اولیاء اللہ کی نذر ماننے کا معروف او رمروج غلط طریقہ
غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب اپنی کتاب شرح صحیح مسلم (ج٤ص٥٣٩،٥٤٠) میں لکھتے ہیں کہ علامہ علاو الدین حصکفی لکھتے ہیں
اکثر عوام فوت شدہ لوگوں کی نذر مانتے ہیں اور اولیاء اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے ان کے مزارات پر روپے پیسے ،موم بتیاں اور تیل لے جاتے ہیں یہ نذر بالاجماع باطل اور حرام ہے جب تک ان چیزوں کو فقراء پر خرچ کرنے کا قصد نہ کیا جائے
(در مختار علی ہامش رد المختار ج٢ ص ١٧٥)
علامہ ابن عابدین حنفی اس عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں
جو شخص اولیاء اللہ کی نذر اس طرح مانتا ہے :''اے سیدی اگر میرا گم شدہ شخص لوٹ آیا یا میر ابیمار تندرست ہو گیا یا میری حاجت پوری ہو گئی تو میں آپ کو اتنا سونا،چاندی یا کھانا یا موم بتیاں یا تیل دوں گی ،یہ نذر بالاجماع باطل اور حرام ہے ۔
(رد المختار ج٢ص١٧٥)
ملا نظام الدین حنفی (مرتب فتاوی عالمگیری )نے ذکر کیا ہے
اکثر عوام اس طرح نذر مانتے ہیں کہ وہ اولیاء اللہ کے مزارات پر جاتے ہیں اور ان کے مزار کی چادر اٹھا کر کہتے ہیں :اے سیدی فلاں بزرگ!اگر میری فلاں حاجت پوری ہو گئی تو مثلا آپ کو اتنا سونا دوں گا ''یہ نذر بالاجماع باطل ہے ۔
(فتاوی عالمگیری:ج١ص٢١٦)
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ جب خود حنفی علماء بلکہ پہلے حوالے کے حساب سے تو بریلوی علماء بھی ایسی نذر کے مخالف ہیں تو عوام کی ایسی کثیر تعداد کیوں اس جہالت میں مبتلا ہے؟ ان کے علماء کیوں اپنی عوام کو ایسی ’بالاجماع حرام‘ نذر سے نہیں روکتے ہیں؟
میرے خیال میں یہ علماء آج تک عوام سے حقائق چھپائے ہوئے ہیں صرف کتابوں میں کوئی ایک آدھی بات ایسی لکھ دیتے ہیں باقی کھل کر حرام کاموں کی مخالفت نہیں کرتے اگر یہ علماء کھل کر عوام الناس کو ان باطل کاموں سے منع کرتے تو آج عوام کا یہ حال نہ ہوتا ؛؛
مگر افسوس ؛؛؛؛؛