو ں کا خدا ہر جگہ نہیں ہوسکتا :
سعودی عرب میں فتوی جاری کرنے والی اعلی کمیٹی سے سوال کیا گیا :
ایسا شخص جو خدا وند متعال کے ہر جگہ موجود ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے اسکا شرعی حکم کیا ہے ؟اور اسے کیسے جواب دیا جاسکتا ہے ؟
تواس کمیٹی نے یوں جواب دیا:
اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ خداعرش پر ہے اور دنیا میں نہیں ہے بلکہ اس عالم سے خارج ہے خدا کے مخلوقات سے بلندی پر ہونے کی دلیل وہی اسکی طرف سے قرآن کا نزول ہے اور واضح ہے کہ نزو ل ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجیدمیں بیان ہوا :(وانزلناالیک الکتاب بالحق )۔(10)
ترجمہ: ہم نے قرآن کو آپکی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ۔
رسول اکرم ۖنے جب ایک کنیز کو آزاد کروانا چاہا تو اس سے پوچھا :خدا کہا ں ہے ؟کہنے لگی :آسمانوں میں ،فرمایا : میں کون ہوں ؟عرض کیا آپ اللہ کے رسول ہیں ۔
اس وقت آنحضرت ۖنے اسکے مالک سے فرمایا :یہ خاتو ن صاحب ایمان ہے اور تو اسے آزاد کرسکتا ہے ۔
اسی طرح رسول خدا ۖفرماتے ہیں :میں اس ذات کا امین ہوں جو آسمانوں میں ہے اور آسمانوں کی خبریں ہر صبح وشام مجھ تک پہنچتی رہتی ہیں۔
اور پھر سعودی فتوٰی کمیٹی لکھتی ہے :
(من اعتقد ان اللہ فی کل مکان فھو من الحلولیة ویرد علیہ بما تقدم من الادلة علی ان اللہ فی جھة العلو، وانہ مستوعلی عرشہ ، بائن من خلقہ ، فان انقاد لمادل علیہ الکتاب والسنة والاجماع ، والافھوکافر مرتدعن الاسلام ، (11)
جو بھی یہ عقیدہ رکھے کہ خدا وندمتعال ہرجگہ موجود ہے تو وہ دنیا میں خدا کے حلول کا قائل ہوا ایسے شخص کوسابقہ ادلة سے بیان کرنا چاہئے کہ خدا بلندی میںعرش پر موجود ہے اوراس عالم سے خارج ہے ، اگر قبول کرلے توصحیح ورنہ کافر ،مرتد اوراسلام کے دائرہ سے خارج ہے ۔
7۔وہابیوں کے خدا کا مچھر پر بیٹھنا:
ابن تیمیہ کہتا ہے :(ولوقد شاء لاستقرعلی ظھر بعوضة فاستقلت بہ بقدرتہ ولطف ربوبیتہ فکیف علی عرش عظیم ، اگرخدا چاہے تو مچھر کی پشت پربھی بیٹھ سکتا ہے تو پھر عرش عظیم پرکیوں نہیں ؟(12)
٨۔وہابیوں کا خدا نوجوان اورگھنگھریالے بالوںوالاہے :
ابویعلی نے عبداللہ بن عباس سے نقل کیاہے کہ رسول اکرم ۖ نے فرمایا: (رایت ربی عزوجل شاب امردجعدقطط ، علیہ حلیة حمرائ،
میں نے اپنے رب کودیکھا وہ نوجوان اورابھی اس کی ڈاڑھی کے بال نہیں آئے تھے سر کے بال گھنگریالے اورسرخ زیور سے مزین تھا۔
ابویعلی اپنی دوسری کتاب میںلکھتا ہے :
ابوزرعہ دمشقی نے اس روایت کو صحیح قرار دیاہے ...اوراحمد بن حنبل نے کہاہے (ھذاحدیث رواہ الکبری عنالکبر عن الصحابة عن النبی ۖ فمن شک فی ذلک اوفی شئی منہ فھو جھمی لاتقبل شھادتہ ولایسلم علیہ ولایعادفی مرضہ، اس حدیث کو بزرگان نے اکابر صحابہ کے واسطے سے پیغمبرۖ سے نقل کیا ہے اورجو بھی اس کے صحیح ہونے میں شک کرے وہ جہنمی ہے اس کی شہادت قبول نہیں ہوگی نہ اس پرسلام کیاجائے گا اورنہ ہی بیمار ہونے کی
