ناخن کاٹنا سنت نبوی اور علاج بھی
ناخن کاٹنے کے آداب میں یہ شامل ہے کہ
آدمی ناخن (مستقل طور پر) کاٹتا رہے ۔
(صحیح مسلم)
ناخن کاٹنے میں دائیں طرف سے ابتدا کرے ۔
( صحیح بخاری و مسلم)
ناخن کاٹنے میں چالیس دن سے زیادہ وقفہ نہ کرے ۔
( صحیح مسلم)
ناخن سے ذبح نہ کرے ، اس لیے کہ ناخن حبشیوں کی چھری ہے ۔
( صحیح مسلم)
نبی مکرم ﷺ اپنے ناخنوں کو باقاعدگی سے کاٹتے تھے ۔اور صحابہ کو بھی ناخن کاٹنے کو کہتے ۔ اس پر ہمارا عمل سنت پر عمل کرنا ہے اور علاج بھی ۔
میڈیکل کے اصول اور قانون کے مطابق پیٹ کے کیڑو ں کے انڈے "کھانے" میں شامل ہو کر پیٹ میں چلے جاتے ہیں ۔ اور اندر ہی اندر پھلتے پھولتے رہتے ہیں ۔
جدید تحقیق کی مطابق جو خواتین ناخن بڑھاتی ہیں وہ خون کی کمی کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ایسی خواتین نفسیاتی امراض کا زیادہ شکار ہوں گی حتیٰ کہ ایک ماہر نفسیات کے بقول ناخن بڑھانا اتنا خطرناک ہے کہ انسان کو اتنا نفسیاتی مریض بنا دیتا ہے کہ انسان خود کشی کی طرف مائل ہو جاتا ہے ۔
(سنت نبوی اور جدید سائنس ص 450)
طبعی ماہرین اور ڈاکٹر حضرات نے خواتین کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ "نیل پالش مت لگائیں " کیونکہ نیل پالش میں مضر کیمیکل(تیزاب) ہوتے ہیں۔اورخود کھانے پینے اور بچوں کو کھلانے پلانے کے وقت وہ مضر کیمیکل مع جراثیم کے اندر چلے جاتے ہیں ۔ جس کے باعث بیماری کا شدید خطرہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ اس لیے ناخنوں کو (مصنوعی اور عارضی طور پر ) دلکش نہ بنائیں تو بہتر ہے ۔
(جنگ میگزین لاہور دسمبر 1993)
اے میری بہن! ۔۔۔۔ طعبی ماہرین ، ڈاکٹرز اور حکما ء کے یہ انتباہ جو ابھی تو نے پڑھے ہیں ، یہ صرف جسمانی نقصان اور بیماری کے متعلق ہیں ۔ کہ جس میں نیل پالش کی دلدادہ اور شوقین فیشن ایبل خواتین کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر آپ اپنی اور اپنے بچوں کی صحت و تندرستی چاہتی ہیں تو نیل پالش کی یاری اور دلداری سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اس کو استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ جب کہ اس کا ایمانی ، جسمانی اور دینی نقصان جسمانی نقصان سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ اس لحاظ سے جو خواتین اور بہنیں اپنے ناخنوں کو نیل پالش سے سجاتی ہیں تو اس کی تہہ ناخنوں پر جم کر پردہ بن جاتی ہے ۔ اور خواتین اس جمی ہوئی نیل پالش کی تہہ کی وجہ سے طہارت سے محروم رہتی ہیں ۔ کیونکہ نیل پالش کی تہہ جم جانے کے باعث جسم کے حصے(ناخنوں ) پر نہ تو پانی بہایا جا سکتا ہے اور نہ طہارت حاصل ہو سکتی ہے ۔اس لیے یسی خواتین کا عضو بھی نہیں ہوتا ۔ نبی مکرم ﷺ نے ایک صحابی کو صرف ایک ناخن برابر جگہ خشک رہ جانے کی بنا پر کہہ دیا کہ " لوٹ جا (دوبارہ)اچھی طرح وضو کر " یعنی تمہارا وضو ء نہیں ہوا ۔(سنن ابو داود جلد اول ص 104)جب کہ یہاں ایک نہیں بلکہ دس انگلیوں اور اگر پاوں کی انگلیاں بھی شمار کی جائیں تو بیس انگلیوں کے ناخن خشک رہ جاتے ہیں ۔ اسی بنا پر ان نیل پالش لگانے والی بہنوں کا نہ وضو ء ، نہ غسل اور نہ ہی نماز ہوتی ہے ۔
اے معزز و محترم بہن!۔۔۔۔ اگر ایسی فیشن پرست عورتوں کو پلیدی کی حالت میں موت آ جائے تو ان کا ٹھکانا جہنم نہیں تو اور کہاں ہو گا؟!!۔۔۔۔ کیونکہ جنت تو توبہ کرنے اور صاف ستھرا رہنے ، اللہ سے ڈرنے اور پاکیزہ زندگی گزارنے والوں کے لیے ہے ۔ صد افسوس ان دیندار والدین پر جو حج کرتے ، زکوٰۃ دیتے اور نماز بھی پڑھتے ہیں لیکن اپنی بچیوں کی شادی کے موقع پر ان کو میک اپ کے لیے بیوٹی پارلر کی بے حیا فضاؤں میں لے جاتے ہیں اور نفسیاتی طور پر ان کی آئندہ زندگی کی عمارت کی بنیاد ہی "میک اپ" مصنوعی ٹپ ٹاپ پر رکھ دیتے ہیں ۔ اور پھر ان کی نئی زندگی کی ابتدا ء میں ہی ہندوانہ اور مسرفانہ رسم جہیز پر عمل کرتے ہوئے جہیز میں میک اپ کا سامان " بیوٹی بکس" بطور خاص دیتے ہیں ۔ والدین کی اسی تربیت کے باعث وہ ساری زندگی نیل پالش وغیرہ لگانے کی وجہ سے پلید اور بے نماز رہتی ہیں ۔ اگر نماز پڑھیں بھی تو (نیل پالش کی وجہ سے) وضو ء نہ ہونے کی بنا پر نماز قبول نہیں ہوتی۔ اور یوں ان کی عبادت ثواب کی بجائے الٹا عذاب کا باعث بنتی رہتی ہے ۔
میری بہن سن!۔۔۔۔ اسلام ہمیں یہ بتاتا ہے کہ نہ درندوں کی طرح ناخن بڑھائے جائیں اور نہ ہی نیل پالش لگائی جائے ۔ عورتیں ہاتھوں اور پاؤں کو مہندی لگائیں تا کہ نا پلید اور غلیظ اور اوارہ کافرہ اور فیشن ایبل ، بے پردہ عورتوں کے ساتھ مشابہت ہو۔نہ فضول خرچی اور نمائش ہو۔ اور نہ غسل ، وضو ء اور طہارت اور نماز میں کسی قسم کا خلل اور رکاوٹ ہو ۔ مہندی سے عورتوں کو زینت بھی حاصل ہوتی ہے اس لیے کہ مہندی کا اپنا رنگ جسم ( ناخن) میں جذب ہو جاتا ہے ۔
نیل پالش کی مانند اس کا اپنا الگ وجود نہیں ہوتا جو ناخن پر تہہ جم جانے کی صورت میں نظر آتا ہے ۔ اور اکھیڑنے پر یہ موٹی تہہ صاف اترتی ہوئی ہاتھ میں آ جاتی ہے اور نیچے سے اصل ناخن نظر آنے لگتا ہے ۔ حیرت ہے مہندی وغیرہ ایسا صحیح ، فطری ، اسلامی ، مسنون اور پاکیزہ ضابطہ زینت ہونے کے باوجود خوامخواہ فرنگی اور ہنود و یہود کے رائج کردہ "میک اپ" کی روش کو اختیار کر کے دولت کے ضیاع کی صورت میں ، دنیا ور دین کی بربادی کی صورت میں آخرت کو خراب کیا جاتا ہے ۔ اللہ رب العزت اسے صلیبی ، یہودی اور ہندوانہ روش اور غلط کلچر سے مؤمنات اور طیبات کو بچائے رکھے ۔ آمین۔ثم آمین یا رب العالمین ۔