صورت میں اس کی عیادت کی جائے گی۔(13)
٩۔وہابیوں کے خدا کا آنکھ کے دردمیں مبتلاہونا :
شہر ستانی متوفی ٥٤٨ہجری مشبھہ کے خرافات کو نقل کرنے کے بعد لکھتاہے :
وزادوافی الاخبار اکاذیب وضعوھا ونسبوھا الی النبی علیہ الصلاة والسلام۔واکثر ھا مقتبسة من الیھود فان التشبیہ فیھم طباع حتی قالوا :شتکت عیناہ فعادتہ الملائکة وبکی علی طوفان نوح حتی رمدت عیناہ)(14)
مشبہہ نے جھوٹی احادیث جعل کرکے انہیں پیغمبر علیہ الصلاة والسلام کی طرف نسبت دے دی ان میں سے اکثر روایات یہودیوں سے لی گئی ہیں اس لئے کہ آئین یہود کی اساس تشبیہ ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں :خدا کی آنکھوں کے دردمیںمبتلاہواتو ملائکہ عیادت کے لئے گئے اورطوفان نوح میں ہونے والی نابودی کی وجہ سے خدا نے اتناگریہ کیا کہ آنکھوں کے دردمیں مبتلاہوگیا ۔(15)
١٠۔وہابیوں کے خدا کا پیغمبر ۖ سے مصافحہ کرنا :
شہرستانی کے مطابق مشبہہ پیغمبر ۖ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
لقینی ربی فصافحنی ووضع یدہ بین کتفیی حتی وجدت برداناملہ،
میں نے اپنے رب سے ملاقات کی تواس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور اپنے ہاتھوں کو میرے شانوں کے درمیان رکھاتو میں نے اس کے ہاتھوں کی ٹھنڈک کومحسوس کیا۔(16)
١١۔وہابیوں کا خدا فقط ڈاڑھی اورشرمگاہ نہیں رکھتا :
ابوبکر عربی کہتا ہے :ایک معتبرشخص نے مجھ سے نقل کیا کہ ابویعلی (ابن تیمیہ کاامام)کہتاہے :
(اذاذکر اللہ تعالی وماورد من ھذہ الظواھر فی صفاتہ ، یقول: الزمونی ماشئتم فانی التزمہ، الااللحیة والعورة. (17)
جب بھی خدا کی صفات کے بارے میں بات ہوجو روایات میں بیان ہوئیں تووہ کہتا ہے :اس میں میری پیروی کرو اورمیں ڈاڑھی اورشرمگاہ کے علاوہ اس کے تمام اعضاء کا قائل ہوں ۔
١٢۔ وہابیوں کے نبی کاان کے خدا کے پاس بیٹھنا :
ابن تیمیہ کاشاگردابن قیم لکھتاہے :
(ان اللہ یجلس علی العرش ویجلس بجنبہ سید نا محمدۖ وھذا ھوالمقام المحمود )
خدا عرش پربیٹھتا ہے اوررسول خدا ۖ اس کے پہلو میںبیٹھتے ہیں اوریہی وہ مقام محمود ہے ۔(18)
١٣۔وہابیوں کاخدا عرش سے چار انگلیاں بڑاہے:
ابن عربی اس آیت شریفہ ،علی العرش استوی ، (طہ ،٥)کی تفسیر میںلکھتاہے :
انہ جالس علیہ ، متصل بہ ،وانہ اکبرباربع اصابع ، اذلایصح ان یکون اصغرمنہ ، لانہ العظیم ، ولایکون مثلہ لانہ (لیس کمثلہ شئی )فھواکبر من العرش باربع اصابع،
خدا عرش پربیٹھا ہے اور اس سے ملاہواہے وہ عرش سے چارانگلوں کی مقدار چوڑاہے اورممکن نہیںکہ وہ عرش سے چھوٹا ہو اس لئے کہ خدا عظیم ہے اور یہ بھی صحیح نہیں کہ وہ اس کے برابر ہوکیونکہ وہ بے مثل ہے لہٰذا وہ عرش سے چار انگلیاں بڑاہے۔ (19)
طبری اپنی تفسیر میںاس آیت شریفہ(وسع کرسیہ السموات والارض )(20)کے ذیل میںعبداللہ بن خلیفہ سے رسول اکرم ۖ کاقول نقل کرتاہے کہ آپ ۖنے فرمایا:وانہ لیقعد علیہ فمایفضل منہ مقدار ربع اصابع ، ثم قال باصابعہ ،
خدا عرش پربیٹھا ہے اوراس کے چاروں طرف چارچارانگلوں کی مقداربڑھا ہواہے اس کے بعد پھر فرمایا:خدا اپنی چارانگلیوں کی مقدار ، (21)
دیلمی نے عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے :
ان اللہ ملاعرشہ یفضل منہ کمایدورالعرش اربعة اصابع باصابع الرحمن عزوجل(22)
خداوند متعال عرش پراس طرح چھایاہواہے کہ اس کے چاروں طرف اپنی چارانگلیوں کی مقدار بڑھاہواہے ۔
١٤۔ کرسی کا خدا کے بوجھ سے چیخنا:
سیوطی نے مختلف اسناد کے ساتھ عمر سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں :
ایک عورت رسول خدا ۖ کی خدمت میںحاضر ہوئی اورعرض کرنے لگی میرے لئے دعافرمائیں کہ خدا مجھے جنت میں داخل کرے ، رسول خد ا ۖ نے خدا کی عظمت بیان کی اورپھر فرمایا:ان کرسیہ وسع السموات والارض وان لہ اطیطاکاطیط الرحل الجدید اذا رکب من ثقلہ.
خدا کی کرسی نے تمام زمین وآسمان کوگھیراہوا ہے اورجب خدا اس پربیٹھتا ہے تووہ اسی طرح چیختی ہے جس طرح اونٹ کے بچے پر سوار ہوں تو وہ چیختا ہے۔(24)
ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔(25)
١٥۔وہابیوں کے خدا کا تیز تیز چلنا :
سعودی عرب میں فتویٰ صادر کرنے والی اعلیٰ کمیٹی سے سوال کیا گیا : ''ھل للہ صفة الھرولة؟'' کیا خدا میں تیز تیز چلنے کی صفت پائی جاتی ہے ؟ توا نھوں نے یوں جواب دیا :
''نعم ! صفة الھرولة علی نحو ما جاء فی الحدیث القدسی الشریف علی مایلیق بہ قال تعالیٰ : اذا تقرب الی العبد شبرا تقربت الیہ ذراعا ، واذا تقرب الیہ ذراعا تقربت منہ باعا ، واذا اتانی ماشیا اتیتہ ھرولة؛ رواہ البخاری ومسلم ''.(26)
ہاں ! صحیح بخاری اور مسلم نے خدا کے تیز تیز چلنے کی صفت کے بارے میں حدیث قدسی میں لکھا ہے کہ خد ا فرماتا ہے : جو کوئی ایک بالشت میری طرف بڑھتا ہے تو میںایک قدم اس کی طرف بڑھتا ہوں اور جب وہ چل کر میری طرف آئے تو میں تیز چل کر اس کی طرف بڑھتا ہوں۔
سابق سعودی مفتی اعظم عبد العزیز بن باز ایک سوال کے جواب میں لکھتا ہے :
''اما الوجہ والیدان والعینان والساق والاصابع فقد ثبتت فی النصوص من الکتاب والسنة الصحیحة وقال بھا اہل السنة والجماعة واثبتوھا للہ سبحانہ علی الوجہ اللائق بہ سبحانہ وھکذا النزول والھرولة جاء ت بھا الاحادیث الصحیحة ونطق بھا الرسول ]صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم [واثبتھا لربہ عزوجل علی الوجہ اللا ئق بہ سبحانہ ''.(27)
البتہ خدا کے چہرہ ، ہاتھ، آنکھ اور انگلیوں کے بارے میں کتاب اور سنت صحیح میں بیان ہوا ہے اور اہل سنت الجماعت کا عقیدہ اسی پر استوار ہے اسی طرح خدا کا عالم مادہ کی طرف نزول اور تیز تیز چلنے کی صفت بھی صحیح احادیث میںذکر ہوئی ہے اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )نے ان صفات کو خدا کی شان کے مطابق ثابت کیا ہے ۔
(١)التأسیس فی رد اساس التقدیس ١:١٠١
(2)الفتاوی ٥:١٩٢
(3)فاسم المشبھة لیس لہ ذکر بذم ، فی الکتاب والسنة ولاکلام احد من الصحابة والتابعین .
(4)بیان تلبیس الجھمیة فی تاسیس بدعھم الکلامیة ١:١٠٩
(5)ونظراً الی ان التجسیم لم یرد فی النصوص نفیہ ولااثباتہ فلا یجوز للمسلم نفیہ ولااثباتہ لان الصفات توقیفیة (فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ٣:٢٢٧.
(6)مجموعہ الرسائل الکبری :٤٥١، رسالہ ١١
(7)مجموعہ الرسائل الکبری :٤٥١، رسالہ ١١
(8)رحلة ابن بطوطہ :١١٣
(9)امااثبات رویةاللہ بالابصار فی الآخر ة فھو قول سلف وائمتھا وجماھیر المسلمین من اھل المذاھب الاربعة وغیرھا وقد تواترت فیہ الاحادیث عن النبی ۖ عندعلماء الحدیث ۔منھاج السنہ٣:٣٤١ .
(10)مائدہ، ٥: ٤٨
(11)فتاوی اللجنة للبحوث العلمیة والافتاء ٣ :٢١٦و٢١٨.
(12)التاسیس فی رداساس التقدیس ١:٥٦٨
(13)طبقات الحنابلة ٣:٨٢٨١، ابطال التاویلات ،١:١٤١، تالیف ابویعلی
(14)ملل ونحل ١:١٥٣
(15)ملل ونحل ١:١٥٣
(16)ملل ونحل ١:١٠٠
(17)العواصم من القواصم : ٢١٠، الطبعة الحدیثة ٢:٢٨٣، و دفع شبہ التشبیہ باکف التنزیہ :٩٥و١٣٠(حاشیہ)
(18)بدائع الفوائد٤:٣٩.
(19)العوصم من القواصم :٢٠٩.
(20)بقرہ :٢٥٥۔
(21)جامع البیان ٣، :١٦۔
(22)فردوس الاخبار ١:٢١٩
(23)قال السیوطی :واخرج عبدبن حمید وابن ابی عاصم فی السنة والبزار وابو یعلی وابن جریر ابوالشیخ والطبرانی وابن مردویہ والضیاء المقدسی فی المختار ة عن عمر، ان امراة اتت النبی ۖ فقالت :ادع اللہ ان یدخلنی الجنة ، فعظم الرب تبارک وتعالی وقال :ان کرسیہ وسع السماوات و الارض ،ان لہ اطیطاً کأطیط الرحل الجدید اذا رکب من ثقلہ ، درالمنثور ١:٣٢٨.
(24) مجمع الزوائد ١: ٨٣ پہ لکھتا ہے : ''راوہ البزار ورجالہ رجال الصحیح دوسری جگہ لکھتا ہے((رواہ ابو یعلیٰ فی الکبیر و رجالہ الصحیح)) عبد اللہ بن خلیفة الہمذانی وھو ثقةمجمعالزوائد ١٠:١٥٩''.
(25)فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث والافتاء ٣: ١٩٦، فتویٰ شمارہ ٦٩٣٢.
(26) فتاویٰ بن باز ٥: ٣٧٤.
Comment